قمر علی عباسی ناٹ آؤٹ
پیدائش کے وقت انسان کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں ہوتی ہیں، دودھ، سونے کے لیے جھولا، کچھ ڈائپرز، کپڑے، وہ کون ہے کہاں ہے۔۔۔
لاہور:
پیدائش کے وقت انسان کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں ہوتی ہیں، دودھ، سونے کے لیے جھولا، کچھ ڈائپرز، کپڑے، وہ کون ہے کہاں ہے اور کس کی اولاد ہے اس کی اسے کوئی خبر اور فکر نہیں ہوتی۔ وقت گزرتا ہے اور بچے کی ضرورتیں بڑھتی جاتی ہیں۔ کھلونے، چلنے کا واکر، کھانا اور ان سب چیزوں کے ساتھ اس کی شخصیت بننا شروع ہوتی ہے اور آس پاس کے لوگوں سے پہچان ہوتی ہے۔
انسان اپنی زندگی کا پہلا قدم اس شخص کے ہاتھوں کو تھام کرلیتا ہے جو اس بچے کی سوچ اور آنے والی زندگی کیسی ہوگی کا فیصلہ کرتا ہے۔ جس شخص کے ہاتھ کو تھام کر میں نے چلنا سیکھا وہ ہاتھ میرے والد قمر علی عباسی کا تھا۔
میں کوئی چار پانچ سال کا ہوں گا کہ اپنے والد کی انگلی تھام کر پہلی بار اسکول جارہا تھا۔ میں نے ان کی انگلی مضبوطی سے پکڑی ہوئی تھی۔ مجھے اس اسکول کی بڑی سی عمارت اور سیکڑوں انجان لوگوں سے ڈر تھا۔ میں ابو کا ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہتا تھا لیکن ہر سفر چاہے وہ آسان ہو یا مشکل اس کی کوئی نہ کوئی منزل کوئی اختتام ضرور ہوتا ہے، میرے ان ننھے قدموں کا وہ لمبا سفر کلاس روم پر پہنچ کر ختم ہوا۔ میں نے ابو سے کہا مجھے کلاس روم میں اکیلے نہیں جانا۔ ابو نے کہا بیٹا! زندگی میں کبھی ڈرنا نہیں، یہ دنیا تمہاری ہے تم جو چاہے حاصل کرسکتے ہو۔ انھوں نے میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور کلاس میں داخل ہوگیا۔ میں نے مڑ کر نہیں دیکھا شاید ابو کچھ ہی لمحوں بعد وہاں سے مڑ کر چلے گئے میں اپنی مٹھی کو مضبوطی سے بند کیے کلاس میں اس احساس کے ساتھ جا بیٹھا کہ ابو اب بھی میرے ساتھ ہیں۔
ٹیچر نے کتاب کا پہلا صفحہ کھولا اور وہاں سے میری زندگی میں آگے بڑھنے کا لمبا سفر شروع ہوگیا۔
خوش نصیب ہے وہ بچہ جو ایسے گھر میں پیدا ہو جہاں اس کا خیال رکھنے والے اس کو پیار کرنے والے والدین ملیں لیکن اگر وہ والدین قمر علی عباسی اور نیلوفر عباسی جیسے ہوں تو زندگی آپ کو خدا کی طرف سے ایک تحفہ ایک نعمت لگتی ہے۔
دس بارہ سال کی عمر تک آتے مجھے احساس ہوگیا تھا کہ میں کسی عام شخص کا بیٹا نہیں ہوں۔ میرے والد جب تقریر کرتے تو سیکڑوں لوگ خاموشی سے سن رہے ہوتے ان کی لکھی کتابوں کی باتیں کرتے۔ ان کے چاروں طرف ہجوم لگائے لوگ مجھے احساس دلاتے کہ میرے والد صرف بہترین شوہر اور باپ ہی نہیں ایک بہترین رائٹر بھی ہیں جنھیں لوگ سچ مچ دل سے پسند کرتے ہیں۔
شاید ایک سترہ اٹھارہ سال کا لڑکا جس کے پاس پیسے، دوست، گاڑیوں کی کمی نہ ہو اور کراچی جیسے شہر میں ہر طرح کی آزادی ہو، اس کا بگڑ جانا بہت آسان ہوگا۔ لیکن میں قمر علی عباسی کا بیٹا تھا وہ بیٹا جو ہر محفل سے اٹھ کر ہر دوست کو ناراض کرکے گھر واپس رات دس بجے صرف اس لیے آجاتا تھا کہ میں اپنے ابو کے پیر دبا سکوں، ابو نے مجھے کبھی پاؤں دبانے کے لیے نہیں کہا، لیکن میں زبردستی دو دو گھنٹے ان کے پاؤں اس لیے دباتا کیوں کہ دن میں کالج کی تعلیم مجھے صرف چار پیسے کمانا سکھاتی لیکن میرے والد مجھے ان دو گھنٹوں میں اپنی باتوں سے یہ سکھاتے کہ ایک بڑا آدمی کیسے بنا جاتا ہے۔
