حلف…
ہم نے اپنی آنکھوں سے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے معزز و محترم اراکین کو حلف اٹھاتے دیکھا۔ ان معززین کے چہروں پر ۔۔۔
ہم نے اپنی آنکھوں سے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے معزز و محترم اراکین کو حلف اٹھاتے دیکھا۔ ان معززین کے چہروں پر ایک تو اشرافیائی چمک جھلک رہی تھی۔ آج جب میں اس جمہوری روایت پر عملدرآمد ہوتے دیکھ رہا تھا تو نہ جانے میرے ذہن میں اپنے معاشرے کی مختلف روایات کیوں گھوم رہی تھیں۔ مثلاً ونی کی روایت، وٹہ سٹہ کی روایت، بچپن کی شادی کی روایت، غیرت کے نام پر قتل کی روایت، کاروکاری کی روایت، قرآن سے شادی کی روایت، وڈیروں جاگیرداروں کے سامنے سرجھکائے رکھنے کی روایت، روایتوں کا ایک ہجوم تھا جو ذہن پر یلغار کر رہا تھا اور ہمارے معزز اراکین اسمبلی کی حلف برداری کی جدید اور جمہوری روایت ان پرانی اور فرسودہ لیکن ہمارے معاشرے میں جاری و ساری روایتوں کا منہ چڑاتے نظر آرہی تھی۔
اس رسم حلف برداری کے موقعے پر ایک دلچسپ منظرنامہ ہمارے سامنے میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف کی اسمبلی ہالوں میں آمد کی شکل میں تھا۔ میاں نواز شریف کی اسلام آباد ایئرپورٹ آمد کا منظر دیکھ کر نہ جانے کیوں حیدر آباد دکن کے فرمانروا حضور نظام کی سواری کے مناظر ہماری نظروں میں گھوم گئے حالانکہ ان دو ''سلطانی'' اور ''سلطانی جمہور'' کے مناظر کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں۔ حضور نظام کی ''سواری'' جب کنگ کوٹھی سے نکلتی تھی توسارے شہر کی ٹریفک کو بند کردیا جاتا تھا۔ حضور جب باتھ روم میں ہوتے تھے تو شہر بھر میں پہلی سیٹی بجتی تھی، پھر یہ سیٹیاں ان کی تیاری کے مختلف مرحلوں سے گزرتی ہوئی ان کی رہائش گاہ کنگ کوٹھی سے روانگی تک بجتی رہتی تھیں، سڑکوں کے کنارے رعایا سر جھکائے کھڑی رہتی تھی۔
پاکستان سمیت سارے جمہوری ملکوں میں اراکین اسمبلیوں سے حلف برداری کی روایت موجود ہے۔ اس حلف میں ''ایمانداری سے اپنے فرائض منصبی'' ادا کرنے کے علاوہ ملک و ملت سے وفاداری سمیت کئی وفاداریوں کا ذکر ہوتا ہے۔ اس رسم حلف برداری کے بعد اس حلف کی تعمیل کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کی حشر سامانیوںکا عالم یہ ہوتا ہے کہ عوام موت کو زندگی پر ترجیح دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس کا ایک ہلکا سا نظارہ ہم نے پچھلی پانچ سالہ حکومت کے دور میں دیکھا ہے اور اب تک دیکھ رہے ہیں ۔ ہماری تینوں صوبائی اسمبلیوں کی رسم حلف برداری کے موقعے پر اسمبلیوں کے باہر کھڑی پجارو، بی ایم ڈبلیو سمیت نئے نئے ماڈل کی کاروں کے ہجوم اور ان کاروں سے برآمد ہوتے ہوئے اراکین اسمبلیوں کے زرق برق لباس، میک اپ سے سجے چاند چہروں، ستارہ آنکھوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا ملک کس قدر ترقی یافتہ ہوگیا ہے اور رسم حلف برداری کو کس خوبصورت انداز میں نبھایا جارہا ہے۔
حلف برداری کی رسم اسمبلیوں تک محدود نہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری دنیا جھوٹ کے سینگوں پر کھڑی ہوئی ہے۔ ہمارا نظام اس خرافات کا ذمے دار اس لیے ہے کہ یہ نظام انسان کو جھوٹ بولنا سکھاتا ہے بے ایمانی پر مجبور کرتا ہے کرپشن کی کیچڑ میں دھکیلتا ہے ضمیر فروشی کی K-2 پر پہنچاتا ہے خود غرضی ذاتی اور جماعتی مفادات کے پاتال میں کھڑا کر دیتا ہے۔ مغربی ملکوں میں یہ روایت رہی ہے کہ جب ان کا بادشاہ مرجاتا تھا تو وہ کہتے تھے بادشاہ مرگیا، بادشاہ زندہ باد، ہم پسماندہ ملکوں کے عوام دانشور قلمکار تباہیاں چھوڑ کر جانے والی جمہوریت کو ''جمہوریت مرگئی جمہوریت زندہ باد کہتے ہیں''۔ آج پانچ سال بعد ایک بار پھر ہم یہ کہہ رہے ہیں جمہوریت مرگئی جمہوریت زندہ باد ہم روایات کے اسیر ہیںروایات پسند قوم ہیں اور اپنی روایات کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔
حلف برداری کے اس ہجوم میں ہمارا ذہن ہمارے نئے قائد جناب محمد نواز شریف کے ایک بیان کی طرف مڑ گیا جس میں چند دن پہلے میاں صاحب نے فرمایا تھا کہ وہ اپنے اراکین اسمبلی سے اصل حلف سے یعنی پارلیمانی حلف سے پہلے ایک حلف یہ لیں گے کہ وہ رکن اسمبلی کا حلف لینے کے بعد اپنی رکنیت کے اختتام تک ایک پائی کی کرپشن کے جرم کا ہرگز ارتکاب نہیں کریں گے۔ میاں صاحب کے اس بیان پر ہمارا دل فرط مسرت سے اس زور سے دھڑکا تھا کہ ہمیں چکر آگئے تھے۔ میاں صاحب بڑے صاف گو صاف دل انسان ہیں جو ان کے دماغ میں ہوتا ہے وہی ان کی زبان پر ہوتا ہے۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ میاں صاحب کی کرپشن کے خلاف اپنے اراکین سے رسم حلف برداری کا منظر یا تو ہماری نظروں سے نہیں گزرا یا پھر ''سیاسی ذمے داریوں کے ہجوم میں'' میاں صاحب اپنے اراکین سے یہ انتہائی اہم حلف لینا بھول گئے۔
ہم اس وقت اراکین اسمبلی کی حلف برداری اور کرپشن کے خلاف میاں صاحب کے اپنے اراکین سے حلف لینے کے اعلان کو درگزر کرکے ان مسائل کی طرف آتے ہیں جو ملک و قوم کے لیے باعث عذاب بنے ہوئے ہیں ان سنگین مسائل میں آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری کا بڑھتا ہوا سیلاب، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی اور ڈرون حملے سرفہرست ہیں۔ ان تمام مسائل کو حل کرنے کی شرط اول ملک میں امن وامان کا ماحول ہے۔ اسے ہم اپنی بدقسمتی کہیں یا ملک وقوم کی اجتماعی بدقسمتی کہ میاں صاحب کی لگاتار کوششوں کے نتیجے میں ''امن وامان کی ذمے دار قوتیں'' مذاکرات پر آمادہ ہوگئی تھیں لیکن امن وامان کے دشمن نے ایک ڈرون حملے میں امن وامان کے ڈپٹی کی جان لے کر مذاکرات کے خوشگوار عمل کو سبوتاژ کردیا، اب امن وامان کی ضامن قوتوں نے نہ صرف مذاکرات سے انکار کردیا ہے بلکہ ہماری نئی حکومت پر یہ الزام بھی لگادیا ہے کہ ڈرون حملوں میں اس کا بھی ہاتھ ہے۔ ادھر میاں صاحب اور خان صاحب کی بار بار کی اپیلوں کے باوجود امریکا کے وزیر خارجہ حضرت کیری فرما رہے ہیں کہ ''ہم حالت جنگ میں ہیں اور اب تک ڈرون کے ذریعے کئی اہم ٹارگٹ کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں لہٰذا ڈرون حملے بند کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ گھمبیر صورت حال میاں اور خان صاحب کے سامنے کھڑی ہے۔
جیساکہ ہم نے نشان دہی کی ہے کہ اس وقت ملک کو مہنگائی، بے روزگاری، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ، جرائم کی بھرمار، ٹارگٹ کلنگ، بے لگام بے سمت دہشت گردی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے، ان کے حل کے لیے شرط اول امن وامان کی فضاء کی بحالی ہے اور اس نفاذ کا دارومدار ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ منسلک ہے۔ امن وامان کی ذمے دار طاقتوں کا پہلا مطالبہ ڈرون حملوں کو بند کرنا ہے۔ ہمارے میاں اور خان صاحب ایک عرصے سے ڈرون حملوں کو خلاف قانون، اقوام متحدہ کے اصولوں کے خلاف، قومی اور بین الاقوامی اخلاقیات کے خلاف قرار دیتے ہوئے امریکا سے پرزور مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ازراہ کرم ڈرون حملے بند کرکے ہم پر مہربانی کرے۔ ہمارے خان صاحب تو میاں صاحب سے اب یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ڈرون کو مار گرانے کا حکم دیں اور ہمیں یقین ہے کہ اگر خان صاحب وزیر اعظم بن جاتے تو رسم حلف برداری کے بعد وہ پہلا حکم ڈرون گرانے کا دیتے اور اب تک کئی ڈرون گرا چکتے۔
اس حوالے سے غالباً امریکا میاں صاحب کی اور خان صاحب کی یہ منطق سمجھنے سے قاصر ہے کہ ڈرون حملے تو قانونی اخلاقی اور اقوام متحدہ کے اصولوں کے خلاف ہیں لیکن دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑانا، دو دو سال کے بچوں، بوڑھی عورتوں، بے گناہ انسانوں کا بہیمانہ قتل، خودکش حملے، بارودی گاڑیاں، پولیس، رینجرز، فوجی جوانوں کا قتل، فوجی اڈوں کو تباہ کرنا، فوجی قافلوں، فوجی چوکیوں پر راکٹ میزائل برساکر انھیں تبا کرنا قومی اور بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کے عین مطابق ہے۔سوچ اور فکر کے اسی اختلاف نے یہ سارا کھڑاک پیدا کیا ہے ورنہ نہ مسائل ہوتے نہ مسائل حل کرنے کی ضرورت ہوتی؟ امریکا اس ''فکرنو'' کو سمجھ جاتا تو نہ میاں صاحب کو پریشانی ہوتی نہ خان صاحب کو غصہ آتا۔