’’ہم ہر وقت پُل صراط پر چل رہے ہوتے ہیں‘‘
لوگ الزامات لگاتے ہیں، مارپیٹ کرتے ہیں، راستہ نہیں دیتے.
شب کا پہلا پہر ماضی بننے کے لیے آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔
افسردہ اور غم ناک سیاہ رات، شارع فیصل جیسی پُررونق اور مصروف سڑک اور اس پر اتنا سناٹا، انسان انسان سے خوف زدہ، خلق خدا بے آسرا و بے امان ، بے یار و مددگار، اکا دکا گاڑیاں ، سروس روڈ پر گھومتے آوارہ کتے، بند بینکوں اور دیگر تجارتی اداروں کے دفاتر کے سامنے سر جھکائے ،سہمے ہوئے، ٹوٹی پھوٹی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے پہرے دار، میں سروس روڈ پر آتے ہوئے کرائون پلازہ کے موڑ سے جیسے ہی مڑا، اک ایمبولینس مریضوں اور زخمیوں کے لیے امید بنی تیار کھڑی تھی۔ اس میں بیٹھے دو آدمی باتیں کر رہے تھے۔ میں نے سلام کیا تو وہ پریشان ہوکر بولے جی صاحب! کو ئی مسئلہ ہے کہاں چلیں، میں مسکرایا تو وہ مطمئن ہوئے۔ آپ کو اس وقت دیکھا تو جی چاہا کہ آپ سے گپ شپ کرلوں، یہ سن کر وہ ہنسے اور کہنے لگے ہم سے کیا گپ شپ، پھر با تیں ہوئیں، دل کی باتیں، دکھ اور درد کی سوغاتیں، زمانے کی گھاتیں۔ چلیے آپ بھی سن لیجیے اگر آپ کے پاس اتنی فرصت ہے تو۔
یہ بھی انسان ہیں اور کتنا عظیم کام کر رہے ہیں، جہاں ہر طرف موت کے ہر کارے موت بانٹتے پھر رہے ہیں، یہ ایسے میں زندگی تقسیم کر رہے ہیں۔ وہ انسانوں کو موت کے وحشی جبڑوں سے چھین کر دوبارہ جیون کا تحفہ دینے کا کار عظیم کر رہے ہیں اور صلے میں انہیں کیا ملتا ہے ۔ جی گالیاں، الزامات، بہتان، اور مار پیٹ۔ کسی دانا نے سچ کہا ہے، جس کے پاس جو ہو وہی تو وہ دیتا ہے ۔ کسی کے پاس دعائیں ہیں، کسی کے پاس گالیاں، کسی کے پاس زہر ہے اور کوئی تریاق بانٹتا پھرتا ہے۔ رنگا رنگ مخلوق ہے خدا کی، اس کی دنیا عجیب ہے نہ سمجھ آنے والی۔ چلیے آپ ان سے ملیے، انہیں اپنے ادارے کی جانب سے کسی سے بات کرنے اور تصویر دینے کی ممانعت ہے، اس لیے انھوں نے تصویر بنوانے سے انکار کردیا۔ میں رخصت ہوا۔ اب آپ ایمبولینس ڈرائیور عبدالرحیم کی زبانی اس کی کتھا سنیے:
میرا نام عبدالرحیم ہے۔ میں قائد آباد میں رہتا ہوں ۔ پہلے میں ایک ٹیکسٹائل مل میں ڈرائیور تھا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا، ایک دن ہمارے منیجر نے مجھے بلایا اور کہا تم آج سے لوڈر کا کام کرو گے اور ڈرائیور ہم نے رکھ لیا ہے۔ میں نے پوچھا کیوں، تو انہوں نے کہا میں منیجر ہوں جو چا ہے کر سکتا ہوں۔ میں نے انکار کر دیا اس لیے کہ میں اپنا کام بہت ذمہ داری سے کرتا ہوں۔ خیر میں نے وہ ملا ز مت چھوڑدی بعد میں معلوم ہوا کہ منیجر کا کوئی رشتے دار تھا اسے رکھنے کے لیے مجھے فا ر غ کردیا گیا۔ بس یہی ہے جی دنیا۔ یہاں کام ملنا آسان نہیں رہا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کام مل جائے، لیکن نہیں ملا، پہلے تو اپنے دوستوں سے قرض لیتا رہا، اب یار دوست بھی کوئی ساہوکار تو تھے نہیں مجھ جیسے ہی ہیں، مجھے کب تک دیتے وہ خود غریب مر مر کے گزارا کرتے ہیں، لیکن بہت سا تھ دیا میرا دوستوں نے ۔
پھر ایک دن میرے دوست نے بتا یا کہ ایک رفا حی ادارے میں ایمبولینس ڈرائیور کی ضرورت ہے، اندھا کیا چا ہے دو آنکھیں، میں فوراً راضی ہو گیا، پھر ہو ا یہ کہ میں نے اپنے ایک اور دوست سے تذکرہ کیا تو وہ برہم ہوگیا اور کہنے لگا اگر خود کشی کرنا ہے تو زہر کھا لے، میں کچھ سمجھا ہی نہیں، میں نے پو چھا کہ تم ایسا کیو ں کہ رہے ہو تو اس نے بتایا کہ حالات اتنے خراب ہیں ہر طرف مارا ماری ہے۔ جب دیکھو ہنگامے ہو تے رہتے ہیں، گولیاں چلتی رہتی ہیں، لوگ ما رے جاتے ہیں اور تو چلا ہے ایمبولینس چلانے۔ سچ پو چھیں تو میں نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔ آخر میں سوچ میں پڑ گیا کہ واقعی یہ تو بہت خطر ناک کام ہے۔ یہی سوچتا ہوا میں اپنے اس دوست کے پاس گیا اور اسے یہ سب کچھ بتایا۔ وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا کہ دیکھو! تمہارے سا رے خدشات سوفی صد صحیح ہیں، لیکن دیکھو موت کا تو ایک دن مقر ر ہے ناں، جو رات قبر میں آنی ہے وہ تو آنی ہے دنیا کی کو ئی طاقت بھی نہیں روک سکتی ناں، تو بس جب موت سے کو ئی نہیں بچ سکتا تو پھر کیسا ڈر۔
اور جب تک ہماری زندگی ہے ہمیں کو ئی نہیں مارسکتا، اس لیے کہ مو ت زند گی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ اور پھر ایک اور بات اس نے کہی کہ رزق حلال عین عبادت ہے اب جب تم رزق حلال کے لیے نکلو گے تو اﷲ بہت خوش ہوگا اور پھر سب سے بڑی بات جو اس نے کہی وہ یہ کہ اؒﷲ نے کہا ہے جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی تو تم اگر ایک بھی انسان کی جان بچا ئو گے تو سا ری انسانیت کی جان بچائو گے۔ یہ تو بہت عظیم کام ہے کام کا کام اور نیکی کی نیکی، لوگو ں کی دعائیں مفت میں۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ تو بس مجھے یہ ساری باتیں بہت اچھی لگیں، اور بات تو صحیح بھی تھی ناں، تو بس میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں ایمبولینس ڈرائیور بنوں گا۔ میرے چار بچے ہیں، دو بیٹے دو بیٹیاں، جب میں نے اپنی بیوی کو بتایا کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے تو وہ بھی میرے سر ہو گئی کہ یہ کام نہیں کرو، لیکن میں نے اسے ڈانٹ دیا کہ اپنے کام سے کام رکھو ۔ دوسرے دن میں اس رفاحی ادارے پہنچا۔ انہوں نے میرا لائسنس دیکھا کچھ سوالات کیے اور کام سمجھایا۔
لیکن جب میں نے تن خواہ پو چھی تو میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی آپ سننا چا ہتے ہیں تو سنیے، تن خواہ تھی 3500 ، میں تو بے ہوش ہوتے ہوتے بچا، پہلے تو میں سمجھا مذاق کر رہے ہوں گے، لیکن انہیں سنجیدہ دیکھ کر میں نے کہا یہ تو بہت کم ہے، تو انہوں نے کہا کہ تن خواہ تو اتنی ہی ہوگی لیکن تمہیں ہر ٹرپ پر کمیشن ملے گا۔ تو اس طرح تقریباً 9000 تک ہوجائے گی، میں نے سوچا چلو غنیمت ہے، لیکن مشکلات تو آگے آئیں، لیکن میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں اب جو کچھ ہوجائے یہ کام کر کے رہوں گا۔ اب آپ پو چھ رہے ہیں کہ مشکلات کیا تھیں، او بھائی! میرے آسانیاں کچھ نہیں ساری مشکلیں ہی مشکلیں۔ ہماری ڈیوٹی 36 گھنٹے کی ہوتی ہے اور اس کے بعد 12 گھنٹے کا آرام ، میں جس ایمبولینس پر ہوں وہ پیٹرول پر ہے، مجھے 22 کلو میٹر کے ایک لیٹر کے حساب سے پیٹرول ملتا ہے۔ اب راستے میں اگر ٹریفک جام ہو اور وہ تو اکثر ہوتا ہے تو پیٹرول زیادہ خرچ ہوتا ہے تو اس دن مجھے اپنی جیب سے وہ کمی پوری کرنی پڑتی ہے۔
