چار درندوں نے دوست کی بہن کی زندگی برباد کردی
رشتہ سے انکارپر لڑکی پر تیزاب پھینک دیا‘ لڑکیوں کے ساتھ سفاکی کاازالہ کیسے ہو؟
رب دو جہاں نے یہ کائنات تخلیق کی تو خوبصورتی اور قرینہ اس کا اہم جز پایا، مادی چیزوں کے ساتھ ساتھ اسے سجایا تو اسے خوبصورت رشتوں کے ساتھ اس کی رونق میں اضافہ کیا، مگر افسوس! کے ساتھ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ کچھ شیطانی صفت رکھنے والے انسانی درندوں نے ان رشتوں کو بھی پامال کردیا ہے۔
سکھر شہر میں کچھ عرصہ قبل پیش آنے والے2 المناک واقعات نے سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پہلے واقعہ میں صالح پٹ تھانہ کی حدود میں ایک گھر کے باہر 13 سالہ معصوم بچی لال زادی کھیلنے میں مصروف تھی کہ اس دوران اس کے بھائی کے چار دوست وہاں پہنچ گئے، جن کی آمد لال کے لئے کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی، بلکہ اسے تو تحفظ کا ہی احساس ہو رہا تھا کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ یہ اس کے بھائی کے دوست ہیں اور اس کے لئے بھی بھائیوں جیسے ہیں، لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ یہ اس کے بھائی کے دوستوں کی شکل میں درندہ صفت، وحشی اور شیطان ہیں، جو 13 سالہ بچی کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے اغوا کر کے لے گئے اور قریبی جنگل میں لے جا کر اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔
معصوم بچی کی چیخ و پکار پر زمین پھٹی نہ آسمان گرا، تاہم اس کی چیخیں ان درندوں کی زیادتی میں دم توڑ گئیں، اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ انسانیت کا لبادہ اوڑھنے والے درندوں نے اپنی شیطانی کھیل کو تکمیل تک پہنچانے کے بعد بچی کو اٹھا کر اس کے گھر کے باہر پھینک دیا اور فرار ہوگئے۔ ہوش میں آنے کے بعد اس نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی روداد اپنے والد کو بتائی جس کے بعد اسے ایک چپ سی لگ گئی اور اس کی آنکھوں میں بسے خواب چکنا چور ہوگئے۔
دوستوں کی شکل میں درندوں کے اس وحشیانہ عمل نے دوستی جیسے رشتے کو بھی سوالیہ نشان بنادیا۔ دوست ایک مقدس رشتہ ہوتا ہے، جس کے لئے انسان اپنی جان اور مال کی بھی پرواہ نہیں کرتا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان دوستوں نے اپنے ہی دوست کی ایک 13 سالہ معصوم بہن کے ساتھ زیادتی کر کے دوستی جیسے مقدس رشتے کو پامال کردیا۔ اس واقعہ کی ایف آئی آر صالح پٹ تھانہ والد عبدالکریم کھوسو کی مدعیت میں ملزمان غلام سرور بگٹی، گل حسن بگٹی، نادر عمران شیخ کے خلاف درج کی گئی، جس کے بعد ایس ایس پی سکھر سید اسد رضا شاہ کی خصوصی ہدایت پر دو ملزمان غلام سرور بگٹی اور گل حسن بگٹی کو حراست میں لے لیا گیا جبکہ دو ملزمان نادر اور عمران شیخ تاحال فرار ہیں۔
ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں زیادتی کی تصدیق بھی کی گئی، علاقے میں اس واقعہ کے بعد ایک خوف طاری ہے اور مائوں نے اپنی بچیوں کو گھروں میں محصور کر لیا ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں متعدد بار معصوم بچوں اور خواتین کے تحفظ کے لیے قانون بنائے گئے مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی بناء پر آج بھی حوا کی بیٹی ہمارے معاشرے میں غیر محفوظ ہے۔ بچیوں کو کہیں ہوس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں ان پر جسمانی تشدد کے آئے روز واقعات پیش آ رہے ہیں۔
