رعونت کی سزا
بے شک اللہ کی نافرمانی بڑے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
حضرت نوحؑ کا نام شکر تھا اس کے بعد ان کا نام نوح اس لیے پڑا کہ آپ ؑ اپنی قوم سے بے حد پریشان تھے اس کی نافرمانی اور کفر کے باعث وہ نوحہ کیا کرتے اسی حوالے سے ان کا نام نوحؑ پڑگیا۔
وہ اپنی قوم کے ساتھ ساڑھے نو سو برس رہے اور اس مدت میں ان کی کوششوں اور قوم کی دی ہوئی اذیتیں سہنے کے باوجود چالیس مرد اور چالیس عورتوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا، حضرت نوحؑ ہر روز پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر حق کی دعوت دیتے اور ان کی آواز بحکم خداوندی مشرق سے مغرب تک پہنچ جاتی، اس وقت کے مردود لوگ کلمے کی آواز سن کر اپنی انگلیاں کانوں میں ڈال دیتے اور بعض کپڑا ٹھونس لیتے تاکہ وہ اللہ کی وحدانیت کا سبق اور بلاوا سن نہ سکیں بلکہ وہ بد نصیب یہ ظلم بھی کرتے کہ پیغمبر خدا پر ہاتھ چلاتے اور مار مار کر بے ہوش کردیتے لیکن ہوش میں آنے کے بعد وہ پھر درس دینا شروع کر دیتے کہ اے لوگو! تم کہو کہ خدا وحدہ لاشریک ہے اور نوحؑ اس کا برحق رسول ہے لیکن وہ سرکش اور ہٹ دھرم اتنے تھے کہ انھوں نے دعوت حق کو قبول نہ کیا، لہٰذا حضرات نوحؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ اے اللہ اس قوم پر اپنا عذاب نازل فرما۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی اور ارشاد فرمایا کہ میں بہت جلد اس پر اپنا عذاب نازل کروںگا بس تم اپنے اہل و عیال اور صاحبان ایمان کے لیے ایک کشتی بنالو۔ حضرت نوحؑ نے حکم خداوندی کے تحت عمل کیا کشتی بنائی۔ مقررہ وقت میں جب سیلاب آیا تو حضرت نوحؑ نے اپنے نافرمان کنعان بیٹے کو بھی کشتی میں بیٹھنے کو کہا، تاکہ محفوظ رہ سکے اور طوفان نوح اس کا کچھ نہ بگاڑسکے لیکن نوحؑ کا بیٹا کفر میں مبتلا رہا اور بے حد مغرور تھا۔ اسے کل کی فکر نہ تھی وہ سمجھتا تھا کہ وقت ایسا ہی رہے گا اس میں تبدیلی ناممکن ہے۔
حضرت نوحؑ کا نافرمان اور بد بخت بیٹا تکبر میں مبتلا۔ وہ بہت اچھا تیراک تھا لہٰذا اس نے اپنے باپ کو نفرت اور گھمنڈ کے ساتھ جواب دیا تو ہمارا دشمن ہے اور مجھے تیری کشتی کی بالکل ضرورت نہیں۔ میں ماہر تیراک ہوں، طوفانی لہریں میرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی، باپ نے اسے بہت سمجھایا، لیکن وہ نہ مانا اور ایک بار پھر اکڑ کر بولا تو میری فکر نہ کر میں سب سے اونچے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنی جان بچالوں گا۔ وہاں پانی ہرگز نہ پہنچ سکے گا۔ باپ نے ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی ضد پر اڑا رہا اور آخر وہی ہوا ، تیز و تند موج نے کنعان کا سارا غرور خاک میں ملادیا۔ تکبر کرنے والے خواہ وہ پیغمبروں کے اہل و عیال ہوں یا عام انسان اس میں مبتلا ہوجائیں گے تو بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
سابق حکمران سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک دن وہ بھی آئے گا جب ان کا بھی احتساب ہوگا۔ مقدمہ چلے گا اور سزا کے حق دار ٹھہرائے جائیںگے اور مال و دولت، جھوٹے رشتے اور کفار و نصاریٰ کی مدد کے وعدے سب خاک میں مل جائیںگے اور وہی فصل کاٹنی ہوگی جو انھوں نے بوئی تھی۔
