بڑا کاسہ چھوٹی جیب
نئی حکومت کی نئی روش ابھی تو اچھی محسوس ہورہی ہے، مثلاً خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ نے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کر..
KARACHI:
نئی حکومت کی نئی روش ابھی تو اچھی محسوس ہورہی ہے، مثلاً خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ نے گارڈ آف آنر لینے سے انکار کردیا، مخصوص رہائش جو وزیروں کے لیے انتہائی سیکیورٹی سے لیس اور پرتعیش ہوتی ہے اس میں قیام سے بھی انکار کیا اور کم خرچے پر زور دیا اسی طرح نواز شریف صاحب نے بھی کم خرچ کی باتیں کیں ہیں جو سننے میں بہت بھلی لگ رہی ہیں لیکن جس طرح ہمارے منتخب وزراء بڑی بڑی چمکتی گاڑیوں میں اسمبلی ہال پہنچے ان نت نئے فیشن کی گاڑیوں کو دیکھ کر عوام کچھ احساس کمتری میں مبتلا ہوگئی کہ کیا یہ ہیں ہمارے نئے منتخب ارکان، کیا یہ ہمارے جیسے غریبوں کے لیے کچھ کرسکیں گے؟
کیا یہ وہ نیا ہے جو وہ دکھانا چاہتے تھے اپنے نئے ملبوسات، نئے زیورات، نئے مہنگے سن گلاسز، نئی گاڑیاں۔۔۔۔ پاکستان بھر میں خاص طور پر نئے ارکان اسمبلی کے حلف لینے کی تقریب کو خاص طور پر دیکھا گیا اور کچھ نہیں تو دل رکھنے کے لیے ہی اگر چھوٹی ذرا پرانی گاڑیوں سے اپنی رونمائی کروالیتے تو کیا حرج ہوجاتا؟ اور ویسے بھی پاکستان غربت کی شرح کے لحاظ سے انتہائی بلند نمبروں پر ہے پھر کیسی شرم؟ لیکن سلام ہے اس منتخب رکن کی سادگی پر جو اپنی بساط کے مطابق اسکوٹر پر ہٹو بچو کا نعرہ لگاتا اسمبلی ہال کے پاس پہنچا۔ شکر کریں کہ میڈیا کے کیمرے سامنے تھے ورنہ اس پرانی اسکوٹر پر سوار دیکھ کر سیکیورٹی نے کب انھیں اندر داخل ہونے دینا تھا، بہر حال جتنی چادر ہو اتنے ہی پیر پھیلانے چاہئیں لیکن پاکستان جس نازک دور میں ہے غربت اور قرضوں کے شکنجوں سے نکلنے کے لیے چادر کے بہت اندر پیر کرنے ہوں گے تب کہیں جاکر بات بنے گی۔
ماضی کی حکومتوں نے جس شاہ خرچی سے ملک کے خزانے پر ہاتھ صاف کیے اس سے کسی کا کچھ بھی نہ بنا۔ ملک ویسے ہی دکھوں سے سسکتا رہا اور دولت کسی اور کی جیب میں جاتی رہی۔ بے نظیربھٹو مرحوم کے دور حکومت میں چائلڈ لیبر اور انسانی حقوق وغیرہ کے بارے میں امریکا کی کانگریس (پارلیمنٹ) کے سامنے پاکستان کا کیس پیش ہوا اور جیسا کہ امریکا کی عادت ہے کہ چھوٹے ملکوں کی ذرا سی غلطی پر بچوں کی طرح سزا کے طور پر کان اتنی زور سے مروڑتی ہے کہ درد سے پورا ملک چیخ اٹھتا ہے ویسا ہی ہوا ان معاملات کے بارے میں پاکستان پر کچھ پابندیاں عائد کردی گئیں، اس سلسلے میں بے نظیر بھٹو نے ایک امریکی اشتہاری فرم مارک سیگل کے ذریعے ایک امریکی وکیل کی خدمات حاصل کیں۔
اس اشتہاری فرم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ان کی پسندیدہ اشتہاری فرم تھی، خدمات کے لیے جس وکیل کو حاصل کیا گیا تھا، امریکا کے لحاظ سے وہ ایک عام وکیل تھا اور پاکستان کے لحاظ سے وہ باہر کا امریکا کا وکیل تھا، موصوف نے صرف مشورے کی جو فیس مانگی وہ اسی ہزار ڈالر یعنی چالیس لاکھ روپے تھے پھر تیس ہزار ڈالر، روزانہ کی فیس الگ مانگی لیکن جب اس کو پاکستان کے ڈاکٹر فاروق حسن کے بارے میں پتہ چلا تو اس نے انکار کردیا کہ ڈاکٹر فاروق حسن کی حیثیت میرے استاد جیسی ہے۔ اس شخص کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا وکیل کیوں کرتے ہو۔ یہ وہی ڈاکٹر فاروق حسن ہیں جنہوں نے ہارورڈ، آکسفورڈ اور کولمبیا کی یونیورسٹیوں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ہوئی ہے اور ہارورڈ میں قانون پڑھاتے تھے، شاید قارئین کو یاد ہو کہ یہ کیس خاصا مشہور ہوا تھا اور بات معافی تلافی تک پہنچی تھی۔
ہماری سب سے بڑی قومی برائی یہ ہے کہ ہم فوراً دوسروں سے مرعوب ہوکر اپنے فیصلوں میں ترمیم کرلیتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کا کس حد تک نقصان ہمارے ملک کو پہنچ سکتا ہے اور کس حد تک رسوائی ہمارے نام سے جڑتی ہے۔ ہم نیچے سے لے کر اوپر تک کے عہدوں میں اس متاثر ہوجانے والے امر سے نکل نہیں پائے، ہمیں اپنے ملک کے باصلاحیت لوگوں پر اعتماد نہیں ہوتا، ہم باہر کی بنی اشیاء، انسانوں کی قابلیت اور صلاحیتوں کو حرف بہ حرف سچ مان کر یقین کرلیتے ہیں، حال ہی میں ایک اور اہم ادارے میں ہم نے پھر سے باہر کے قابل لوگوں کی قابلیت پر یقین کر لیا، یہ درست ہے کہ ہم ازحد کرپٹ ہوچکے ہیں لیکن کیا پاکستان سے باہر کرپشن نہیں ہوتی؟ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں بندربانٹ کے اصول سے نکل کر کچھ کرنا ہوگا اور اگر اس اصول کو ترک نہ کیا گیا تو یقین جانیے پاکستان میں تبدیلی نہیں آسکتی۔
تبدیلی کے لیے میرٹ کے ترازو کو چمکانا پڑے گا جس پر کئی حکومتوں کی نوازشوں سے گرد کی تہہ خاصی جم چکی ہے خاص کر خارجہ امور کے لیے ان افراد کا انتخاب ضروری امر ہے جنہیں واقعی بین الاقوامی سفارتی اور قانونی امور کا علم ہو جو اپنی شخصیت، گفتگو ، قابلیت اور ذہانت سے اپنے ملک کے حقوق کی پاسداری کرسکیں کیونکہ یہی وہ ادارے ہوتے ہیں جو بیرونی طور پر پاکستان کے لیے نہایت اہم ذمے داری نبھاتے ہیں اور اگر وہ اسی ذمے داری کے اہل نہیں ہوئے تو ماضی کی طرح بہت سے معمولی مسائل جن کی طرح پاکستانی قوم پر سوار ہوسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں سفارت کاری میں پسندیدگی اور تعلقات نبھانے کا سلسلہ روا ہے اس طرح وہ نااہل افراد صرف اپنی ذات تک محدود رہ کر قومی خزانے سے حاصل کردہ تنخواہوں اور مراعات سے مستفید ہوتے رہتے ہیں لیکن ملک سے باہر اپنے ملک کے لیے کوئی کام نہیں کرپاتے۔
اس بات کی تصدیق ان بیرون ملک پاکستانیوں سے کرسکتے ہیں جو وطن سے میلوں دور پردیس کمانے کی غرض سے جاتے ہیں اور اگر کسی مشکل میں پڑجاتے ہیں تو ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا خود ان کا اپنا سفارت خانہ بھی نہیں، اس لیے کہ نا اہلیت کے باعث وہ واقف ہی نہیں ہوتے کہ اس صورت حال سے کس طرح نمٹنا ہے۔ اس کی ایک مثال حالیہ پاکستان سے انگلینڈ جانے والی فلائٹ کی ہے کہ جس میں عملے نے اپنی ذہانت اور قابلیت کو پس پشت ڈال کر ایک گھریلو مسئلے کو ملکی سطح پر لاکر پاکستان کا نام خراب کیا۔ گو اس مثال کا تعلق براہ راست سفارت کاری سے نہیں جڑتا لیکن پھر بھی پاکستان سے متعلق کوئی بھی ادارہ جب ملک سے باہر اپنی ذمے داریاں نبھاتا ہے تو وہ اس ملک کا نمائندہ ہی کہلاتا ہے اور ایک سفیر اور سفارت خانے کی کیا ذمے داریاں ہوتی ہیں، اس کی نااہلیت کا کیا ثمر نکل سکتا ہے سب دیکھ چکے ہیں، وضاحت کی ضرورت نہیں۔
