مسافر نوازیاں
آج کا سیاح معلومات،سفری سہولتوں، شب بسری کے ٹھکانوں،ٹرانسپورٹ اورسکیورٹی کے بارے میں بہت محتاط اورسہولت پسندہوگیا ہے۔
''ایک فرانسیسی ٹورسٹ گائیڈ سیاحوں کو قرون وسطیٰ میں ہونے والی برطانیہ اور فرانس کے درمیان جنگوں کے مقامات دکھا اور واقعات سنا رہا تھا لیکن ہر جنگ کے بعد وہ فرانس کو فاتح اور برطانیہ کو شکست خوردہ بتاتا، سیاحوں میں ایک انگریز تاریخ دان بھی تھا اس نے احتجاج کیا کہ ایسا نہیں ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سی جنگوں میں برطانیہ نے بھی فرانس کو ہرایا تھا۔ اس پر ٹورسٹ گائیڈ مسکرایا اور بولا جب تک میں یہاں ہوں، برطانیہ کو ایک بھی جنگ نہیں جیتنے دوں گا۔''
یہ لطیفہ اردو کے عظیم اور میرے محبوب مزاح نگار شفیق الرحمن مرحوم بہت مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔ ان کے رپورتاژ نما سفرنامے ''برساتی'' میں سفر اور سیاحت کے حوالے سے بے شمار ایسی باتیں ہیں جو ایک بار پڑھنے کے بعد زندگی بھر آپ کے ساتھ رہتی ہیں۔
جدید دور میں سیاحت یعنی Tourism ملکوں کی تہذیب، شہرت، تاریخ، معیشت اور نیک نامی کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے کہ انسان فطری طور پر نئی جگہیں دیکھنے اور نئے لوگوں سے ملنے کا شوقین ہے لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ 90% سے بھی زیادہ سیّاح چند بنیادی سہولتوں کے طالب ہوتے ہیں کہ پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے والے اور سمندروں کی وسعتوں میں بادبانی کشتیوں پر نئی دنیائیں تلاش کرنے والے کم کم ہی ہوتے ہیں۔
آج کا سیّاح معلومات، سفری سہولتوں، شب بسری کے ٹھکانوں، ٹرانسپورٹ اور سکیورٹی کے بارے میں بہت محتاط اور سہولت پسند ہوگیا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں یہ سہولتیں مہیا ہیں وہاں وہاں ہر وقت سیاحوں کا میلہ سا لگا رہتا ہے جب کہ کچھ تو پورے کے پورے ملک ہی سیاحوں کے دم قدم سے چل رہے ہیں۔
مجھے امریکا، چین، جاپان، فرانس، برطانیہ، اسپین، اٹلی، بھارت، جرمنی، آسٹریلیا، ازبکستان، ہالینڈ اور کینیڈا کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں بھی جانے کا موقع ملا ہے اور میں نے کئی جگہوں کے معروف Tourist Spots بھی دیکھے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مقامات اپنی ایک پہچان اور کشش رکھتے ہیں مگر دیکھا جائے تو ان کی مقبولیت کے اسباب میں بہت زیادہ حصہ ان سفری سہولتوں کا بھی ہے جن کی وجہ سے مسافر اور سیاح مختلف طرح کی پریشانیوں اور وقت ضائع کرنے والی کارروائیوں سے بچ جاتے ہیں۔
سیاحت میں لوگ نئی اور غیر مانوس جگہوں کے کھانوں اور مخصوص تہذیبی رویوں کے لیے زیادہ تیار اور وسیع القلب ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے قومی طرز معاشرت اور عادات کے ضمن میں بہت جذباتی اور حساس ہوتے ہیں اور زیادہ تر ایسی جگہوں کو ترجیح دیتے ہیں جہاں دونوں طرح کی آسانی موجود اور مہیا ہو۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم تاریخی عمارات اور پرانی تہذیب کی یادگار جگہوں پر بھی ہر طرح کی جدید سہولت مثلاً ٹائلٹس، کھانے پینے کی جگہوں کی صفائی اور ٹرانسپورٹ وغیرہ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے وطن عزیز میں کسی بھی حکومت نے سیاحت کے محکمے پر وہ توجہ نہیں دی جو اس کا حق تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے چند سب سے بڑی پہاڑی چوٹیوں، شاندار جنگلات، تاریخی مقامات اور روح پرور قدرتی نظاروں کے حامل علاقوں کے باوجود ہماری سیاحت کی شہرت اور آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے۔ دو تین برس قبل مجھے فیملی کے ساتھ ناران جانے کا اتفاق ہوا۔
بتایا گیا کہ بعض اوقات ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے درمیان ٹریفک بہت پھنس جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں علی الصبح اس علاقے سے گزرنا چاہیے لیکن ہوا یہ کہ دو گھنٹے ہمیں صرف ایبٹ آباد میں داخل ہونے اور وہاں سے نکلنے میں ہی لگ گئے کہ تنگ پہاڑی سڑکوں کی وجہ سے شہر کے گردونواح میں ہمہ وقت ٹریفک رینگنے کی حالت میں رہتی ہے۔ خلاف توقع مانسہرہ سے ہم آسانی سے گزر گئے لیکن بالا کوٹ کے قریب پھر وہی بلکہ اس سے بھی خراب صورت حال تھی کہ گاڑیوں کی لائنیں حد نظر سے بھی آگے تک راستہ ملنے کی منتظر تھیں۔
