اقبال کی سخنوری یا پیر بابائوں کی دعائیں

اگر ہم اس بھنور میں پھنسے ہیں تو اس سے نکلنے کے لیے کون سی تدابیر ہیں جو ہمیں لینی چاہئیں۔


[email protected]

ISLAMABAD: بڑے کمال کے تھے ہمارے اقبال اور جتنے بھی بڑے سخن ور تھے مگر ان کا کہا ہوا ایک شعر شاید ان کے تمام اشعار پر بھاری ہے:

عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اور پھر یوں لگتا ہے کہ ان کی شاعری کا بنیادی خیال بھی اس مادی حقیقت کے گرد ہی گھومتا ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

سوچ کی پرواز میں ان کا تخیل وسیع تھا، ان کے Canvas میں کئی نکتے اور کئی رنگ تھے، چاند ستارے، مغرب و مشرق سب تھے۔ وہ اپنی سوچ کی پرواز میں نہ یہ تھے نہ وہ تھے۔ ذات میں جو ہوں، سو ہوں، بات میں کچھ اور تھے، وہ بات جو صدی کے بعد سفر میں بھی ہمیں اپنی منزل کے نشان بتاتی ہے۔ مگر ہم اقبال سے کچھ اور چاہتے ہیں۔ ہمیں خدائوں کی طلب ہے، بت اور بت کدے ہمیں چاہئیں۔ ہم کیا کریں، ہم جو اپنے وجود سے پہلے اپنے ہی وجود میں موجود تھے اور یہ جو ہمارا اسکرپٹ ہے، ہم اس کا عکس ہیں، اپنے آبائو و اجداد اور اپنی نسلوں اور ان کی گڑھی ہوئی ہڈیوں کے تسلسل میں ہیں۔

وگرنہ ریاضیات کا طالب علم ہر چیز کو منطقی سوچ سے نہ دیکھے اور وکیل جو دلائل اور شواہدات کو ٹھوس حقیقت کی نظر سے نہ دیکھے اور اس کا حوالہ عدالت میں نہ دے تو وہ عام زندگی میں کیا کرتا ہوگا۔

حقائق کا ادراک کرنا ہی حقیقت ہے اور یہی ہے جو معروف ہے یا یوں کہیے معروضیت Objectivity جو موضوعیتSubjectivity سے ہٹ کر ہے۔ یہ تصادم اور کشمکش جب فیض کے پاس دبے پائوں چلا آیا یعنی Objectivity یا Subjectivity آپس میں گڈمڈ ہوگئے تو ان کی پوری نظم کسی ریاضیات کے Theorem کے مانند ہوگئی۔

''مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ''

یہ نظم پھر نورجہان نے کچھ اس طرح گائی کہ شاہکار ہو گئی اور خود فیض نے انکو ہی Dedicate کردی۔ فیض اس خیال حقیقت میں اور رومانس کے بیچ پھنسے ہوئے نظر آتے ہیں اور پھر حقیقت پروتے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتی کہ جیسے غالب جوتشیوں پر سقراطی طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں:

دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض

ایک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

ہمارے شاہ لطیف کی شاعری اور تصوف کے بھی کئی پہلو اور رنگ ہیں۔ وہ ان کی درگاہ میں آئے ہوئے حاجت مند کو جلا دیتے ہیں، درگاہ کی دہلیز کے سامنے چوکھٹ پر جو قدیم درخت ہے، کئی دھاگوں کی ڈوریاں جو منت مانگنے والوں نے باندھ رکھی ہیں اور نہ جانے کب سے۔ خواتین، بچے اور مرد شب و روز اسی درخت کی شاخوں کو پکڑے بیٹھے ہیں کہ شاید ان کی مراد بر آئے۔ جہاں ذہنی مریضوں کے لیے کوئی مقام نہ ہو وہ ان ہی آستانوں اور گدڑیوں میں آکر بس جاتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی درگاہ پر کوئی ایساگداگر نہیں، جو آئے ہے اس کا بیڑہ پار نہ ہو۔ چاہے اِس فرقے کا ہو یا اُس فرقے کا، اس مذہب کا ہو یا اُس مذہب کا، نہ زبان کی بندش اور نہ ثقافت کی کوئی قید۔ راندۂ حیات ہو یا خواجہ سرا سب برابر۔ ان درگاہوں کے پیر، سجادہ نشین اور ان کے مرید بھی ہوتے ہیں۔ کئی درگاہیں جیسے کہ قلندر شہباز کی درگاہ محکمہ اوقاف کے کھاتے میں آتی ہے اور درگاہ کے ڈبوں میں یہ حاجت مند جو نذرانہ پیش کرتے ہیں وہ کسی فلاحی کاموں میں نہیں بلکہ افسروں کی جیبوں میں جاتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ان درگاہوں نے بھی کئی ارتقائی منازل طے کی ہیں۔ بادشاہ سلامت اور اس کے دربار کے ملائوں سے ٹکریں لیں، فتنہ گروں کو ختم کیا، اس سوچ کو جو اس فتنہ گری کے پیچھے تھی اس کا بھی خاتمہ کیا۔ ہاں مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ شاہ بھٹائی نے یہ بھی کہا ہے کہ ''سونے والو اٹھو کہ تم کہیں منزل کے نشان نہ پاسکو گے'' اور انھوں نے یہ بھی کہا ''گرمی ہو یا سردی، بیٹھ کے بات نہ کرو''۔ ان کے ان اشعار میں زندگی کی حقیقت پرستی ہے، جستجو ہے، ان تھک محنت ہے، جو کہ مادی حقیقت کا ادراک ہے۔

جب یورپ چرچ کی اجارہ داری کو شکست دے رہا تھا اس وقت ایک دقیانوسی سوچ ان کے سامنے کھڑی تھی اور ہاتھ میں مادی حقیقت، ٹھوس شواہدات جس نے کئی وہم و موضوعی سوچ کے طوق نکال پھینکے تھے اور فرد آزاد ہوا تھا۔ عمرانی معاہدہ وجود میں آیا جسکی رو سے آج کے آئین تشکیل پائے۔

شکستہ پا ہونے کا عندیہ ہے یہ جب کوئی درگاہوں پر بیٹھ جاتا ہے، گوشہ نشینی اختیار کرلیتا ہے، ترک تعلق کرنے میں دنیا سے منہ موڑ لیتا ہے۔ یہ ایک زاویہ ہے دنیا سے اور دنیا کی حقیقتوں سے تعلق ختم کرنے کا۔ یہ فعل Depression سے ملتا جلتا فعل ہے۔ یہ مادی حقیقتوں سے راہ فرار ہے اور خود کو فریب دینے کے برابر ہے۔ یہ درگاہیں صدیوں سے ہیں، پیری مریدی کے طوق لوگوں کے گلے میں تھے اور تاریخ ہماری بھی یہی ہے کہ ہم بت پرست تھے۔ بت پرست تو کلیسائی بھی ہیں مگر ان کی بت پرستی اپنی ذات تک محدود ہے۔

میری ایک عرض ہے، جیسا کہ فیض کہتے ہیں ''تجھ کو کتنا لہو چاہیے اے ارض وطن'' کتنی نسلوں کا لہو چاہیے اس ملک کو، اس کی حقیقتوں کا ادراک ہم پر کب ہوگا، کب ہمارا شعور اور سوچ وسیع اور عمدہ ہوگی۔

ریاستیں جادو کے نسخوں سے نہیں چلتیں۔ آج یہ بلاول بھٹو کہتے ہیں، مگر میری بھی ایک گزارش ہے بلاول بھٹو سے کہ ہماری بینظیر بھٹو صاحبہ اپنی زندگی میں کس پیر اور درگاہ پر نہیں گئیں، کون سے ایسے پیر تھے جن سے وہ نہیں ملیں۔ زرداری بھی جیل کے زمانوں میں ایک پیر بابا کے بڑے زبردست اسیر تھے۔

آج اگر اسد عمر کو یہ لگتا ہے کہ ہماری معیشت عشق سے ٹھیک ہوسکتی ہے مگر ان کی یہ سوچ ہمارے بیانیہ میں مزید بگاڑ پیدا کرسکتی ہے۔ گیان کرکے بیٹھے ہیں، مگر بارشیں نہیں ہوتیں۔ نہ لوگوں کے عقیدوں کے آگے احتمال سے آپ کو escape مل سکتا ہے۔

یہ عشق کی سلفی ہو یا چرس کا ٹوٹا، جو پروازوں کی بلندیوں تک لے تو جاتا ہے مگر سب خواب ہے، بتان وہم وگماں ہیں ، دھوئیں کا غول ہے، جو اردگرد ہے، مگر حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ معیشت عشق سے یا جنون سے بہتر نہیں ہوسکتی۔

ہم بحیثیت ملک کیا ہیں؟ ہماری سماجی و معاشی حیثیت کو دنیا کیسے پرکھتی ہے؟ اگر ہم اس بھنور میں پھنسے ہیں تو اس سے نکلنے کے لیے کون سی تدابیر ہیں جو ہمیں لینی چاہئیں۔

جب ہم اپنے کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کرسکتے تو ہم راہ فرار ڈھونڈتے ہیں، روز ایک نیا بہانہ اور ایک شوشہ چھوڑتے ہیں۔ دشنام طرازی کا بازار گرم کرتے ہیں، کوئی نیا الزام لگاتے ہیں۔ آج یہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے، یہ ایک مادی حقیقت ہے۔ ہمارے ادارے جو چند باقی تھے وہ بھی بیٹھ گئے ہیں۔ کیا کرنا ہے، کیا نہیں کرنا اس کی تمیز ہم بھول چکے ہیں، کسی کے پاس موسیٰ کا عصا نہیں، کوئی صور اسرافیل پھونکنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا، جس سے چیزیں ایک دم ٹھیک ہوجائیں گی۔ یہ سو دن کا وعدہ بھی ایک مفروضہ ثابت ہورہا ہے، جو الیکشن کے دور کا ہتھیار تھا۔

یہ وہ وعدہ ہے جسکے وفا ہونے کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ ابھی تک نہ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کی خبر آئی، نہ کسی دوست ملک نے کوئی نوید سنائی ہے۔ ہمارا افسر شاہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور وہ سیاستدانوں کے تابع آچکا ہے۔

اتنا بڑا مینڈیٹ تو خان صاحب کا نہیں کہ وہ ایک دم سے اس بگڑے ہوئے سسٹم کو کسی انقلابی قدم سے ٹھیک کرسکیں۔ بہت ہی سادہ حقیقت ہے کہ ہم اب زیادہ بیرونی قرضوں کا دبائو برداشت نہیں کرسکتے اور ہمیں غیر ضروری اشیاء کی امپورٹ کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی اور ایکسپورٹ کی حوصلہ افزائی۔ ہمیں آئندہ دس سال کے ترقیاتی بجٹ، روڈ، ریل، میٹرو ٹرین پر کم بلکہ ہمیں human development، انسانی ترقی پر خرچ کرنا ہے۔ ہمارے پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی انسانی وسائل ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ بنگلہ دیش کا انفرااسٹرکچر ہم سے بہتر ہے، لیکن یہ سچ ہے جو کہ یو این ڈی پی کی حالیہ شائع ہوئی ہے ، ایچ ڈی آئی رپورٹ لکھتی ہے کہ بنگلہ دیش میں انسانی وسائل ہم سے بہت بہتر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش 84 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا ہے جب کہ ہم بمشکل 25 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کرتے ہیں۔

ہمارے پیارے پاکستان کو اس وقت پیر بابائوں، منت سماجتوں، جن بھوتوں کا علاج کرنے والوں اور جادو کرنے والوں اور کرانے والوں سے خطرہ ہے۔

مشتری ہشیار باش!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