شہنشاہِ غزل مہدی حسن کی پہلی برسی 13 جون کو منائی جائیگی

60ء میں ان کی گائی فیص احمدفیض کی غزل’’گلوں میں رنگ بھرے‘‘ہرطرف گونجنے لگی


Cultural Reporter June 10, 2013
طویل علالت کے بعدگزشتہ برس کراچی کے نجی اسپتال میں دنیاسے کوچ کرگئے۔ فوٹو: فائل

KARACHI: برصغیر کے عالمی شہرت یافتہ غزل گائیک اور شہنشاہِ غزل استاد مہدی حسن کی پہلی برسی 13 جون کو منائی جائے گی۔

وہ 1927 میں بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں لْونا میں پیدا ہوئے۔ اْن کے والد اور چچا دْھرپد گائیکی کے ماہر تھے اور مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔ خود اْن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولھویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔1947میں بیس سالہ مہدی حسن اہلِ خانہ کے ساتھ ہجرتِ کر کے پاکستان آ گئے اور محنت مزدوری کے طور پر سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔ اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے انھوں نے مکینک کے کام میں مہارت حاصل کی اور پہلے موٹر اور اس کے بعد ٹریکٹر کے مکینک بن گئے، لیکن اس کے باوجود وہ موسیقی کے خیال سے غافل نہیں رہے اور ہر حال میں اپنا ریاض جاری رکھا۔

1950 کی دہائی اْن کے لیے مبارک ثابت ہوئی جب اْن کا تعارف ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی سے ہوا۔ جوہر شناس نے موتی کی صحیح پہچان کی تھی چنانچہ دھرپد، خیال، ٹھْمری اور دادرے کی تنگنائے سے نکل کر یہ جوہر قابل غزل کی پْرفضا وادی میں آنکلا جہاں اس کی صلاحیتوں کو جِلا ملی اور سن ساٹھ کی دہائی میں اس کی گائی ہوئی فیص احمد فیض کی غزل 'گلوں میں رنگ بھرے' ہر گلی کوچے میں گونجنے لگی۔ فلمی موسیقار اب جمگھٹا بنا کر اس کے گرد جمع ہوگئے اور 60 اور 70 کی دہائیوں میں مہدی حسن پاکستان کے معروف ترین فلمی گائیک بن گئے۔ سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لے کر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔ سنجیدہ حلقوں میں اْن کی حیثیت ایک غزل گائیک کے طور پر مستحکم رہی۔ اسی حیثیت میں انھوں نے برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ کیا۔



بھارت میں اْن کے احترام کا جو عالم تھا وہ لتا منگیشکر کے اس خراجِ تحسین سے ظاہر ہوا کہ مہدی حسن کے گلے میں تو بھگوان بولتے ہیں۔ نیپال کے شاہ بریندرا اْن کے احترام میں اْٹھ کے کھڑے ہوجاتے تھے اور فخر سے بتاتے تھے کہ انھیں مہدی حسن کی کئی غزلیں زبانی یاد ہیں۔ مہدی حسن کے لیے سب سے بڑا اعزاز وہ بے پناہ مقبولیت اور محبت تھی جو انھیں عوام کے دربار سے ملی۔پاکستان اوربھارت سے باہر بھی جہاں جہاں اْردو بولنے اور سمجھنے والے لوگ آباد ہیں، مہدی حسن کی پذیرائی ہوتی رہی اور 80 کی دہائی میں انھوں نے اپنا بیشتر وقت یورپ اور امریکا کے دوروں میں گزارا۔ مہدی حسن کثیرالاولاد تھے۔

اْن کے نو بیٹے اور پانچ بیٹیاں۔ اپنے بیٹوں آصف اور کامران کے علاوہ انھوں نے پوتوں کو بھی موسیقی کی تعلیم دی اور آخری عمر میں انھوں نے پڑدادا بننے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا اور اپنے پڑپوتوں کے سر پہ بھی دستِ شفقت رکھا۔ ان کے شاگردوں میں سب سے پہلے پرویز مہدی نے نام پیدا کیا اور تمام عمر اپنے اْستاد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔ بعد میں غلام عباس، سلامت علی، آصف جاوید اور طلعت عزیز جیسے ہونہار شاگردوں نے اْن کی طرز گائیکی کو زندہ رکھا۔ملکہ ترنم نور جہاں کا کہنا تھا کہ ایسی آواز صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتی ہے، حالانکہ یہ بات خود مادام کی شخصیت پر بھی اتنی ہی صادق آتی ہے۔ دنیائے غزل کا یہ عظیم شاہکار باالآخر طویل علالت کے بعد 13 جون 2012 کو کراچی کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں دار فانی سے کوچ کرگیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں