پاکستان کی قیادت کا امتحان
روسی میزائل ٹیکنالوجی کی بدولت بھارت کو اس خطے میں پاکستان پر بالا دستی حاصل ہوجائے گی۔
روس کے صدر ولادی میر پوتن کا حالیہ دو روزہ دورہ بھارت اس وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ روسی صدر کا یہ دورہ ایسے وقت پر ہوا ہے جب امریکا بھارت کے ساتھ اپنی پینگیں بڑے شد ومد سے بڑھانے میں مصروف ہے۔ بھارت کے اس اقدام سے امریکا کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جس پر بھارت سے دوستی کا بھوت بری طرح سوار ہے۔ بھارت کا یہ اقدام امریکا کے پریم کا نشہ ہرن کرنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔
صدر پوتن کا حالیہ دورہ بھارت غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ دونوں ممالک کے حکمرانوں کی جانب سے ماضی کے دیرینہ تعلقات کی بحالی اور نئی پرجوش رفاقت کا مظہر ہے۔ اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان بھاری اسلحے کی فروخت کے انتہائی اہم نوعیت کے دفاعی معاہدے طے ہوئے ہیں۔ ان میں اہم ترین روسی ساختہ S400 میزائل پروگرام بھی شامل ہے۔
یہ وہ میزائل ہے جو امریکی میزائلوں پر سبقت رکھتا ہے اور جسے شام کی جنگ میں روس کی جانب سے نہایت کامیابی کے ساتھ آزمایا جاچکا ہے۔ اس میزائل کا دنیا میں ابھی تک کوئی توڑ تیار نہیں کیا جا سکا۔ بھارت گزشتہ کئی برسوں سے اس میزائل کو خریدنے کی کوشش میں مصروف تھا۔ اس لحاظ سے دفاعی شعبے میں بھارت کی یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے جو نہ صرف اس کے اہم ترین پڑوسی ممالک پاکستان اور چین بلکہ امریکا کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔
یاد رہے کہ امریکی محکمہ دفاع گزشتہ ماہ ہی خبردارکرچکا ہے کہ اگر بھارت نے روس سے میزائل پروگرام حاصل کرنے کا کوئی معاہدہ کیا تو اس کے نتیجے میں اسے ممکنہ طور پر امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل چین پر عائد کی جانے والی امریکی پابندیوں کی بنیادی وجہ بھی روس اور چین کے درمیان طے پانے والا میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کا معاہدہ ہی تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا بھارت روس کے میزائل معاہدے کے طے پانے کے بعد کیا ردعمل ظاہرکرتا ہے اور حالات اب کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟ بظاہر تو ایسا نہیں لگتا کہ امریکا اس کڑوی گولی کو آسانی سے نگل لے گا ۔
اس لیے قیاس یہی کیا جاسکتا ہے کہ امریکا بھارت تعلقات ایک نئی کروٹ لیں گے جس کے مضمرات و اثرات لامحالہ اس خطے پر ضرور مرتب ہوں گے۔ لازم ہے کہ ہمارے پالیسی ساز اس بدلتی ہوئی صورتحال سے پوری طرح آگاہ اور باخبر رہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کی بدترین مخالفت بھارت کی موجودہ قیادت نے جو جنگی جنون میں بری طرح مبتلا ہے روس کے ساتھ پانچ ارب ڈالر لاگت کا یہ میزائل پروگرام معاہدہ اس شرط کے ساتھ کیا ہے کہ روس یہ ٹیکنالوجی پاکستان کو ہرگز فراہم نہیں کرے گا۔
عالمی میڈیا کے مطابق S400 روسی میزائل ٹیکنالوجی کی بدولت بھارت کو اس خطے میں پاکستان پر بالا دستی حاصل ہوجائے گی۔ یہ پروگرام اینٹی میزائل صلاحیت رکھتا ہے جس کی بنا پر اس کے ذریعے پاکستانی میزائلوں کو راستے ہی میں روک کر گرایا جاسکتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی بدولت پاکستان کا ہرگوشہ بھارت کی ممکنہ جارحیت کی زد میں آجائے گا جس کے لیے پاکستان کو بلاتاخیرکوئی موثر دفاعی بندوبست کرنا لازمی ہوگا۔
جہاں تک پاک بھارت تعلقات کا سوال ہے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور اس نے پاکستان کے وجود کو آج تک دل سے تسلیم نہیں کیا۔ بھارت کی ہر سیاسی قیادت پاکستان کی ہمیشہ سے مخالف رہی ہے خواہ وہ کانگریس کی قیادت ہو یا بی جے پی کی۔ بھارت کی دونوں قیادتوں میں فرق صرف طریقہ واردات کا ہے۔ کانگریس کی قیادت بغل میں چھری کے مترادف ہے جب کہ بی جے پی کی قیادت ننگی تلوارکی طرح ہے۔
