مضبوط فیصلے کون کرے گا
شاپنگ مال کے ملازم سے پوچھاکہ کیااتناقیمتی پنیر بِک جاتا ہے۔ملازم نے مسکرانا شروع کردیا
پاکستان کے ایک سابق وزیرخزانہ لیکچردے رہے تھے۔اقتصادیات کاماہراوردردِدل رکھنے والا انسان۔ نواز شریف کی حکومت آچکی تھی۔میاں صاحب اپنے سودن کے متعلق تقریربھی کرچکے تھے۔ وہی گھسے پٹے دعوے اوروہی اعلانات، جو کمزور حکمران ہمارے بدقسمت ملک میں ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔جس مقام پرسابق وزیرخزانہ بات کر رہے تھے، وہاں میں بھی موجودتھا۔خاموشی اور پوری توجہ سے اس اہل علم کاایک ایک فقرہ سن رہا تھا۔نام نہیں لکھ سکتا۔مگریہ وہی شخص تھاجس نے ہمارے ملک کوسعودی عرب سے تیل میں فقیدالمثال رعایت لے کردی تھی۔خاموش مجاہد۔جسکے بہترین کاموں کوبھی کوئی نہیں جانتا۔اس لیے کہ کریڈٹ تو سارے کا ساراسیاستدان سمیٹنے بلکہ چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔اس چھیناچھینی میں نہ توکسی کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے اورنہ ہی تحسین وتکریم کے بودے ڈونگروں سے سیاسی قد میں ایک انچ بھی بڑھاوا ہوتا ہے۔ سیاسی بونے،ہمیشہ بونے ہی رہتے ہیں۔ بیشک اشتہارات اورپروپیگنڈے کے زورپر اپنے آپ کو آسمان تک سرفراز کرلیں۔جب دھوپ لگتی ہے تو سب کچھ ڈراؤنے خواب کی طرح سامنے آجاتا ہے۔
سابق وزیرخزانہ جنکی بات کررہا ہوں، ورلڈ بینک میں بہت طویل عرصہ ملازمت کرتے رہے۔ اس کے بعد لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں تعلیم و تدریس میں مصروف ہوگئے۔ لیکچرکے دوران ایک نایاب مگرالمناک واقعہ سنایا۔امریکا سے آنے کے بعداپنی بیگم کے ساتھ،لاہورکے ایک شاپنگ مال میں گھرکاسوداسلف خریدنے کے لیے گئے۔وہاں پہنچ کرجب کھانے پینے کے ریک کی جانب توجہ کی تو حیران رہ گئے۔ صرف پنیرکے بیس پچیس امپورٹڈ غیر ملکی برانڈپڑے ہوئے تھے۔دکھ سے بتانے لگے کہ واشنگٹن میں پندرہ برس گزار دیے۔وہاں گھر کا سامان خودخریدتارہا۔مگراتنی اقسام کے پنیرامریکا میں بھی دستیاب نہیں ہیں۔پاکستان جیسے غریب ملک میں درآمدی پنیرکی اتنی ورائٹی دیکھ کرسَکتے میں آگئے۔
شاپنگ مال کے ملازم سے پوچھاکہ کیااتناقیمتی پنیر بِک جاتا ہے۔ملازم نے مسکرانا شروع کردیا۔ کہا، سر،یہ امیر آدمیوںکی شاپنگ کی جگہ ہے۔ یہاں خواتین نہیں،بیگمات لاؤلشکر کے ساتھ تشریف لاتی ہیں۔پنیراورکھانے پینے کی تمام امپورٹڈ اشیاء فوراًفروخت ہوجاتی ہیں۔آج تک کسی نے ان کی قیمت نہیں پوچھی۔ سادہ ساوزیرخزانہ پریشان ہوکر خاموش ہوگیا۔ اتنی دیرمیں اہلیہ آئی۔وہ بھی حیران تھی کہ درجنوں طرح کی کیٹ فوڈ(بلیوں کی خوراک)اورڈاگ فوڈ(کتوں کی خوراک) موجود ہے۔تمام لوازمات باہرسے امپورٹ کی گئی ہیں۔ خیر،دونوں میاں بیوی،سامان لے کر باہر آگئے۔ اس اقتصادی ماہرنے واقعہ سنانے کے بعدتمام شرکاء سے سوال کیاکہ پاکستان جیسا غریب ملک جوبال بال قرضے میں ڈوباہوا ہے۔ جہاں کروڑوں لوگ دووقت کی روٹی سے محتاج ہیں۔جہاں لوگ، گندا اورغلیظ پانی پینے پر مجبور ہیں۔جہاں ہرپانچواں آدمی ہیپاٹائٹس کامریض ہے۔ کیا وہاں کتوں اور بلیوں کی درآمدی خوراک بیچنااورخریدناظلم نہیں ہے۔کیااس ملک میں درجنوں طرح کاغیرملکی پنیر فروخت کرنادرست ہے۔سامعین میں سے کسی کے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھا۔طویل خاموشی تھی۔ اقتصادی ماہرکہنے لگے،کہ مجھے معاشی طورپراگلے پانچ چھ سال میں پاکستان آگے بڑھتاہوانظرنہیں آرہا۔امراء مہنگی عیاشی کرنے کے لیے اس ملک کو بربادکردینگے۔بالکل یہی ہوا۔ ہم آج اتنے مقروض ہیں کہ ہماری ڈھٹائی اوربے شرمی دیکھ کربین الاقوامی قرض دینے والے ادارے گھبراجاتے ہیں۔
ورلڈبینک کے ایک انتہائی اعلیٰ عہدے دارنے بتایا کہ پاکستان واحدملک ہے جہاں سے وزیرخزانہ اوران سے منسلک بابو،قرض لینے کے لیے کسی قسم کی توجہ طلب بات نہیں کرتے۔ہمارے ملک کے یہ نام نہادنمایندے آئی ایم ایف اوردیگراداروں کی ہر شرط بغیرغوروغوض کیے اسی وقت پھرتی سے مان لیتے ہیں۔وجہ صرف یہ،کہ انھیں قرض سے ایسے منصوبے بنانے ہوتے ہیں،جہاںسے بھاری کمیشن وصول ہو۔قرض لیتے ہوئے انھیں معلوم ہوتاہے کہ یہ رقم بلکہ سود تک واپس نہیں کرسکتے۔مگر صرف اورصرف اپنے پانچ سالہ دوراورکرپشن کے پیسے کے لیے پورے ملک کواونے پونے داموں پرگروی رکھ دیتے ہیں۔ورلڈبینک کے اس افسرنے بتایاکہ دنیاکے باقی تمام ممالک قرضہ لیتے وقت کوئی بھی سخت شرط تسلیم نہیں کرتے۔ہرنکتے پردلیل سے بحث کرتے ہیں۔
کئی بار قرضہ لینے سے ہی انکارکردیتے ہیں کہ یہ رقم ان کے ملکی مفادمیں نہیں ہے۔ان کے نمایندے میٹنگ سے اُٹھ کر واپس چلے جاتے ہیں۔مگرکسی صورت میں ملکی اثاثوں پرآنچ نہیں آنے دیتے۔ مگر ہمارے گزشتہ دس برس کے وزراء خزانہ نے موٹروے، ائیرپورٹ، شاہرائیں، ریڈیو اسٹیشن اور ہرقیمتی چیزگروی رکھ ڈالی ہے۔نتیجہ یہ کہ اب اَسد عمر جیسا صاف ستھراآدمی بھی انگلیاں چبارہاہے کہ معیشت کوکیسے زندہ کرے۔خیریہ پیچیدہ معاملہ توحل ہوجائیگا۔اس لیے کہ اَسدعمرایک ایماندار شخص ہے۔ وہ لندن یافرانس میں ناجائزاثاثے بنانے کی طرف مائل نہیں ہے۔
مگرمیرابنیادی سوال بالکل مختلف ہے۔ ہمارے ملک میں کون ہے جومشکل مگرمضبوط فیصلے کریگا۔ کون ساحکمران ہوگاجومعاملات کوپوری قوت سے حل کرنے کی تواناہمت کریگا۔بلکہ یہاں تک عرض کرونگاکہ کون سیاستدان اتنی جرات کریگا،کہ ہمارے اقتصادی،معاشی،سماجی،معاشرتی اور دفاعی مسائل حل کرنے کی جانب ایک قدم تک بڑھاسکے۔ دیکھا جائے توہمارے تمام حکمران"اسٹیٹس کو"کے عملی نمونے ہیں۔یہ اتنی استطاعت ہی نہیں رکھتے کہ ملک کے بنیادی ڈھانچے میں مثبت تبدیلی لاسکیں۔ معمولی سی بات پربھی فیصلہ کرنے سے کتراتے ہیں۔ چندمثالیں سامنے رکھیے۔ کیا خوردنی تیل،پنیر،کتوں اوربلیوں کی غذا، دالیں، سبزیاں، گوشت اوراس طرح کی سیکڑوں اشیاء باہرکے ممالک سے بھاری زرِمبادلہ خرچ کرکے منگوانی چاہییں۔
ہرگز نہیں۔ بالکل نہیں۔ کیاہماراوزیراعلیٰ یاوزیراعظم یہ فیصلہ کرسکتاہے کہ نہیں،میں کسی قیمت پریہ فضول خرچی برداشت نہیں کرونگا۔دس برس کے لیے اس طرح کی تمام اشیاء پرمکمل پابندی عائد کرتا ہوں۔ ہم اپنے ملک کی بنی ہوئی اشیاء استعمال کرینگے۔صرف اس معمولی مگردوررس فیصلے سے کم ازکم آٹھ سے دس ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔چلیے آگے بڑھیے۔ کیاپان اورچھالیہ کھائے بغیرانسان مر جاتا ہے۔
بطور ڈاکٹر عرض کرونگا،کہ پان اور اس کے ساتھ منسلک لغویات استعمال کرنے سے لوگوں کومونہہ کے کینسر کا شکار ہوتے ہوئے دیکھاہے۔مگرآج تک یہ نہیں دیکھاکہ پان، چھالیہ، کتھہ اورچونااستعمال نہ کرنے سے انسان کسی مہلک بیماری کاشکارہوجائے۔کیاان جیسی درجنوں ادنیٰ چیزوں پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ یہ خطرناک اشیاء بھی ہم اردگردکے ملکوں سے منگواتے ہیں۔ کیا واقعی وزیراعظم اوران کی اقتصادی ٹیم کے لیے اس بوجھ کو ممنوع کرنابہت مشکل ہے۔ کیا بیرون ممالک سے سگار، پائپ کا تمباکو اور سگریٹ منگوانے پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ آپ مغربی ممالک کی ہوشیاری دیکھیے۔وہاں سگریٹ اورسگارپربے حدحکومتی ٹیکس ہے۔ وہاں یہ فضول سی اشیاء بے حدمہنگی ہیں۔مگروہ کمال ہوشیاری سے یہ اشیاء ہمارے ملک میں بھجوادیتے ہیں۔انھیں معلوم ہے کہ ہمارے عوام غیرملکی سگریٹ ایک اسٹیٹس سیمبل کے طورپراستعمال کرتے ہیں۔معاملہ یہ کہ جس چیزکا استعمال ان کے ملک میں تقریباًختم ہوچکا ہے وہ دھڑلے سے ہمیں فروخت کررہے ہیں۔
اسی طرح امپورڈقیمتی گاڑیوں کی ہمیں کیا ضرورت ہے۔لاہورکی سڑکوں پرگاڑیوں پر غور کیجئے۔ ڈیڑھ دوکروڑکی لینڈکروزریں بہتات میں نظرآئیں گی۔اس طرح مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو، آو ڈی اوردیگرقیمتی غیرملکی گاڑیوں کی قطاریں نظر آئیں گی۔اورتواور،اب تولوگ رولزرائس بھی خرید رہے ہیں۔اس گاڑی کی قیمت سترہ کروڑروپے ہے۔دل پرہاتھ رکھ کربتائیے کہ کیاہم ان درآمدشدہ گاڑیوں کے بغیرسانس نہیں لے سکتے۔کیاہمارے جیسے غریب ملک کواپناقیمتی زرِمبادلہ ان شاہ خرچیوںپرواقعی صَرف کرنا چاہیے۔ مگر کیا کوئی بھی سیاستدان یہ آسان مگرمشکل فیصلہ کرسکتاہے کہ آج سے پورے ملک میں غیرملکی گاڑیوں پرپابندی لگائی جاتی ہے۔
ہم اپنی قومی مصنوعات کوترقی دینگے۔ہمارے ہمسایہ ملک نے تقریباًپچپن برس غیرملکی گاڑیوں بلکہ کسی بھی امپورٹڈ چیز پرمکمل پابندی لگارکھی تھی۔وہاں تو واٹر کولر بھی دیسی سا تھا۔ سکھ یاتری اوردیگراصحاب پاکستان کے بنے ہوئے واٹرکولر کوسوغات کے طور پر واپس لے کرجاتے تھے۔ ہندوستان نے پچپن برس خوفناک عیاشی کاحصہ بننے سے انکار کردیا۔ پوری قوم نے سادگی کاروزہ رکھا۔نتیجہ یہ کہ آج ہندوستان معاشی طور پراتنامضبوط ہوچکاہے کہ چھوٹی موٹی چیزیں تو کیا، بحری بیڑے،پاورپلانٹ اورفائٹرہوائی جہاز تک مقامی طور پر بنا رہاہے۔سیاستدانوں کی دوررس منصوبہ بندی سے،وہ ملک دنیاکی پہلی "دس" مضبوط ترین معیشتوں میں سے ایک ہے۔ مگریہ سب کچھ کیسے ہوا۔ صرف ایک وجہ سے کہ ان کے سیاسی حکمرانوں نے مضبوط فیصلے کیے اورپھران پرسختی سے عملدرآمدکیا۔
موجودہ حکومت نے سادگی کی طرف جوقدم اُٹھایاہے وہ بالکل درست ہے۔مگراس وقت ضرورت ہے کہ جابرانہ معاشی،اقتصادی اورسماجی فیصلے کیے جائیں۔امپورٹ میں سے چندضروری اشیاء کے علاوہ ہرچیزپرمکمل پابندی لگادی جائے۔ اسی طرح ملک کے ہرشعبہ میں سخت ترین فیصلے کیے جائیں۔ چمکتی ہوئی غیرملکی گاڑیاں،غیرملکی قیمتی ملبوسات اور اس طرح کی تمام اشیا کے استعمال کوختم کیاجائے۔یہ مضبوط فیصلے مکمل طورپرنامقبول ہونگے۔حکومت کی مقبولیت کا گراف ضرور گریگا، مگرملکی معیشت صرف تین چارسال میں اپنے پیروں پرکھڑی ہوجائیگی۔ہم قرض کے عذاب سے باہرنکل آئینگے۔ مگر سوال تویہ ہے کہ یہ مضبوط اوردھڑلے والے فیصلے،دوررس قومی مفادمیں کون کرے گا!