لوک سنگیت
ہمارے لوک فنکار ہمارے پیارے وطن کے سفیرہیں جنھوں نے دنیا بھر میں پاکستان کی نمایندگی کی ہے۔
ایک زمانہ تھا پاکستان کے چاروں صوبوں بلوچستان ، سندھ ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لوک گلوکاروں اور سازندوں کی دھوم ہوا کرتی تھی، جنھیں سن کر ہر شخص جھوم اٹھتا تھا ان گلوکاروں میں سے بیشتر فنکار دنیا سے رخصت ہوگئے اورکچھ زمانے کی بے قدری کی وجہ سے گمنامی میں کھوکرکسمپرسی کی زندگی بسرکر رہے ہیں ۔
اسی طرح لوک سازندوں کی حالت ہے جوکبھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتے تھے جن میں بینجو، رانتی، سارنگی، سرود ، چاردھا ، مرلی بین، الغوزہ ، بوریندو، سارندہ اور دیگر ساز شامل ہیں ۔ یہ سازندے آج کی جدید موسیقی دنیا سے غائب ہیں یا پھرکم رہ گئے ہیں اور ان کے سننے والوں کی تعداد میں بھی کمی سی آگئی ہے ۔
انڈس بلیوز ایک نجی ادارہ ہے جو سماجی سطح پر پاکستانی لوک ثقافت کو اجاگرکرنے میں مصروف ہے گزشتہ دنوں کراچی میں واقع فرانس کے ثقافتی مرکزکے تعاون سے ایک ثقافتی تقریب منعقد کی گئی، جس میں سانس کی قوت سے سندھی بینجو نواز فقیر ذوالفقار، بلوچی بینجو نواز ممتاز سبزل اور ان کے امریکی شاگرد بینجو نواز ڈاکٹر ارن مل باوانی نے اپنے اپنے فن کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے تقریب میں سماع باندھ دیا اور شرکاء کو جھومنے پر مجبورکردیا ۔
قبل ازیں ان دونوں فنکاروں نے اپنی حالت زندگی اور اپنے فن کے متعلق بیش بہا معلومات فراہم کیں ۔ بعد ازاں 76منٹ پرمبنی ایک تحقیقاتی دستاویزی ویڈیوفلم کا مختصر ٹریلر دکھایا گیا جس میں لوک فنکاروں اور ان کے سازوں کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ اس فلم کی شوٹنگ صوبہ سندھ کے ریگستانی علاقے تھر، صوبہ بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی اور صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے سوات کے اندرونی علاقوں میں کی گئی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ اس ویڈیو فلم کو ایک عالمی فلم میلہ مقابلے کے لیے نامزد کیا گیا ہے ۔ تقریب کے اختتام سے قبل فنکاروں اور ماہرین پرمشتمل ایک پینل ڈسکشن ہوئی جس میں لوک فن اور اس کے متعلق دستاویزی ویڈیو فلم کی تیاری کے درمیان درپیش حالات پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔
بینجو نواز استاد ممتاز سبزل کے آباؤ اجداد 1803ء میں بلوچستان سے کراچی کی قدیم بستی لیاری میں آکر آباد ہوئے ۔ استاد ممتاز سبزل یکم جولائی 1964ء کو پیدا ہوئے ، انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کی پاکستان اسٹیل ملز میں ٹیکنیکل اپرنٹس شپ کی لیکن ترجیح فن کو حاصل ہوئی جو پہلے ہی سے ان کے خون میں شامل تھا۔
ممتاز سبزل کے دادا استاد خالق داد بلوچ کلاسیکل بینجوئسٹ تھے وہ اپنے فن میں لیجنڈ تھے ۔انھوں نے اپنے شاگرد پوتے استاد ممتاز سبزل کی صورت میں فن کا جو ورثہ چھوڑا، ممتاز سبزل نے اپنے دادا کی عزت اور توقیرکو متاثرکیے بغیر ایشیا کے واحد کلاسیکل بینجوئسٹ کا ٹائیٹل برقرار رکھا ہوا ہے ۔ فن کلاسیکل میں اس کے خاندان کی ناقابل فراموش خدمات ہیں اور ان ہی کا خاندان بینجو کا موجد ہے ۔ ان کے دادا کے بڑے بھائی گل محمد بلوچ نے دنیائے فن کو بینجو سے متعارف کروایا ۔
گل محمد بلوچ کے انتقال کے بعد ان کے بھائی استاد خالق داد بلوچ نے اپنے بھائی کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے بینجو کو سب سے پہلے ریڈیو پاکستان پر متعارف کروایا ۔ استاد ممتاز سبزل کے والد سبزل بھی بینجوکے ماسٹر تھے ۔ 1976.78ء کے درمیان ممتاز سبزل کے والد سبزل دبئی میں پاکستان کے سفارت خانے میں ویزا سیکشن آفیسر تعینات ہوئے تو اس دوران انھیں اپنا شوق پورا کرنے کا موقع ملا ۔
