اہل لغت و اہل کتاب
ہمارے شناسا ایک لیڈر سے ہم نے ایک مرتبہ پوچھا بھی تھا کہ تمہاری اس گنگا جمنی تقریر کا مطلب کیا ہے
یہ سارا کیا دھرا نپولین کا ہے جسے '' بونا پارٹ '' بھی کہتے ہیں، غالباً اس نے کسی ڈرامے میں '' بونے '' کا کردار ادا کیاہوگا جو زیادہ پاپولر ہونے کی وجہ سے زبان زد خاص وعام ہوگیا جیسے ہمارے ہاں ایک اداکار نذر اپنے کردار شیر گل، سلمان خان فلم دبنگ میں کردار کی وجہ سے دبنگ خان، صبیحہ سسی کے نام سے پہچانے جاتے تھے ۔
خیر ہمیں ڈرامہ سے کیا لینا دینا یا بونا پارٹ سے کیا کام ؟ہمیں تو اس کی کہی ہوئی ایک فضول بات پرکچھ اس سے بھی زیادہ فضول باتیں کرنا ہیں، میری لغت یا ڈائری یا کتاب میں '' ناممکن '' کا لفظ نہیں ہے اسے تو چھوڑئیے کہ لغت یا ڈائری میں کسی لفظ کا نہ ہونا تو اس کتاب کی کمی ہو گی اور اپنی کسی غلطی یا کمی پر فخر صرف احمقوں کا کام ہے ۔
لیکن نہ جانے یہ احمقانہ حماقت لوگوں کی طبیعت کو کیوں اتنی بھا گئی کہ اب ہر کوئی ہر بات پر میری کتاب میں یہ نہیں اورمیری کتاب میں وہ نہیں، گویا کتاب نہ ہوئی سیٹھ رام داس کی دکان ہو گئی کہ یہ نہیں باقی سب کچھ ہے اور جب سب کچھ کی پوری لسٹ ختم ہو گئی تب بھی تلاشی لینے پر صرف ایک '' تالہ '' پایا گیا جو اس نے اپنی سب کچھ والی دکان کو '' نہیں '' لگایا کیونکہ اس میں تھا کیا جو تالے کی ضرورت پڑتی۔ کچھ ہی دن پہلے ایک لیڈر نے بتایا کہ میری کتاب میں ' ' سچ '' نہیں ہے لیکن خود اس کے قریب بیٹھے ہوئے اس کے چمچے نے ہمیں بتایا کہ بالکل جھوٹ بول رہا تھا اس کی کتاب میں '' سچ '' موجود ہے جو ہر جھوٹ میں رنگ چوکھا کرنے کے کام آتا ہے اور تو اور علامہ بریانی عرف برڈ فلو اور چشم گل چشم عرف سوائن فلو بھی ایک دوسرے کی کتابوں کے بارے میں یہی کہا کرتے ہیں کہ میری کتاب میں جھوٹ کا لفظ نہیں ہے اور اس کی کتاب میں '' سچ '' کا لفظ ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ اور یہی کہنا سیاسی لیڈروں کا بھی اپنی اور دوسروں کی کتابوں کے بارے میں ہے حالانکہ سچ ہے کہ سب جھوٹ بولتے ہیں ہاں کبھی کبھی جھوٹ اور جھوٹ کی جگہ سچ کا لفظ آجاتا ہے جسے یہ لوگ عمر بھر ایسا ہی یعنی '' غلط '' پڑھتے رہتے ہیں، سچ کی جگہ جھوٹ بول دیتے ہیں اور جھوٹ کی جگہ سچ نکل جاتا ہے، اکثر تو سیاسی منہ خاص طور پر جو بڑے منہ بڑا نوالا کہلاتے ہیں وہ ان دونوں کو ملا کر بھی کہہ ڈالتے ہیں جس سے بات کا مطلب ہی ضبط ہوکر رہ جاتا ہے ۔