معلوم ہوا کہ یہاں سے نکلنے میں چھ سے آٹھ گھنٹے تک لگ سکتے ہیں۔ مجبوراً ایک رات ایک ہوٹل نما جگہ پر رکنا پڑا جو اپنی جگہ پر ایک امتحان تھا۔ ناران میں ہمارا قیام تو نسبتاً بہتر جگہ یعنی پی ٹی ڈی سی کے Resort میں تھا جس کی بکنگ بہت کوشش اور سفارش سے حاصل کی گئی تھی لیکن شہر اور بیشتر ہوٹلوں کی حالت ہرگز ہرگز قابل اطمینان نہیں تھی جب کہ سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ وہاں کے سب سے قابل دید اور مشہور مقام جھیل سیف الملوک تک رسائی کسی گلیشیر وغیرہ کے گرنے کے وجود سے مسدود تھی۔
معلوم ہوا کہ اس طرح کے واقعات عام ہوتے ہیں اور راستہ کئی کئی گھنٹے بند رہتا ہے۔ میں نے بچوں سے کہا کہ یہاں آکر جھیل سیف الملوک نہ دیکھنا بہت بڑی زیادتی ہے۔ سو اس کے لیے قیام کے دورانیے میں ایک دن کا اضافہ کیا گیا جس پر بعد میں بے حد شرمندگی ہوئی کہ جھیل کے اردگرد کا علاقہ کسی کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہا تھا۔ ہر طرف گندگی اور شاپرز کے ڈھیر تھے، دکانیں گندی، بے ترتیب اور ماحول انتہائی تکلیف دہ تھا کہ بنیادی سہولتوں کی طرف بھی کسی کی توجہ نہیں تھی۔
مجھے دنیا کی کئی مشہور کے علاوہ عام جھیلوں کو بھی دیکھنے کا موقع ملا ہے اور بلا شبہ جھیل سیف الملوک اپنی قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے ان کی پہلی صف میں شمار ہوتی ہے مگر اس کی دیکھ بھال کا یہ عالم ہے کہ جو بھی وہاں جاتا ہے وہ دوسروں کو اس سے گریز کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر صرف سیاحت کے شعبے کو ہی جدید تقاضوں کے مطابق استوار کرلیا جائے تو اس ملک میں اتنی خوبصورتی اور سیاحتی کشش ہے کہ اس سے حاصل شدہ آمدنی سے کئی نئے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں۔ ہمارے جہاندیدہ اور سیاحتی امور کے ماہر دوست مسعود علی خان کا دعویٰ ہے کہ اگر ان مقامات کو درست انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے تو ان کا ہر ہر منظر اس شعر کی جیتی جاگتی تصویر ہوسکتا ہے کہ؎
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
یہ لطیفہ اردو کے عظیم اور میرے محبوب مزاح نگار شفیق الرحمن مرحوم بہت مزے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔ ان کے رپورتاژ نما سفرنامے ''برساتی'' میں سفر اور سیاحت کے حوالے سے بے شمار ایسی باتیں ہیں جو ایک بار پڑھنے کے بعد زندگی بھر آپ کے ساتھ رہتی ہیں۔
جدید دور میں سیاحت یعنی Tourism ملکوں کی تہذیب، شہرت، تاریخ، معیشت اور نیک نامی کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے کہ انسان فطری طور پر نئی جگہیں دیکھنے اور نئے لوگوں سے ملنے کا شوقین ہے لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ 90% سے بھی زیادہ سیّاح چند بنیادی سہولتوں کے طالب ہوتے ہیں کہ پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے والے اور سمندروں کی وسعتوں میں بادبانی کشتیوں پر نئی دنیائیں تلاش کرنے والے کم کم ہی ہوتے ہیں۔
آج کا سیّاح معلومات، سفری سہولتوں، شب بسری کے ٹھکانوں، ٹرانسپورٹ اور سکیورٹی کے بارے میں بہت محتاط اور سہولت پسند ہوگیا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں یہ سہولتیں مہیا ہیں وہاں وہاں ہر وقت سیاحوں کا میلہ سا لگا رہتا ہے جب کہ کچھ تو پورے کے پورے ملک ہی سیاحوں کے دم قدم سے چل رہے ہیں۔
مجھے امریکا، چین، جاپان، فرانس، برطانیہ، اسپین، اٹلی، بھارت، جرمنی، آسٹریلیا، ازبکستان، ہالینڈ اور کینیڈا کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک میں بھی جانے کا موقع ملا ہے اور میں نے کئی جگہوں کے معروف Tourist Spots بھی دیکھے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مقامات اپنی ایک پہچان اور کشش رکھتے ہیں مگر دیکھا جائے تو ان کی مقبولیت کے اسباب میں بہت زیادہ حصہ ان سفری سہولتوں کا بھی ہے جن کی وجہ سے مسافر اور سیاح مختلف طرح کی پریشانیوں اور وقت ضائع کرنے والی کارروائیوں سے بچ جاتے ہیں۔
سیاحت میں لوگ نئی اور غیر مانوس جگہوں کے کھانوں اور مخصوص تہذیبی رویوں کے لیے زیادہ تیار اور وسیع القلب ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے قومی طرز معاشرت اور عادات کے ضمن میں بہت جذباتی اور حساس ہوتے ہیں اور زیادہ تر ایسی جگہوں کو ترجیح دیتے ہیں جہاں دونوں طرح کی آسانی موجود اور مہیا ہو۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم تاریخی عمارات اور پرانی تہذیب کی یادگار جگہوں پر بھی ہر طرح کی جدید سہولت مثلاً ٹائلٹس، کھانے پینے کی جگہوں کی صفائی اور ٹرانسپورٹ وغیرہ پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے وطن عزیز میں کسی بھی حکومت نے سیاحت کے محکمے پر وہ توجہ نہیں دی جو اس کا حق تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے چند سب سے بڑی پہاڑی چوٹیوں، شاندار جنگلات، تاریخی مقامات اور روح پرور قدرتی نظاروں کے حامل علاقوں کے باوجود ہماری سیاحت کی شہرت اور آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے۔ دو تین برس قبل مجھے فیملی کے ساتھ ناران جانے کا اتفاق ہوا۔
بتایا گیا کہ بعض اوقات ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے درمیان ٹریفک بہت پھنس جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں علی الصبح اس علاقے سے گزرنا چاہیے لیکن ہوا یہ کہ دو گھنٹے ہمیں صرف ایبٹ آباد میں داخل ہونے اور وہاں سے نکلنے میں ہی لگ گئے کہ تنگ پہاڑی سڑکوں کی وجہ سے شہر کے گردونواح میں ہمہ وقت ٹریفک رینگنے کی حالت میں رہتی ہے۔ خلاف توقع مانسہرہ سے ہم آسانی سے گزر گئے لیکن بالا کوٹ کے قریب پھر وہی بلکہ اس سے بھی خراب صورت حال تھی کہ گاڑیوں کی لائنیں حد نظر سے بھی آگے تک راستہ ملنے کی منتظر تھیں۔
معلوم ہوا کہ یہاں سے نکلنے میں چھ سے آٹھ گھنٹے تک لگ سکتے ہیں۔ مجبوراً ایک رات ایک ہوٹل نما جگہ پر رکنا پڑا جو اپنی جگہ پر ایک امتحان تھا۔ ناران میں ہمارا قیام تو نسبتاً بہتر جگہ یعنی پی ٹی ڈی سی کے Resort میں تھا جس کی بکنگ بہت کوشش اور سفارش سے حاصل کی گئی تھی لیکن شہر اور بیشتر ہوٹلوں کی حالت ہرگز ہرگز قابل اطمینان نہیں تھی جب کہ سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ وہاں کے سب سے قابل دید اور مشہور مقام جھیل سیف الملوک تک رسائی کسی گلیشیر وغیرہ کے گرنے کے وجود سے مسدود تھی۔
معلوم ہوا کہ اس طرح کے واقعات عام ہوتے ہیں اور راستہ کئی کئی گھنٹے بند رہتا ہے۔ میں نے بچوں سے کہا کہ یہاں آکر جھیل سیف الملوک نہ دیکھنا بہت بڑی زیادتی ہے۔ سو اس کے لیے قیام کے دورانیے میں ایک دن کا اضافہ کیا گیا جس پر بعد میں بے حد شرمندگی ہوئی کہ جھیل کے اردگرد کا علاقہ کسی کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہا تھا۔ ہر طرف گندگی اور شاپرز کے ڈھیر تھے، دکانیں گندی، بے ترتیب اور ماحول انتہائی تکلیف دہ تھا کہ بنیادی سہولتوں کی طرف بھی کسی کی توجہ نہیں تھی۔
مجھے دنیا کی کئی مشہور کے علاوہ عام جھیلوں کو بھی دیکھنے کا موقع ملا ہے اور بلا شبہ جھیل سیف الملوک اپنی قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے ان کی پہلی صف میں شمار ہوتی ہے مگر اس کی دیکھ بھال کا یہ عالم ہے کہ جو بھی وہاں جاتا ہے وہ دوسروں کو اس سے گریز کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر صرف سیاحت کے شعبے کو ہی جدید تقاضوں کے مطابق استوار کرلیا جائے تو اس ملک میں اتنی خوبصورتی اور سیاحتی کشش ہے کہ اس سے حاصل شدہ آمدنی سے کئی نئے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں۔ ہمارے جہاندیدہ اور سیاحتی امور کے ماہر دوست مسعود علی خان کا دعویٰ ہے کہ اگر ان مقامات کو درست انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے تو ان کا ہر ہر منظر اس شعر کی جیتی جاگتی تصویر ہوسکتا ہے کہ؎
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است