اسی طرح ایک دوسرے واقعہ نے ثابت کردیا کہ ہمارے معاشرے میں تحمل مزاجی، انکساری اور برداشت ختم ہوتی چلی جا رہی ہے، اور پھر جب خواتین کی ہو تو ہماری جھوٹی اناء پر سر اٹھا لیتی ہے۔ ایک خاتون اگر کسی رشتہ سے انکار کر دے تو گھر والوں کو یہ ان کی عزت خاک میں ملا دینے کے مترادف لگتا ہے، جس کا خمیازہ پھر اس خاتون کو بھگتنا پڑتا ہے اور گھر والے قانون کی گرفت کمزور ہونے کے باعث اسے ہر سزا دینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
نیوپنڈ کے علاقے میں چار وحشی صفت ملزموں نے ایک گھر میں گھس کر ایک 20 سالہ لڑکی کرن مہر ولد عبدالرزاق مہر کے اوپر تیزاب پھینک دیا، جس کے نتیجے میں اس کا چالیس فیصد جسم جھلس گیا۔ لڑکی کے والد عبدالرزاق مہر کی مدعیت میں نیوپنڈ تھانہ میں دو ملزمان میر حسن اور گل حسن مہر کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تو پولیس نے ان میں سے ایک ملزم میر حسن مہر کو تو فوری طور پر علاقہ سے ہی گرفتار کر لیا تاہم دوسرے ملزم کو کراچی سے حراست میں لیا گیا۔ تیزاب گردی کی وجہ سے پاکستان کے بیشتر علاقوں میں خواتین متاثر ہوئی اور ہو رہی ہیں، جس کے بعد وہ معاشرے سے کٹ کر ایک احساس کمتری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔
بڑے بڑے شہروں میں ہیومن رائٹس کی تنظیمیں ہوں یا خواتین کے تحفظ کیلئے بنائی گئی این جی اوز جو کروڑوں روپے کے فنڈز حاصل کرتی ہیں، مگر یہ سب معاشرے کے اس طبقے کو وہ توجہ نہیں دے رہیں جو ان کا حق ہے اور نتیجتاً یہ آئے روز مردوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ اور صورت حال یہاں تک خراب ہو چکی ہے کہ دیہی علاقوں میں تو خواتین کو انسان کا درجہ بھی نہیں دیا جا رہا، یہ خواتین صبح کی پہلی کرن کے ساتھ اٹھتی ہیں اور جانوروں کی طرح گھر کے کام کاج، کھیتوں میں جت جاتی ہیں اور رات دیر گئے تک کام کر کے انہیں معمولی سے وقت کے لئے آرام کا موقع ملتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں اپنی دشمنیاں نبھانے کے لیے بھی خواتین کو استعمال کیا جاتا ہے، جس میں سب سے بڑا الزام سیاہ کاری کا لگا کر انہیں کسی تیز دھار آلہ، کلہاڑی، بندوق سے قتل کر کے دشمن پر کاروکاری کا الزام لگا کر اسے بغیر کفن کے ایک گڑھا کھود کر دفنا دیا جاتا ہے۔
پولیس کی ناقص تفتیش اور ملزمان سے ساز باز کر کے کمزور مقدمات درج کیے جاتے ہیں، عدالت پہنچنے پر ان کمزور مقدمات کی وجہ سے اصل ملزموں کو بھی سزا نہیں ہو پاتی اور وہ ہنسی خوشی جیل سے چھوٹ جاتے ہیں۔ پولیس کا فرض عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوتا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں نے اس ذمہ داری کو شائد الوداع ہی کر دیا ہے، ان کا کام صرف بااثر لوگوں کے حکم بجا لانا ہی رہ گیا ہے۔
