شیخ رشید کی فاتحانہ واپسی

گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں نواز شریف کے تیسری بار وزیر ِاعظم منتخب ہونے کے بعد مختلف پارٹیوں کے پارلیمانی۔۔۔

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں نواز شریف کے تیسری بار وزیر ِاعظم منتخب ہونے کے بعد مختلف پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈورں کی تقریروں کا سلسلہ شروع ہوا، تو یوں معلوم ہو رہا تھا کہ ہر کوئی نو منتخب وزیرِ اعظم پر پھول برسا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی، تحریک ِانصاف اور ایم کیو ایم، تینوں قومی اسمبلی میں اپوزیشن بننے کا دعویٰ کر رہی ہیں، لیکن بدھ کو تینوں پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈروں نے جو تقریریں کیں، ان میں 'اپوزیشن' کا بہرحال کوئی رنگ اور آہنگ نہیں تھا۔ مخدوم امین فہیم اور فاروق ستار نے پھر بھی ن لیگ کی دو ایک چٹکیاں لیں، جاوید ہاشمی بالکل ہی جذبات کی رو میں بہہ گئے اور نواز شریف کو اپنا 'لیڈر' تک قرار دیدیا۔ لیڈروں کی اس منڈلی میں، یہ تنہا شیخ رشید احمد تھے، جن کی تقریر میں اپوزیشن لیڈر کا بانکپن نظر آ رہا تھا، مرعوبیت سے پاک، ایک نپی تُلی تقریر۔ ہر طرف گہرا سناٹا پایا، تو آزردہ خاطر شاعر نے کہا ،

جُز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

شیخ رشید احمد کا شمار پاکستان کے اُن کم کم سیاست دانوں میں ہوتا ہے، جن پر واقعتاً عوامی سیاست دان کا لقب سجتا ہے۔ وہ زمانہ طالب علمی ہی سے سیاست میں سرگرم اور معروف ہیں۔ ایوب خان کے دور ِآخر میں بطور ِطالب علم رہنما بڑی شہرت ملی۔ سقوط ِڈھاکا سے پہلے مسلم لیگ یوتھ ونگ متحدہ پاکستان کے منتخب کیے گئے۔ شیخ رشید کی پارلیمانی سیاست کا آغاز لیکن 1985ء میں ہوا، جب وہ، بغیر کسی سیاسی وابستگی کے، پہلی بار رکن ِقومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ محمد خان جونیجو کی سربراہی میں قومی اسمبلی میں 'مسلم لیگ' از سر نو قائم ہوئی، تو شریف برادران اور چوہدری برادران کی تقلید میں شیخ رشید بھی 'نئی مسلم لیگ' میں شامل ہو گئے۔ 1985ء سے 1999ء تک شیخ رشید، نواز شریف کے شانہ بہ شانہ نظر آتے ہیں۔

نواز شریف سے جذباتی وابستگی کا یہ عالم کہ بے نظیر بھٹو کے دورِ ثانی میں 2سال قید کاٹ چُکے ہیں۔ 10دسمبر 2000 ء کو نواز شریف، ن لیگ کو جاوید ہاشمی کے سپرد کر کے جدہ چلے گئے، لیکن اس کے باوجود شیخ رشید نے مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ مجید نظامی صاحب کہتے ہیں کہ شیخ رشید 2002ء میں ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کو تیار تھے، لیکن نواز شریف نے ہی منہ موڑ لیا۔ شیخ رشید کو سخت دھچکا لگا۔ لہٰذا، اب وہ بھی خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے، بطور ِآزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا اور مسلم لیگ ن کو چت کر دیا۔ ایک نہیں، قومی اسمبلی کی دو سیٹیوں پر جیت گئے۔ لیکن مسلم لیگ ن کے 'خبر سازوں' نے اس کامیابی کو اس طرح گہنایا کہ شیخ رشید کی خون پسینے کی یہ سیٹیں بھی نواز شریف کے کھاتے میں ڈال دیں۔

