سپریم کورٹ میں دوران سماعت چیف جسٹس اور وکیل میں تلخ کلامی
سپریم کورٹ نے دربار پاکپتن اراضی کیس میں نواز شریف کو نوٹس جاری کردیا
ISLAMABAD:
سپریم کورٹ میں دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار اور وکیل افتخار گیلانی میں تلخ کلامی ہوئی۔
سپریم کورٹ میں دربار پاکپتن سے ملحقہ اراضی اور دکانوں کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر چیف جسٹس اور وکیل خواجہ حارث کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا جس پر کمرہ عدالت کا ماحول خوشگوار ہوگیا تاہم اس کے بعد چیف جسٹس اور ایک وکیل افتخار گیلانی کے درمیان شدید تلخ کلامی بھی ہوئی۔
دوران سماعت وکیل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق اراضی دیوان قطب کی نہیں، بلکہ نواز شریف نے 1986 میں بطور وزیراعلیٰ پنجاب زمین دیوان قطب کے نام کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ محکمہ اوقاف کی اراضی پر دکانوں کی تعمیر کی اجازت کس قانون کے تحت دی گئی، وزیراعلیٰ کو کس نے اختیار دیا کہ اوقاف کی زمین کسی کو دے؟۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف کا نام سن کر خواجہ حارث ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں، خواجہ صاحب آپ کے دیکھنے کے انداز سے ڈر گیا ہو۔ چیف جسٹس کی بات پر عدالت کشت زعفران بن گئی۔
وکیل دیوان قطب نے کہا کہ حکومتی غلطی کی سزا دیوان کسی اور کو کیوں مل رہی ہے؟، جس حکومت نے زمین واپس لی تھی اسی نے پھر نام کی، دیوان قطب نے اراضی آگے فروخت کردی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیراعلیٰ نواز شریف سمیت تمام متعلقہ افراد کو نوٹس کریں گے، زمین سے فائدہ اٹھانے والوں سے بھی باز پرس کی جائے گی، اوقاف کی پراپرٹی کسی کو نہیں دی جاسکتی۔
دوران سماعت چیف جسٹس اور وکیل افتخار گیلانی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ وکیل افتخار گیلانی نے بلند آواز میں کہا کہ 25 سال بعد عدالت کیسے زمین واپس لے سکتی ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہاں سپریم کورٹ یہ کہہ سکتا ہے اور یہ اختیار حاصل ہے، عدالت آئین کی محافظ ہے، اپنی آواز آہستہ رکھیں، آپ جج نہیں ہیں اپنی گزارشات پر فوکس کریں۔
افتخار گیلانی نے جواب دیا کہ میں عدالت کا سینئر افسر ہوں، سپریم کورٹ بھی آئین اور قانون کے تابع ہے جبکہ عوام پاکستان کے آئین کے محافظ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیشہ عدالت پر رعب جھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ سمجھتے ہیں جج آپ کے بچے ہیں۔
اس پر افتخار گیلانی نے کہا کہ میرے مقدمات اپنی عدالت میں نہ لگایا کریں، اسی آواز میں بات کروں گا جس میں مجھ سے ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں اپنے ہی بنچ میں آپ کے کیسز لگاؤں گا، آپ جب آتے ہیں عدالت پر چڑھائی کر دیتے ہیں۔
عدالت نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف اور 1986 کے سیکرٹری اوقاف سمیت زمین کے خریداروں کو بھی نوٹس جاری کردیے۔ تاہم وکیل نے نشاندہی کی کہ دیوان قطب اور سابق سیکرٹری اوقاف وفات پاگئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ میں دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار اور وکیل افتخار گیلانی میں تلخ کلامی ہوئی۔
سپریم کورٹ میں دربار پاکپتن سے ملحقہ اراضی اور دکانوں کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر چیف جسٹس اور وکیل خواجہ حارث کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا جس پر کمرہ عدالت کا ماحول خوشگوار ہوگیا تاہم اس کے بعد چیف جسٹس اور ایک وکیل افتخار گیلانی کے درمیان شدید تلخ کلامی بھی ہوئی۔
دوران سماعت وکیل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق اراضی دیوان قطب کی نہیں، بلکہ نواز شریف نے 1986 میں بطور وزیراعلیٰ پنجاب زمین دیوان قطب کے نام کی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ محکمہ اوقاف کی اراضی پر دکانوں کی تعمیر کی اجازت کس قانون کے تحت دی گئی، وزیراعلیٰ کو کس نے اختیار دیا کہ اوقاف کی زمین کسی کو دے؟۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف کا نام سن کر خواجہ حارث ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں، خواجہ صاحب آپ کے دیکھنے کے انداز سے ڈر گیا ہو۔ چیف جسٹس کی بات پر عدالت کشت زعفران بن گئی۔
وکیل دیوان قطب نے کہا کہ حکومتی غلطی کی سزا دیوان کسی اور کو کیوں مل رہی ہے؟، جس حکومت نے زمین واپس لی تھی اسی نے پھر نام کی، دیوان قطب نے اراضی آگے فروخت کردی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیراعلیٰ نواز شریف سمیت تمام متعلقہ افراد کو نوٹس کریں گے، زمین سے فائدہ اٹھانے والوں سے بھی باز پرس کی جائے گی، اوقاف کی پراپرٹی کسی کو نہیں دی جاسکتی۔
دوران سماعت چیف جسٹس اور وکیل افتخار گیلانی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ وکیل افتخار گیلانی نے بلند آواز میں کہا کہ 25 سال بعد عدالت کیسے زمین واپس لے سکتی ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہاں سپریم کورٹ یہ کہہ سکتا ہے اور یہ اختیار حاصل ہے، عدالت آئین کی محافظ ہے، اپنی آواز آہستہ رکھیں، آپ جج نہیں ہیں اپنی گزارشات پر فوکس کریں۔
افتخار گیلانی نے جواب دیا کہ میں عدالت کا سینئر افسر ہوں، سپریم کورٹ بھی آئین اور قانون کے تابع ہے جبکہ عوام پاکستان کے آئین کے محافظ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیشہ عدالت پر رعب جھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ سمجھتے ہیں جج آپ کے بچے ہیں۔
اس پر افتخار گیلانی نے کہا کہ میرے مقدمات اپنی عدالت میں نہ لگایا کریں، اسی آواز میں بات کروں گا جس میں مجھ سے ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں اپنے ہی بنچ میں آپ کے کیسز لگاؤں گا، آپ جب آتے ہیں عدالت پر چڑھائی کر دیتے ہیں۔
عدالت نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف اور 1986 کے سیکرٹری اوقاف سمیت زمین کے خریداروں کو بھی نوٹس جاری کردیے۔ تاہم وکیل نے نشاندہی کی کہ دیوان قطب اور سابق سیکرٹری اوقاف وفات پاگئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