اب آگے سنیے اگر گاڑی پنکچر ہو جائے تو پنکچر مجھے لگانا پڑتا ہے، اگر خدا نہ خواستہ گا ڑ ی کہیں لگ جائے تو وہ نقصان بھی میرے کھاتے میں آئے گا۔ بس یہ حال ہے ہمارا اور جو کام ہم کر رہے ہیں اس میں ہر پل جان کا خطرہ ہے۔ یوں سمجھیں ایمبولینس میں نہیں چلتی پھرتی موت میں بیٹھا ہوں یار۔ ہر وقت وائرلیس پر کان لگائے ہوئے، ہر وقت ایک سے ایک بری خبر، ہمیں جیسے ہی اطلاع ملتی ہے ہم ہوٹر آن کرکے نکل جاتے ہیں۔ کسی مریض کو لینا ہوتا ہے۔ کسی کو دل کا دورہ پڑجاتا ہے تو بر وقت اسپتال لے کر جانا پڑتا ہے۔ ہر وقت پل صراط پر چل رہے ہوتے ہیں، اب آپ دیکھیں شہر میں ہر جگہ بم پھٹتے رہتے ہیں گولیاں چلتی رہتی ہیں، سب سے پہلے ہمیں ہی پہنچنا پڑتا ہے۔ آپ میڈیا اور پولیس والے تو بہت بعد میں پہنچتے ہیں وہ بھی بلٹ پروف جیکٹ پہن کے، ہم تو گولیوں کی بوچھار میں کھڑے ہوکر انسانوں کو بچاتے ہیں۔ لیکن لوگوں کا رویہ انتہا ئی برا ہوتا ہے۔ سب کا نہیں لیکن زیادہ تر لو گو ں کا۔ ایک تو راستہ نہیں دیتے، مار پیٹ کرتے ہیں، الزامات لگاتے ہیں۔
آپ پوچھ رہے ہیں کیا الزامات، تو بھا ئی میرے! کون سا ایسا الزام ہے جو ہم پر نہیں لگتا۔ جیسے کہتے ہیں کہ ہم، اگر کو ئی زخمی ہو جائے تو اس کے پیسے، گھڑی ، موبائل فون چرا لیتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں بلوچ کالونی پر ایک بندے کو کوئی کاروالا ٹکر مارتا ہوا بھاگ گیا۔ ہم فوراً وہاں پہنچے اور اسے اسپتال لے گئے۔ میں نے اس کے جیب کی تلاشی لی اور وہ ہم اس لیے لیتے ہیں کہ کو ئی کارڈ مل جائے، تو اس کے گھر والوں کو اطلاع کردیں، تو اس کی جیب سے مجھے 40300 روپے ملے۔ میں نے وہ پیسے وہاں جو ڈاکٹر صاحب تھے انہیں دے کر رسید لے لی۔ پھر ان کے گھر والوں کو اطلاع کی ۔ وہ صاحب کہیں قریب ہی رہتے تھے، تو ان صاحب کا بیٹا اسپتال پہنچ گیا۔ وہ ڈاکٹر سے ملا۔ ڈاکٹر صا حب نے اسے 20000 روپے دے دیے۔ اتفاق سے اس نے میرے سامنے ڈاکٹر صا حب کی بہت تعریف کی کہ انہوں نے پیسے واپس کیے ہیں۔ میں نے معلوم کیا کتنے پیسے واپس لیے ڈاکٹر نے تو اس نے بتایا 20000 مجھے بہت حیرت ہوئی اور میں اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہا کہ میں نے تو آپ کو 40300 دیے تھے۔
وہ شرمندہ ہوا اور اسے پورے پیسے واپس کیے، کہنے کا مقصد یہ کہ لالچ میں تو کو ئی بھی آسکتا ہے۔ پچھلے دنوں میں اورنگی ٹاؤن کے علاقے کٹی پہاڑی گیا۔ ہمیں اطلاع ملی تھی کہ کچھ لوگ زخمی ہیں۔ جب میں وہاں پہنچ کر اونچائی پر جا رہا تو گولیاں برسنے لگیں ، میں نے بریک لگائی ہم دو لوگ ہوتے ہیں ایک ڈرائیور اور ایک رضاکار تو چار گولیاں آکر لگیں، ونڈ اسکرین ٹوٹ گیا تھا۔ بس اﷲ نے بچایا ہمیں۔ تھوڑی دیر میں رکا رہا پھر آگے گیا اور وہاں سے دو زخمیوں کو لے کر اسپتال پہنچا۔ یہ تو روز کا معمول ہے ہمارا۔