بڑی ہوشیاری سے شیخ رشید کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا کہ وہ یہ سیٹیں صرف اس لیے جیت سکے ہیں کیونکہ انتخابی مہم میں، انھوں نے اپنے ووٹروں سے وعدہ کیا تھا کہ جیتنے کی صورت میں وہ یہ سیٹیں نواز شریف کی جھولی میں ڈال دیں گے۔ حالانکہ، یہ بات سراسر خلاف ِحقیقت تھی۔ بلکہ اس کے برعکس اول اول یہ شیخ رشید ہی تھے، جنہوں نے راول پنڈی کو ن لیگ کا قلعہ بنایا تھا۔ بہر حال بعد ازاں ''جنرل سید پرویز مشرف'' کے ایما پر شیخ رشید مسلم لیگ ق میں شامل ہو گئے، لیکن غلطی یہ سرزد ہو گئی کہ ظفراللہ جمالی کی قُربت میں چلے گئے۔ نتیجتاً، جب میر ظفر اللہ جمالی کا بوریا بستر گول ہوا تو شیخ رشید کو بھی خمیازہ بھگتنا پڑ گیا۔ وزارت ِ اطلاعات و نشریات کا قلمدان چھن گیا۔ وزیر ِ ِریلوے بنا کر عملاً کارنر کر دیا گیا۔ بعد کو شیخ رشید کا نام پارٹی سیکریٹری جنرل کے طور پر بھی سامنے آیا، لیکن بوجوہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی تھی ۔


2008ء کا الیکشن، شیخ رشید کی زندگی کا مشکل ترین الیکشن تھا۔ پہلے اسلام آباد میں لال مسجد کا سانحہ ہوا، پھر راولپنڈی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا المناک قتل، اس پر مستزاد انتخابی مہم کے دوران بجلی، گیس کی بدترین لوڈ شیڈنگ۔ شیخ رشید بے جگری سے لڑے، پر ہار گئے۔ 25برسوں میں یہ اُن کی پہلی ہار تھی۔ شیخ رشید نے لیکن ہمت نہیں ہاری اور اس کو ایک چیلنج سمجھا۔ شیخ رشید مسلم لیگ ق ہی میں رہنا چاہتے تھے، لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ مسلم لیگ ق اُن کی جارحانہ سرگرمیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی، تو بڑے باوقار انداز میں چوہدری برادران کو الوداع کہا، اور اپنی ایک چھوٹی سی پارٹی 'عوامی مسلم لیگ' کے نام سے قائم کر لی۔ تن ِتنہا نیا سیاسی سفر شروع کر دیا۔ شیخ رشید کے بقول، ''مقصد صرف یہ تھا کہ اب جو دل میں آئے گا، وہ بے محابا زبان پر آئے گا۔'' اس اثنا میں راولپنڈی سے مسلم لیگ ن کا رکن ِقومی اسمبلی جعلی ڈگری کے الزام میں نااہل ہوگئے اور اُن کی سیٹ خالی قرار پا گئی۔ شیخ رشید ضمنی الیکشن میں کود پڑے۔

پاکستان میں ضمنی الیکشن کا شاید ہی کوئی معرکہ اس قدر جوش و خروش سے لڑا گیا ہو گا۔ ضمنی الیکشن میں شیخ رشید پر ایک مبینہ قاتلانہ حملہ بھی ہوا اور اُن کے3 کارکن جاں ہار گئے۔ شیخ رشید کہتے ہیں، یہ ضمنی الیکشن اُنہوں نے جیت لیا تھا، لیکن راتوں رات اُن کی جیت کو شکست میں تبدیل کر دیا گیا۔ کہنے والوں نے کہا، راول پنڈی میں اب شیخ رشید کا دور ختم ہو گیا، کیونکہ یہاں ان کو مسلم لیگ ن کی وجہ سے ہی کامیابی ملتی تھی، اب جب کہ مسلم لیگ ن، اُن کو چھوڑ چُکی، تو اُن کے جیتنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن قدرت کو مسلم لیگ ن کا یہ متکبرانہ لہجہ پسند نہیں آیا۔ 'عوامی مسلم لیگ ' نے راول پنڈی میں 'تحریک انصاف' سے انتخابی سمجھوتہ کیا، تو شیخ رشید کی اس انتخابی حکمت ِعملی پر پھبتیاں کسی گئیں کہ یہ سنگل سیٹ پارٹیاں، مسلم لیگ ن کا کیا مقابلہ کریں گی، بالخصوص اس ماحول میں کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کا دوبارہ برسر ِاقتدار آنا یقینی سمجھا جا رہا ہے۔ لیکن 11مئی کی رات کو پانسہ پلٹ گیا ، اُوپر کا نیچے اور نیچے کا اُوپر ہو گیا۔ شیخ رشید کی انتخابی حکمت ِعملی کامیاب ہو گئی۔ راول پنڈی شہر، جس کو مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، وہاں سے وہ ہار گئی اور شیخ رشید جیت گئے۔