ابھی حال ہی میں سہیل انور سیال نے نفرت اور تکبر آمیز بیان دیا تھا اس بیان کے ذریعے ان کی اکڑ اور علم و شعور سامنے آگیا۔ اکثریت کو دکھ پہنچا انھوں نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ کراچی خصوصاً مہاجروں کو ہم پال رہے ہیں یہ بھوکے پیاسے آئے تھے۔
ہم نے ان کی مدد کی، پہلی بات تو یہ ان کے علم میں آنی چاہیے کہ پالنے والی ایک ہی ذات ہے، وہ اللہ کی ہے، جو سارے جہانوں کا رب ہے اور جو پتھر تک کو رزق پہنچاتا ہے اگر وہ نہ چاہے تو بندہ ایک لقمہ بھی حلق سے نہیں اتار سکتا اور دوسری بات یہ کہ مہاجروں کی کئی نسلیں پروان چڑھ چکی ہیں لہٰذا اب وہ مہاجر نہیں رہے ہاں اردو بولنے والے ہیں اور پاکستان کی تمام سہولتوں کے حقدار سب سے زیادہ ہیں کہ ان کے ہی آبائو اجداد نے پاکستان بناکر پاکستان میں بسنے والوں کو بلا تفریق آزادی کے منظر نامے میں شامل کیا۔
یہ مہاجروں کا احسان ہے کہ اپنے جان و مال کی آزادی کے دیے اپنے لہو سے روشن کیے، اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ وزارتیں اور صدارتیں تو دور کی بات ہے ایک معمولی ملازمت کے لیے ترستے اور مذہبی منافرت، نسلی تعصب کی آگ میں الگ جھونکا جاتا، حال ہی کی خبر کے مطابق سندھ اسمبلی میں 7 فی صد ارکان نان میٹرک اور بعض صرف پرائمری پاس ہیں 27 فی صد کے پاس صرف ماسٹرز کی ڈگری، 47 فی صد گریجویٹ اور 22 فی صد نان گریجویٹ ہیں، اب کیا ہندوستان میں رہ کر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں تک پہنچ ممکن تھی؟
معمولی تعلیمی اہلیت رکھنے والے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوسکتے تھے؟ لیکن افسوس دھاندلی اور جعلی ڈگریاں دکھاکر سیاست کے ایوانوں میں دھڑلے سے پہنچ گئے اور ناقص حکمت عملی کو اپناکر ملک کو برباد کرنے میں کسی نہ چھوڑی، اسپتالوں، اسکولوں اور فلاحی اداروں کی تباہی میں ان ہی حضرت کا بڑا عمل دخل ہے۔ اعلیٰ تعلیم و تربیت ہی شعور اور حکمت و دانائی کی دولت بخشی ہے۔ اہل علم اور دانشور دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ملک کو استحکام اور وقار بخشتے ہیں۔
مذکورہ بیان کی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے سرزنش کی اور اس قسم کی گفتگو نہ کرنے کی تلقین کی لیکن انھوں نے خود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورۂ امریکا میں ان پر اردو بولنے پر تنقید کی۔ بلاول بھٹو کو یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انگریزی، فرانسیسی، جرمنی، چینی زبانیں ہوتی ہیں اور وہ اپنی ہی زبان میں بات کرکے فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کی شناخت ہے۔
اللہ اللہ کرکے محب وطن پاکستانیوں کی بدولت اردو کو اپنی کھوئی ہوئی پہچان واپس ملنے لگی ہے تو ان حالات میں شکر ادا کرنا چاہیے اور تحریک انصاف کی چند ہفتوں کی کارکردگی کو سراہنا چاہیے نہ کہ نوزائیدہ حکومت پر خوامخواہ تنقید کی جائے۔
اگر پاکستان سے محبت ہے تو ڈیم کی مد میں فنڈ جمع کرائیں، اپنی زمین جائیدادیں فروخت کریں تاکہ ملک عزیز میں کربلا کا نوحہ ہرگز نہ گونجے، پانی زندگی ہے، سابقہ حکومتوں نے قرض تو خوب لیا لیکن کام کی بات آتی ہے تو کار کردگی صفر ہے۔ سفارتی تعلقات اور خارجہ پالیسی بھی ذاتی مفادات کی ہی مرہون منت رہی۔ 22،23 کروڑ والی آبادی رکھنے والے ملک سے سنگین مذاق کیا گیا ہے ان کی انتھک محنت اور قربانی کے بدلے میں بھوک، پیاس اور موت تقسیم کی گئی۔
