مودی سارے نوبیل انعامات کے حق دار ہیں
وعدوں کی سیاست میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے مودی بلاشبہ نوبیل امن انعام کے حقدار ہیں
سنا ہے بی جے پی تامل ناڈو کی صدر تملسائی سندر راجن نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کردیا ہے۔ ان کی یہ نامزدگی جس کارنامے کی بنا پر ہوئی ہے وہ دنیا کی سب سے بڑی ہیلتھ اسکیم مودی کیئر کا آغاز ہے، جس میں وعدوں کی سرکار نے بھارت کی نصف بلین غریب آبادی کے مفت علاج کا نیا وعدہ کیا ہے۔ چار سال نامعلوم مودی جی کس پنگھوڑے میں سو رہے تھے کہ انھیں پتہ ہی نہ چلا کہ بھارتی شہری انتہائی غربت کی وجہ سے علاج معالجے کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
وہ تو بھلا ہو آنے والے انتخابات کا جن کا طبل بجتے ہی مودی جی نے پنگھوڑے سے چھلانگ لگائی، اور ''مودی کیئر'' جیسا بڑا کارنامہ انجام دے ڈالا۔ ان کو غریبوں سے زیادہ کیئر تو چھ ماہ کی دوری پر ہونے والے عام انتخابات کی ہے جس نے یکایک سیاسی شعور بالغ کرکے ان کا دل غریبوں کی محبت سے لبریز کردیا۔ ویسے ہم صرف مودی کی نہیں بلکہ بی جے پی کے تمام رہنماؤں کی سیاسی بصیرت کی داد دیں گے جنھوں نے اس کارنامے پر مودی کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرکے غموں کی ماری اس دنیا کو ہنسنے ہنسانے کے نئے مواقع فراہم کیے۔ سو ہم بھی ساری فکریں بھلائے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے جا رہے ہیں کہ بھارتی سیاست کی اندھیر نگری میں یہ نوبت آچکی ہے کہ عوام کی خدمت کا وعدہ کرکے اقتدار کے منصب پر براجمان ہونے والے امرائے وقت بنیادی سہولیات کی فراہمی پر بلاتاخیر نوبیل امن انعام کا تقاضا کرنے لگے ہیں۔
ٹوپیاں پہننے کے شوقین مودی بھارتیوں کو ٹوپیاں پہناتے بھی خوب ہیں۔ ایک اور نئے بیان میں ٹوپی پہناتے ہوئے کہتے ہیں کہ 2022ء تک تعلیم کے میدان میں معرکۃ الآرا خدمات انجام دینے کے لیے وہ ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 2014ء سے اب تک کے چار سال کا کوئی حساب کتاب دینے کو وہ تیار نہیں۔ مودی جی! آگے کیا کرنا ہے اس کو چھوڑیے، کیا کرچکے، ذرا اس کی تو بات کیجیے۔ لیکن کاروبار میں خسارہ ہی خسارہ ہو تو بھلا کون سا سیٹھ پچھلے کھاتے کھول کر بیٹھتا ہے، جو گجراتی سیٹھ یہ کام کریں گے۔
وعدوں کی سیاست میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے مودی بلاشبہ نوبیل امن انعام کے حقدار ہیں، کیوں کہ ان کے کندھوں پر 2002ء کے گجرات فسادات کا تاج سجا ہوا ہے۔ پھر گؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کا بے دریغ قتل، دلتوں اور دیگر اقلیتوں پر توڑے جانے والے مظالم اور ہندوتوا سماج کی تشکیل کے لیے ان کے دیگر انتہاپسندانہ اقدامات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہاں ہاں! مودی واقعی نوبیل امن انعام کے حق دار ہیں۔ سوٹ بوٹ کی مودی سرکار کے دورِحکومت میں لینن اور دراوڑ تحریک کے بانی کے مجسمے اکھاڑ پھینکے گئے، حتیٰ کہ نہرو کی مورتی کو بھی نہ چھوڑا گیا، کیوں کہ وہ بھارت میں مغربی طرز کے سیکولر جمہوری نظام کے بانی تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے ''منجھے ہوئے'' انتہاپسند ہندو سیاستداں ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے آسام میں مسلمانوں کی شہریت کا قضیہ کھڑا کیا، مسئلہ کشمیر تلوار کی نوک پر آگیا، سرمایہ کار بھارت سے روٹھ گئے اور سرمایہ مودی کی دوست نوازی کی نذر ہوگیا۔ کسانوں نے خودکشیاں کیں، اچھے دن مذاق بنے، مسلمان تو کجا ہندو بھی روتے رہے کہ نامعلوم پچھلے جنم میں کون سا گناہ کیا تھا کہ بھارت میں پیدا ہونا پڑا۔ یہ تو چند ایک واقعات ہیں، مودی کی سیاسی تاریخ تو ایسے سیکڑوں کارناموں سے بھری ہوئی ہے جنھیں دیکھ کر ماننا پڑے گا کہ انھیں امن انعام کے لیے نامزد کرنے والوں نے بہت دیر کردی۔ ان کو تو بس اسی ایک نعرے پر امن انعام مل جانا چاہیے تھا کہ انڈیا صرف ہندوؤں کا ہے اور ہندوؤں کے لیے ہے۔
اور صرف امن انعام ہی کیوں مودی تو سارے نوبیل انعامات کے حق دار ہیں۔ یوٹیوب پر پچھلے دنوں میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں موصوف نے گیس پیدا کرنے کے نئے اور اچھوتے طریقے کی بابت دنیا کو آگاہی فراہم کی۔ فرماتے ہیں کہ کسی چھوٹے سے شہر میں ایک لڑکا نالے کے پاس چائے بیچتا تھا۔ وہیں پر ایک گندی نالی بہتی تھی۔ لڑکے نے ایک بھگونے میں چھیدکیا، اس میں ایک پائپ ڈالا اسے الٹا کرکے نالی پر رکھ دیا۔ اب گٹر سے جو گیس خارج ہوتی وہ پائپ کے راستے اس کے ٹھیلے تک آجاتی اور وہ اس کی مدد سے چائے بناتا۔یوں ایک سادہ سی ٹیکنالوجی نے اس غریب کا کتنا فائدہ کیا۔ ویڈیو دیکھ کر میں سر اور تالیاں ایک ساتھ پیٹتی رہی اور میرے اندر کی انسانیت چلا چلا کر کہتی رہی کہ مودی جی آپ تو کیمسٹری کے نوبیل انعام کے بھی حق دار ہیں۔
2014ء میں ایک میڈیکل کالج میں ان کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا۔ ''سرجن مودی'' ڈاکٹروں سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہ جو آپ اسٹیم سیل اور پلاسٹک سرجری کی بات کرتے ہیں یہ مہابھارت کی رو سے کئی صدیوں پہلے ثابت ہوچکا ہے۔ کرنا کا جنم ماں کے پیٹ سے نہیں ہوا بلکہ وہ اسٹیم سیل کی ٹیکنالوجی کی مدد سے پیدا ہوا اور گنیش کا نرمان جس میں شریر انسان کا اور سر ہاتھی کا ہے وہ پلاسٹک سرجری نہیں تو اور کیا ہے؟ فرماتے ہیں کہ یہ ہماری ہی صلاحیتیں تھیں جو اب دنیا سے ہمیں واپس لینی ہیں۔ اس تقریر کے بعد کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ سرجن مودی کو میڈیسن اور فزیالوجی کا نوبیل انعام نہ دیا جائے؟