لال زادی سے زیادتی کرنے والے ملزمان اور تیزاب گردی کا شکار ہونے والی خاتون کے ملزمان گرفتار تو ہو چکے ہیں مگر لال زادی سے چھینا گیا اس کا بچپن کیسے واپس آئے گا؟ اور زندہ نعش بنی تیزاب گردی کا شکار خاتون کا مستقبل کیا ہے؟ یہ وہ چبھتے سوالات ہیں، جن سے ہمارا معاشرہ نظریں نہیں چرا سکتا، لیکن دیکھنا اب یہ ہے کہ کیا معصوم بچیوں کی بدعائوں کی قبولیت سے قبل ہم اپنا قبلہ درست کرتے ہیں یا پھر ہم کسی عذاب کے منتظر ہیں؟
سکھر شہر میں کچھ عرصہ قبل پیش آنے والے2 المناک واقعات نے سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پہلے واقعہ میں صالح پٹ تھانہ کی حدود میں ایک گھر کے باہر 13 سالہ معصوم بچی لال زادی کھیلنے میں مصروف تھی کہ اس دوران اس کے بھائی کے چار دوست وہاں پہنچ گئے، جن کی آمد لال کے لئے کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی، بلکہ اسے تو تحفظ کا ہی احساس ہو رہا تھا کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ یہ اس کے بھائی کے دوست ہیں اور اس کے لئے بھی بھائیوں جیسے ہیں، لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ یہ اس کے بھائی کے دوستوں کی شکل میں درندہ صفت، وحشی اور شیطان ہیں، جو 13 سالہ بچی کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے اغوا کر کے لے گئے اور قریبی جنگل میں لے جا کر اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا۔
معصوم بچی کی چیخ و پکار پر زمین پھٹی نہ آسمان گرا، تاہم اس کی چیخیں ان درندوں کی زیادتی میں دم توڑ گئیں، اور وہ بے ہوش ہوگئی۔ انسانیت کا لبادہ اوڑھنے والے درندوں نے اپنی شیطانی کھیل کو تکمیل تک پہنچانے کے بعد بچی کو اٹھا کر اس کے گھر کے باہر پھینک دیا اور فرار ہوگئے۔ ہوش میں آنے کے بعد اس نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی روداد اپنے والد کو بتائی جس کے بعد اسے ایک چپ سی لگ گئی اور اس کی آنکھوں میں بسے خواب چکنا چور ہوگئے۔
دوستوں کی شکل میں درندوں کے اس وحشیانہ عمل نے دوستی جیسے رشتے کو بھی سوالیہ نشان بنادیا۔ دوست ایک مقدس رشتہ ہوتا ہے، جس کے لئے انسان اپنی جان اور مال کی بھی پرواہ نہیں کرتا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان دوستوں نے اپنے ہی دوست کی ایک 13 سالہ معصوم بہن کے ساتھ زیادتی کر کے دوستی جیسے مقدس رشتے کو پامال کردیا۔ اس واقعہ کی ایف آئی آر صالح پٹ تھانہ والد عبدالکریم کھوسو کی مدعیت میں ملزمان غلام سرور بگٹی، گل حسن بگٹی، نادر عمران شیخ کے خلاف درج کی گئی، جس کے بعد ایس ایس پی سکھر سید اسد رضا شاہ کی خصوصی ہدایت پر دو ملزمان غلام سرور بگٹی اور گل حسن بگٹی کو حراست میں لے لیا گیا جبکہ دو ملزمان نادر اور عمران شیخ تاحال فرار ہیں۔
ابتدائی میڈیکل رپورٹ میں زیادتی کی تصدیق بھی کی گئی، علاقے میں اس واقعہ کے بعد ایک خوف طاری ہے اور مائوں نے اپنی بچیوں کو گھروں میں محصور کر لیا ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں متعدد بار معصوم بچوں اور خواتین کے تحفظ کے لیے قانون بنائے گئے مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی بناء پر آج بھی حوا کی بیٹی ہمارے معاشرے میں غیر محفوظ ہے۔ بچیوں کو کہیں ہوس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں ان پر جسمانی تشدد کے آئے روز واقعات پیش آ رہے ہیں۔
