آدھا سبق یاد رہا‘ آدھا بھول گئے
بارے تھوڑی گفتگو منو بھائی سے ہو جائے۔ آج ہی کے کالم میں انھوں نے سکینہ ماسی کا ذکر کیا ہے جو نماز کے دوران سلام۔۔۔
بارے تھوڑی گفتگو منو بھائی سے ہو جائے۔ آج ہی کے کالم میں انھوں نے سکینہ ماسی کا ذکر کیا ہے جو نماز کے دوران سلام پھیرتے ہوئے السلام و علیکم و رحمتہ اللہ کہنے کے بجائے کہتی ہیں اسلام و علیکم بشیرے کے ابو۔ اصل میں سکینہ ماسی کے شوہر کا نام رحمتہ اللہ ہے، مشرقی تہذیب یہ اجازت نہیں دیتی کہ کوئی نیک بی بی اپنے شوہر کا نام لے۔ سو سکینہ ماسی رحمتہ اللہ تو کہہ نہیں سکتی۔ اسلام و علیکم بشیر کے ابو کہہ کر کام چلاتی ہے۔
منو بھائی کہتے ہیں کہ ''شاید اسی احترام کے تحت ہم اپنے بعض سرکاری اداروں کے نام لینے کے بجائے انھیں 'حساس ادارے' کہہ کر پکارتے ہیں۔''
منو بھائی نے کیا خوب بات کہی ہے۔ مگر پھر ہمیں خیال آیا کہ اس نوع کے احترام کے تو منو بھائی بھی بہت قائل ہیں۔ ابھی کل پرسوں ہم ان کے کالم میں ایک بیان پڑھتے پڑھتے چونکے تھے۔ وہ بیان یہ ہے:
''ہمارے ایک سیاستدان نے عوامی نفرت کے قہر سے بچنے کے لیے ختم نبوت کے معاملات سے زیادہ آگاہی یا دلچسپی کی عدم موجودگی کے باوجود احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے کوثر نیازی کے مشورے کو قبول کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔''
شاید سکینہ ماسی والے احترام کے خود منو بھائی بھی قائل ہیں۔ اس لیے اس نامور سیاستدان کا نام لینے سے انھوں نے گریز کیا ہے اور ہمارے ایک سیاست داں' کہہ کر کام چلایا ہے۔
یہ احتیاط ہمیں منو بھائی کے اس پورے کالم میں نظر آئی۔ لگتا ہے کہ بے شمار سخن ہائے گفتنی ان کے لب پر آتے آتے دم توڑ گئے ہیں۔ سکینہ ماسی نے تو بشیرے کے ابو کہہ کر بات پوری کر دی۔ مگر منو بھائی نے سکینہ ماسی کے اس نسخہ پر عمل نہیں کیا۔ اس لیے اس کالم میں کتنی باتیں ادھوری رہ گئی ہیں۔ پھر بھی ہم نے یہ کالم بہت دلچسپی سے پڑھا۔ یہ سوچ کر خوش ہوئے کہ آخر منو بھائی نے زبان کھولی۔ اگرچہ دیر سے کھولی۔ اس وقت جب پانی سر سے گزر گیا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ یہ گزارش احوال واقعی وہ تھوڑا عرصہ پہلے کر لیتے۔ مثلاً کیا مضائقہ تھا کہ جب مولانا کوثر نیازی بھٹو صاحب کو الٹے سیدھے مشورے دے رہے تھے تو منو بھائی اسی وقت اپنے کالم میں بھٹو صاحب کو خبردار کرتے کہ اس شخص کے مشوروں کو ذرا سوچ سمجھ کر قبول کریں۔
اصل میں جن دانشوروں اور ادیبوں نے جوش اعلان حق میں پیپلز پارٹی سے اپنے آپ کو وابستہ کیا تھا انھوں نے اعلان حق کا صرف آدھا سبق دھیان سے پڑھا تھا۔ یعنی جب تک اغیار سے مقابلہ رہا انھوں نے جوش و جذبے کے ساتھ مقابلہ کیا۔ مثلاً یہ کہ ابتدائے عشق میں انھوں نے ''اسلام پسندوں'' سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یا جب ضیاء الحق کا دور آیا تو جس جس رنگ سے کسی دانشور یا ادیب کو مزاحمت کرنی چاہیے اس اس رنگ سے مقابلہ کیا۔ سو جب انھوں نے اپنی تحریروں کو مزاحمتی ادب کا نام دیا تو اسے قبول کر لیا گیا۔ مگر جب جب اس پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو وہ بھول گئے کہ اب انھیں کیا کرنا ہے۔ ہر مرتبہ پارٹی کے اقتدار سنبھالنے پر انھوں نے صرف اتنا کافی سمجھا کہ جو مختلف ادارے اغیار کے تسلط میں ہیں انھیں وہاں سے ہٹا کر خود ان اداروں کی باگ ڈور سنبھالی جائے۔