1979ء کو میرے دادا نے مجھے خیال کی گائیکی سکھانا شروع کی ۔ 10جنوری 1984ء کو دادا نے وفات پائی جس بنا ء پر استاد قدرت اللہ خان کو شدید صدمہ پہنچا اور دادا کے انتقال کے 30دن کے اندر ان کا بھی انتقال ہوگیا ۔ بعد ازاں استاد ظفر علی خان گدی نشین ہوئے اس طرح میرا سلسلہ استاد ظفر علی خان سے جڑگیا جن سے میں نے تال رانگنی اور سر سنگیت سیکھا اسی دوران والد دبئی سے پاکستان آگئے جنھوں نے مجھے بینجوکی تیکنیک سکھائی۔
1987ء میں میرے کزن اختر بلوچ مجھے پی ٹی وی کراچی اسٹیشن لے کرگئے وہاں انھوں نے اس وقت کے جنرل مینجر، عبدالکریم بلوچ سے میرا تعارف کروایا ۔انھوں نے مجھے سندھی اور بلوچی دھن کے لیے کہا تو میں نے پروگرام راگ رنگ میں کلاسیکل بینجو بجانے کی اجازت چاہی ۔
اس دوران کمرے میں استاد سلامت علی خان داخل ہوئے۔ان کی موجودگی میں جب میں نے بسنت سنانے کے لیے تاروں کو چھیڑا تو خان صاحب کہنے لگے بس بیٹا ! آپ یہ بتاؤکہ آپ خالق داد کے کون ہو؟ پھر میں نے کہا کہ میں ان کا پوتا ہوں ۔ اس طرح میں نے پہلی مرتبہ راگ رنگ کے پروگرام میں حصہ لیا ۔ اس دن سے لے کر آج تک فن کا یہ سفر جاری ہے ۔
ممتاز سبزل نے ریڈیو، ٹی وی کے علاوہ اپنے فن کا مظاہرہ آل پاکستان میوزک کانفرنس میں کرتے رہتے ہیں جہاں ہر قوم سے تعلق رکھنے والے فنکار حصہ لیتے ہیں ۔استاد ممتاز سبزل نے 2000ء میں پی ٹی وی ایوارڈ ، 2000ء میں روٹری کلب ایوارڈ ، 2004ء میں نگار ایوارڈز حاصل کیے اور SMBکمپنی نے بینجو ریکارڈنگ البم ریلیزکی علاوہ ازیں ممتاز سبزل نے ملک کی درج ذیل ممتاز ترین شخصیات کے سامنے اپنے فن کا شاندار مظاہرہ کرچکے ہیں۔
اس وقت کے صدر پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری اور جنرل پرویز مشرف ، جنرل احسن شاہ ، نصرت بھٹو،آفتاب احمد شیر پاؤ، پرنس آغا کریم ، اس وقت کے گورنر سندھ میاں محمد سومرو، گورنر سندھ حکیم محمد سعید ، عمران خان ، سردار شیر باز خان مزاری ، سردار اختر مینگل ، اس وقت کے وزیر اعظم معین قریشی ، ثنا اللہ زہری اور سردار شیر دل بزنجو شامل ہیں۔
ممتاز سبزل نے مزید بتایا کہ 9دسمبر 2007ء کو میرے نام سے منسوب آرٹ اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں شوقین نوجوانوں کو فن موسیقی کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے ۔ فن موسیقی سے لگاؤ رکھنے والے نوجوان شاہ ولی اللہ روڈ ، بلوچ محلہ کلری لیاری میں واقع اس آرٹ اکیڈمی سے رابطہ کرکے اپنے فن کو نکھار سکتے ہیں جہاں بلوچی اور کلاسیکل فن کی تربیت دی جاتی ہے ۔ ممتاز سبزل نے کہا کہ مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ فن موسیقی کو مختلف زبانوں کے خانوں میں تقسیم درتقسیم کیے ہوئے ہیں جب کہ اس کی صرف ایک ہی زبان ہے اور وہ ہے پیار، محبت اور امن کا پیغام ۔
بلاشبہ ہمارے لوک فنکار ہمارے پیارے وطن کے سفیرہیں جنھوں نے دنیا بھر میں پاکستان کی نمایندگی کی ہے ، ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بے رحم چمکتی دھمکتی میوزک کی شورکی جدیدیت میں یہ آواز کہیں گم ہوگئی ہیں جنھیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور انھیں نئی نسل میں روشناس کرانا ہے جو ہمارا ورثہ ہیں۔
قومی اور صوبائی سظح پر ثقافتی سرکاری محکمے اپنا وجود تو رکھتے ہیں لیکن پہلے کی طرح ان کی کارکردگی کی رفتار انتہائی سست ہے جس وجہ سے ہماری نئی نسل مغربی ثقافت کی چنگل میں جکڑی جارہی ہے، جہاں شور شرابہ کے سوا کچھ بھی نہیں جب کہ ہمارے قومی اور علاقائی ثقافت ہماری پہچان ہے۔ خدارا ! اپنی پہچان کی حفاظت کیجیے اور اس کی ترویج کے لیے اقدامات کریں۔