اسی طرح ایک دوسرے واقعہ نے ثابت کردیا کہ ہمارے معاشرے میں تحمل مزاجی، انکساری اور برداشت ختم ہوتی چلی جا رہی ہے، اور پھر جب خواتین کی ہو تو ہماری جھوٹی اناء پر سر اٹھا لیتی ہے۔ ایک خاتون اگر کسی رشتہ سے انکار کر دے تو گھر والوں کو یہ ان کی عزت خاک میں ملا دینے کے مترادف لگتا ہے، جس کا خمیازہ پھر اس خاتون کو بھگتنا پڑتا ہے اور گھر والے قانون کی گرفت کمزور ہونے کے باعث اسے ہر سزا دینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
نیوپنڈ کے علاقے میں چار وحشی صفت ملزموں نے ایک گھر میں گھس کر ایک 20 سالہ لڑکی کرن مہر ولد عبدالرزاق مہر کے اوپر تیزاب پھینک دیا، جس کے نتیجے میں اس کا چالیس فیصد جسم جھلس گیا۔ لڑکی کے والد عبدالرزاق مہر کی مدعیت میں نیوپنڈ تھانہ میں دو ملزمان میر حسن اور گل حسن مہر کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تو پولیس نے ان میں سے ایک ملزم میر حسن مہر کو تو فوری طور پر علاقہ سے ہی گرفتار کر لیا تاہم دوسرے ملزم کو کراچی سے حراست میں لیا گیا۔ تیزاب گردی کی وجہ سے پاکستان کے بیشتر علاقوں میں خواتین متاثر ہوئی اور ہو رہی ہیں، جس کے بعد وہ معاشرے سے کٹ کر ایک احساس کمتری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔
بڑے بڑے شہروں میں ہیومن رائٹس کی تنظیمیں ہوں یا خواتین کے تحفظ کیلئے بنائی گئی این جی اوز جو کروڑوں روپے کے فنڈز حاصل کرتی ہیں، مگر یہ سب معاشرے کے اس طبقے کو وہ توجہ نہیں دے رہیں جو ان کا حق ہے اور نتیجتاً یہ آئے روز مردوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ اور صورت حال یہاں تک خراب ہو چکی ہے کہ دیہی علاقوں میں تو خواتین کو انسان کا درجہ بھی نہیں دیا جا رہا، یہ خواتین صبح کی پہلی کرن کے ساتھ اٹھتی ہیں اور جانوروں کی طرح گھر کے کام کاج، کھیتوں میں جت جاتی ہیں اور رات دیر گئے تک کام کر کے انہیں معمولی سے وقت کے لئے آرام کا موقع ملتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں اپنی دشمنیاں نبھانے کے لیے بھی خواتین کو استعمال کیا جاتا ہے، جس میں سب سے بڑا الزام سیاہ کاری کا لگا کر انہیں کسی تیز دھار آلہ، کلہاڑی، بندوق سے قتل کر کے دشمن پر کاروکاری کا الزام لگا کر اسے بغیر کفن کے ایک گڑھا کھود کر دفنا دیا جاتا ہے۔
پولیس کی ناقص تفتیش اور ملزمان سے ساز باز کر کے کمزور مقدمات درج کیے جاتے ہیں، عدالت پہنچنے پر ان کمزور مقدمات کی وجہ سے اصل ملزموں کو بھی سزا نہیں ہو پاتی اور وہ ہنسی خوشی جیل سے چھوٹ جاتے ہیں۔ پولیس کا فرض عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوتا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں نے اس ذمہ داری کو شائد الوداع ہی کر دیا ہے، ان کا کام صرف بااثر لوگوں کے حکم بجا لانا ہی رہ گیا ہے۔
لال زادی سے زیادتی کرنے والے ملزمان اور تیزاب گردی کا شکار ہونے والی خاتون کے ملزمان گرفتار تو ہو چکے ہیں مگر لال زادی سے چھینا گیا اس کا بچپن کیسے واپس آئے گا؟ اور زندہ نعش بنی تیزاب گردی کا شکار خاتون کا مستقبل کیا ہے؟ یہ وہ چبھتے سوالات ہیں، جن سے ہمارا معاشرہ نظریں نہیں چرا سکتا، لیکن دیکھنا اب یہ ہے کہ کیا معصوم بچیوں کی بدعائوں کی قبولیت سے قبل ہم اپنا قبلہ درست کرتے ہیں یا پھر ہم کسی عذاب کے منتظر ہیں؟