مگر اس سلسلہ میں بھی وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ ا ن اداروں کے تقاضے کیا ہیں اور انھیں یہاں کونسا فریضہ ادا کرنا ہے۔ مگر پارٹی سے وابستہ دانشوروں کا ایک فریضہ یہ بھی تو ہوتا ہے کہ پارٹی جب اقتدار سنبھال لے تو اس کے فعل و عمل پر کڑی نظر رکھیں اور روک ٹوک کرتے رہیں۔ اس سلسلہ میں تو ہمیں بس ایک ہی واقعہ یاد آ رہا ہے۔ جب اقتدار سنبھالنے کے لیے بھٹو صاحب نے لاہور میں یونیورسٹی ہال میں جا کر پہلا خطاب کیا تھا تو اس خطاب کے بیچ حسین نقی نے کھڑے ہو کر کچھ ایسا سوال کر ڈالا کہ بھٹو صاحب برہم ہو گئے۔ پولیس کو ایسا موقع خدا دے۔ وہ حسن نقی کی طرف بڑھنے لگی تھی کہ خود بھٹو صاحب نے بر وقت اپنا لہجہ بدلا اور پولیس کو اس کارروائی سے جو وہ کرنا چاہتی تھی باز رکھا۔ مگر پھر اس کے بعد کیا ہوا۔
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
پارٹی سے وابستہ کسی دانشور کو یہ سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس کا فریضہ اب کیا ہے۔
خیر بھٹو صاحب اور بی بی بے نظیر کی اپنی شخصیت کے گلیمر نے ان سے جرأت اظہار چھن لی ہو۔ مگر یہ جو ابھی پانچ سالہ دور اقتدار گزرا ہے وہ تو ایسے گلیمر سے قطعاً محروم تھا۔ اس سارے دور میں بھی یاران وفادار منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے۔ منو بھائی اب کہہ رہے ہیں کہ وہ جو مرکز نے اپنے محکمے اور اختیارات صوبوں کے حوالے کرنے کی قربانی کا مظاہرہ کیا تھا وہ بھی عام انتخابات میں اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی ایک کوشش تھی جو بار آور نہیں ہوئی اور جب ہم کالم میں کچھ پڑھ چکے تو ڈان میں ایک نعرہ نظر سے گزرا کہ ثقافتی امور جب مرکز سے صوبوں کی طرف منتقل ہوئے تو کیا ہوا۔ وہ جو ٹیکسلا میوزیم کی طرف سے تیس ملین کی رقم سے ارکیولوجیکل کنزرویشن اینڈ ریسرچ لیبارٹری قائم ہوئی تھی وہ بند ہو گئی۔ ارے منو بھائی جب یہ کام ہو رہا تھا اس وقت تم نے ٹوکا ہوتا کہ آنکھیں بند کر کے سارے معاملات خواہ ثقافت کے ہوں یا تعلیم کے صوبوں کی طرف منتقل کرنا کوئی دانشمندانہ فعل نہیں ہے۔
ادھر ہم سوچ رہے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ وہ دانشور جو کسی سیاسی جماعت سے یا کسی تحریک سے وابستہ ہو کر بڑے خلوص سے کسی بڑے مقصد کے لیے لڑتے ہیں، قید و بند کی صعوبتیں اٹھائے ہیں، ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ اس تحریک کی کامیابی کے بعد جب وہ زمام اقدار سنبھالتی ہے اپنے فرض سے غافل کیوں ہو جاتے ہیں۔ وہ کیوں یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کے رہنما اور ان رہنماؤں کے رفقا فرشتے ہیں ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہو سکتی ہے، وہ ہر قسم کی تنقید سے بالا ہیں، باہر سے جو تنقید ہو رہی ہے جو شور مچ رہا ہے' جو ہاہا کار ہو رہی ہے وہ سب اغیار کی سازش ہے۔
