دراڑیں پڑ چکی ہیں
وہ عمل کے میدان کا مجاہد اور سیاسی اعتبار سے پکی کمٹمنٹ کا حامل سیاسی کارکن تھا۔ اُس نے بے پناہ سیاسی خدمات سے۔۔۔
وہ عمل کے میدان کا مجاہد اور سیاسی اعتبار سے پکی کمٹمنٹ کا حامل سیاسی کارکن تھا۔ اُس نے بے پناہ سیاسی خدمات سے نام تو ضرور کمایا لیکن معروف معنوں میں ''کمائی'' نہ کر سکا۔ اُس کی غربت و عُسرت کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے لوگوں کی محبت سے جس روز وہ صوبائی اسمبلی (PK-42) کے انتخابات کے لیے اپنے کاغذات جمع کرانے گیا، اُس کی جیب میں صرف ایک سو روپیہ تھا۔ واقع یہ ہے کہ ایسے ہی دیانتدار سیاسی ورکرز کو اسمبلیوں کا رُکنِ رکین بننا چاہیے۔ ہمارے اِس ممدوح سیاسی کارکن کا نام فرید خان تھا جو ووٹروں کے تعاون اور محبت سے گیارہ مئی کو خیبر پختونخوا اسمبلی کا رکن منتخب ہو گیا۔
فرید خان ایسے سیاسی کارکن کے لیے یہ فتح غیر معمولی تھی لیکن زیادہ دنوں تک اُسے خوشیاں دیکھنا نصیب نہ ہو سکیں۔ انتخاب جیتنے کے بعد وہ ''پاکستان تحریکِ انصاف'' میں شامل ہو گیا کہ عمران خان صاحب اُس کے دل میں محبوب کی طرح بس گئے تھے۔ وہی عمران خان صاحب جو ''تحریکِ طالبان پاکستان'' یعنی ٹی ٹی پی کے وابستگان سے محبت و اُنس کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن اِنہی طالبان نے جناب فرید احمد خان ایم پی اے کو ہنگو میں تین جون2013ء کو شہید کر دیا۔ انتخابی کامیابی میں صرف 23دن بعد۔ فرید خان کا خون بہاتے ہوئے طالبان نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ جس کے سینے میں لاتعداد گولیاں اتاری جارہی ہیں، اُس کا ذہنی و قلبی تعلق عمران خان سے اُستوار ہوچکا ہے۔ طالبان سے مبینہ طور پر وابستہ جس طالب نے فرید خان کو موت کے گھاٹ اُتارا، اُسے گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اُس کا نام مفتی حامد بتایا جاتا ہے۔
ممکن ہے اِس بہیمانہ قتل کے واردات سے فرید خان کے محبوب کا دل بھی پسیجا ہو۔ مجبوراً اسپتال میں لیٹے لیڈر کے دل کی کیا کیفیت ہو گی، کون جان سکتا ہے؟ اِس سانحہ سے بہرحال یہ ثابت ہو گیا کہ ٹی ٹی پی سے وابستہ اشخاص واردات کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ قاتل کی زد میں آنے والا اُن کا اپنا بندہ ہے یا مخالف، وہ ٹریگر دبا کر اپنے سرپرستوں کا جی خوش کر دیتے ہیں اور سرپرستوں کی یہی منشا اور مرضی ہے کہ وطنِ عزیز کی پاک سر زمین پر خون بہتا رہے۔ فرید خان کے قتل کے بعد ہنگو اور اس کے مضافات میں جو فسادات پھوٹ پڑے، انھوں نے گیارہ افراد کو اپنا لقمہ بنا لیا۔
ایک دوسرا نقطہ نظر بھی سامنے آ رہا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ حکیم اللہ محسود کے اشارے پر ایم پی اے فرید خان کی جان نہ لی گئی ہو، بلکہ ٹی ٹی پی کے اندر ہی کسی چھوٹے سے مخالف گروہ نے اپنی سطح پر کارروائی ڈال دی ہو۔ اگر ایسا ہے تو اِس امر کا قوی امکان ہے کہ ٹی ٹی پی کے اندر دراڑیں پڑ چکی ہیں اور ذاتی و گروہی مفادات کے حصول کے لیے کئی گروہ جنم لے چکے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والوں کا انت یہی ہوتا ہے کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر متصادم ہوتے ہیں اور ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے آخر کار ملیا میٹ ہو جاتے ہیں۔ یہی ہر دہشت پسند گروہ کی تقدیر میں لکھا گیا ہے۔ پھر ٹی ٹی پی اِس فطری قانون سے کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟ پہلے تو ٹی ٹی پی اِن حقائق کو تسلیم کرنے سے گریز پا تھی لیکن اب تسلیم کر رہی ہے مگر ذرا دوسرے اسلوب میں۔ فرید احمد خان کی شہادت نے دراصل اِن دراڑوں کو نمایاں کر دیا ہے۔ حقائق واشگاف ہونے لگے ہیں لیکن تذکرہ آسان نہیں۔