میرے والد نے تیس سال ریڈیو میں کام کیا جہاں انھوں نے ہر چیز چاہے اسٹاف کا وقت پر آنا، میڈیکل بلز، پنشن، پروگراموں کی کوالٹی یا پھر ریڈیو پاکستان کی عمارت کی خوبصورتی ہو سب کو اعلیٰ ترین معیار پر پہنچایا۔ ایک ایسا آدمی جو پانچ بجے صبح اٹھ کر کام کرنا شروع کردیتا اس کے لیے شاید کام کے سوا کچھ اور کرنا ناممکن ہوتا لیکن میرے والد نے ایک دو نہیں درجنوں سفر نامے لکھے جن کے کئی کئی ایڈیشن شایع ہوئے ۔ بیس اکیس سال کی عمر میں مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میرے والد ایک ملٹی ٹیلینٹڈ اعلیٰ پایے کے ایڈمنسٹریٹر اور بہترین رائٹر ہیں۔ وہ ہر کام کو اتنی آسانی اور بغیر کسی ٹینشن کے کرتے کہ آس پاس کے لوگوں کو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ شخص ایک ساتھ اتنے سارے کام کررہا ہے۔
امریکا ایک بہت مشکل جگہ ہے خصوصاً جب آپ پاکستان کے ایسے ماحول سے آئے ہوں جہاں آپ کے لیے نوکروں سے لے کر گاڑیوں تک کی لائنیں لگی ہوں۔ میں بائیس سال کا تھا میں نے ابو سے کہا پتہ نہیں میں امریکا میں کامیاب ہو پاؤں گا یا نہیں۔ ابو نے کہا بیٹا! میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں، مجھے یقین ہے تم کامیاب ہوگے، خود پر یقین رکھو۔ لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے خود سے زیادہ اپنے والد کے یقین پر یقین تھا۔
زندگی کے ہر موڑ اور بڑے فیصلے پر میں نے اپنی مٹھی بند کرکے یہ محسوس کیا کہ میرے والد میرے ساتھ ہیں تو مجھے کبھی ناکامی نہیں ہوئی۔ دنیا میں بیشتر لوگ اپنے لیے سوچتے ہیں لیکن قمر علی عباسی جیسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو صرف دوسروں کے لیے سوچتے ہیں۔ میرے والد نے جہاں چار پیسے کمائے وہاں تین ضرورت مندوں پر خرچ کیے۔ انسان پیسے سے صرف امیر ہوتا ہے لیکن اپنی سوچ اور کرم سے عظیم ہوتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے میرے والد کو پیسے سے نوازا وہیں ان کے اندر وہ عظیم انسان بھی زندہ رکھا جو انسانیت کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔
میرے والد کی بائیوگرافی ان کے ریٹائر ہونے سے ایک دن پہلے مارکیٹ میں آگئی ''قمر علی عباسی 32 ناٹ آؤٹ''
اس کا مطلب تھا وہ بتیس سال سے کام کر رہے ہیں جاب سے تو ریٹائر ہوگئے مگر کام کرتے رہیں گے۔ میں پچیس چھبیس سال کا تھا کہ میرے والد نے میری مٹھی میں جس سے میں ان کا ہاتھ تھام کر اسکول گیا تھا قلم تھما دیا۔ تم میرے بیٹے ہو، تمہیں لکھنا چاہیے۔ میں پچھلے کئی سال سے لگاتار لکھ رہا ہوں اپنے لیے نہیں اپنے والد کے لیے۔ میں قمر علی عباسی جیسا لکھنا چاہتا ہوں۔ ان جیسا ایڈمنسٹریٹر، شوہر، باپ بننا چاہتا ہوں اور اگر میں زندگی میں دس فیصد بھی ان جیسا بن سکا تو میں خود کو بہت زیادہ کامیاب انسان مانوں گا۔
پچھلے کئی سال میں کئی بار لوگ مجھے ملے اور کہا سچ بتاؤ عباسی صاحب لکھ کر دیتے ہیں تمہیں کالم؟ یہ بات سن کر مجھے خوشی ہوتی کہ وہ مجھے قمر علی عباسی جیسے رائٹر سے ملا رہے ہیں وہیں میں کئی دلیلیں دیتا کہ نہیں یہ میں خود لکھتا ہوں۔ اب مجھ سے کوئی یہ نہیں کہے گا کہ کیا تمہارا کالم قمر علی عباسی لکھتے ہیں؟
قمر علی عباسی ایک ذہین انسان تھے جانتے تھے کہ بیشتر اردو لکھنے والوں کے نام ان کے ساتھ ہی ختم ہوجاتے ہیں لیکن قمر علی عباسی آؤٹ ہونے والوں میں سے نہیں۔ وہ ہمارے بیچ سے چلے تو گئے لیکن اپنے بیٹے وجاہت علی عباسی کو اپنا قلم دے گئے۔ وہ قلم جو لکھنا بند نہیں کرے گا۔ لکھتا جائے گا۔ میرے ہر لفظ میں قمر علی عباسی سانس لیں گے وہ کئی لوگ جو سمجھتے تھے کہ میرے کالم میرے والد لکھتے ہیں وہ صحیح تھے وہ میرے والد ہی تھے جو لکھتے تھے اور لکھتے رہیں گے کیوں کہ قمر علی عباسی ابھی تک کریز پر ہیں۔۔۔۔۔ناٹ آؤٹ!!