خیر کوئی تو بولا۔ منو بھائی کے کالم سے چپ کا روزہ تو ٹوٹا۔ منو بھائی نے اب ڈرتے ڈرتے کچھ اشارے کیے ہیں۔ اچھا آغاز ہے۔ زبان کھلی ہے تو بولے گی بھی۔ ہم یہ کیوں بھولتے ہیں کہ خود احتسابی کی اپنی قدر و قیمت ہے۔ یہ عمل رک جائے اور جنھیں بولنا چاہیے وہ سب کچھ دیکھیں اور چپ رہیں، ایسے عمل سے تو بڑی بڑی مملکتیں بیشک وہ سپر پاور بن جائیں بتاشے کی طرح بیٹھ جاتی ہیں۔ پارٹی کیا چیز ہے۔ تو منو بھائی نے اچھا ہی کیا کہ خاموش جھیل میں ایک کنکری تو پھینکی ۔
یہاں تک تو پہنچے یہاں تک تو آئے
منو بھائی کہتے ہیں کہ ''شاید اسی احترام کے تحت ہم اپنے بعض سرکاری اداروں کے نام لینے کے بجائے انھیں 'حساس ادارے' کہہ کر پکارتے ہیں۔''
منو بھائی نے کیا خوب بات کہی ہے۔ مگر پھر ہمیں خیال آیا کہ اس نوع کے احترام کے تو منو بھائی بھی بہت قائل ہیں۔ ابھی کل پرسوں ہم ان کے کالم میں ایک بیان پڑھتے پڑھتے چونکے تھے۔ وہ بیان یہ ہے:
''ہمارے ایک سیاستدان نے عوامی نفرت کے قہر سے بچنے کے لیے ختم نبوت کے معاملات سے زیادہ آگاہی یا دلچسپی کی عدم موجودگی کے باوجود احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے کوثر نیازی کے مشورے کو قبول کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔''
شاید سکینہ ماسی والے احترام کے خود منو بھائی بھی قائل ہیں۔ اس لیے اس نامور سیاستدان کا نام لینے سے انھوں نے گریز کیا ہے اور ہمارے ایک سیاست داں' کہہ کر کام چلایا ہے۔
یہ احتیاط ہمیں منو بھائی کے اس پورے کالم میں نظر آئی۔ لگتا ہے کہ بے شمار سخن ہائے گفتنی ان کے لب پر آتے آتے دم توڑ گئے ہیں۔ سکینہ ماسی نے تو بشیرے کے ابو کہہ کر بات پوری کر دی۔ مگر منو بھائی نے سکینہ ماسی کے اس نسخہ پر عمل نہیں کیا۔ اس لیے اس کالم میں کتنی باتیں ادھوری رہ گئی ہیں۔ پھر بھی ہم نے یہ کالم بہت دلچسپی سے پڑھا۔ یہ سوچ کر خوش ہوئے کہ آخر منو بھائی نے زبان کھولی۔ اگرچہ دیر سے کھولی۔ اس وقت جب پانی سر سے گزر گیا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ یہ گزارش احوال واقعی وہ تھوڑا عرصہ پہلے کر لیتے۔ مثلاً کیا مضائقہ تھا کہ جب مولانا کوثر نیازی بھٹو صاحب کو الٹے سیدھے مشورے دے رہے تھے تو منو بھائی اسی وقت اپنے کالم میں بھٹو صاحب کو خبردار کرتے کہ اس شخص کے مشوروں کو ذرا سوچ سمجھ کر قبول کریں۔
اصل میں جن دانشوروں اور ادیبوں نے جوش اعلان حق میں پیپلز پارٹی سے اپنے آپ کو وابستہ کیا تھا انھوں نے اعلان حق کا صرف آدھا سبق دھیان سے پڑھا تھا۔ یعنی جب تک اغیار سے مقابلہ رہا انھوں نے جوش و جذبے کے ساتھ مقابلہ کیا۔ مثلاً یہ کہ ابتدائے عشق میں انھوں نے ''اسلام پسندوں'' سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یا جب ضیاء الحق کا دور آیا تو جس جس رنگ سے کسی دانشور یا ادیب کو مزاحمت کرنی چاہیے اس اس رنگ سے مقابلہ کیا۔ سو جب انھوں نے اپنی تحریروں کو مزاحمتی ادب کا نام دیا تو اسے قبول کر لیا گیا۔ مگر جب جب اس پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو وہ بھول گئے کہ اب انھیں کیا کرنا ہے۔ ہر مرتبہ پارٹی کے اقتدار سنبھالنے پر انھوں نے صرف اتنا کافی سمجھا کہ جو مختلف ادارے اغیار کے تسلط میں ہیں انھیں وہاں سے ہٹا کر خود ان اداروں کی باگ ڈور سنبھالی جائے۔