ہمارے کئی رضاکار اور ڈرائیور شہید ہوئے کئی معذور ہوگئے ہیں اور اب کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کئی کو تو میں بھیک مانگتے دیکھا ہے۔ کئی یہاں پر جو سڑک کے کنارے کھانے کے دستر خوان ہیں، وہاں سے کھانا لیتے ہیں۔ کو ئی پرسان حال نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو ایسے لوگوں کی بے انتہا عزت ہونی چاہیے، لیکن یہاں انسان کی نہیں دولت کی، تعلقات کی قدر ہے۔ جب تک آپ میں دم ہے، سب آپ کے ہیں، اگر آپ گر گئے تو کوئی اٹھانے والا نہیں ہے۔
پچھلے دنوں میں اک کال پر پارکنگ پلازہ سے گزر رہا تھا۔ وہاں تو ویسے بھی بہت رش ہوتا ہے تو ایک صاحب راستہ روکے کھڑے تھے میں ان سے راستہ دینے کا کہا تو وہ صاحب کار سے ا تر آئے اور آتے ہی مجھے مارنے لگے۔ گالیاں بھی دیں اور کہنے لگے کہ خالی ایمبولینس لے کر جا رہے ہو اور شور مچا رہے ہو۔ میں نے کہا یہاں پیچھے فائرنگ ہوئی ہے، کوئی زخمی ہو گیا ہے، مجھے فوری پہنچنا ہے۔ انہوں نے اور گالیاں دیں اور کہنے لگے میں بھی یہیں قریب رہتا ہوں کچھ نہیں ہوا، تم بکواس کر رہے ہو۔ خیر صاحب! لوگوں نے بیچ بچائو کرایا۔ میں وہاں پہنچا تو ایک نوجوان لڑکا زخمی تھا، میں نے اسے گا ڑی میں ڈالا اور تیزی سے اسپتال پہنچا۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو وہ صاحب جو مجھے گالیاں دے رہے تھے، مار پیٹ رہے تھے روتے ہو ئے داخل ہوئے وہ ز خمی نو جوان ان کا بھائی تھا۔ انہوں نے مجھ سے بہت معذرت کی ۔ زندگی کا تو کچھ معلوم نہیں ہے نا تو بس انسان کو دوسرے انسان کو رعایت دینی چا ہیے۔ دوسرے کو بھی انسان سمجھنا چا ہیے۔
اس کام میں بہت مشکلات ہیں، خطرات ہیں، لیکن اس میں اپنا ایک مزا بھی ہے۔ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دوسرے کی جان بچانا اﷲ کی خوش نودی حاصل کرنے کا راستہ ہے۔ اب دنیا تو جیسے تیسے گزر ہی جائے گی آخرت میں تو یہی کام آئے گا۔ پہلے گھر والے بہت پریشان ہوتے تھے اب تو وہ بھی عادی ہوگئے ہیں۔ اب تو یہ کام میرا جنون بن گیا ہے۔ میں خوش ہوں کہ اس دور میں جہاں انسان دوسرے انسان کو مار رہا ہے، میں زندگی بچانے میں لگا ہوا ہوں۔ مجھے ایک دفعہ اک بندے نے بہت اچھی بات سنائی تھی۔ ایک شخص دریا کے کنارے جا رہا تھا، اس نے دیکھا کہ ایک بچھو ڈوب رہا ہے۔ اس نے آس پاس دیکھا تو کوئی چیز نہیں ملی، جس سے وہ بچھو کی جان بچاتا۔ اس نے اپنے ہاتھ سے اسے نکالنے کی کو شش کی تو اس بچھو نے اسے ڈس لیا۔ اس نے بہت مرتبہ اسے بچانے کی تدبیر کی، لیکن وہ اسے ہر بار ڈس لیتا تھا۔ آخر اس نے بچھو کو باہر نکال کر بچا ہی لیا۔ ایک شخص جو یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا کہنے لگا، تمہیں کیا ضرورت تھی اسے بچانے کی ڈوبنے دیتے اسے۔ اس نے کہا کہ سو چا تو یہی تھا مگر اس بچھو نے مجھے مجبور کردیا اور میں نے سوچا کہ یہ اپنی گندی عادت سے باز نہیں آرہا تو میں اپنی اچھی عادت سے کیسے با ز آجائوں۔
