خود فریبی سی خود فریبی ہے

ہم اور ہمارے تمام کے تمام ارباب اختیار 71 سال میں ایک دوسرے کے کام کرتے کرتے اپنا ہی کام بھول گئے ہیں۔

بلاشبہ ہم خودفریبی کے عہد میں جی رہے ہیں اور خود فریبی کا پہلا شکار ہمیشہ سچائی ہوتی ہے۔ ویسے بھی حقائق کے پہاڑ تردید کی مٹی ڈالنے سے کبھی نہیں چھپتے۔

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی حکومت ابھی نئی نئی بنی ہے اور انھیں اپنی پالیسیاں وضع کرنے کے لیے کم سے کم چھ ماہ ضرور درکار ہوں گے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ ایسے فیصلے کرنے لگ جائیں جن کا دفاع نہ وہ خود کرسکیں اور نہ ان کے ساتھی۔ گو ایک طویل عرصے بعد پاکستان میں ایسی حکومت آئی ہے جسے ہر طرف سے ہر طرح کا مکمل تعاون حاصل ہے۔

بظاہر اب نواز شریف اور آصف زرداری کے پاس کوئی ایسی مشترکہ حکمت عملی نہیں جو اپوزیشن کی طاقت بن سکے لیکن عمران خان کی غلطیاں اپوزیشن کی طاقت بن رہی ہیں اور ممکن ہے کہ بہت جلد عمران خان اپنے کچھ اتحادیوں کو کھوکر اپوزیشن کے رحم وکرم پر آجائیں۔ اختر مینگل کا قومی اسمبلی سے واک آؤٹ ان کے اتحادی کا واک آؤٹ ہی کہلائے گا۔

افغان مہاجرین کو شہریت دینے کے حوالے سے عمران خان کا بیان انھیں اچھا نہیں لگا۔ اسی طرح لاپتہ افراد کی واپسی اور آرٹیکل 6 کے حوالے سے انھی کے بنائے گئے وزیر قانون کا جھنجلانا یہ سب اشارے ہیں وزیر اعظم کے سمجھنے کو۔ اور ان سب اشاروں کا نچوڑ یہی ہے کہ پرویز مشرف دور حکومت کے لوگوں کو اہم ترین قلمدان دے کر عمران خان نے اپنے لیے آسانیاں نہیں مشکلات پیدا کی ہیں۔

حکومت کی خارجی معاملات میں عدم دلچسپی کی چھوٹی سی مثال اس وقت کیمروں کی آنکھ نے محفوظ کی جب وزیر اعظم عمران خان امریکی وزیر خارجہ پومپیو سے ہی مصافحہ کرکے اپنی سیٹ پر بیٹھ رہے تھے تو انھیں دوسرے افراد سے بھی مصافحہ کرنے کا کہا گیا۔ عام طور پر لیڈرز اپنے آپ کو بامعنی ملاقاتوں کے لیے تیار کرتے ہیں اور وفد کے ہر رکن سے ملتے ہیں تاکہ یہ تاثر جائے کہ انھیں اس ملاقات کی اہمیت کا بہتر اندازہ ہے۔

اس بے اثر خارجہ پالیسی جس کو غلط معلومات کا سہارا دیا جا رہا ہے، کے گہرے اثرات ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پارلیمنٹ میں یا حکمران جماعت میں ان معاملات پر کوئی مفید بحث نہیں ہوسکتی کہ بھارت اور امریکا کے ساتھ معاملات کس طرح طے کرنے ہیں۔ اس معاملے پر نئے خیالات یا بہتر سوچ پروان نہیں چڑھ سکتی کیونکہ حکومت اس نازک محاذ پر آگے بڑھ کر کھیلنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔

اور یہ سچائی ظاہر ہونے میں دیر نہ لگی جب امریکا اور دہلی کے مذاکرات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا جس کے بارے میں ہمارے وزیر خارجہ کچھ اور ہی کہہ رہے تھے اور دہلی اور واشنگٹن کی توپوں کا رخ اسلام آباد کی طرف نظر آیا۔ یہ بلاشبہ ایک بھاری چارج شیٹ ہے جو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور دوسرے لوگوں کے پیش کردہ موقف کے برعکس ہے۔ نہ جانے کیوں پاکستان کی فیصلہ سازی جذبات پر اور اس چیز پر انحصار کر رہی ہے کہ واشنگٹن کو وہ کرنے دیا جائے جو اسے بہتر لگے۔


لیکن عقل یہ کہہ رہی ہے کہ زمینی حقائق کو پرکھنے اور فریب زدہ سفر سے واپس آنے کی ضرورت ہے۔ دہلی اور واشنگٹن دونوں کے ساتھ ہمارے حالات نہایت سنجیدہ ہیں اور ہم کسی بھی معاملے پر دکھاوا کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