گزشتہ ادوار میں حکمرانوں کا امریکا سمیت دوسرے ممالک میں سیر و تفریح کی عرض ہے آنا جانا لگا رہا اپنے ہم منصبوں سے ملاقات بھی رہی لیکن انھیں پاکستان کی ایک مظلوم بیٹی اور بہن عافیہ صدیقی جسے86 سال کی سزا ملی کی رہائی کی بات کرنے کا موقع نہ ملا ۔ ناکردہ گناہوں کے بدلے میں جس کا کوئی جرم ثابت نہ ہوسکا۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔ امریکا کو اس کی قابلیت برداشت نہ ہوسکی کہ کہیں پاکستان عافیہ صدیقی جیسی ذہین شخصیات کے ذریعے کامیابیوں کی منازل طے کرنا شروع کردے۔ (الحمدﷲ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں) کسی نے اس کی رہائی کے لیے کوشش ہی نہیں کی ریمنڈ ڈیوس تین بے گناہ پاکستانیوں کو قتل کرکے بڑے اطمینان سے اپنے ملک لوٹ جاتا ہے اس پر سودے بازی ہوسکتی تھی لیکن اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ وہ اپنے ہم منصب وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے واشنگٹن میں ملاقات کریں گے اور پاکستان و افغانستان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے بھی بات کریں گے۔
اگر دشمنان پاکستان سازشیں نہ کریں تو ملک ترقی کی راہ پر چلنے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین 3 بڑی گرانٹس کے معاہدوں پر دستخط کر دیے گئے ہیں۔ گرانٹ کی فراہمی وزیراعظم عمران خان کے دورۂ سعودی عرب کا تسلسل ہے۔
بے شک اللہ کی نافرمانی بڑے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ سمجھ دار وہی ہوتے ہیں کہ بڑی مصیبت کے آنے سے قبل اپنا قبلہ درست کرلیتے ہیں اور نادان طوفان سے بے فکر ہوکر من مانی کرتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب وہ دریا برد ہوجاتے ہیں۔
وہ اپنی قوم کے ساتھ ساڑھے نو سو برس رہے اور اس مدت میں ان کی کوششوں اور قوم کی دی ہوئی اذیتیں سہنے کے باوجود چالیس مرد اور چالیس عورتوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا، حضرت نوحؑ ہر روز پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر حق کی دعوت دیتے اور ان کی آواز بحکم خداوندی مشرق سے مغرب تک پہنچ جاتی، اس وقت کے مردود لوگ کلمے کی آواز سن کر اپنی انگلیاں کانوں میں ڈال دیتے اور بعض کپڑا ٹھونس لیتے تاکہ وہ اللہ کی وحدانیت کا سبق اور بلاوا سن نہ سکیں بلکہ وہ بد نصیب یہ ظلم بھی کرتے کہ پیغمبر خدا پر ہاتھ چلاتے اور مار مار کر بے ہوش کردیتے لیکن ہوش میں آنے کے بعد وہ پھر درس دینا شروع کر دیتے کہ اے لوگو! تم کہو کہ خدا وحدہ لاشریک ہے اور نوحؑ اس کا برحق رسول ہے لیکن وہ سرکش اور ہٹ دھرم اتنے تھے کہ انھوں نے دعوت حق کو قبول نہ کیا، لہٰذا حضرات نوحؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ اے اللہ اس قوم پر اپنا عذاب نازل فرما۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی اور ارشاد فرمایا کہ میں بہت جلد اس پر اپنا عذاب نازل کروںگا بس تم اپنے اہل و عیال اور صاحبان ایمان کے لیے ایک کشتی بنالو۔ حضرت نوحؑ نے حکم خداوندی کے تحت عمل کیا کشتی بنائی۔ مقررہ وقت میں جب سیلاب آیا تو حضرت نوحؑ نے اپنے نافرمان کنعان بیٹے کو بھی کشتی میں بیٹھنے کو کہا، تاکہ محفوظ رہ سکے اور طوفان نوح اس کا کچھ نہ بگاڑسکے لیکن نوحؑ کا بیٹا کفر میں مبتلا رہا اور بے حد مغرور تھا۔ اسے کل کی فکر نہ تھی وہ سمجھتا تھا کہ وقت ایسا ہی رہے گا اس میں تبدیلی ناممکن ہے۔
