رُوسی و بھارتی نیا عسکری عشق پاکستان کہاں کھڑا ہے
دونوں نے اِسی میں عافیت سمجھی کہ 100ارب ڈالر کی باہمی تجارت کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے
بھارت ایک ایسی دوشیزہ ہے جس کا دل جیتنے کے لیے ہر کوئی کوشش کرتا نظر آ رہا ہے۔ امریکا، رُوس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،یورپی یونین ہر کوئی اسے لبھانے کی کوشش میں ہے۔ چین بھی کسی سے پیچھے نہیںہے۔چین اوربھارت کے درمیان پچھلے دنوںسرحدی علاقے''ڈوکلام'' کے مسئلے پر تصادم ہونے لگا تھا لیکن پھر بندوقیں کھنچتے کھنچتے رہ گئیں۔اچانک دُنیا نے دیکھا کہ ''ہاتھی'' اور ''اژدھا'' میں صلح ہو گئی ہے۔ چینی اور بھارتی قیادت نے فیصلہ کیا کہ متنازع علاقے پر متصادم ہونے کے بجائے فی الحال خاموش رہنا چاہیے۔
دونوں نے اِسی میں عافیت سمجھی کہ 100ارب ڈالر کی باہمی تجارت کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے؛ چنانچہ چانکیہ اور کنفیوشس کے ماننے والوں نے ایک دوسرے کے خلاف تانی بندوقیں نیچی کر لیں۔ متحدہ عرب امارات نے مودی کے ساتھ 80ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور اپنے ہاں مشرقِ وسطیٰ کا سب سے بڑا مندر بنانے کا اعلان کرکے ہم سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ایران کے ساتھ بھارت کے اسٹرٹیجک تعلقات ہیں اور ایران کی سب سے بڑی بندرگاہ (چا بہار) کی تعمیروتشکیل میں بھارت نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اِسی بندرگاہ کے ذریعے بھارت اب افغانستان سے براہِ راست تجارت بھی کررہا ہے اور عندیہ دے رہا ہے کہ وہ ''گوادر'' کو نیچا دکھائے گا۔ایران سے بھارتی تعلقات اتنے گہرے ہیں کہ وہ امریکی وارننگ کے باوجود ایران سے تیل خرید رہا ہے۔آج بھارت کے سعودی عرب سے جتنے اچھے تعلقات ہیں، تاریخ میں کبھی اتنے اچھے نہیں رہے۔ اقوامِ متحدہ میں امریکا کی طاقتور سفیر، نکی ہیلی، نے رواں برس کے وسط میں بھارت کا دَورہ کیا تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ کے دو قریبی معتمدین(وزیر خارجہ مائیک پومپیؤ اور وزیر دفاع میٹس) نے تو ابھی حال ہی میں بھارت کا تفصیلی دَورہ کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے ہمارے ہاں تو محض چند گھنٹے کے لیے قیام فرمایا مگر اُن کا اصل دَورہ بھارت ہی کا تھا ۔ دونوں وزرا، جو امریکی حکومت میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، نے بھارت میں اہم ترین معاہدے بھی کیے اور ہم پاکستانی عوام دیکھتے ہی رہ گئے۔ خصوصاً امریکی وزیر دفاع، جیمز میٹس، نے بھارتی وزیر دفاع( نرمل ستھارمن) سے مل کر جن دفاعی معاہدوں پر دستخط کیے ، ان سے پاکستان کو بجا طور پر تشویش ہے۔ ان تازہ معاہدوں کے تحت امریکا اب بھارت کو جدید جنگی طیارے بھی دے گا، ایٹمی بھٹیاں بھی اور پائلٹ کے بغیر فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے ڈرونز بھی۔ اِن معاہدوں کے مطابق بھارت، امریکا سے 18 ارب ڈالر کا دفاعی سازو سامان خریدے گا( امریکا اور بھارت یہ بتانے سے انکاری ہیں کہ اِس ''دفاعی سازو سامان'' کا مطلب کیا ہے؟) ایسے میںپاکستان عالمی سطح پر اپنی تشویش کا اظہار نہ کرے تو کیا کرے ؟ آخر وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والا یہ اسلحہ بھارت کس کے خلاف اکٹھا کر رہا ہے؟
