شیف طاہر اتنی بے حسی کے حقدار تو نہیں تھے

ہنس مکھ اور سادہ طبیعت کے مالک مرحوم شیف طاہر معاشرے کی اس بے رخی کے حقدار ہرگز نہیں ہیں


فائزہ یٰسین October 09, 2018
زبیدہ آپا کے بعد شیف طاہر بھی دنیا میں اپنا کردار بخوبی نبھا کر ابدی نیند سو گئے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

6 اکتوبر کی رات تھی جب میرے ایک قریبی دوست نے مجھے معروف شیف کے انتقال کی خبر سنائی۔ اس لمحے میرا پہلا حیران کن ردعمل یہ تھا کہ کیا وہ انگلش منگلش شیف چلا گیا؟ کیونکہ شیف طاہر کے منفرد لب و لہجے میں خوبصورت اندازِ اظہار کو ہمارے گھر میں انگلش منگلش شیف کہا جاتا تھا۔

اسی دوران میری کولیگ کے واٹس ایپ اسٹیٹس نے بھی اسی خبر سے آگاہ کیا۔ ایسی صورت میں دل بے یقینی کی کیفیت میں تھا کہ ہو سکتا ہے یہ خبر سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑے کی خود ساختہ کہانی ہو، لیکن فوری تصدیق یا تردید کی بھی کوئی باضابطہ صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ خاصی دیر تک اپنے دوست کے ساتھ باتوں میں شیف طاہر کی شخصیت، ان کے اہلِ خانہ اور خاص طور پر ان کی عمر کے حوالے سے ذکر ہوتا رہا؛ کیونکہ شیف طاہر کی صرف 46 برس کی عمر میں دو کم سن بچوں کے ساتھ اپنی اہلیہ اور ماں باپ کو پیچھے چھوڑ جانے کی اطلاع گردش میں تھی۔ پھر جب میں نے صبح سویرے ہی شیف طاہر کی وفات کی خبر سوشل میڈیا کے جنگل میں آگ کی طرح پھیلتی دیکھی تو زبان سے تعزیتی کلمات ادا کیے، گھر میں سوگواری کی فضا چھا گئی۔ لیکن نجی چینلز کی بے حسی نے بہت شرمسار کیا کہ اعزازی ٹرانسمیشنز تو دور کی بات، تعزیت کے دو بول تک بے حس انتظامیہ جاری نہیں کر سکی۔

نہ نیوز چینل کا لوگو سیاہ ہوا اور نہ ہی کسی ساتھی میزبان نے شیف طاہر کی یادوں کا دریچہ وا کیا، مگر کیوں؟

شیف طاہر کوئی معمولی شیف تو نہیں تھے، انہوں نے پکوان کے دسترخوان میں کئی ذائقے متعارف کروائے تھے۔ انہوں نے پاکستان میں کام کرنے سے قبل اٹلی، فرانس اور یو اے ای میں بھی ذائقے کی دنیا میں نام کمایا۔ ملکی نجی چینل کے دو دو معروف پروگرامز کامیابی سے ہمکنار کیے۔ اسی چینل کے ہر خاص و عام مواقع پر اہم سیلیبریٹی کی حیثیت میں شامل ہوتے رہے جس کا ثبوت وفات سے چند گھنٹے قبل اسی چینل کی بارہویں سالگرہ کے موقع پر بھرپور شرکت تھا۔

لیکن چینل انتظامیہ کا تو روگ ایک جانب، باقی کسی بھی ذرائع ابلاغ نے شیف طاہر کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنا گوارا نہیں کیا، ایسا کیوں؟ شیف طاہر تو پکوان کی دنیا میں ایسی مہک ہیں جن کی خوشبو ہمیشہ تروتازہ رہے گی اور دسترخوان کے پکوان شیف طاہر کے لذیذ ذائقوں سے سجتے رہیں گے۔ مگر افسوس صد افسوس، صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہم سب نےشیف طاہر کو ان کے شایان شان طریقے سے الوداع نہیں کیا، ایسا کیوں؟ اس کیوں کا جواب ہم میں سے کون دے گا؟ کب دے گا؟

زبیدہ آپا کی طرح شیف طاہر نے بھی بھرپور طریقے سے جینے کے کئی گر اپنی قوم کو سکھائے۔ ان کی جانب سے " آج کی اچھی سی بات " کی صورت میں دیا جانے والا پیغام زند گی کے سنہرے اصولوں کے مترادف ہوتا۔

ہنس مکھ اور سادہ طبیعت کے مالک مرحوم شیف طاہر معاشرے کی اس بے رخی کے حقدار ہرگز نہیں ہیں۔ اس سال نے دو انمول ذائقوں کا سفر ختم کر دیا، زبیدہ آپا کے بعد شیف طاہر بھی اسی سال دنیا میں اپنا کردار بخوبی نبھا کر ابدی نیند سو گئے ہیں۔ لیکن ان کے ہاتھوں نے ذائقوں کی ایسی شمع روشن کر دی ہے جن کی لو سے کئی چراغ روشن ہوتے رہیں گے۔ مگر اپنے اسٹارز سے ایسے منہ موڑنا باوقار قوموں کو زیب نہیں دیتا، کیونکہ شیف طاہر صرف ایک ٹی وی چینل کے نہیں، ہم سب کا اثاثہ ہیں، جنہیں زمانے میں ہمیشہ یاد ہم سب نے رکھنا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