آج اسمبلی میں شیخ رشید کی واپسی اس مرحلہ پر ہو رہی ہے، جب کم و بیش تمام پارٹیاں برسر ِاقتدار آ چکی ہیں۔ مسلم لیگ ن وفاق اور صوبہ پنجاب میں، پیپلز پارٹی سندھ، آزاد کشمیر اور صوبہ گلگت بلتستان میں، تحریک ِانصاف صوبہ خیبر پختون خوا میں، پختون خوا ملی عوامی پارٹی صوبہ بلوچستان میں۔ ق لیگ، بلوچستان میں شریک ِاقتدار ہو چکی، جماعت ِاسلامی نے خیبر پختوں خوا میں حصہ وصول کر لیا، جمعیت علمائے اسلام کے لیے حلوہ تیار ہے، سندھ میں ایم کیو ایم کا نخرہ عارضی ہے۔ جو پارٹیاں، کسی نہ کسی صوبہ میں برسرِاقتدار یا شریک ِاقتدار ہوں، اُن کے لیے صحیح معنوں میں اپوزیشن بننا بڑا مُشکل ہوتا ہے۔ تحریک ِانصاف واضح اکثریت ملنے تک، خیبر پختون خوا پر حکومت کرنے کا خطرہ مول نہ لیتی، تو قومی اسمبلی میں حقیقی اپوزیشن بن سکتی تھی۔ اب قومی اسمبلی میں، تحریک ِانصاف کی ''اپوزیشن'' ظاہری طور پر، پیپلز پارٹی کی ''اپوزیشن'' سے مختلف نہیں ہو گی۔

نو منتخب اسمبلی میں جاوید ہاشمی کی پہلی تقریر ضرورت سے زیادہ فرینڈلی تھی۔ قومی اسمبلی میں حلف اٹھانے کے بعد عمران خان کو سب سے پہلے جاوید ہاشمی کی اس تقریر کا ازالہ کرنا ہو گا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ عمران خان تیاری کر چُکے ہیں، اور اسمبلی میں اُن کی 'انٹری' بھرپور ہو گی۔ قومی اسمبلی میں ''اپوزیشن'' کے اس بحران کے سبب شیخ رشید کی ترک تازیوں کے لیے میدان بہت وسیع ہے۔ اُن کے پاس تجربہ ہے، مطالعہ ہے، تقریر کا ملکہ ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حوصلہ ہے۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر شیخ رشید نے راول پنڈی کے گلی کُوچوں میں انتخابی مہم چلائی تھی۔ شیخ رشید، خورشید شاہ کی طرح سرکاری طور پر ''اپوزیشن لیڈر'' تو یقیناً نہیں بن سکیں گے، لیکن عملی طور پر یہ بھاری پتھر شیخ رشید احمد ہی کو اُٹھانا پڑے گا۔ بھاری مینڈیٹ، بکھری اپوزیشن؛ کڑی دھوپ میں یہ ایک لمبا سفر ہے۔ بابا فریدؒ نے کہا تھا،

کُوک فریدا کُوک جیویں راکھا جوار

جب لگ ٹانڈا نہ گرے، تب لگ کُوک پکار
Load Next Story