حضرت نوحؑ کا نافرمان اور بد بخت بیٹا تکبر میں مبتلا۔ وہ بہت اچھا تیراک تھا لہٰذا اس نے اپنے باپ کو نفرت اور گھمنڈ کے ساتھ جواب دیا تو ہمارا دشمن ہے اور مجھے تیری کشتی کی بالکل ضرورت نہیں۔ میں ماہر تیراک ہوں، طوفانی لہریں میرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی، باپ نے اسے بہت سمجھایا، لیکن وہ نہ مانا اور ایک بار پھر اکڑ کر بولا تو میری فکر نہ کر میں سب سے اونچے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر اپنی جان بچالوں گا۔ وہاں پانی ہرگز نہ پہنچ سکے گا۔ باپ نے ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی ضد پر اڑا رہا اور آخر وہی ہوا ، تیز و تند موج نے کنعان کا سارا غرور خاک میں ملادیا۔ تکبر کرنے والے خواہ وہ پیغمبروں کے اہل و عیال ہوں یا عام انسان اس میں مبتلا ہوجائیں گے تو بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
سابق حکمران سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک دن وہ بھی آئے گا جب ان کا بھی احتساب ہوگا۔ مقدمہ چلے گا اور سزا کے حق دار ٹھہرائے جائیںگے اور مال و دولت، جھوٹے رشتے اور کفار و نصاریٰ کی مدد کے وعدے سب خاک میں مل جائیںگے اور وہی فصل کاٹنی ہوگی جو انھوں نے بوئی تھی۔
ابھی حال ہی میں سہیل انور سیال نے نفرت اور تکبر آمیز بیان دیا تھا اس بیان کے ذریعے ان کی اکڑ اور علم و شعور سامنے آگیا۔ اکثریت کو دکھ پہنچا انھوں نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ کراچی خصوصاً مہاجروں کو ہم پال رہے ہیں یہ بھوکے پیاسے آئے تھے۔
ہم نے ان کی مدد کی، پہلی بات تو یہ ان کے علم میں آنی چاہیے کہ پالنے والی ایک ہی ذات ہے، وہ اللہ کی ہے، جو سارے جہانوں کا رب ہے اور جو پتھر تک کو رزق پہنچاتا ہے اگر وہ نہ چاہے تو بندہ ایک لقمہ بھی حلق سے نہیں اتار سکتا اور دوسری بات یہ کہ مہاجروں کی کئی نسلیں پروان چڑھ چکی ہیں لہٰذا اب وہ مہاجر نہیں رہے ہاں اردو بولنے والے ہیں اور پاکستان کی تمام سہولتوں کے حقدار سب سے زیادہ ہیں کہ ان کے ہی آبائو اجداد نے پاکستان بناکر پاکستان میں بسنے والوں کو بلا تفریق آزادی کے منظر نامے میں شامل کیا۔
یہ مہاجروں کا احسان ہے کہ اپنے جان و مال کی آزادی کے دیے اپنے لہو سے روشن کیے، اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ وزارتیں اور صدارتیں تو دور کی بات ہے ایک معمولی ملازمت کے لیے ترستے اور مذہبی منافرت، نسلی تعصب کی آگ میں الگ جھونکا جاتا، حال ہی کی خبر کے مطابق سندھ اسمبلی میں 7 فی صد ارکان نان میٹرک اور بعض صرف پرائمری پاس ہیں 27 فی صد کے پاس صرف ماسٹرز کی ڈگری، 47 فی صد گریجویٹ اور 22 فی صد نان گریجویٹ ہیں، اب کیا ہندوستان میں رہ کر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں تک پہنچ ممکن تھی؟
معمولی تعلیمی اہلیت رکھنے والے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوسکتے تھے؟ لیکن افسوس دھاندلی اور جعلی ڈگریاں دکھاکر سیاست کے ایوانوں میں دھڑلے سے پہنچ گئے اور ناقص حکمت عملی کو اپناکر ملک کو برباد کرنے میں کسی نہ چھوڑی، اسپتالوں، اسکولوں اور فلاحی اداروں کی تباہی میں ان ہی حضرت کا بڑا عمل دخل ہے۔ اعلیٰ تعلیم و تربیت ہی شعور اور حکمت و دانائی کی دولت بخشی ہے۔ اہل علم اور دانشور دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ملک کو استحکام اور وقار بخشتے ہیں۔
