کیا اب بدلے گا پاکستان
الیکشن 2013 آخر اپنے اختتام کو پہنچ گئے اور نئی حکومت نے بھی حلف اٹھالیا،ایک اچھی بات تو یہ تھی کہ جس قدر دہشت گردی۔۔۔
الیکشن 2013 آخر اپنے اختتام کو پہنچ گئے اور نئی حکومت نے بھی حلف اٹھالیا،ایک اچھی بات تو یہ تھی کہ جس قدر دہشت گردی اور خون خرابہ ہونے کی اطلاعات آ رہی تھیں اس لحاظ سے تو چند واقعات کے علاوہ کافی امن و امان رہا لیکن افسوس کی بات یہ تھی کہ قوم جس طرح سے امیدیں لگا کے بیٹھی تھی کہ صاف شفاف انتخابات ہوں گے وہ سو فیصد پوری نہیں ہوئیں ۔ 11 مئی سے لے کر آج تک انتخابات میں دھاندلی کے بہت زیادہ شواہد سامنے آ چکے ہیں ۔ کوئی پارٹی ایسی نہیں جو مطمئن نظر آتی ہو ۔ جس طاقت ور کا جہاں زور چلا اس نے اپنی طاقت کے جوہر دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ انتخابات اور ان سے جڑے پارٹیوں کے تحفظات کوئی نئے نہیں ہیں لیکن اب کی بار چونکہ پہلی بار ایسا لگا تھا کہ ہم واقعی آزاد الیکشن کمیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور دوسرا الیکشن کمشنر کی صلاحیتوں پہ کسی کو شبہ نہیں یہی وجہ ہے کہ شاید امیدیں بھی کچھ زیادہ ہی تھیں ۔
بہر حال انتخابات کا موسم جیسے تیسے کرکے گزر ہی گیا ہے اور ایک دفعہ پھر جمہوریت کی خاطر یہ کڑوا گھونٹ بھی پی کر اب آگے آنے والے وقت کی طرف نظریں جمائے لوگوں نے نئی حکومت سے امیدیں لگا لی ہیں ۔ نواز شریف صاحب جو کہ ان الیکشن میں سب سے بڑی سیاسی طاقت کے ساتھ آئے ہیں اور انھوں نے ملک کے انتظامی امور بھی سنبھال لیے ہیں ۔ انھوں نے الیکشن میں جو سیاسی نعرہ لگایا تھا کہ ہم نے بدلا ہے پنجاب ، ہم بدلیں گے پاکستان ، اب پاکستان بدلنے کا سارا بوجھ نہ صرف ان کے کاندھوں پر ہے ساتھ ہی ان کا جو یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا تجربہ زیادہ ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کا تجربہ پاکستان کو کس سمت لے جاتا ہے ۔
سب سے اہم مسئلہ اس وقت لوڈ شیڈنگ کا ہے جس نے ساری قوم کا چین اور سکون غارت کر رکھا ہے ۔ اس شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ بھگتنا کسی عذاب سے کم نہیں ۔ شہباز شریف کا قوم سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ تو حلف اٹھانے سے پہلے ہی کھٹائی میں جاتا ہوا نظر آرہا تھا اور اب بھی بظاہر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا گیا جس سے لگے کہ ہم جلد اس عفریت سے چھٹکارا پا لیں گے ۔ شہباز شریف جو کہتے تھے کہ لوڈ شیڈنگ چھے مہینے، پھر ایک سال اور پھر دو سال میں ختم کردوں گا لیکن نواز شریف نے حلف اٹھانے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دے سکتا اور یہ بھی کہ ہمیں تو خزانہ ہی خالی ملا ہے ۔ کیا پاکستان کو بدلنے کا وعدہ کرنے والوں کی بے بسی ابھی سے ان کے بیانات سے چھلکنے لگی ہے ؟
دوسری طرف ڈرون حملے جن کی حیثیت متنازعہ ہی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف یہ کھلم کھلی جارحیت ہے کہ اس بارے میں امریکا نے ایک دفعہ پھر حالیہ بیان میں واضح کردیا ہے کہ یہ حملے امریکی ادارے سی آئی اے کے زیر نگرانی جاری رہیں گے ۔ اس بیان پر مسلم لیگ ن کی طرف سے پہلے مسلسل خاموشی اور پھر صرف مذمت ،کہیں پچھلی حکومت کی پالیسی جاری رکھنے کا عندیہ تو نہیں ہے۔ جیسے وکی لیکس کے انکشافات نے اس بات کو ثابت کیا تھا کہ پہلے ڈرون حملے دراصل سابق حکومت کے ایما پر ہی ہو رہے تھے ۔ جنہوں نے خفیہ طور پر امریکا کو ان حملوں کو جاری رکھنے کا عندیہ دیا تھا ۔
وکی لیکس نے این ڈبلیو پیٹرسن کی وزیراعظم اور رحمان ملک سے ایک ملاقات کے حوالے سے بھی انکشاف کیا تھا کہ دوران ملاقات رحمان ملک نے کہا تھا کہ جب تک باجوڑ میں فوجی آپریشن مکمل نہیں ہو جاتا ہمیں ڈرون حملے روک دینے چاہیے کیونکہ اس کے خاصے منفی نتائج برآمد ہو رہے ہیں ۔ جس کے جواب میں وزیر اعظم نے انھیں فوری طور پر ٹوک کے کہا کہ مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ان کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں یہ چلتے رہنے چاہیں جب تک اپنے ٹارگٹ پورے نہ کر لیں ۔ ہم قومی اسمبلی میں مذمت کر یں گے اور پھر نظرانداز کر دیں گے ۔ وکی لیکس کے اس دعوے کی دفتر خارجہ نے تردید بھی کی تھی ۔ ڈرون حملوں کو بند کرنے کے حوالے سے بعد میں بھی کئی قراردادیں پاس کی گئیں پر عمل درآمد نہ ہو سکا ۔ نواز شریف صاحب کو جلد اس حوالے سے بھی کوئی واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا ورنہ قبائلی علاقوں اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں امن کا خواب ممکن نہیں ہو سکے گا اور نہ ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہو سکیں گے ۔
اسی طرح سے مزدور کی تنخواہ بجٹ میں کم سے کم 18 ہزار کو بھی پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے ۔ لاہور سے کراچی موٹر وے بنانی ہے ۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں میٹرو بس بھی چلانی ہے ۔ بلٹ ٹرین چلانے کا بھی اٹھارہ کروڑ لوگوں سے وعدہ ہے ۔ نواز شریف صاحب کے الیکشن کے دوران کیے گئے وعدے اب ان کو نبھانے پڑیں گے گو کہ وہ ملک کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن چکے ہیں لیکن اب کے حالات پہلے سے کافی مختلف ہیں ۔ لوگوں کو اب ان کے مسائل کا حل چاہیے ، یہ پہلے ہی بہت کڑا وقت کاٹ چکے ہیں ۔حکمرانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ یہ 1997 نہیں 2013 ہے جہاں آج میڈیا آزاد ہے ۔ لوگ پہلے سے زیادہ باشعور ہیں اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا جانتے ہیں انھیں اپنی بے بسی کے قصے سنا کے قائل نہیں کیا جا سکتا ۔ نئی حکومت کے لیے اب کڑا امتحان ہے کیوںکہ آج کے پاکستان کو اب واقعی بدلنے کا وقت آ گیا ہے ۔ لوگوں کو پاکستان بدلنے کا خواب دکھانے والے حقیقت میں اس کی تعبیر دے پانے میں کس حد تک کامیاب ہوں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