بیرون ملک بیٹھے بھتہ خوروں نے شہریوں کی زندگی اجیرن کردی
لقمان عرف ہلاکو اورعاطو لاہوریا کو پاکستان لانے کی کوششیں تاحال ناکامی سے دوچار
گوجرانوالہ میں بھتہ وصولی کی لعنت روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے اور صورت حال یہ ہے کہ جو جرائم پیشہ افراد پہلے چھوٹے موٹے جرائم کرتے تھے، اب گھر بیٹھے تاوان کی مد میں لاکھوں روپے وصول کر رہے ہیں۔
ان دنوں گوجرانوالہ میں دو بھتہ خور گروپ بہت سرگرم ہیں، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں گروپوں کے سرغنہ بیرون ملک بیٹھ کر اپنے گروپ چلارہے، شہری انہیں نہ صرف لاکھوں روپے بھتہ دیتے ہیں بلکہ کئی تو اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں مگر پولیس دونوں گروپوں کے سرغنہ کو پکڑنے یاپھر انٹرپول کی مدد سے ملک واپس لاکر سزا دلوانے میں تاحال ناکام ہے۔
تھانہ سول لائن کے علاقہ کچی فتومنڈکا رہائشی لقمان عرف ہلاکوجس نے چھوٹے جھگڑوں کے بعد دوستوں کا ایک گروپ بنایا اور اسے ہلاکو گینگ کا نام دیا، پہلے تو یہ گروپ علاقہ کی حدتک خوف کی علامت بنا، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ گینگ ضلع بھر میں دہشت کی علامت بن گیا اور پھر اس گینگ نے بھتہ وصولی کا کام شروع کردیا۔
لقمان عرف ہلاکو بھتہ نہ دینے والوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کرتاتھا۔ ملزم کے خلاف اب تک مختلف تھانوں میں سنگین نوعیت کے 16 مقدمات ہیں، جن سے بچنے کے لیے لقمان عرف ہلاکو جولائی 2012ء میں دبئی فرار ہو گیا، لیکن بھتہ خوری کا سلسلہ باہر جا کر بھی بند نہ ہوا، اس نے اپنے گروپ کو مزید بڑا کیا اور وہاں پر بیٹھ کر انٹرنیٹ کے استعمال سے فون کال کرتا اور پھر اپنے ساتھیوں کی مدد سے شہریوں سے لاکھوں روپے وصول کرتا۔
ان دنوں بھی درجنوں افراد سے بھتہ وصولی کی جارہی ہے، جن میں تاجر برادری سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے، وہ پولیس کو درخواستیں دیتے ہیں، مگر تھانہ بھتہ وصولی کی درخواست پر کارروائی نہیں کرتا۔ لقمان عرف ہلاکوکے ساتھیوں میں اس کا حقیقی بھائی نعمان عرف نومی،لاہور کا عرفان شاہ،معظم موجواورابوذر عرف کاکابٹ پولیس مقابلے میں مارے جاچکے ہیں، 6 ملزم جیل میں ہیں جبکہ لقمان ہلاکو کے ساتھی شہزاد خان اور کاشف عرف پھیتی بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں۔ حکومت پنجاب نے لقمان عرف ہلاکوکے سرکی قیمت بھی 15 لاکھ روپے مقرر کر رکھی ہے۔
دوسراخطرناک گروپ عاطف زمان عرف عاطو لاہوریا ہے، یہ علی پورچٹھہ کا رہائشی ہے، اس نے بھی چھوٹی چوری سے پھر ڈکیتی اور پھر بھتہ وصولی کا کام شروع کیا۔ یہ پولیس کے گھیراتنگ کرنے پر لاہور فرارہوگیا اور پھر وہاں گرفتارہوا، جیل جانے کے بعد اس نے اپنا نام عاطو لاہوریا رکھ لیا اور گینگ بڑا کر لیا۔ ملزم کے خلاف گھیرا تنگ ہوا تو وہ بھی بیرون ملک فرار ہوگیااور وہاں بیٹھ کر اپنا گروپ چلانے لگا۔
عاطف ان دنوں 14 کیسز میں مطلوب ہے اور متعدد میں اشتہاری ہوچکا ہے عاطوگروپ کے پانچ ساتھی اسلم عرف چندو،خالد عرف خالدی،ماجد عرف ماجو،رضا اور اسامہ پولیس مقابلوں میں مارے چکے ہیں جبکہ اس کے پانچ ساتھی اس وقت سیالکوٹ،حافظ آباد اور گوجرانوالہ کی جیلوں میں ہیں اور ایک ساتھی طارق بیرون ملک فرار ہے۔
سابق سی پی او اشفاق احمد خان نے عاطف عرف عاطو لاہوریاکے مقدمات اورگروہ کی تفصیلات دیکھتے ہوئے کیس بنایا اور پھر ٹیم کے ہمراہ کیس کو انٹرپول کو دیا گیا کہ ہمارے لیے ملزم انتہائی ضروری ہے، اُن دنوں ملزم یونان میں مقیم تھا۔ انٹرپول نے اس پر کام کیا اور پھر کچھ ٹیمیں گوجرانوالہ سے بھی مدد کے لیے بیرون ملک گئیں۔ عاطف عرف عاطو لاہوریاان دنوں ہنگری میں گرفتارہے مگر پولیس کی طرف سے اسے پاکستان لانے اور یہاں پر قوانین کے مطابق سزائیں دلوانے کے لیے انتظامات کرتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔
موجودہ سی پی او ڈاکٹر معین مسعود کی طرف سے بھی دونوں گروپوں کے سربراہان کو ملک واپس لانے اور انٹرپول کی مدد سے پکڑنے کے حوالہ سے کئی بار مراسلے لکھے جاچکے ہیں مگر کوئی کامیابی نہ ملی ہے لیکن ان کے گروہوں کے ارکان مختلف طریقوں سے شہریوں سے بھتہ وصول کررہے ہیں جس میں کمی لانا اور ان کوپکڑنا پولیس کے لیے چیلنج بن گیا ہے۔
ان دنوں گوجرانوالہ میں دو بھتہ خور گروپ بہت سرگرم ہیں، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں گروپوں کے سرغنہ بیرون ملک بیٹھ کر اپنے گروپ چلارہے، شہری انہیں نہ صرف لاکھوں روپے بھتہ دیتے ہیں بلکہ کئی تو اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں مگر پولیس دونوں گروپوں کے سرغنہ کو پکڑنے یاپھر انٹرپول کی مدد سے ملک واپس لاکر سزا دلوانے میں تاحال ناکام ہے۔
تھانہ سول لائن کے علاقہ کچی فتومنڈکا رہائشی لقمان عرف ہلاکوجس نے چھوٹے جھگڑوں کے بعد دوستوں کا ایک گروپ بنایا اور اسے ہلاکو گینگ کا نام دیا، پہلے تو یہ گروپ علاقہ کی حدتک خوف کی علامت بنا، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ گینگ ضلع بھر میں دہشت کی علامت بن گیا اور پھر اس گینگ نے بھتہ وصولی کا کام شروع کردیا۔
لقمان عرف ہلاکو بھتہ نہ دینے والوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کرتاتھا۔ ملزم کے خلاف اب تک مختلف تھانوں میں سنگین نوعیت کے 16 مقدمات ہیں، جن سے بچنے کے لیے لقمان عرف ہلاکو جولائی 2012ء میں دبئی فرار ہو گیا، لیکن بھتہ خوری کا سلسلہ باہر جا کر بھی بند نہ ہوا، اس نے اپنے گروپ کو مزید بڑا کیا اور وہاں پر بیٹھ کر انٹرنیٹ کے استعمال سے فون کال کرتا اور پھر اپنے ساتھیوں کی مدد سے شہریوں سے لاکھوں روپے وصول کرتا۔
ان دنوں بھی درجنوں افراد سے بھتہ وصولی کی جارہی ہے، جن میں تاجر برادری سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے، وہ پولیس کو درخواستیں دیتے ہیں، مگر تھانہ بھتہ وصولی کی درخواست پر کارروائی نہیں کرتا۔ لقمان عرف ہلاکوکے ساتھیوں میں اس کا حقیقی بھائی نعمان عرف نومی،لاہور کا عرفان شاہ،معظم موجواورابوذر عرف کاکابٹ پولیس مقابلے میں مارے جاچکے ہیں، 6 ملزم جیل میں ہیں جبکہ لقمان ہلاکو کے ساتھی شہزاد خان اور کاشف عرف پھیتی بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں۔ حکومت پنجاب نے لقمان عرف ہلاکوکے سرکی قیمت بھی 15 لاکھ روپے مقرر کر رکھی ہے۔
دوسراخطرناک گروپ عاطف زمان عرف عاطو لاہوریا ہے، یہ علی پورچٹھہ کا رہائشی ہے، اس نے بھی چھوٹی چوری سے پھر ڈکیتی اور پھر بھتہ وصولی کا کام شروع کیا۔ یہ پولیس کے گھیراتنگ کرنے پر لاہور فرارہوگیا اور پھر وہاں گرفتارہوا، جیل جانے کے بعد اس نے اپنا نام عاطو لاہوریا رکھ لیا اور گینگ بڑا کر لیا۔ ملزم کے خلاف گھیرا تنگ ہوا تو وہ بھی بیرون ملک فرار ہوگیااور وہاں بیٹھ کر اپنا گروپ چلانے لگا۔
عاطف ان دنوں 14 کیسز میں مطلوب ہے اور متعدد میں اشتہاری ہوچکا ہے عاطوگروپ کے پانچ ساتھی اسلم عرف چندو،خالد عرف خالدی،ماجد عرف ماجو،رضا اور اسامہ پولیس مقابلوں میں مارے چکے ہیں جبکہ اس کے پانچ ساتھی اس وقت سیالکوٹ،حافظ آباد اور گوجرانوالہ کی جیلوں میں ہیں اور ایک ساتھی طارق بیرون ملک فرار ہے۔
سابق سی پی او اشفاق احمد خان نے عاطف عرف عاطو لاہوریاکے مقدمات اورگروہ کی تفصیلات دیکھتے ہوئے کیس بنایا اور پھر ٹیم کے ہمراہ کیس کو انٹرپول کو دیا گیا کہ ہمارے لیے ملزم انتہائی ضروری ہے، اُن دنوں ملزم یونان میں مقیم تھا۔ انٹرپول نے اس پر کام کیا اور پھر کچھ ٹیمیں گوجرانوالہ سے بھی مدد کے لیے بیرون ملک گئیں۔ عاطف عرف عاطو لاہوریاان دنوں ہنگری میں گرفتارہے مگر پولیس کی طرف سے اسے پاکستان لانے اور یہاں پر قوانین کے مطابق سزائیں دلوانے کے لیے انتظامات کرتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔
موجودہ سی پی او ڈاکٹر معین مسعود کی طرف سے بھی دونوں گروپوں کے سربراہان کو ملک واپس لانے اور انٹرپول کی مدد سے پکڑنے کے حوالہ سے کئی بار مراسلے لکھے جاچکے ہیں مگر کوئی کامیابی نہ ملی ہے لیکن ان کے گروہوں کے ارکان مختلف طریقوں سے شہریوں سے بھتہ وصول کررہے ہیں جس میں کمی لانا اور ان کوپکڑنا پولیس کے لیے چیلنج بن گیا ہے۔