آٹھ جون 2013ء کو ایک انگریزی معاصر کی ویب سائٹ پر پڑی خبر نے سب کو چونکا کر رکھ دیا۔ خبر میں ٹی ٹی پی کے ترجمان کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ ''لشکر طیبہ'' اور ''انصار الاسلام'' والے مل کر اُن کے خلاف ایک بڑے حملے کی تیاریاں کر رہے ہیں، ہم اُن کا مقابلہ کریں گے اور بہت سی خونریزی ہو گی۔ ''تحریکِ طالبان پاکستان'' کے ترجمان کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ افغان طالبان کا نام لے کر بھی ہمارے خلاف تیاریاں ہو رہی ہیں اور کچھ لوگ ہماری صفوں کے اندر گُھس آئے ہیں۔ اِنہی گھسنے والے طالبان سے ٹی ٹی پی غالباً خوفزدہ بھی ہے اور اپنے مؤقف سے ہلی ہوئی بھی نظر آ رہی ہے۔ ٹی ٹی پی ہمیشہ سے یہ تاثر دیتی چلی آ رہی تھی کہ اُنہیں افغان طالبان، جو ملا محمد عمر مجاہد کے زیرِ کمان بروئے کار ہیں، کی حمایت و اعانت بھی حاصل ہے اور وہ اُن کے نظریات و اقدامات سے اتفاق بھی کرتے ہیں لیکن اب دراڑوں کے نمایاں تر ہونے کے بعد یہ کُھلا ہے کہ افغان طالبان اُن کے ساتھ ہیں نہ لشکرِ طیبہ کا کوئی مایوس گروہ اُن کی امامت میں خونریزی پر تیار ہے۔
غالباً اِسی پس منظر میں ٹی ٹی پی کے ترجمان کو کہنا پڑا ہے: ''ہمیں امید ہے کہ افغانستان کی امارتِ اسلامیہ ٹی ٹی پی کے مخالفوں کی تخلیق کردہ سازش کو سمجھنے کی کوشش کرے گی۔ ہم نے ہمیشہ افغانستان کی امارتِ اسلامیہ کی تابعداری کی اور اُن کی لیڈر شپ کو تسلیم کیا ہے۔ اِس کے باوجود اگر اُنہیں ہمارے بارے میں شکایات ہیں تو ہم یہ شکایات دُور اور اُنہیں مطمئن کرنے کے لیے تیار ہیں۔'' اِس بیان کو معمولی خیال نہیں کرنا چاہیے۔ یہ فی الحقیقت ٹی ٹی پی کے اندر بڑھتی ہوئی بے چینی، خصوصاً ولی الرحمٰن کے ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد، اور پریشانی کا اظہار ہے۔ خصوصاً اِن حالات میں جب افغان طالبان کے دو سینئر نمایندگان نے بھی مبینہ طور پر کہہ دیا ہو: ''ہم افغانستان سے باہر کسی ملک (خصوصاً پاکستان) میں جنگ کرنے کے لیے تیار ہیں نہ ہم افغانستان سے باہر جا کر کسی ملک کی فوج اور عوام کے خلاف جنگی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔'' مبینہ لشکرِ طیبہ نے، بقول عبداللہ غزنوی، بھی ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی قسم کی صف آرائی سے انکار کر دیا ہے۔
یہ ہماری اجتماعی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہی لوگ، از قسم ٹی ٹی پی کے وابستگان، غیروں کے اشارے پر گزشتہ ایک عشرے سے ہمارے ہی بہن بھائیوں کا خون بے دردی سے بہا رہے ہیں۔ اُن عناصر کی خونی وارداتوں سے شہید ہونے والے پاکستان کے سویلین اور باوردی افراد کی تعداد ساٹھ ہزار کے ہندسے کو چھونے لگی ہے۔ اِس کے برعکس اِنہوں نے امریکیوں کا بال بیکا بھی نہیں کیا۔ ساری قوم اور قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے ہمارے قاتل کون ہیں اور وہ کون ہیں جنہوں نے ہمارے ملک کو انارکی کا مرکز بنا دیا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھگا دیا ہے لیکن اِس کے با وصف ہمارے بعض مقتدرین اِسے غیروں کی جنگ قرار دے رہے ہیں، حالانکہ پاکستان کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی ''یومِ شہداء'' کے موقع پر اپنے خطاب میں صاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں: ''یہ غیروں کی نہیں، ہماری اپنی جنگ ہے۔'' پھر اِن عناصر سے براہِ راست یا بالواسطہ مذاکرات، مصافحہ اور معانقہ کرنے کی باتوں کا مطلب؟ کیا یہ ہمارے ساٹھ ہزار مقتولین کی قربانیوں سے انکار نہیں؟
کیا یہ عمل وطن کی خاطر ٹی ٹی پی کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کے ورثاء کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف نہیں ہو گا؟ مزید حیرت اِس بات پر ہے کہ جو ضدی لوگ ہماری عدالتوں، ہمارے آئین، ہماری اسمبلی اور ہمارے قوانین کو ماننے سے انکاری ہیں اور اِن سب کے خلاف ''غیر اسلامی'' ہونے کے فتاویٰ صادر کر چکے ہیں، اُن سے مذاکرات کرنا چہ معنی دارد؟ اب جب کہ غنیم کی عمارت میں دراڑیں نمایاں سے نمایاں تر ہوتی جارہی ہیں، ہمیں آگے بڑھ کر کسی کے سینے سے سینہ ملانے کی جلدی کیوں ہے؟ یہ بھی گزارش ہے کہ اِن دراڑوں کو دیکھنا اور اِنہیں پاکستان و پاکستانیوں کے حق میں ایکسپلائیٹ کرنا ہمارے نئے وزیرِ داخلہ جناب نثار علی خان کا کام ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ صدرِ مملکت کے سابق وزیرِداخلہ کی طرح گلابی ٹائی نہیں باندھتے اور نہ ہی جعلی پُھرتیاں دکھانے کی عادت رکھتے ہیں۔ وہ کام سے کام رکھنے کے عادی بتائے جاتے ہیں۔ توقع یہی ہے کہ وہ اپنے وزیر ِاعظم کی اشیرواد سے ہر ملک دشمن عنصر کا سر کچل دیں گے اور ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کی آخری مقدور بھر کوشش کریں گے۔