افسردہ اور غم ناک سیاہ رات، شارع فیصل جیسی پُررونق اور مصروف سڑک اور اس پر اتنا سناٹا، انسان انسان سے خوف زدہ، خلق خدا بے آسرا و بے امان ، بے یار و مددگار، اکا دکا گاڑیاں ، سروس روڈ پر گھومتے آوارہ کتے، بند بینکوں اور دیگر تجارتی اداروں کے دفاتر کے سامنے سر جھکائے ،سہمے ہوئے، ٹوٹی پھوٹی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے پہرے دار، میں سروس روڈ پر آتے ہوئے کرائون پلازہ کے موڑ سے جیسے ہی مڑا، اک ایمبولینس مریضوں اور زخمیوں کے لیے امید بنی تیار کھڑی تھی۔ اس میں بیٹھے دو آدمی باتیں کر رہے تھے۔ میں نے سلام کیا تو وہ پریشان ہوکر بولے جی صاحب! کو ئی مسئلہ ہے کہاں چلیں، میں مسکرایا تو وہ مطمئن ہوئے۔ آپ کو اس وقت دیکھا تو جی چاہا کہ آپ سے گپ شپ کرلوں، یہ سن کر وہ ہنسے اور کہنے لگے ہم سے کیا گپ شپ، پھر با تیں ہوئیں، دل کی باتیں، دکھ اور درد کی سوغاتیں، زمانے کی گھاتیں۔ چلیے آپ بھی سن لیجیے اگر آپ کے پاس اتنی فرصت ہے تو۔
یہ بھی انسان ہیں اور کتنا عظیم کام کر رہے ہیں، جہاں ہر طرف موت کے ہر کارے موت بانٹتے پھر رہے ہیں، یہ ایسے میں زندگی تقسیم کر رہے ہیں۔ وہ انسانوں کو موت کے وحشی جبڑوں سے چھین کر دوبارہ جیون کا تحفہ دینے کا کار عظیم کر رہے ہیں اور صلے میں انہیں کیا ملتا ہے ۔ جی گالیاں، الزامات، بہتان، اور مار پیٹ۔ کسی دانا نے سچ کہا ہے، جس کے پاس جو ہو وہی تو وہ دیتا ہے ۔ کسی کے پاس دعائیں ہیں، کسی کے پاس گالیاں، کسی کے پاس زہر ہے اور کوئی تریاق بانٹتا پھرتا ہے۔ رنگا رنگ مخلوق ہے خدا کی، اس کی دنیا عجیب ہے نہ سمجھ آنے والی۔ چلیے آپ ان سے ملیے، انہیں اپنے ادارے کی جانب سے کسی سے بات کرنے اور تصویر دینے کی ممانعت ہے، اس لیے انھوں نے تصویر بنوانے سے انکار کردیا۔ میں رخصت ہوا۔ اب آپ ایمبولینس ڈرائیور عبدالرحیم کی زبانی اس کی کتھا سنیے:
میرا نام عبدالرحیم ہے۔ میں قائد آباد میں رہتا ہوں ۔ پہلے میں ایک ٹیکسٹائل مل میں ڈرائیور تھا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا، ایک دن ہمارے منیجر نے مجھے بلایا اور کہا تم آج سے لوڈر کا کام کرو گے اور ڈرائیور ہم نے رکھ لیا ہے۔ میں نے پوچھا کیوں، تو انہوں نے کہا میں منیجر ہوں جو چا ہے کر سکتا ہوں۔ میں نے انکار کر دیا اس لیے کہ میں اپنا کام بہت ذمہ داری سے کرتا ہوں۔ خیر میں نے وہ ملا ز مت چھوڑدی بعد میں معلوم ہوا کہ منیجر کا کوئی رشتے دار تھا اسے رکھنے کے لیے مجھے فا ر غ کردیا گیا۔ بس یہی ہے جی دنیا۔ یہاں کام ملنا آسان نہیں رہا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کام مل جائے، لیکن نہیں ملا، پہلے تو اپنے دوستوں سے قرض لیتا رہا، اب یار دوست بھی کوئی ساہوکار تو تھے نہیں مجھ جیسے ہی ہیں، مجھے کب تک دیتے وہ خود غریب مر مر کے گزارا کرتے ہیں، لیکن بہت سا تھ دیا میرا دوستوں نے ۔