جو کسر باقی رہ گئی تھی، اب رُوس نے پوری کر دی ہے۔ رُوسی صدر، ولادیمر پوٹن،تازہ تازہ بھارت یاترا سے فارغ ہو کر گئے ہیں۔ ہمیں تو پچھلے دو تین سال سے رُوس کی طرف سے لولی پاپ دیا جارہا تھا کہ پوٹن صاحب پاکستان تشریف لائیں گے۔ اِس دوران وہ پاکستان تو نہیں آئے لیکن بھارت دو بار چکر لگا گئے ہیں۔ اِس عرصے میں بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، اور ولادیمر پوٹن کی تین باروَن آن وَن ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ شنید ہے دونوں میں بڑی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ حیرانی کی بات ہے ہمارے کسی حکمران سے رُوسی اور امریکی حکمرانوں کی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی ۔دل پشوری کرنے کے لیے ہم مگر یہ واقعہ ضرور بیان کرتے ہیں کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، بھارتی وزیر اعظم کی غلط انگریزی بولنے کی نقل اُتارتے ہیں۔اب 5اکتوبر2018ء کو رُوسی صدر کے دَورے سے بھارت بھی نہال ہے اور خود رُوس بھی۔ رُوسی صدر تواس لیے نہال ہیں کہ اُن کے ملکی خزانے میں بھارت کی طرف سے تقریباًساڑھے پانچ ارب ڈالر کی رقم منتقل ہو گی ۔ یوں رُوسی معیشت میں بھی جان پڑے گی اور رُوسی اسلحہ ساز کارخانے بھی مزید تیزی سے چلیں گے ۔
بھارتی وزیر اعظم مودی جی کی بانچھیں اس لیے کھلی ہیں کہ وہ رُوسی صدر سے ایسا مہلک اسلحہ خریدنے کے معاہدے میں کامیاب ہُوئے ہیں جس اسلحے کی وجہ سے پاکستان کو بھی تشویش ہے اور چین کو بھی۔ بھارت سمجھ رہا ہے کہ یہ مہلک رُوسی اسلحہ خریدنے کے بعد وہ پاکستان اور چین پر بالا دستی قائم کرنے کے قابل ہو سکے گا۔ یوں بھارتی مزاج کی شوریدگی اور مودی کے دماغ کی آشفتگی میں اضافہ ہوگا۔ امریکا کو بھی اِس رُوسی اور بھارتی نئے عسکری عشق پر غصہ ہے، اس لیے کہ کئی امریکی انتباہی بیانات اور دھمکیوں کے باوجود بھارت باز نہیں آیا ہے۔ لگتا ہے بھارت کوامریکی گُھرکیاں تو جھاگ کی طرح بیٹھ گئی ہیں۔ یہ گُھرکیاں اور دھمکیاں عملی طور پر امریکا نے پاکستان کے لیے مخصوص کررکھی ہیں۔ویسے تو رُوسی صدر کی تازہ تازہ بھارت یاترا کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان نصف درجن سے زائد بڑے معاہدے ہُوئے ہیں لیکن سب سے اہم ڈِیلیں تین ہی ہیں: ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی نقد ادائیگی سے بھارت ''ایس400''نامی رُوسی میزائل خریدے گا، بھارت میں رُوس کی طرف سے چھ ایٹمی پلانٹ لگائے جائیں گے اور بھارتی خلا بازوں کو رُوس اپنے ہاں تربیت دے گا۔میزائل اگلے24ماہ کے دوران بھارت کے حوالے کیے جائیں گے۔
ایس400نامی یہ رُوسی سپر سانک میزائل انتہائی جدیداسلحہ ہے۔ بیک وقت کئی دیو ہیکل میزائلوں کو خاص فوجی ٹرکوں پر لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا نہائت آسان ہے۔ زمین سے فضا میں 500کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے اور بیک وقت دشمن کے کئی ٹھکانوں کو ہدف بنا سکتا ہے۔ ایٹمی حملے کے دوران بہترین اور فوری جواب دینے کی اہلیت رکھتاہے۔ امریکا بھی اِن سے خائف ہے۔امریکا نے رُوس کو یہ میزائل فروخت کرنے سے روکنے کے لیے CAATSAنامی ایک قانون بھی بنا رکھا ہے ۔ اِس قانون میں رُوس کے خلاف اُس وقت زیادہ سختی در آئی جب تین وجوہ کی بِنا پر امریکا ، رُوس سے ناراض ہُوا:(۱)یوکرائن میں رُوسی فوجی مداخلت(۲) شام میں رُوسیوں کی عسکری موجودگی وشامی صدر بشار الاسد کی امداد(۳)ٹرمپ کے صدارتی انتخابات میں خفیہ رُوسی مداخلت!!لیکن رُوسی صدر، ولادیمر پوٹن، نے مذکورہ امریکی قانون کی کم کم پروا کی ہے۔اِس قانون کی موجودگی میں رُوس نے یہی ایس400میزائل چین کو بھی فروخت کیے ہیں۔
