ملک کی تقدیر بدلے گی

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سیاست دانوں نے ہی ایک قوم کا تصور ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔


فاطمہ نقوی October 09, 2018
[email protected]

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سیاست دانوں نے ہی ایک قوم کا تصور ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ملک و قوم کے مفاد میں بننے والے منصوبوں کو سبوتاژکرنے میں بھی یہ لوگ پیش پیش رہے،کسی بھی ملک میں قومی منصوبوں سے متعلق اتفاق رائے باہمی گفت وشنید سے پیدا کیا جاتا ہے اوراپوزیشن سے لے کر حکمران اور عوام ایک ہی صفحے پر ہوتے ہیں ۔

بھارت کی آبی دہشت گردی نے پاکستان کے دریاؤں میں پانی انتہائی کم کردیا ہے، اکثر دریا ریت کے میدان میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ ہم اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ ڈیم بننے چاہئیں یا نہیں؟ اب دیامر بھاشا ڈیم پر عدلیہ نے کچھ کرنے کا عزم اٹھایا ہے تو اس پر بھی ان لوگوں کے مختلف النوع خیالات سامنے آ رہے ہیں۔ کالا باغ ڈیم بھی انھی حرکتوں کی وجہ سے نہ بن سکا اور اب بھاشا ڈیم سے متعلق بھی آہستہ آہستہ ایک سیاست دان کھل کے بھارتی موقف کی تائید کرتے نظر آرہے ہیں۔

سندھ کے وزیر تعلیم کا بیان میرے خیال میں تو ان کی ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ اس کے درپردہ کچھ اور معاملات نظر آرہے ہیں ۔دریائے سندھ کا پانی سمندرکی نذر ہوجائے یہ ان کے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں اور یہی پانی اگر روک کر اس سے بجلی بنائی جائے کھیت سیراب کیے جائیں تو اس سے لوگوں کے پیٹ میں درد ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ کوئی یہ راگ الاپنے لگتا ہے کہ ڈیم بنانا عدلیہ کاکام نہیں مگر جب متعلقہ ادارے یا سیاستدان، حکومت اپنا کام نہ کرے تو ہرکسی کو تو اپنا حصہ ڈالنا ہوتا ہے، کوئی ہرزہ سرائی کر رہا ہے کہ ڈیم چندے سے نہیں بنتے۔ بالکل ٹھیک مگر جب بات نسلوں کی بقا کی ہو تو چندوں سے بھی معجزے سرزد ہوجاتے ہیں ۔

ایک بادشاہ کا گزر ایک باغ سے ہوا وہاں دیکھا کہ ایک انتہائی بوڑھا شخص آم کے پودے لگا رہا ہے۔ بادشاہ نے تمسخر سے کہا '' بڑے میاں ! تم تو ان پیڑوں کے بڑے ہونے تک زندہ نہیں رہو گے اور ان درختوں کے پھل نہیں کھا سکو گے ۔''بوڑھے نے مسکرا کر جواب دیا '' کوئی بات نہیں ان کے پھل میری نسلیں توکھائیں گی۔'' آج اگر ہم یہ بات سمجھ لیں تو آسانی ہوجائے گی ہم نے اپنا وقت پہلے ہی بہت ضایع کر دیا ہے ۔

بھارت آزادی کے بعد سے سیکڑوں ڈیم اہم مقامات پر بنا چکا ہے مگر ہم ابھی تک کالا باغ ڈیم کو ہی رو رہے ہیں کہ اس سے زمین سرسبز ہوگی یا بنجر، سالوں ہوگئے یہی سوچتے مگر نتیجہ پھر بھی نہ نکلا ۔ اگر چیف جسٹس نے یہ عزم کیا ہے کہ کالا باغ ڈیم جب تک نہ بنے تو بھاشا ڈیم ہی بن جائے تو ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے اور اس منصوبے کو اتنا شفاف ہونا چاہیے کہ اس کا حشر خراب نہ ہونے پائے جو لوگ اس ڈیم کی مخالفت میں سر جوڑکر بیٹھے ہیں وہ ملک و قوم کے دشمن ہیں ، ان کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم ہونا چاہیے ۔

امید ہے بیرون ملک پاکستانی اپنے وزیر اعظم اپنی عدلیہ کے ہاتھ مضبوط کریں گے اور حکومت کا بھی فرض ہے کہ اس اسکیم کا حشر قرض اتارو ملک سنوارو جیسا نہ ہو کہ قوم نے ایک جذبے کے ساتھ اس میں دل کھول کے عطیات دیے تھے مگر آج تک پتا نہ چل سکا کہ اربوں روپے کدھر گئے ۔ مسلم لیگ ن اپنی ایمان داری کے چرچے کرتے نہیں تھکتی ذرا قوم کو قرض اتارو ملک سنوارو کے پیسوں کا ہی حساب دے دیں۔

پی ٹی آئی نے لٹیروں کے خلاف آواز بلند کرکے کرپشن کے خلاف نعرے لگا کر عوام کے ووٹ حاصل کیے اب وقت آگیا ہے کہ ان لٹیروں سے پیسہ واپس لیا جائے۔ راجہ پرویز اشرف پر رینٹل پاور پروجیکٹ میں ملوث ہونے کا الزام ہے اس کے علاوہ شرجیل میمن پر 800 ارب روپے اور ڈاکٹر عاصم پر 462 ارب روپے کا الزام اور دوسرے کس کس کا نام لیں یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، اگر کرپٹ لوگوں سے ہی پیسہ وصول کرلیا جائے تو پھر ڈیم بھی بن جائیں گے اور قرض کی نوبت بھی نہ آسکے گی ۔

اس کے لیے سخت، بے رحم، بے لچک قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کی ضرورت ہے، جبھی کہیں جا کر ہم ڈیم بنانے کے قابل ہوسکیں گے ہمارے پاس تو ایسے چھوٹے ڈیم بھی نہیں کہ بھارت زائد پانی ہونے کی صورت میں پاکستان کی طرف جو پانی چھوڑتا ہے وہ پانی بھی ہم ذخیرہ نہیں کرسکتے بلکہ اس قسم کی صورتحال میں پاکستان میں سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ، لوگ اور ان کی فصلیں مصیبت میں گھر جاتی ہیں۔

اگر ہم ساتھ ساتھ اپنے ذخیرہ آب بنالیں جو اس قسم کے پانی کو ہی ذخیرہ کریں تو کچھ فائدہ ہو مگر ہمارے سیاست دان اور ہم صرف اپنے اور اپنے اہل و عیال کے مفادات میں ہی لگے ہوئے ہیں۔ اس بات سے بے خبر کہ قوم کو چند سال بعد قحط سالی کا سامنا کرنا پڑے گا مگر ہمیں اس سے مطلب نہیں۔ مسلم لیگ ن والے اگر چاہیں تو وہ کھربوں روپے واپس لاکر ڈیموں کی تعمیر کی مد میں دے دیں تو قوم اپنے ہی پیسے کو واپس لے کر دعائیں آپ ہی کو دے گی۔ ہر ایک کو دنیا سے خالی ہاتھ واپس جانا ہے، جنھوں نے قوم کا پیسہ کھایا ہے اسے سمجھ لیں تو شاید قوم کا پیسہ واپس کردیں تو اس ملک کی تقدیر بدل جائے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

ہم کو تو انتظارِ سحر بھی قبول ہے

لیکن شب ِفراق ترا کیا اصول ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں