سزا حکومت کو بھی
حکومت پہلے ناجائز چھوٹ دے کر عوام میں ایک غلط کام کو رواج دیتی ہے اور پھر اس غلطی کی اصلاح میں عوام کا نقصان کرتی ہے۔
عام لوگوں کے مصائب اور مسائل سے لاپرواہ حکمرانوں کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ کسی معاشرتی خرابی پر خاموش رہتے ہیں اور جب وہ حد سے گزرنے لگتی ہے تو انھیں اس کا خیال آتا ہے اور تب ان کااختیار اور اقتدار حرکت میں آجاتا ہے لیکن بعد از خرابی بسیار ان دنوں شہر شہر تجاوزات کے خاتمے کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ مجھے
گائوں سے ٹیلی فون کے ذریعے سفارش نما اطلاع دی گئی ہے کہ وادیٔ سون کے مرکزی قصبے نوشہرہ میں سڑک کنارے تجاوز کر کے جو ریڑھیاں لگائی گئی تھیں ان کو حکومت نے ہٹا دیا ہے ان کی بحالی کی سفارش کی درخواست کے ساتھ فون بند ہو گیا۔
میں نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد سفارش کا معاملہ موخر کر دیا اور اپنے دل کو یہ تسلی دے لی کہ ہو سکتا ہے کہ حکومت اپنے اس عمل میںمکمل کامیاب ہو جائے اور اپنی قابض جائیدادوں کو وا گزار کرا لے، اس لیے مجھے حکومت کے کام میں سفارش کی صورت میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے حالانکہ میں اپنے علاقے کے غریب عوام کا درد سمجھتا ہوں کہ ان کی روزی روٹی کا دارومدار انھیں معمولی اور چھوٹے روزگاروں پر مشتمل ہے اور ان کے بچے اسی سے رزق حاصل کرتے ہیں ۔ میرے علاقے میں کوئی فیکڑی وغیرہ نہیں ہے غیور اعوانوں کا روز گار ٹرانسپورٹ یا فوج میں ہے یا پھر وہ اپنی تھوڑی بہت پہاڑی زمینوں پر فصلوں کی کاشت سے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کا سامان کرتے ہیں۔
حکومت کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ کہی جا سکتی ہے کہ یہ عام آدمی کے کاروبار میں رکاوٹ ڈال رہی ہے، ہمارے ملک میں روز گار نام کی کوئی شئے موجود نہیں لوگ چھوٹے چھوٹے کاموں سے اپنے کنبے کی پرورش کر رہے ہیں صنعتی بے حالی نے بے روز گاری کو عروج پر پہنچا دیا ہے بازاروں کی بری حالت ہے۔
ان حالات میں لوگ اگر کسی غلط کام میں ملوث ہوتے ہیں تو حکومت کا فرض ہے کہ عوام کو بروقت خبردار کرے اور قانون کی خلاف ورزی کو فوری روک دے لیکن جب معاملات حد سے بڑھ جاتے ہیں تو بظاہر بے حد مصروف حکمرانوں کو ہوش آجاتی ہے اور وہ ''سب اچھا ہے'' کہنے والوں اور خوشامدیوں کے غول سے باہر نکل کر ڈنڈا لہرانا شروع کر دیتے ہیں جس کے جواب میں احتجاج شروع ہوتا ہے ۔ حکومت کو شاید اندازہ نہیں کہ ''چھلے ''میں اس کے لیے ملک گیراحتجاج سے بچنا بہت ضروری ہے۔
ہماری حکومتوں کا یہ عالم ہے کہ وہ پہلے ایک غلط کام سے چشم پوشی اور جب وہ بہت بڑھ جائے تو اس کو ختم کرنے کے لیے فوری اور بے رحم سرگرمی، اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ ان دنوں دوسروے شہروں کی طرح لاہور میں اس شہر کے بنائو سنگھار کی مہم شروع ہے اور تجاوزات ختم کیے جارہے ہیں ۔ یہ ایک بہت اچھا کام ہے لیکن سوال اپنی جگہ پر ہے کہ تجاوزات جائز کب تھے جو انھیں کرنے دیا گیا ۔
حکومت کے متعلقہ ادارے پہلے تو رشوت لے کر تجاوزات کی اجازت دیتے ہیں اور جب یہ اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ شہری زندگی کے معمولات میں رکاوٹ بن جاتے ہیں تو پھر انھیں ختم کرنے کی مہم شروع ہو تی ہے اور یوں عام لوگوں کو بے اندازہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ یہ ناقابل فہم پالیسی ہے کہ پہلے تو غیر قانونی کام کرنے کی اجازت دی جائے اور پھر کسی سطح پر اسے ختم کرنا شروع کر دیاجائے۔
لاہور کی کئی معروف شاہراہوں کے فٹ پاتھوں کو لاہور کے تاجروں نے تجاوزات سے اس قدر بھر دیا ہے کہ فٹ پاتھ نام کی کوئی شئے نظر ہی نہیں آتی اور اب تو فٹ پاتھ سے آگے سڑک کو بھی ناجائز قبضے میں شامل کر لیا گیا ہے اور یہ قبضے کئی برسوں سے جاری ہیں اور یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا تھا کہ اچانک حکومت نے تجاوزات اور سرکاری زمینوں اور عمارتوں سے غیر قانونی قابضین کو بے دخل کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے، اس کے لیے اخبارات میں اطلاعی اشتہارات بھی شائع کرائے جا رہے ہیں مگر برسوں کے قابضین اپنی جگہیں چھوڑنے کو تیار نظر نہیں آتے جس کی وجہ سے سرکاری کارروائی کے نتیجہ میں املاک کا نقصان بھی ہورہا ہے اور خلق خدا ناراض بھی ہو رہی ہے لیکن حکومت کو اپنے جائیدادیں واپس چاہئیں تا کہ وہ ان اربوں کی جائیدادوں کو فروخت کر کے حکومتی خزانے میں اضافہ کر سکے۔
برسوں کے بگاڑ اور متعلقہ محکموں کی مجرمانہ چشم پوشی بلکہ درپردہ میل ملاپ کی وجہ سے تجاوازت کی عملاً اجازت حاصل تھی، اب ایک دن یوں ہو گا کہ لاہور کی سڑکوں کے فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لیے دستیاب ہوں گے مگر جو لوگ تجاوزات کی زد میں آکربے روزگار ہو گئے ان کی بددعائیں حکومت کے ساتھ ہوں گی اور حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں اضافہ ہو جائے گا۔
اس سے قبل بھی لاہورسمیت تمام بڑے شہروں میں اس طرح کی مہم جوئی کی گئی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کو ایک مخصوص وقت کے بعد دوبارہ سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنا پڑتا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ پہلے سے کی گئی کارروائیوں کو حکومت کے متعلقہ محکمے ہی ناکام بنا دیتے ہیں اور دوبارہ سے تجاوزات کی اجازت دے دیتے ہیں ۔
بڑھتی ہوئی ضرورتوں اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ چلنا بجا طور پر ضروری ہے ۔تجاوزات ہوں یاکوئی غلط کاروبار ہو اس کو ختم کرنا لازم ہے لیکن حکومت اپنی ہی ماضی کی کسی غلطی کی سزا دوسروں کو نہ دے بلکہ جو لوگ حکومتی کارروائی سے متاثر ہوں ان کا اطمینان بہت ضروری ہے ان کو معقول معاوضہ دیاجائے کیونکہ ایسی ہر عوامی غلطی کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔
حکومت پہلے ناجائز چھوٹ دے کر عوام میں ایک غلط کام کو رواج دیتی ہے اور پھر اس غلطی کی اصلاح میں عوام کا نقصان کرتی ہے۔ ایسی غلطیوں کی سزا حکومت کو بھی ملنی چاہیے صرف عوام کو ہی نہیں کیونکہ حکومت ان غلطیوں میں برابر کی شریک ہوتی ہے مگرسوال یہ ہے کہ حکومت کو سزا کون دے گا، سزا تو عوام کو ہی ملے گی۔
گائوں سے ٹیلی فون کے ذریعے سفارش نما اطلاع دی گئی ہے کہ وادیٔ سون کے مرکزی قصبے نوشہرہ میں سڑک کنارے تجاوز کر کے جو ریڑھیاں لگائی گئی تھیں ان کو حکومت نے ہٹا دیا ہے ان کی بحالی کی سفارش کی درخواست کے ساتھ فون بند ہو گیا۔
میں نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد سفارش کا معاملہ موخر کر دیا اور اپنے دل کو یہ تسلی دے لی کہ ہو سکتا ہے کہ حکومت اپنے اس عمل میںمکمل کامیاب ہو جائے اور اپنی قابض جائیدادوں کو وا گزار کرا لے، اس لیے مجھے حکومت کے کام میں سفارش کی صورت میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے حالانکہ میں اپنے علاقے کے غریب عوام کا درد سمجھتا ہوں کہ ان کی روزی روٹی کا دارومدار انھیں معمولی اور چھوٹے روزگاروں پر مشتمل ہے اور ان کے بچے اسی سے رزق حاصل کرتے ہیں ۔ میرے علاقے میں کوئی فیکڑی وغیرہ نہیں ہے غیور اعوانوں کا روز گار ٹرانسپورٹ یا فوج میں ہے یا پھر وہ اپنی تھوڑی بہت پہاڑی زمینوں پر فصلوں کی کاشت سے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کا سامان کرتے ہیں۔
حکومت کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ کہی جا سکتی ہے کہ یہ عام آدمی کے کاروبار میں رکاوٹ ڈال رہی ہے، ہمارے ملک میں روز گار نام کی کوئی شئے موجود نہیں لوگ چھوٹے چھوٹے کاموں سے اپنے کنبے کی پرورش کر رہے ہیں صنعتی بے حالی نے بے روز گاری کو عروج پر پہنچا دیا ہے بازاروں کی بری حالت ہے۔
ان حالات میں لوگ اگر کسی غلط کام میں ملوث ہوتے ہیں تو حکومت کا فرض ہے کہ عوام کو بروقت خبردار کرے اور قانون کی خلاف ورزی کو فوری روک دے لیکن جب معاملات حد سے بڑھ جاتے ہیں تو بظاہر بے حد مصروف حکمرانوں کو ہوش آجاتی ہے اور وہ ''سب اچھا ہے'' کہنے والوں اور خوشامدیوں کے غول سے باہر نکل کر ڈنڈا لہرانا شروع کر دیتے ہیں جس کے جواب میں احتجاج شروع ہوتا ہے ۔ حکومت کو شاید اندازہ نہیں کہ ''چھلے ''میں اس کے لیے ملک گیراحتجاج سے بچنا بہت ضروری ہے۔
ہماری حکومتوں کا یہ عالم ہے کہ وہ پہلے ایک غلط کام سے چشم پوشی اور جب وہ بہت بڑھ جائے تو اس کو ختم کرنے کے لیے فوری اور بے رحم سرگرمی، اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ ان دنوں دوسروے شہروں کی طرح لاہور میں اس شہر کے بنائو سنگھار کی مہم شروع ہے اور تجاوزات ختم کیے جارہے ہیں ۔ یہ ایک بہت اچھا کام ہے لیکن سوال اپنی جگہ پر ہے کہ تجاوزات جائز کب تھے جو انھیں کرنے دیا گیا ۔
حکومت کے متعلقہ ادارے پہلے تو رشوت لے کر تجاوزات کی اجازت دیتے ہیں اور جب یہ اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ شہری زندگی کے معمولات میں رکاوٹ بن جاتے ہیں تو پھر انھیں ختم کرنے کی مہم شروع ہو تی ہے اور یوں عام لوگوں کو بے اندازہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ یہ ناقابل فہم پالیسی ہے کہ پہلے تو غیر قانونی کام کرنے کی اجازت دی جائے اور پھر کسی سطح پر اسے ختم کرنا شروع کر دیاجائے۔
لاہور کی کئی معروف شاہراہوں کے فٹ پاتھوں کو لاہور کے تاجروں نے تجاوزات سے اس قدر بھر دیا ہے کہ فٹ پاتھ نام کی کوئی شئے نظر ہی نہیں آتی اور اب تو فٹ پاتھ سے آگے سڑک کو بھی ناجائز قبضے میں شامل کر لیا گیا ہے اور یہ قبضے کئی برسوں سے جاری ہیں اور یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا تھا کہ اچانک حکومت نے تجاوزات اور سرکاری زمینوں اور عمارتوں سے غیر قانونی قابضین کو بے دخل کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے، اس کے لیے اخبارات میں اطلاعی اشتہارات بھی شائع کرائے جا رہے ہیں مگر برسوں کے قابضین اپنی جگہیں چھوڑنے کو تیار نظر نہیں آتے جس کی وجہ سے سرکاری کارروائی کے نتیجہ میں املاک کا نقصان بھی ہورہا ہے اور خلق خدا ناراض بھی ہو رہی ہے لیکن حکومت کو اپنے جائیدادیں واپس چاہئیں تا کہ وہ ان اربوں کی جائیدادوں کو فروخت کر کے حکومتی خزانے میں اضافہ کر سکے۔
برسوں کے بگاڑ اور متعلقہ محکموں کی مجرمانہ چشم پوشی بلکہ درپردہ میل ملاپ کی وجہ سے تجاوازت کی عملاً اجازت حاصل تھی، اب ایک دن یوں ہو گا کہ لاہور کی سڑکوں کے فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لیے دستیاب ہوں گے مگر جو لوگ تجاوزات کی زد میں آکربے روزگار ہو گئے ان کی بددعائیں حکومت کے ساتھ ہوں گی اور حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں اضافہ ہو جائے گا۔
اس سے قبل بھی لاہورسمیت تمام بڑے شہروں میں اس طرح کی مہم جوئی کی گئی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کو ایک مخصوص وقت کے بعد دوبارہ سے تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنا پڑتا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ پہلے سے کی گئی کارروائیوں کو حکومت کے متعلقہ محکمے ہی ناکام بنا دیتے ہیں اور دوبارہ سے تجاوزات کی اجازت دے دیتے ہیں ۔
بڑھتی ہوئی ضرورتوں اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ چلنا بجا طور پر ضروری ہے ۔تجاوزات ہوں یاکوئی غلط کاروبار ہو اس کو ختم کرنا لازم ہے لیکن حکومت اپنی ہی ماضی کی کسی غلطی کی سزا دوسروں کو نہ دے بلکہ جو لوگ حکومتی کارروائی سے متاثر ہوں ان کا اطمینان بہت ضروری ہے ان کو معقول معاوضہ دیاجائے کیونکہ ایسی ہر عوامی غلطی کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔
حکومت پہلے ناجائز چھوٹ دے کر عوام میں ایک غلط کام کو رواج دیتی ہے اور پھر اس غلطی کی اصلاح میں عوام کا نقصان کرتی ہے۔ ایسی غلطیوں کی سزا حکومت کو بھی ملنی چاہیے صرف عوام کو ہی نہیں کیونکہ حکومت ان غلطیوں میں برابر کی شریک ہوتی ہے مگرسوال یہ ہے کہ حکومت کو سزا کون دے گا، سزا تو عوام کو ہی ملے گی۔