مودی نے اپنے دورِحکومت میں شعلہ بیانی کے جلوے دکھاتے دکھاتے ہندی زبان کی نت نئی اصطلاحات اور تراکیب بھی ایجاد کر ڈالی ہیں۔ ان کی تعداد بجا طور پر اتنی ہے کہ ایک جامع مودی لغت تیار کی جاسکتی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ بھارت کے کسان میری top priority ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا TOP کا مطلب ہے ٹماٹو، اونین اینڈ پوٹاٹو۔ RSVP کا مطلب مودی لغت میں راہول، سونیا، وادرا اور پریانکا ہے۔ بی ٹو بی کی اصطلاح کا مطلب بھارت ٹو بھوٹان ہے۔ ROAD کا مطلب ریسپانسیبلٹی، اونر شپ، اکاؤنٹیبلٹی اور ڈسپلین ہے۔ غرض مودی جی نے اس نئی لغت پر جس عرق ریزی سے کام کیا ہے اس کی بنا پر وہ ادب کے نوبیل انعام کے بھی صحیح معنوں میں حق دار ہیں۔
بھارتی معیشت کی ترقی، جعلی نوٹوں پر قابو پانے، غیرقانونی کمائی کی روک تھام کرنے، دہشتگردوں کی کمر توڑنے اور محنت کشوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے 8 نومبر 2016ء کو مودی سرکار نے کیش لیس انڈیا کا تاریخی فیصلہ کیا تھا، جس کی رو سے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ بند کردیے گئے۔ معیشت کی اس ڈیجیٹل کاری کی بنا پر انھیں اکنامکس کا نوبیل انعام نہ دینا بین الاقوامی معاشی قدروں کے ساتھ شدید بددیانتی ہوگی۔
اب رہ گیا فزکس کا نوبیل انعام، تو جناب جلدی کس بات کی ہے، ابھی مودی کے پاس چھ ماہ کی حکومت باقی ہے۔ جتنی تیزی سے انھوں نے خود کوپانچ نوبیل انعامات کا اہل ثابت کیا ہے وہ وقت دور نہیں جب وہ چھٹی فیلڈ میں بھی نام کمالیں گے۔ پھران کی اگلی منزل گنیز ورلڈ ریکارڈ بنانا ہوگا، کیوں کہ سارے نوبیل انعام اپنے نام کروانے کا اعزاز آج تک کسی کو حاصل نہیں ہوا، لیکن مودی کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ جب وہ بھارتیوں کا تیل نکال سکتے ہیں تو پھر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ میری سمجھ میں اب تک نہیں آئی تو بس ایک بات کہ ہٹلر کا دماغی توازن بھی کم و بیش اتنا ہی بگڑا ہوا تھا پھر اسے نوبیل امن انعام سے کیوں نہ نوازا گیا؟
وہ تو بھلا ہو آنے والے انتخابات کا جن کا طبل بجتے ہی مودی جی نے پنگھوڑے سے چھلانگ لگائی، اور ''مودی کیئر'' جیسا بڑا کارنامہ انجام دے ڈالا۔ ان کو غریبوں سے زیادہ کیئر تو چھ ماہ کی دوری پر ہونے والے عام انتخابات کی ہے جس نے یکایک سیاسی شعور بالغ کرکے ان کا دل غریبوں کی محبت سے لبریز کردیا۔ ویسے ہم صرف مودی کی نہیں بلکہ بی جے پی کے تمام رہنماؤں کی سیاسی بصیرت کی داد دیں گے جنھوں نے اس کارنامے پر مودی کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرکے غموں کی ماری اس دنیا کو ہنسنے ہنسانے کے نئے مواقع فراہم کیے۔ سو ہم بھی ساری فکریں بھلائے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے جا رہے ہیں کہ بھارتی سیاست کی اندھیر نگری میں یہ نوبت آچکی ہے کہ عوام کی خدمت کا وعدہ کرکے اقتدار کے منصب پر براجمان ہونے والے امرائے وقت بنیادی سہولیات کی فراہمی پر بلاتاخیر نوبیل امن انعام کا تقاضا کرنے لگے ہیں۔