مذکورہ بیان کی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے سرزنش کی اور اس قسم کی گفتگو نہ کرنے کی تلقین کی لیکن انھوں نے خود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورۂ امریکا میں ان پر اردو بولنے پر تنقید کی۔ بلاول بھٹو کو یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انگریزی، فرانسیسی، جرمنی، چینی زبانیں ہوتی ہیں اور وہ اپنی ہی زبان میں بات کرکے فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کی شناخت ہے۔
اللہ اللہ کرکے محب وطن پاکستانیوں کی بدولت اردو کو اپنی کھوئی ہوئی پہچان واپس ملنے لگی ہے تو ان حالات میں شکر ادا کرنا چاہیے اور تحریک انصاف کی چند ہفتوں کی کارکردگی کو سراہنا چاہیے نہ کہ نوزائیدہ حکومت پر خوامخواہ تنقید کی جائے۔
اگر پاکستان سے محبت ہے تو ڈیم کی مد میں فنڈ جمع کرائیں، اپنی زمین جائیدادیں فروخت کریں تاکہ ملک عزیز میں کربلا کا نوحہ ہرگز نہ گونجے، پانی زندگی ہے، سابقہ حکومتوں نے قرض تو خوب لیا لیکن کام کی بات آتی ہے تو کار کردگی صفر ہے۔ سفارتی تعلقات اور خارجہ پالیسی بھی ذاتی مفادات کی ہی مرہون منت رہی۔ 22،23 کروڑ والی آبادی رکھنے والے ملک سے سنگین مذاق کیا گیا ہے ان کی انتھک محنت اور قربانی کے بدلے میں بھوک، پیاس اور موت تقسیم کی گئی۔
گزشتہ ادوار میں حکمرانوں کا امریکا سمیت دوسرے ممالک میں سیر و تفریح کی عرض ہے آنا جانا لگا رہا اپنے ہم منصبوں سے ملاقات بھی رہی لیکن انھیں پاکستان کی ایک مظلوم بیٹی اور بہن عافیہ صدیقی جسے86 سال کی سزا ملی کی رہائی کی بات کرنے کا موقع نہ ملا ۔ ناکردہ گناہوں کے بدلے میں جس کا کوئی جرم ثابت نہ ہوسکا۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔ امریکا کو اس کی قابلیت برداشت نہ ہوسکی کہ کہیں پاکستان عافیہ صدیقی جیسی ذہین شخصیات کے ذریعے کامیابیوں کی منازل طے کرنا شروع کردے۔ (الحمدﷲ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں) کسی نے اس کی رہائی کے لیے کوشش ہی نہیں کی ریمنڈ ڈیوس تین بے گناہ پاکستانیوں کو قتل کرکے بڑے اطمینان سے اپنے ملک لوٹ جاتا ہے اس پر سودے بازی ہوسکتی تھی لیکن اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ وہ اپنے ہم منصب وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے واشنگٹن میں ملاقات کریں گے اور پاکستان و افغانستان کی صورتحال کے ساتھ ساتھ عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے بھی بات کریں گے۔
اگر دشمنان پاکستان سازشیں نہ کریں تو ملک ترقی کی راہ پر چلنے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین 3 بڑی گرانٹس کے معاہدوں پر دستخط کر دیے گئے ہیں۔ گرانٹ کی فراہمی وزیراعظم عمران خان کے دورۂ سعودی عرب کا تسلسل ہے۔
بے شک اللہ کی نافرمانی بڑے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ سمجھ دار وہی ہوتے ہیں کہ بڑی مصیبت کے آنے سے قبل اپنا قبلہ درست کرلیتے ہیں اور نادان طوفان سے بے فکر ہوکر من مانی کرتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب وہ دریا برد ہوجاتے ہیں۔