بجٹ پہلا امتحان
نومنتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا حلف اٹھاتے ہی کڑے امتحانوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ مرکز اور چاروں صوبائی ۔۔۔
KARACHI:
نومنتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا حلف اٹھاتے ہی کڑے امتحانوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ مرکز اور چاروں صوبائی حکومتوں کے قیام کے بعد بجٹ کی تشکیل کا مرحلہ سب سے اہم ہے جس میں ایک جانب قوم تمام مسائل کے حل کے حوالے سے بہت پر امید ہے تو دوسری جانب ایسے ابتر معاشی حالات میں بجٹ کا پیش کیا جانا کافی دشوار گزارکام ہے کہ جب ملک کے گزشتہ بجٹ کا خسارہ ایک ہزار ایک سو ارب (گیارہ سو ارب) تھا اور پیپلز پارٹی کی سابقہ اتحادی حکومت کی نااہلی، بدانتظامی اور بدتر طرز حکمرانی کی وجہ سے رواں مالی سال کے اختتام تک ایف بی آر کی جانب سے آمدنی کے ضمن میں مقرر کیے گئے ریونیو کی کلیکشن کے ہدف میں بھی 790 ارب روپے کی عدم وصولی نے اس کو مزید دشوار بنادیا ہے۔ ان وجوہات کے نتیجے میں مالی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔
ماضی میں اس طرح کی دیگر غلطیوں اور نااہلییوں کے سبب ملک کو بڑے پیمانے پر غیر ملکی قرضے لینے پڑے ہیں۔ اس طرح پاکستان پر کل قرضوں کا مجموعی بوجھ بڑھتے بڑھتے اب 1600 کھرب روپے (سولہ ہزار ارب روپے) ہوگیاہے جس میں سے 750 کھرب روپے غیر ملکی قرضہ شامل ہے۔ غیر ملکی قرضے ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے بھاری شرح سود اور سخت شرائط پر حاصل کیے جاتے ہیں۔ بھاری شرح سود پرحاصل کیے جانے والے قرضے کے حصول کے نتیجے میں غیر ملکی قرضوں کے حجم میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس سے ملکی کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہوتی ہے اور روز مرہ استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ملک کے عوام کی اکثریت اشیائے ضرورت کی چیزوں کی خریداری کی قوت سے محروم ہوتی جاتی ہے۔ افراط زر میں مسلسل اضافہ کا رجحان جاری رہتا ہے جس سے معاشرے میں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ حال ہی میں ورلڈ بینک کی جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد اب بڑھ کر 60 فیصد ہوگئی ہے۔
ان انتہائی مشکل اور نامساعد حالات میں ایک ایسے متوازن بجٹ کا پیش کیا جانا کہ جس کے نتیجے میں ہر فرد کے لیے عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کا حصول آسان ہوجائے بظاہر کافی مشکل محسوس ہوتا ہے لیکن نئی جمہوری حکومت کو عوامی توقعات پورا کرنے کے لیے ایسے اقدامات اٹھانا ہوں گے کہ یہ کام ممکن ہوسکے۔ عمومی رائے میں معاشی اور اقتصادی سرگرمیوں کے آغاز کے لیے جو چند بنیادی عوامل کار فرما ہیں ان میں امن و امان کی درستگی، دہشت گردی کا خاتمہ، سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی، ریاستی حمایت اور ان سب کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود توانائی کے بدترین بحران پر قابو حاصل کرنا از حد ضروری ہے کیونکہ توانائی کے بدترین بحران نے صنعتی اور زرعی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ صرف توانائی کی کمی کی وجہ سے ہزاروں کارخانے بند ہوچکے ہیں۔
ماضی میں زراعت کے شعبہ میں ٹریکٹر اور ٹیوب ویل کے استعمال کی وجہ سے اب زراعت کے شعبہ بھی توانائی پر انحصار بہت بڑھ گیا ہے اور توانائی کی کمی سے یہ شعبہ بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ زرعی اور صنعتی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے لاکھوں محنت کش بیروزگار ہو گئے ہیں اور ان کے گھرانے فاقہ کشی پر مجبور ہیں اور اسی بنا پر معاشرے میں جرائم اور برائیوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور جرائم کے نت نئے طریقے جنم لے رہے ہیں۔ ان حالات میں توانائی کی کمی کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ نومنتخب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے مطابق توانائی کے بدترین بحران میں کمی کے لیے فوری طور پر 500 ارب روپے کی اشد ضرورت ہے۔ جس کے بعد ہی لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کمی ممکن ہوسکے گی اور گھریلو صارفین کے علاوہ صنعتوں کو بھی بجلی اتنی مقدار میں دی جائے تاکہ صنعتی سرگرمیاں مناسب حد تک شروع ہوسکیں ۔
500 ارب روپے کے فوری حصول کے لیے میاں نواز شریف جو بھی قدم اٹھائیں بہرکیف ملکی آمدنی میں مستقل اضافہ کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور ان ہی کی جانب سے تجویز کیے گئے سرکاری اخراجات میں 30 فیصدکٹوتی کے ساتھ ساتھ ٹیکس چوری کے خاتمے اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ قومی آمدنی میں اضافے کے لیے اس کے علاوہ زراعت، ٹرانسپورٹ اور پروفیشنلز پر ان کی آمدنی کے تناسب سے ٹیکس وصول کیا جائے جب کہ کرپشن، غربت، مہنگائی ، بیروزگاری، دہشت گردی، درآمدات اور برآمدات میں موجود عدم توازن کے خاتمے کے لیے موثر حکمت عملی بنائی جائے اور اس پر سختی سے عملدرآمد بھی کیا جائے۔کرپشن اور بدعنوانی کو کسی طور پر برداشت نہ کیا جائے کیونکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں ملک کی تاریخ کی بدترین کرپشن دیکھنے میں آئی۔اس دور میں 12600 ارب روپے کرپشن،کی نذر ہوئے۔
کرپشن، بدعنوانی اور نااہلی کی وجہ سے قومی ملکیت کے صنعتی اور تجارتی ادارے قومی آمدنی میں اضافے کا ذریعہ بننے کے بجائے تشویشناک حد تک ابتر صورتحال کا شکار ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے اعدادو شمار کے مطابق چند قومی ملکیتی اداروں کا خسارہ 500 ارب روپے سے بھی تجاوز کرچکا ہے جس سے ملکی معیشت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں قومی ملکیتی ادارے اپنے اخراجات کے بعد ملک کو خالص منافعے کی مد میں کوئی معقول رقم دینے کے بجائے گزشتہ کئی سالوں سے ہر سال اربوں روپے اپنے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے حکومت سے حاصل کرتے ہیں جس سے بجٹ کا خسارہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
ایسے اداروں کو منافع بخش بنانے کے لیے وہاں ملازمت کرنے والے چھوٹے درجے کے ملازمین اور محنت کشوں کو مختلف اسکیموں کے تحت نکالنے کے بجائے ان سب ملازمین کی فنی صلاحیتوں میں اضافہ کرکے انسانی سرمائے کو قابلِ قدر بنایا جائے اور اس انسانی سرمائے سے فائدہ اٹھایا جائے۔تمام اداروں میں خدمات انجام دینے والے، محنت کش اور چھوٹے درجے کے ملازمین کی تنخواہوں، سہولیات اور دیگر مراعات کی مد میں سالانہ اخراجات محض چند ارب روپے سے زیادہ کے ہر گز نہیںہیں۔ اس صورتحال میں اگر معاملات کا صحیح جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کئی سو ارب کے خسارے کا سبب، اداروں پر زیادہ ملازمین کا بوجھ نہیں بلکہ حکومت کی ناقص پالیسی ،اداروں کی اعلیٰ بیورو کریسی، چند بڑے افسران کی غلط حکمت عملی، پروفیشنل ماہرین کی عدم دستیابی، نااہلی اور کرپشن ہے جس پر قابو پاکر شفاف نظام قائم کیا جائے توقومی ملکیتی اداروں کو پہنچنے والے سالانہ 500 ارب روپے کے خسارے کو قابل برداشت حدتک کم کیا جاسکتا ہے اور انھیں اگلے مرحلے پر منافع بخش بھی بنایا جاسکتا ہے، اس طرح ملازمین کو کم کرنے کی ہر گز ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
ویسے بھی ملازمین کو ایسے اداروں سے نکال کر معاشرے میں پہلے سے موجود بے پناہ بیروزگاری میں مزید اضافہ ہی ہوگا جس سے ایک جانب مزید بے اطمینانی کے پھیلنے کا اندیشہ ہے تو دوسری جانب مخالفین کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کے خلاف اس غلط تصور کو ابھارا جائے گا کہ جب یہ جماعت برسر اقتدار آتی ہے تو محنت کشوں کو اداروں سے نکالنے کے عمل کا آغاز ہوجاتا ہے جب کہ پیپلز پارٹی خواہ کیسے ہی معاشی حالات کیوں نہ ہوں جب بھی برسراقتدار آتی ہے تو وہ محنت کشوں کو بیروزگار ہرگز نہیں کرتی بلکہ انھیں مزید روزگار فراہم کرتی ہے۔ لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ایسے فیصلے کرے جس سے ملکی معیشت مستحکم بنیادوں پر فروغ پائے اور ملک کا محنت کش طبقہ بھی اپنے روزگار کے تحفظ کے لیے پریشان نہ ہو بلکہ اپنے روزگار کو پوری طرح محفوظ تصور کرے۔ اس اعتبار سے یہ بجٹ حکومت کا پہلا امتحان ہوگا۔