ٹوپیاں پہننے کے شوقین مودی بھارتیوں کو ٹوپیاں پہناتے بھی خوب ہیں۔ ایک اور نئے بیان میں ٹوپی پہناتے ہوئے کہتے ہیں کہ 2022ء تک تعلیم کے میدان میں معرکۃ الآرا خدمات انجام دینے کے لیے وہ ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 2014ء سے اب تک کے چار سال کا کوئی حساب کتاب دینے کو وہ تیار نہیں۔ مودی جی! آگے کیا کرنا ہے اس کو چھوڑیے، کیا کرچکے، ذرا اس کی تو بات کیجیے۔ لیکن کاروبار میں خسارہ ہی خسارہ ہو تو بھلا کون سا سیٹھ پچھلے کھاتے کھول کر بیٹھتا ہے، جو گجراتی سیٹھ یہ کام کریں گے۔
وعدوں کی سیاست میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے مودی بلاشبہ نوبیل امن انعام کے حقدار ہیں، کیوں کہ ان کے کندھوں پر 2002ء کے گجرات فسادات کا تاج سجا ہوا ہے۔ پھر گؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کا بے دریغ قتل، دلتوں اور دیگر اقلیتوں پر توڑے جانے والے مظالم اور ہندوتوا سماج کی تشکیل کے لیے ان کے دیگر انتہاپسندانہ اقدامات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہاں ہاں! مودی واقعی نوبیل امن انعام کے حق دار ہیں۔ سوٹ بوٹ کی مودی سرکار کے دورِحکومت میں لینن اور دراوڑ تحریک کے بانی کے مجسمے اکھاڑ پھینکے گئے، حتیٰ کہ نہرو کی مورتی کو بھی نہ چھوڑا گیا، کیوں کہ وہ بھارت میں مغربی طرز کے سیکولر جمہوری نظام کے بانی تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے ''منجھے ہوئے'' انتہاپسند ہندو سیاستداں ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے آسام میں مسلمانوں کی شہریت کا قضیہ کھڑا کیا، مسئلہ کشمیر تلوار کی نوک پر آگیا، سرمایہ کار بھارت سے روٹھ گئے اور سرمایہ مودی کی دوست نوازی کی نذر ہوگیا۔ کسانوں نے خودکشیاں کیں، اچھے دن مذاق بنے، مسلمان تو کجا ہندو بھی روتے رہے کہ نامعلوم پچھلے جنم میں کون سا گناہ کیا تھا کہ بھارت میں پیدا ہونا پڑا۔ یہ تو چند ایک واقعات ہیں، مودی کی سیاسی تاریخ تو ایسے سیکڑوں کارناموں سے بھری ہوئی ہے جنھیں دیکھ کر ماننا پڑے گا کہ انھیں امن انعام کے لیے نامزد کرنے والوں نے بہت دیر کردی۔ ان کو تو بس اسی ایک نعرے پر امن انعام مل جانا چاہیے تھا کہ انڈیا صرف ہندوؤں کا ہے اور ہندوؤں کے لیے ہے۔
اور صرف امن انعام ہی کیوں مودی تو سارے نوبیل انعامات کے حق دار ہیں۔ یوٹیوب پر پچھلے دنوں میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں موصوف نے گیس پیدا کرنے کے نئے اور اچھوتے طریقے کی بابت دنیا کو آگاہی فراہم کی۔ فرماتے ہیں کہ کسی چھوٹے سے شہر میں ایک لڑکا نالے کے پاس چائے بیچتا تھا۔ وہیں پر ایک گندی نالی بہتی تھی۔ لڑکے نے ایک بھگونے میں چھیدکیا، اس میں ایک پائپ ڈالا اسے الٹا کرکے نالی پر رکھ دیا۔ اب گٹر سے جو گیس خارج ہوتی وہ پائپ کے راستے اس کے ٹھیلے تک آجاتی اور وہ اس کی مدد سے چائے بناتا۔یوں ایک سادہ سی ٹیکنالوجی نے اس غریب کا کتنا فائدہ کیا۔ ویڈیو دیکھ کر میں سر اور تالیاں ایک ساتھ پیٹتی رہی اور میرے اندر کی انسانیت چلا چلا کر کہتی رہی کہ مودی جی آپ تو کیمسٹری کے نوبیل انعام کے بھی حق دار ہیں۔