پھر ایک دن میرے دوست نے بتا یا کہ ایک رفا حی ادارے میں ایمبولینس ڈرائیور کی ضرورت ہے، اندھا کیا چا ہے دو آنکھیں، میں فوراً راضی ہو گیا، پھر ہو ا یہ کہ میں نے اپنے ایک اور دوست سے تذکرہ کیا تو وہ برہم ہوگیا اور کہنے لگا اگر خود کشی کرنا ہے تو زہر کھا لے، میں کچھ سمجھا ہی نہیں، میں نے پو چھا کہ تم ایسا کیو ں کہ رہے ہو تو اس نے بتایا کہ حالات اتنے خراب ہیں ہر طرف مارا ماری ہے۔ جب دیکھو ہنگامے ہو تے رہتے ہیں، گولیاں چلتی رہتی ہیں، لوگ ما رے جاتے ہیں اور تو چلا ہے ایمبولینس چلانے۔ سچ پو چھیں تو میں نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔ آخر میں سوچ میں پڑ گیا کہ واقعی یہ تو بہت خطر ناک کام ہے۔ یہی سوچتا ہوا میں اپنے اس دوست کے پاس گیا اور اسے یہ سب کچھ بتایا۔ وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا کہ دیکھو! تمہارے سا رے خدشات سوفی صد صحیح ہیں، لیکن دیکھو موت کا تو ایک دن مقر ر ہے ناں، جو رات قبر میں آنی ہے وہ تو آنی ہے دنیا کی کو ئی طاقت بھی نہیں روک سکتی ناں، تو بس جب موت سے کو ئی نہیں بچ سکتا تو پھر کیسا ڈر۔
اور جب تک ہماری زندگی ہے ہمیں کو ئی نہیں مارسکتا، اس لیے کہ مو ت زند گی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ اور پھر ایک اور بات اس نے کہی کہ رزق حلال عین عبادت ہے اب جب تم رزق حلال کے لیے نکلو گے تو اﷲ بہت خوش ہوگا اور پھر سب سے بڑی بات جو اس نے کہی وہ یہ کہ اؒﷲ نے کہا ہے جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی تو تم اگر ایک بھی انسان کی جان بچا ئو گے تو سا ری انسانیت کی جان بچائو گے۔ یہ تو بہت عظیم کام ہے کام کا کام اور نیکی کی نیکی، لوگو ں کی دعائیں مفت میں۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ تو بس مجھے یہ ساری باتیں بہت اچھی لگیں، اور بات تو صحیح بھی تھی ناں، تو بس میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں ایمبولینس ڈرائیور بنوں گا۔ میرے چار بچے ہیں، دو بیٹے دو بیٹیاں، جب میں نے اپنی بیوی کو بتایا کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے تو وہ بھی میرے سر ہو گئی کہ یہ کام نہیں کرو، لیکن میں نے اسے ڈانٹ دیا کہ اپنے کام سے کام رکھو ۔ دوسرے دن میں اس رفاحی ادارے پہنچا۔ انہوں نے میرا لائسنس دیکھا کچھ سوالات کیے اور کام سمجھایا۔
لیکن جب میں نے تن خواہ پو چھی تو میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی آپ سننا چا ہتے ہیں تو سنیے، تن خواہ تھی 3500 ، میں تو بے ہوش ہوتے ہوتے بچا، پہلے تو میں سمجھا مذاق کر رہے ہوں گے، لیکن انہیں سنجیدہ دیکھ کر میں نے کہا یہ تو بہت کم ہے، تو انہوں نے کہا کہ تن خواہ تو اتنی ہی ہوگی لیکن تمہیں ہر ٹرپ پر کمیشن ملے گا۔ تو اس طرح تقریباً 9000 تک ہوجائے گی، میں نے سوچا چلو غنیمت ہے، لیکن مشکلات تو آگے آئیں، لیکن میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں اب جو کچھ ہوجائے یہ کام کر کے رہوں گا۔ اب آپ پو چھ رہے ہیں کہ مشکلات کیا تھیں، او بھائی! میرے آسانیاں کچھ نہیں ساری مشکلیں ہی مشکلیں۔ ہماری ڈیوٹی 36 گھنٹے کی ہوتی ہے اور اس کے بعد 12 گھنٹے کا آرام ، میں جس ایمبولینس پر ہوں وہ پیٹرول پر ہے، مجھے 22 کلو میٹر کے ایک لیٹر کے حساب سے پیٹرول ملتا ہے۔ اب راستے میں اگر ٹریفک جام ہو اور وہ تو اکثر ہوتا ہے تو پیٹرول زیادہ خرچ ہوتا ہے تو اس دن مجھے اپنی جیب سے وہ کمی پوری کرنی پڑتی ہے۔
اب آگے سنیے اگر گاڑی پنکچر ہو جائے تو پنکچر مجھے لگانا پڑتا ہے، اگر خدا نہ خواستہ گا ڑ ی کہیں لگ جائے تو وہ نقصان بھی میرے کھاتے میں آئے گا۔ بس یہ حال ہے ہمارا اور جو کام ہم کر رہے ہیں اس میں ہر پل جان کا خطرہ ہے۔ یوں سمجھیں ایمبولینس میں نہیں چلتی پھرتی موت میں بیٹھا ہوں یار۔ ہر وقت وائرلیس پر کان لگائے ہوئے، ہر وقت ایک سے ایک بری خبر، ہمیں جیسے ہی اطلاع ملتی ہے ہم ہوٹر آن کرکے نکل جاتے ہیں۔ کسی مریض کو لینا ہوتا ہے۔ کسی کو دل کا دورہ پڑجاتا ہے تو بر وقت اسپتال لے کر جانا پڑتا ہے۔ ہر وقت پل صراط پر چل رہے ہوتے ہیں، اب آپ دیکھیں شہر میں ہر جگہ بم پھٹتے رہتے ہیں گولیاں چلتی رہتی ہیں، سب سے پہلے ہمیں ہی پہنچنا پڑتا ہے۔ آپ میڈیا اور پولیس والے تو بہت بعد میں پہنچتے ہیں وہ بھی بلٹ پروف جیکٹ پہن کے، ہم تو گولیوں کی بوچھار میں کھڑے ہوکر انسانوں کو بچاتے ہیں۔ لیکن لوگوں کا رویہ انتہا ئی برا ہوتا ہے۔ سب کا نہیں لیکن زیادہ تر لو گو ں کا۔ ایک تو راستہ نہیں دیتے، مار پیٹ کرتے ہیں، الزامات لگاتے ہیں۔
آپ پوچھ رہے ہیں کیا الزامات، تو بھا ئی میرے! کون سا ایسا الزام ہے جو ہم پر نہیں لگتا۔ جیسے کہتے ہیں کہ ہم، اگر کو ئی زخمی ہو جائے تو اس کے پیسے، گھڑی ، موبائل فون چرا لیتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں بلوچ کالونی پر ایک بندے کو کوئی کاروالا ٹکر مارتا ہوا بھاگ گیا۔ ہم فوراً وہاں پہنچے اور اسے اسپتال لے گئے۔ میں نے اس کے جیب کی تلاشی لی اور وہ ہم اس لیے لیتے ہیں کہ کو ئی کارڈ مل جائے، تو اس کے گھر والوں کو اطلاع کردیں، تو اس کی جیب سے مجھے 40300 روپے ملے۔ میں نے وہ پیسے وہاں جو ڈاکٹر صاحب تھے انہیں دے کر رسید لے لی۔ پھر ان کے گھر والوں کو اطلاع کی ۔ وہ صاحب کہیں قریب ہی رہتے تھے، تو ان صاحب کا بیٹا اسپتال پہنچ گیا۔ وہ ڈاکٹر سے ملا۔ ڈاکٹر صا حب نے اسے 20000 روپے دے دیے۔ اتفاق سے اس نے میرے سامنے ڈاکٹر صا حب کی بہت تعریف کی کہ انہوں نے پیسے واپس کیے ہیں۔ میں نے معلوم کیا کتنے پیسے واپس لیے ڈاکٹر نے تو اس نے بتایا 20000 مجھے بہت حیرت ہوئی اور میں اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہا کہ میں نے تو آپ کو 40300 دیے تھے۔
وہ شرمندہ ہوا اور اسے پورے پیسے واپس کیے، کہنے کا مقصد یہ کہ لالچ میں تو کو ئی بھی آسکتا ہے۔ پچھلے دنوں میں اورنگی ٹاؤن کے علاقے کٹی پہاڑی گیا۔ ہمیں اطلاع ملی تھی کہ کچھ لوگ زخمی ہیں۔ جب میں وہاں پہنچ کر اونچائی پر جا رہا تو گولیاں برسنے لگیں ، میں نے بریک لگائی ہم دو لوگ ہوتے ہیں ایک ڈرائیور اور ایک رضاکار تو چار گولیاں آکر لگیں، ونڈ اسکرین ٹوٹ گیا تھا۔ بس اﷲ نے بچایا ہمیں۔ تھوڑی دیر میں رکا رہا پھر آگے گیا اور وہاں سے دو زخمیوں کو لے کر اسپتال پہنچا۔ یہ تو روز کا معمول ہے ہمارا۔