28 ہزار ارب روپے کے غیر ملکی قرضوں تلے دبی قومی معیشت جس طرح مزید ابتری کی طرف جا رہی ہے اسے فوری طور پر روکنا اور اس مشکل سے چھٹکارہ حاصل کرنا نئی حکومت کے ایجنڈے کا پہلا زینہ ہے۔ اگرچہ اس قسم کے حالات گزشتہ حکومتوں کو بھی درپیش رہے ہیں لیکن صورتحال اب اس نہج کو پہنچ چکی ہے کہ اس سے نکل کر ہی بجلی اور پانی کے مستقبل کے تناظر میں مسئلے کا پائیدار حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔

گو ڈیم اپنی مدد آپ کے تحت بنائے جانے کے اعلان ہوئے لیکن اپنے پیسوں سے ڈیم بنانا نہ صرف مشکل کام ہے (ابھی تک دو بلین روپے ڈیم فنڈ میں جمع ہوسکے ہیں جب کہ تعمیراتی کام کے لیے 400 بلین کی ضرورت ہے) بلکہ زیادہ مشکل کام ایک سپر پاور کے خلاف کھڑے ہونا ہے۔ یہ زخم خوردہ عالمی طاقت ایک علاقائی طاقت کے ساتھ مل کر ایک معاشی طور پر تباہ حال اور اندرونی سیاسی تماشوں میں الجھے اور اپنے ہی شہریوں اور ان کے نمایندوں کے خلاف جنگ میں پھنسے ہوئے ملک کا جینا مشکل کرنے پر تلی ہوئی ہے لہٰذا حقائق تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔

اور یہ دلخراش حقیقت نئے حکمران بھی جانتے ہیں اور ہم بھی کہ اس ملک کے اصل مسائل یعنی خارجہ پالیسی، داخلی سلامتی اور سول ملٹری تعلقات جیسے اہم ترین ایشوز اس کے دائرہ اختیار میں شامل ہیں اور نہ اسے چھیڑنے کا انھیں حق دیا جائے گا۔ اسی لیے ان اصل ایشوز کے بارے میں کوئی ہوم ورک ہے اور نہ ان حوالوں سے کچھ ہوتا ہوا نظر آئے گا جلد یا بدیر۔

ہماری نئی حکومت کے کپتان کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ انھیں وہ پاکستان ملا جس میں ویسے تو 10 کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے مگر اصل صورتحال یہ کہ 90 فیصد بنیادی سہولتوں تک سے محروم چلے آرہے ہیں۔

بلوچستان جہاں قدرت نے تیل، پٹرول، سونے کے پہاڑ، قیمتی پتھر، کوئلہ، گیس اور نہ جانے کن کن نعمتوں کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے اب بھی بعض علاقے ایسے ہیں وہاں جہاں سوئی گیس نہیں پہنچی۔ چند سال پہلے بلوچستان کے کچھ اضلاع میں جب جلدی بیماریاں اور سینے پر بوجھ والے مریضوں کی بھرمار ہوگئی تو پتہ چلا کہ وہاں کے لوگ چولہا افورڈ نہ کرسکنے اور پتھروں پر روٹیاں پکانے والے یہ بھوکے ننگے دو ڈھائی ماہ سے اس کھانسی کے سیرپ میں روٹیاں ڈبو ڈبو کر کھاتے رہے جو عالمی ادارہ صحت کی ٹیمیں انھیں وافر مقدار میں مفت دے گئی تھیں۔ یعنی بلوچستان کے لوگ کھانسی کے سیرپ کو سانس کی جگہ استعمال کر رہے اور مر رہے تھے۔

بلوچستان کے دامن یا سینے میں قیمتی چیزیں دیکھیں، بلوچستان کا بجٹ دیکھیں، وہاں کے سرداروں کے ٹھاٹ باٹھ یا صرف یہی دیکھ لیں کہ ایک صوبائی سیکریٹری خزانہ (بلوچستان) کے گھر سے اتنے پیسے نکلے کہ نوٹ گننے کے لیے مشینیں منگوانا پڑیں، اب تو ان صاحب بہادر کی ضمانت بھی ہوچکی۔ قائد اعظم کے بنائے ہوئے اور ہندوؤں اور انگریزوں سے لیے ہوئے ملک کا ہم نے کیا حشر کردیا اسے دیکھ کر، اس کے بارے میں پڑھ کر اور سن کر ہر حساس انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

ایک طرف لندن کے مالک، ایک طرف دبئی کے مالک۔ دوسری طرف منی لانڈرنگ کے ذریعے ارباب اختیار کی ''مال بناؤ پالیسی'' پر نگاہ کریں تو اس سے باآسانی کم ازکم چار بڑے ڈیم تو تعمیر کیے ہی جاسکتے ہیں لیکن ڈیم بھی غریب، لاچار یا رزق حلال کی کمائی سے ہمارے ہاں بننے جا رہے ہیں۔ اصل میں ہم اور ہمارے تمام کے تمام ارباب اختیار 71 سال میں ایک دوسرے کے کام کرتے کرتے اپنا ہی کام بھول گئے ہیں۔ واقعی جس معاشرے میں محدود لوگوں کے پاس لامحدود ہو وہاں لامحدود لوگوں کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔
Load Next Story