2014ء میں ایک میڈیکل کالج میں ان کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا۔ ''سرجن مودی'' ڈاکٹروں سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہ جو آپ اسٹیم سیل اور پلاسٹک سرجری کی بات کرتے ہیں یہ مہابھارت کی رو سے کئی صدیوں پہلے ثابت ہوچکا ہے۔ کرنا کا جنم ماں کے پیٹ سے نہیں ہوا بلکہ وہ اسٹیم سیل کی ٹیکنالوجی کی مدد سے پیدا ہوا اور گنیش کا نرمان جس میں شریر انسان کا اور سر ہاتھی کا ہے وہ پلاسٹک سرجری نہیں تو اور کیا ہے؟ فرماتے ہیں کہ یہ ہماری ہی صلاحیتیں تھیں جو اب دنیا سے ہمیں واپس لینی ہیں۔ اس تقریر کے بعد کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ سرجن مودی کو میڈیسن اور فزیالوجی کا نوبیل انعام نہ دیا جائے؟
مودی نے اپنے دورِحکومت میں شعلہ بیانی کے جلوے دکھاتے دکھاتے ہندی زبان کی نت نئی اصطلاحات اور تراکیب بھی ایجاد کر ڈالی ہیں۔ ان کی تعداد بجا طور پر اتنی ہے کہ ایک جامع مودی لغت تیار کی جاسکتی ہے۔ ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ بھارت کے کسان میری top priority ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا TOP کا مطلب ہے ٹماٹو، اونین اینڈ پوٹاٹو۔ RSVP کا مطلب مودی لغت میں راہول، سونیا، وادرا اور پریانکا ہے۔ بی ٹو بی کی اصطلاح کا مطلب بھارت ٹو بھوٹان ہے۔ ROAD کا مطلب ریسپانسیبلٹی، اونر شپ، اکاؤنٹیبلٹی اور ڈسپلین ہے۔ غرض مودی جی نے اس نئی لغت پر جس عرق ریزی سے کام کیا ہے اس کی بنا پر وہ ادب کے نوبیل انعام کے بھی صحیح معنوں میں حق دار ہیں۔
بھارتی معیشت کی ترقی، جعلی نوٹوں پر قابو پانے، غیرقانونی کمائی کی روک تھام کرنے، دہشتگردوں کی کمر توڑنے اور محنت کشوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے 8 نومبر 2016ء کو مودی سرکار نے کیش لیس انڈیا کا تاریخی فیصلہ کیا تھا، جس کی رو سے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ بند کردیے گئے۔ معیشت کی اس ڈیجیٹل کاری کی بنا پر انھیں اکنامکس کا نوبیل انعام نہ دینا بین الاقوامی معاشی قدروں کے ساتھ شدید بددیانتی ہوگی۔
اب رہ گیا فزکس کا نوبیل انعام، تو جناب جلدی کس بات کی ہے، ابھی مودی کے پاس چھ ماہ کی حکومت باقی ہے۔ جتنی تیزی سے انھوں نے خود کوپانچ نوبیل انعامات کا اہل ثابت کیا ہے وہ وقت دور نہیں جب وہ چھٹی فیلڈ میں بھی نام کمالیں گے۔ پھران کی اگلی منزل گنیز ورلڈ ریکارڈ بنانا ہوگا، کیوں کہ سارے نوبیل انعام اپنے نام کروانے کا اعزاز آج تک کسی کو حاصل نہیں ہوا، لیکن مودی کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ جب وہ بھارتیوں کا تیل نکال سکتے ہیں تو پھر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ میری سمجھ میں اب تک نہیں آئی تو بس ایک بات کہ ہٹلر کا دماغی توازن بھی کم و بیش اتنا ہی بگڑا ہوا تھا پھر اسے نوبیل امن انعام سے کیوں نہ نوازا گیا؟