ملک سے باہر ذمے داریاں نبھانے والے افراد دراصل براہ راست اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں ان کااٹھنا بیٹھنا، انداز گفتگو، لباس، قابلیت، ذہانت سب پر دنیا کی نظر ہوتی ہے جبکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو پہلے ہی خارجہ پالیسیوں کی ناکامی کا شکار ہوچکا ہے لہٰذا اب مزید کوئی گیم کھیلنے کی ضرورت نہیں ہے۔اعتماد اور بھروسہ ان ہی قابل اور ذہین لوگوں پر کیا جائے جو اپنے امور اور فیصلوں سے ملک کو اس کا کھویا ہوا اعتماد دلائیں۔ اندرونی اور بیرونی تعلقات جوڑنے کے لیے مضبوط ناتوںکی ضرورت ہے جو فوری طور پر ایک دوسرے سے براہ راست بات چیت کرکے کسی بھی معمولی مسئلے کو بوتل کا جن نہ بنادیں۔ رشتے داریاں، دوستیاں، تعلقات اور بندربانٹ کے علاوہ جیبیں بھرنے کے عمل سے بھی احتراز برتا جائے۔ یقیناً ہمیں دوسرے ملکوں کے باصلاحیت لوگوں سے متاثر ہونا چاہیے ان کی تقلید کرنی چاہیے لیکن اس تقلید کے عمل میں اپنے قومی خزانے کو زیربار کرنا سراسر بیوقوفی ہوگی۔
ذرا ماضی میں نظر دوڑائیے اٹلانٹک طیارے کے کیس میں پاکستان نے آٹھ کروڑ پاکستانی روپے کی فیس باہر کے ممالک کے وکیلوں کو ادا کی، چین میں ایک صاحب بنگلہ دیش کے سابق وزیر خارجہ کمال حسین امدادی جبکہ لندن کے مشہور وکیل کے بیٹے شامل تھے اور وجہ یہ تھی کہ جن حضرات کو اس کیس کی پیروی کے لیے منتخب کیا گیا تھا انھیں بین الاقوامی قوانین کا علم ہی نہ تھا اور جن صاحب کو بطور آبزرور عالمی عدالت میں ایڈہاک جج بھی کہا جاتا ہے کی حیثیت سے بھیجا گیا ان لوگوں نے عالمی عدالت میں تو ایک طرف کبھی دوسرے ملک کی کسی بھی عدالت میں بھی کبھی کسی مقدمے کی پیروی نہ کی تھی، انھیں انٹرنیشنل لاء اور دوسرے امور کا علم ہی نہ تھا۔ بہرحال اب وہ شریف الدین پیرزادہ ہوں یا عزیز اے منشی لیکن صرف کمال حسین صاحب کو ڈھائی لاکھ ڈالر ادا کیے گئے تھے ہم پھر بھی ہار گئے۔
فوجی حکومت کے دور میں بھارت کا بلاوجہ پاکستان کے فوجی طیارے گرا لینا معمولی بات نہ تھی۔ کیس بہت اہم تھا کارگل کی تلخیاں جنگی معاملات نے ماحول کو پراسرار بنادیا تھا لیکن آخر کیا وجوہات تھیں کہ ان حضرات کو اس اہم کیس کے لیے نامزد کیا گیا ہمارے ہاتھ کیا آیا؟ بس بدنامی، رسوائی اور پیسوں کا ضیاع؟ فوجی حکومت چلی گئی، ایک جمہوری حکومت بھی اپنا دورانیہ مکمل کرکے چلی گئی اب نئی حکومت آئی ہے ہمارے پاس کاسہ خاصا بڑا ہے اور جیب بہت تنگ۔ اس تنگ جیب کو سنبھال کر چلانا ہے اب ہارنے کی نہیں جیتنے کے عزائم لے کر آگے چلنا ہے صرف میرٹ پر ملک کو چلانا ہے، ہمیں یہ وعدہ اپنے آپ سے اور پوری قوم سے کرنا ہے۔