مگر اس سلسلہ میں بھی وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ ا ن اداروں کے تقاضے کیا ہیں اور انھیں یہاں کونسا فریضہ ادا کرنا ہے۔ مگر پارٹی سے وابستہ دانشوروں کا ایک فریضہ یہ بھی تو ہوتا ہے کہ پارٹی جب اقتدار سنبھال لے تو اس کے فعل و عمل پر کڑی نظر رکھیں اور روک ٹوک کرتے رہیں۔ اس سلسلہ میں تو ہمیں بس ایک ہی واقعہ یاد آ رہا ہے۔ جب اقتدار سنبھالنے کے لیے بھٹو صاحب نے لاہور میں یونیورسٹی ہال میں جا کر پہلا خطاب کیا تھا تو اس خطاب کے بیچ حسین نقی نے کھڑے ہو کر کچھ ایسا سوال کر ڈالا کہ بھٹو صاحب برہم ہو گئے۔ پولیس کو ایسا موقع خدا دے۔ وہ حسن نقی کی طرف بڑھنے لگی تھی کہ خود بھٹو صاحب نے بر وقت اپنا لہجہ بدلا اور پولیس کو اس کارروائی سے جو وہ کرنا چاہتی تھی باز رکھا۔ مگر پھر اس کے بعد کیا ہوا۔
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
پارٹی سے وابستہ کسی دانشور کو یہ سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس کا فریضہ اب کیا ہے۔
خیر بھٹو صاحب اور بی بی بے نظیر کی اپنی شخصیت کے گلیمر نے ان سے جرأت اظہار چھن لی ہو۔ مگر یہ جو ابھی پانچ سالہ دور اقتدار گزرا ہے وہ تو ایسے گلیمر سے قطعاً محروم تھا۔ اس سارے دور میں بھی یاران وفادار منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے۔ منو بھائی اب کہہ رہے ہیں کہ وہ جو مرکز نے اپنے محکمے اور اختیارات صوبوں کے حوالے کرنے کی قربانی کا مظاہرہ کیا تھا وہ بھی عام انتخابات میں اپنا ووٹ بینک بڑھانے کی ایک کوشش تھی جو بار آور نہیں ہوئی اور جب ہم کالم میں کچھ پڑھ چکے تو ڈان میں ایک نعرہ نظر سے گزرا کہ ثقافتی امور جب مرکز سے صوبوں کی طرف منتقل ہوئے تو کیا ہوا۔ وہ جو ٹیکسلا میوزیم کی طرف سے تیس ملین کی رقم سے ارکیولوجیکل کنزرویشن اینڈ ریسرچ لیبارٹری قائم ہوئی تھی وہ بند ہو گئی۔ ارے منو بھائی جب یہ کام ہو رہا تھا اس وقت تم نے ٹوکا ہوتا کہ آنکھیں بند کر کے سارے معاملات خواہ ثقافت کے ہوں یا تعلیم کے صوبوں کی طرف منتقل کرنا کوئی دانشمندانہ فعل نہیں ہے۔
ادھر ہم سوچ رہے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ وہ دانشور جو کسی سیاسی جماعت سے یا کسی تحریک سے وابستہ ہو کر بڑے خلوص سے کسی بڑے مقصد کے لیے لڑتے ہیں، قید و بند کی صعوبتیں اٹھائے ہیں، ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ اس تحریک کی کامیابی کے بعد جب وہ زمام اقدار سنبھالتی ہے اپنے فرض سے غافل کیوں ہو جاتے ہیں۔ وہ کیوں یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کے رہنما اور ان رہنماؤں کے رفقا فرشتے ہیں ان سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہو سکتی ہے، وہ ہر قسم کی تنقید سے بالا ہیں، باہر سے جو تنقید ہو رہی ہے جو شور مچ رہا ہے' جو ہاہا کار ہو رہی ہے وہ سب اغیار کی سازش ہے۔
خیر کوئی تو بولا۔ منو بھائی کے کالم سے چپ کا روزہ تو ٹوٹا۔ منو بھائی نے اب ڈرتے ڈرتے کچھ اشارے کیے ہیں۔ اچھا آغاز ہے۔ زبان کھلی ہے تو بولے گی بھی۔ ہم یہ کیوں بھولتے ہیں کہ خود احتسابی کی اپنی قدر و قیمت ہے۔ یہ عمل رک جائے اور جنھیں بولنا چاہیے وہ سب کچھ دیکھیں اور چپ رہیں، ایسے عمل سے تو بڑی بڑی مملکتیں بیشک وہ سپر پاور بن جائیں بتاشے کی طرح بیٹھ جاتی ہیں۔ پارٹی کیا چیز ہے۔ تو منو بھائی نے اچھا ہی کیا کہ خاموش جھیل میں ایک کنکری تو پھینکی ۔
یہاں تک تو پہنچے یہاں تک تو آئے