اِس سودے پر امریکا نے فوری طور پر چین پر مخصوص فوجی پابندیاں عائد کر دی تھیں لیکن چین نے بھی کوئی پروا نہیں کی۔ یہ راز ابھی تک نہیں کھل سکا ہے کہ چین نے کتنی تعداد میں یہ میزائل خریدے تھے۔ ترکی بھی یہی میزائل خریدنے کے لیے رُوس سے معاہدہ کر چکا ہے۔اِس پر امریکا نے ترکی کو باز رہنے کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ اگر اُس نے ایس400میزائل خریدے تو ''ناٹو'' میں اُس کی موجودگی خطرے میں پڑ جائے گی اور ترکی کوامریکی ایف35 جنگی طیارے فراہم کیے جانے کا سودا بھی منسوخ ہو سکتا ہے۔ترکی نے یہ میزائل ابھی خریدے نہیں ہیں۔ رُوس یہی میزائل قطر کو بھی دینے کی پیشکش کر چکا ہے ۔پاکستان اور چین سمیت ساری دُنیا منتظر ہے کہ آیا امریکیCAATSAقانون کے مطابق رُوس سے''ایس400میزائل ڈیفنس سسٹم'' خریدنے پر اب بھارت پر اقتصادی اور فوجی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں یا نہیں۔ اُصولی طور پر بھارت کے خلاف امریکی قانون حرکت میں آنا چاہیے۔ امریکا نے مذکورہ ڈِیل طے ہونے سے کئی روز پہلے بین السطور اور کھلے بندوں، ہر دو طرح بھارت کو خبردار کیا تھا کہ ایس400میزائل ہر گز نہ خریدے جائیں ۔ بھارت مگر امریکی دھمکی یا انتباہ کو خاطر میں نہیں لایا ہے۔ بھارتی فضائیہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ '' چینی اور پاکستانی ائر فورس، ایف16اور تھنڈر طیاروں کی موجودگی میں ہمارے لیے از بس ضروری تھا کہ ہم رُوس سے یہ میزائل حاصل کریں۔'' دیکھنا یہ ہے کہ امریکا کب بھارت پر سخت پابندیاں عائد کرے گا۔ بعض عالمی دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت نے امریکا کو18ارب ڈالر کے ''دفاعی سازو سامان'' کا جو آرڈر دے رکھا ہے، ممکن ہے امریکا کی طرف سے اس کی موجودگی میں بھارت پر پابندیاں عائد کرنے سے گریز ہی کیا جائے۔
دونوں نے اِسی میں عافیت سمجھی کہ 100ارب ڈالر کی باہمی تجارت کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے؛ چنانچہ چانکیہ اور کنفیوشس کے ماننے والوں نے ایک دوسرے کے خلاف تانی بندوقیں نیچی کر لیں۔ متحدہ عرب امارات نے مودی کے ساتھ 80ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور اپنے ہاں مشرقِ وسطیٰ کا سب سے بڑا مندر بنانے کا اعلان کرکے ہم سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ایران کے ساتھ بھارت کے اسٹرٹیجک تعلقات ہیں اور ایران کی سب سے بڑی بندرگاہ (چا بہار) کی تعمیروتشکیل میں بھارت نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اِسی بندرگاہ کے ذریعے بھارت اب افغانستان سے براہِ راست تجارت بھی کررہا ہے اور عندیہ دے رہا ہے کہ وہ ''گوادر'' کو نیچا دکھائے گا۔ایران سے بھارتی تعلقات اتنے گہرے ہیں کہ وہ امریکی وارننگ کے باوجود ایران سے تیل خرید رہا ہے۔آج بھارت کے سعودی عرب سے جتنے اچھے تعلقات ہیں، تاریخ میں کبھی اتنے اچھے نہیں رہے۔ اقوامِ متحدہ میں امریکا کی طاقتور سفیر، نکی ہیلی، نے رواں برس کے وسط میں بھارت کا دَورہ کیا تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ کے دو قریبی معتمدین(وزیر خارجہ مائیک پومپیؤ اور وزیر دفاع میٹس) نے تو ابھی حال ہی میں بھارت کا تفصیلی دَورہ کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے ہمارے ہاں تو محض چند گھنٹے کے لیے قیام فرمایا مگر اُن کا اصل دَورہ بھارت ہی کا تھا ۔ دونوں وزرا، جو امریکی حکومت میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، نے بھارت میں اہم ترین معاہدے بھی کیے اور ہم پاکستانی عوام دیکھتے ہی رہ گئے۔ خصوصاً امریکی وزیر دفاع، جیمز میٹس، نے بھارتی وزیر دفاع( نرمل ستھارمن) سے مل کر جن دفاعی معاہدوں پر دستخط کیے ، ان سے پاکستان کو بجا طور پر تشویش ہے۔ ان تازہ معاہدوں کے تحت امریکا اب بھارت کو جدید جنگی طیارے بھی دے گا، ایٹمی بھٹیاں بھی اور پائلٹ کے بغیر فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے ڈرونز بھی۔ اِن معاہدوں کے مطابق بھارت، امریکا سے 18 ارب ڈالر کا دفاعی سازو سامان خریدے گا( امریکا اور بھارت یہ بتانے سے انکاری ہیں کہ اِس ''دفاعی سازو سامان'' کا مطلب کیا ہے؟) ایسے میںپاکستان عالمی سطح پر اپنی تشویش کا اظہار نہ کرے تو کیا کرے ؟ آخر وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والا یہ اسلحہ بھارت کس کے خلاف اکٹھا کر رہا ہے؟
جو کسر باقی رہ گئی تھی، اب رُوس نے پوری کر دی ہے۔ رُوسی صدر، ولادیمر پوٹن،تازہ تازہ بھارت یاترا سے فارغ ہو کر گئے ہیں۔ ہمیں تو پچھلے دو تین سال سے رُوس کی طرف سے لولی پاپ دیا جارہا تھا کہ پوٹن صاحب پاکستان تشریف لائیں گے۔ اِس دوران وہ پاکستان تو نہیں آئے لیکن بھارت دو بار چکر لگا گئے ہیں۔ اِس عرصے میں بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، اور ولادیمر پوٹن کی تین باروَن آن وَن ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ شنید ہے دونوں میں بڑی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ حیرانی کی بات ہے ہمارے کسی حکمران سے رُوسی اور امریکی حکمرانوں کی ہم آہنگی نہیں پائی جاتی ۔دل پشوری کرنے کے لیے ہم مگر یہ واقعہ ضرور بیان کرتے ہیں کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، بھارتی وزیر اعظم کی غلط انگریزی بولنے کی نقل اُتارتے ہیں۔اب 5اکتوبر2018ء کو رُوسی صدر کے دَورے سے بھارت بھی نہال ہے اور خود رُوس بھی۔ رُوسی صدر تواس لیے نہال ہیں کہ اُن کے ملکی خزانے میں بھارت کی طرف سے تقریباًساڑھے پانچ ارب ڈالر کی رقم منتقل ہو گی ۔ یوں رُوسی معیشت میں بھی جان پڑے گی اور رُوسی اسلحہ ساز کارخانے بھی مزید تیزی سے چلیں گے ۔
بھارتی وزیر اعظم مودی جی کی بانچھیں اس لیے کھلی ہیں کہ وہ رُوسی صدر سے ایسا مہلک اسلحہ خریدنے کے معاہدے میں کامیاب ہُوئے ہیں جس اسلحے کی وجہ سے پاکستان کو بھی تشویش ہے اور چین کو بھی۔ بھارت سمجھ رہا ہے کہ یہ مہلک رُوسی اسلحہ خریدنے کے بعد وہ پاکستان اور چین پر بالا دستی قائم کرنے کے قابل ہو سکے گا۔ یوں بھارتی مزاج کی شوریدگی اور مودی کے دماغ کی آشفتگی میں اضافہ ہوگا۔ امریکا کو بھی اِس رُوسی اور بھارتی نئے عسکری عشق پر غصہ ہے، اس لیے کہ کئی امریکی انتباہی بیانات اور دھمکیوں کے باوجود بھارت باز نہیں آیا ہے۔ لگتا ہے بھارت کوامریکی گُھرکیاں تو جھاگ کی طرح بیٹھ گئی ہیں۔ یہ گُھرکیاں اور دھمکیاں عملی طور پر امریکا نے پاکستان کے لیے مخصوص کررکھی ہیں۔ویسے تو رُوسی صدر کی تازہ تازہ بھارت یاترا کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان نصف درجن سے زائد بڑے معاہدے ہُوئے ہیں لیکن سب سے اہم ڈِیلیں تین ہی ہیں: ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی نقد ادائیگی سے بھارت ''ایس400''نامی رُوسی میزائل خریدے گا، بھارت میں رُوس کی طرف سے چھ ایٹمی پلانٹ لگائے جائیں گے اور بھارتی خلا بازوں کو رُوس اپنے ہاں تربیت دے گا۔میزائل اگلے24ماہ کے دوران بھارت کے حوالے کیے جائیں گے۔
ایس400نامی یہ رُوسی سپر سانک میزائل انتہائی جدیداسلحہ ہے۔ بیک وقت کئی دیو ہیکل میزائلوں کو خاص فوجی ٹرکوں پر لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا نہائت آسان ہے۔ زمین سے فضا میں 500کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے اور بیک وقت دشمن کے کئی ٹھکانوں کو ہدف بنا سکتا ہے۔ ایٹمی حملے کے دوران بہترین اور فوری جواب دینے کی اہلیت رکھتاہے۔ امریکا بھی اِن سے خائف ہے۔امریکا نے رُوس کو یہ میزائل فروخت کرنے سے روکنے کے لیے CAATSAنامی ایک قانون بھی بنا رکھا ہے ۔ اِس قانون میں رُوس کے خلاف اُس وقت زیادہ سختی در آئی جب تین وجوہ کی بِنا پر امریکا ، رُوس سے ناراض ہُوا:(۱)یوکرائن میں رُوسی فوجی مداخلت(۲) شام میں رُوسیوں کی عسکری موجودگی وشامی صدر بشار الاسد کی امداد(۳)ٹرمپ کے صدارتی انتخابات میں خفیہ رُوسی مداخلت!!لیکن رُوسی صدر، ولادیمر پوٹن، نے مذکورہ امریکی قانون کی کم کم پروا کی ہے۔اِس قانون کی موجودگی میں رُوس نے یہی ایس400میزائل چین کو بھی فروخت کیے ہیں۔
اِس سودے پر امریکا نے فوری طور پر چین پر مخصوص فوجی پابندیاں عائد کر دی تھیں لیکن چین نے بھی کوئی پروا نہیں کی۔ یہ راز ابھی تک نہیں کھل سکا ہے کہ چین نے کتنی تعداد میں یہ میزائل خریدے تھے۔ ترکی بھی یہی میزائل خریدنے کے لیے رُوس سے معاہدہ کر چکا ہے۔اِس پر امریکا نے ترکی کو باز رہنے کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ اگر اُس نے ایس400میزائل خریدے تو ''ناٹو'' میں اُس کی موجودگی خطرے میں پڑ جائے گی اور ترکی کوامریکی ایف35 جنگی طیارے فراہم کیے جانے کا سودا بھی منسوخ ہو سکتا ہے۔ترکی نے یہ میزائل ابھی خریدے نہیں ہیں۔ رُوس یہی میزائل قطر کو بھی دینے کی پیشکش کر چکا ہے ۔پاکستان اور چین سمیت ساری دُنیا منتظر ہے کہ آیا امریکیCAATSAقانون کے مطابق رُوس سے''ایس400میزائل ڈیفنس سسٹم'' خریدنے پر اب بھارت پر اقتصادی اور فوجی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں یا نہیں۔ اُصولی طور پر بھارت کے خلاف امریکی قانون حرکت میں آنا چاہیے۔ امریکا نے مذکورہ ڈِیل طے ہونے سے کئی روز پہلے بین السطور اور کھلے بندوں، ہر دو طرح بھارت کو خبردار کیا تھا کہ ایس400میزائل ہر گز نہ خریدے جائیں ۔ بھارت مگر امریکی دھمکی یا انتباہ کو خاطر میں نہیں لایا ہے۔ بھارتی فضائیہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ '' چینی اور پاکستانی ائر فورس، ایف16اور تھنڈر طیاروں کی موجودگی میں ہمارے لیے از بس ضروری تھا کہ ہم رُوس سے یہ میزائل حاصل کریں۔'' دیکھنا یہ ہے کہ امریکا کب بھارت پر سخت پابندیاں عائد کرے گا۔ بعض عالمی دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت نے امریکا کو18ارب ڈالر کے ''دفاعی سازو سامان'' کا جو آرڈر دے رکھا ہے، ممکن ہے امریکا کی طرف سے اس کی موجودگی میں بھارت پر پابندیاں عائد کرنے سے گریز ہی کیا جائے۔