ہمارے کئی رضاکار اور ڈرائیور شہید ہوئے کئی معذور ہوگئے ہیں اور اب کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کئی کو تو میں بھیک مانگتے دیکھا ہے۔ کئی یہاں پر جو سڑک کے کنارے کھانے کے دستر خوان ہیں، وہاں سے کھانا لیتے ہیں۔ کو ئی پرسان حال نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو ایسے لوگوں کی بے انتہا عزت ہونی چاہیے، لیکن یہاں انسان کی نہیں دولت کی، تعلقات کی قدر ہے۔ جب تک آپ میں دم ہے، سب آپ کے ہیں، اگر آپ گر گئے تو کوئی اٹھانے والا نہیں ہے۔
پچھلے دنوں میں اک کال پر پارکنگ پلازہ سے گزر رہا تھا۔ وہاں تو ویسے بھی بہت رش ہوتا ہے تو ایک صاحب راستہ روکے کھڑے تھے میں ان سے راستہ دینے کا کہا تو وہ صاحب کار سے ا تر آئے اور آتے ہی مجھے مارنے لگے۔ گالیاں بھی دیں اور کہنے لگے کہ خالی ایمبولینس لے کر جا رہے ہو اور شور مچا رہے ہو۔ میں نے کہا یہاں پیچھے فائرنگ ہوئی ہے، کوئی زخمی ہو گیا ہے، مجھے فوری پہنچنا ہے۔ انہوں نے اور گالیاں دیں اور کہنے لگے میں بھی یہیں قریب رہتا ہوں کچھ نہیں ہوا، تم بکواس کر رہے ہو۔ خیر صاحب! لوگوں نے بیچ بچائو کرایا۔ میں وہاں پہنچا تو ایک نوجوان لڑکا زخمی تھا، میں نے اسے گا ڑی میں ڈالا اور تیزی سے اسپتال پہنچا۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو وہ صاحب جو مجھے گالیاں دے رہے تھے، مار پیٹ رہے تھے روتے ہو ئے داخل ہوئے وہ ز خمی نو جوان ان کا بھائی تھا۔ انہوں نے مجھ سے بہت معذرت کی ۔ زندگی کا تو کچھ معلوم نہیں ہے نا تو بس انسان کو دوسرے انسان کو رعایت دینی چا ہیے۔ دوسرے کو بھی انسان سمجھنا چا ہیے۔
اس کام میں بہت مشکلات ہیں، خطرات ہیں، لیکن اس میں اپنا ایک مزا بھی ہے۔ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دوسرے کی جان بچانا اﷲ کی خوش نودی حاصل کرنے کا راستہ ہے۔ اب دنیا تو جیسے تیسے گزر ہی جائے گی آخرت میں تو یہی کام آئے گا۔ پہلے گھر والے بہت پریشان ہوتے تھے اب تو وہ بھی عادی ہوگئے ہیں۔ اب تو یہ کام میرا جنون بن گیا ہے۔ میں خوش ہوں کہ اس دور میں جہاں انسان دوسرے انسان کو مار رہا ہے، میں زندگی بچانے میں لگا ہوا ہوں۔ مجھے ایک دفعہ اک بندے نے بہت اچھی بات سنائی تھی۔ ایک شخص دریا کے کنارے جا رہا تھا، اس نے دیکھا کہ ایک بچھو ڈوب رہا ہے۔ اس نے آس پاس دیکھا تو کوئی چیز نہیں ملی، جس سے وہ بچھو کی جان بچاتا۔ اس نے اپنے ہاتھ سے اسے نکالنے کی کو شش کی تو اس بچھو نے اسے ڈس لیا۔ اس نے بہت مرتبہ اسے بچانے کی تدبیر کی، لیکن وہ اسے ہر بار ڈس لیتا تھا۔ آخر اس نے بچھو کو باہر نکال کر بچا ہی لیا۔ ایک شخص جو یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا کہنے لگا، تمہیں کیا ضرورت تھی اسے بچانے کی ڈوبنے دیتے اسے۔ اس نے کہا کہ سو چا تو یہی تھا مگر اس بچھو نے مجھے مجبور کردیا اور میں نے سوچا کہ یہ اپنی گندی عادت سے باز نہیں آرہا تو میں اپنی اچھی عادت سے کیسے با ز آجائوں۔