اس حقیقت کو بھلا کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان اور بابری مسجد کی شہادت کے سانحات کانگریس کی حکومت کے دور میں رونما ہوئے تھے۔ یہ کانگریس ہی کی حکومت تھی جس نے قیام پاکستان کے بعد اس کے حصے میں آنے والے اثاثوں کو دینے میں ٹال مٹول کرکے ہمارے وطن عزیز کو کمزور کرنے کی سازش کی تھی ۔ آزادی کے پہلے روز سے لے کر پاکستان کو آج کے دن تک بھارت کی مخاصمت اور بلا اشتعال جارحیت کا سنگین چیلنج درپیش ہے۔
بھارت کی قیادت پاکستان اور نظریہ پاکستان کی ہمیشہ سے مخالف رہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے خوشی سے بغلیں بجاتے ہوئے کہا تھا کہ ''ہم نے دو قومی نظریے کو ہمیشہ کے لیے خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔'' اور اب بی جے پی کی موجودہ قیادت پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے تمام قائدین ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ انھیں پاکستان کا وجود کسی طور بھی گوارا نہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ ایک آن میں ہمارے وطن عزیز کا وجود صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔ ایسے میں ''امن کی آشا'' محض ایک خودفریبی کے سوائے اور کچھ نہیں۔ غالب نے ایسی ہی صورتحال کے حوالے سے کہا تھا:
ہم کو ان سے ہے وفا کی امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔ وہ ہمیشہ سے پرامن بقائے باہمی کا قائل ہے اور اس کا موقف ہے کہ بھارت کے ساتھ تمام تنازعات بشمول مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے طے کیے جائیں۔ وزیر اعظم پاکستان نے امن اور خیر سگالی کے اس جذبے کے تحت بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی کو یہ پیغام دیا تھا کہ اگر بھارت اس کی جانب دوستی کا ایک قدم آگے بڑھائے گا تو پاکستان اس کے جواب میں دو قدم آگے بڑھائے گا۔ لیکن بھارت نے اس کے جواب میں ہٹ دھرمی اور دھمکی کا مظاہرہ کرکے اپنی پاکستان دشمنی کی قلعی کھول دی اور اپنا اصل مکروہ چہرہ اقوام عالم کے سامنے بے نقاب کردیا۔ بھارت کے اس اقدام نے اس کے ''منہ میں رام رام' بغل میں چھری'' والے دوغلے پن کی دنیا بھر کے سامنے قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
دنیا بھر میں امن و شانتی کے ڈھنڈورے پیٹنے والا بھارت توسیع پسندی کے جنون میں مبتلا ہے۔ اس جنون کی وجہ سے وہ اسلحے کے انبار لگا رہا ہے اور دنیا بھر سے ہتھیاروں کی خریداری کرنے میں مصروف ہے۔ اس کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والے ممالک میں ہوتا ہے اور اس کے قومی بجٹ کا نمایاں حصہ اسلحے کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے۔
بھارت کی قیادت کو اس بات کی ذرہ بھی پرواہ نہیں ہے کہ اس کے عوام کی بھاری اکثریت غربت اور افلاس کا شکار ہے اور اسے ہتھیاروں کی نہیں دو وقت کی روٹی کی ضرورت ہے۔ مگر بھارتی نیتا اپنی جنتا کو پاکستان اور چین کا ہوّا دکھا کر ہتھیار بٹورنے کی آڑ میں بھارت میں آیندہ سال ہونے والے عام چناؤ میں دوبارہ کامیابی حاصل کرنے کی تیاریوں میں شد و مد کے ساتھ مصروف ہیں۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اس نازک گھڑی میں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت ایک ہی پیج پر ہے اور اسے دفاع پاکستان کے تقاضوں کا پورا پورا ادراک و احساس ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستانی قوم ہمیشہ سے جذبہ حب الوطنی سے سرشار رہی ہے اور اس نے دفاع پاکستان کی جنگ بڑی بہادری کے ساتھ اپنی بہادر افواج کے شانہ بشانہ لڑی ہے۔ بقول اقبال:
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحان ہمارا
دوسری جانب بین الاقوامی معاملات و حالات اب ایک نئی کروٹ لے رہے ہیں اور روس امریکا کے مد مقابل ابھر کر ایک نئی قوت کے روپ میں سامنے آرہا ہے جو امریکا کی عالمی چوہدراہٹ کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج اور نئی عالمی صف بندی کا پیش خیمہ ہے۔ نئی عالمی صف بندی میں پاکستان کے لیے اپنے درست مقام کی تلاش اور تعین پاکستان کی قیادت کی دانش مندی اور دور اندیشی کا امتحان ہے۔