ہمارے شناسا ایک لیڈر سے ہم نے ایک مرتبہ پوچھا بھی تھا کہ تمہاری اس گنگا جمنی تقریر کا مطلب کیا ہے۔ بولا ، مجھے خود معلوم ہوتا تو ضرور بتا دیتا۔ اکثر تو ہم نے ایسے لیڈر بھی دیکھے ہیں کہ اپنی تقریر کا پچھلا حصہ اگلے حصے کی '' تردید '' میں لگا دیتے ہیں، ان میں ایک تو خاص طور پر مشہور ہے ۔ ایک تو اس کی تقریر پشتو پنجابی فلموں کی طرح ایک فارمولے پر مبنی ہوتی ہے، چار پانچ نہایت فربہ قسم کی خواتین پندرہ بیس جوڑے لمبی مونچھیں اتنے ہی کلاشن کوف سوڈیڑھ سو فائر اور فائرنگ سے بھی اونچی آواز کے ڈائیلاگ ،دوسری خوبی یہ ہے کہ ابتدا میں '' امن '' کے فضائل بیان کرتے ہیں اور سارے کے سارے خود اپنے اندر ڈال لیتے ہیں پھر اس کے بعد بہادری شجاعت تیر و کمان اورنیزے پر اتر آتے ہیں اب یہ پتہ خود ان کو بھی نہیں ہے کہ تقریر میں کونسا حصہ جھوٹ ہے اورکونسا حصہ ڈبل جھوٹ ۔
یہ میری کتاب میں ، میری کتاب میں کا ورد ہم نے ایسے لوگوں سے بھی سنا ہے جن کی کتاب ہوتی ہی نہیں کیونکہ لکھنا پڑھنا بھی ان کی نا تحریر کتاب میں نہیں ہوتا ۔
ہاں لیکن علامہ بریانی عرف برڈ فلو عامل کامل پروفیسر عملیات و تعویذات کو اس سے استثنا حاصل ہے کیونکہ ان کی '' کتاب '' کم ازکم ان کے کہنے کے مطابق موجود ہے جو ان کی پشتوںکے زمانے سے ان کے خاندان کی وراثت ہے اورجس میں سے وہ ہرمسئلے کا حل نکالا کرتے ہیں۔ باوجود کوشش کے آج تک ہم نے ایسا کوئی ایک فرد بھی نہیں دیکھا ہے جس نے وہ کتاب دیکھی ہو لیکن وہ اس کا ذکر ان سائلین سے ضرور کرتے ہیں جو '' نقد '' ہدیۂ تعویذ یا مسٔلہ نہیں رکھتے نقد والوں کو تو اسی وقت نقد و نقد حل دے دیتے ہیں لیکن جو خالی ہاتھ ہوں ان سے '' کتاب '' دیکھنے کے لیے دوچار دن کی مہلت لے لیتے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ آتے ہوئے اتنا شکرانہ اورایک عدد کالا مرغ ضرور لیتے آنا ۔
پہلے کالا سفید مرغ لانے کو کہا کرتے تھے لیکن جب سے بازار میں یہ سفید شلغم جیسے ذائقے والے مرغ رائج ہوئے ہیں کالا مرغ مانگتے ہیں، ان کے قول کے مطابق اس کم بخت جعلی مرغوں میں شوربا بالکل بھی نہیں بنتا اور علامہ کی جدی پشتی عادت خمیری روٹی کو شوربے میں نرم کرکے کھانے کی ہے ۔
ویسے قہر خداوندی چشم گل چشم عرف سوائن فلو کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی کتاب ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو وہ ان کے '' پیٹ '' میں ہوگی جہاں سے مسٔلے نکالے جاتے ہیں لیکن مرغا ڈالنے کے بعد ویسے وہ اسے ہر قسم کے جائزنا جائز رواناروا اور فضول قسم کے مسٔلوں کا اے ٹی ایم مشین بھی کہتے ہیں جس میں کارڈ کے بجائے کالامرغا اور کچھ رنگین کاغذ داخل کرنا پڑتے ہیں ۔
گذشتہ رمضان سے دو چار دن پہلے اس نے ایک خان کو جو نقد کے ساتھ کالے مرغ کی ڈبل قیمت بھی ادا کر چکے تھے، روزے معاف کرنے کا مسٔلہ اس کتاب میں سے نکال کردیا۔ قہر خداوندی کے اعتراض کرنے پر علامہ نے کہا کہ اسے غصے کی بیماری ہے اور اگر روزے کے دوران بیماری کا دورہ پڑجائے تو عین ممکن ہے کہ کسی کو قتل کر ڈالے، اس لیے میں نے خلق خدا کو قتل سے بچانے کے لیے چھوٹ دے دی ۔