معاشی اور سیاسی استحکام
معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام بھی نہایت ضروری ہوا کرتا ہے۔
ہم نے کبھی غورکیا ہے کہ آخرکیا وجہ ہے کہ ہمارا وطنِ عزیزجب سے معرض وجود میں آیا ہے، معیشت کے حوالے سے ہمیشہ ہی غیر مستحکم اور غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار رہتا ہے۔
چند ایک سال اچھے گزرتے ہیں اور خوشحالی اور بہتر مستقبل کی آس واُمید بندھنی شروع ہوتی ہے کہ کوئی نہ کوئی حادثہ یا سانحہ ایسا ظہور پذیر ہو جاتا ہے کہ ساری آس واُمیدیں خاک میں مل جاتی ہیں اور ہم اُلٹے قدم پیچھے کی جانب سفر شروع کردیتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو ہمیں اپنی اِن ساری ناکامیوں اور نامرادیوں کے پیچھے کارفرما ہمارا وہ سیاسی نظام ہی نظر آئے گا جو خود کسی نہ کسی وجہ سے ہمیشہ عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار رہتا ہے۔
ہم کبھی سوشلزم اورکمیونزم کے سحر میں گرفتار ہوکر ایوب دور کی دس سالہ اُس ساری محنت و کامرانی پر لمحے بھر میں پانی پھیر دیتے ہیں جس کی بدولت ہمارا ملک اِس خطے کا ایک مثالی صنعتی ملک بننے جا رہا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کمیونسٹ سوچ نے فیکٹریاں،کارخانے ، بینک اور تعلیمی درسگاہوں سمیت ہر شعبے کو حکومتی تحویل میں لے کر اُن کا حلیہ ہی بگاڑ کررکھ دیا گیا ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اِن تمام اداروں میں ضرورت سے زیادہ افراد کو بھرتی کرکے ہم نے خود ہی انھیں خسارے کے دلدل میں ہمیشہ کے لیے دھکیل دیا۔اسٹیل مل ، پی آئی اے ، واپڈا اورریلوے سمیت بہت سے ادارے ایسے ہیں جو آج تک اِس دلدل سے باہر نہیں نکل پائے ہیں ۔ اُن کا روزافزوں خسارہ ہماری کمزور معیشت کے لیے آج بھی ایک بہت بڑی مصیبت بنا ہوا ہے۔
ٓٓاِسی طرح ہمارے آج کے یہ نئے حکمراں بھی اپنی پر فریب انقلابی سوچ کی وجہ سے کچھ ایسے غلط اور ناقص فیصلے کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے ملک آگے کی بجائے پیچھے کی جانب تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے انھوں نے جو بے پرکی باتیں کی تھیں ۔ اب اُنہی پر عمل پیرا ہوکر وہ اِس ملک کو مصائب و مشکلات سے نکالنے کی بجائے اُس میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں ۔
وزیراعظم ہاؤس اور گورنرہاؤسز کو یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ بھی ہمارے اِن نئے حکمرانوں کی بچکانہ اور غیر ذمے دارانہ انداز فکرکی نشاندہی کرتا ہے۔دنیا بھر میں وزیر اعظم ہاؤس ، ایوان صدر اورگورنر ہاؤسز خاص الخاص عمارتوں میں شمارکیے جاتے ہیں۔ وہاں باہر سے آئے ہوئے غیر ملکی صدور، وزرائے اعظم اور وفود سے اہم سرکاری میٹنگز اورکانفرنسس ہوا کرتی ہیں اور وہاں انھیں استقبالیہ بھی دیا جاتا ہے۔
یہ عمارتیں اُس ملک کی شان و شوکت اورعزت ووقار کانشان ہوا کرتی ہیں ۔انھیں یونیورسٹیوں میں تبدیل کرکے ہم اِس ملک کی کوئی بہت بڑی خدمت نہیں کررہے ہوں گے۔ یونیورسٹیاں کہیں اور بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ سیکیورٹی اعتبار سے اتنے حساس علاقے کو اِس طرح ہم غیر محفوظ بنارہے ہونگے۔اِس طرح ہم آیندہ آنے والے غیر ملکی وفود اور صدور یاوزرائے اعظموں کو پھر کہاں استقبالیہ دیا کریں گے۔
دو طرفہ تعلقات پر مبنی کانفرنسیں پھرکیا کسی کرائے کی جگہوں پرکی جائیں گی ۔کل یہ حکمراں چلے جائیں گے اور نیا آنے والے ضرورت کے مطابق ایک نیا وزیراعظم ہاؤس تعمیر کر رہا ہوگا۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہاکہ قوم کوکن فضول اور غیر سنجیدہ کاموں سے بہلایا جارہا ہے ۔ بھینسیں اورکٹے بیچ کر اور اُن کی پبلسٹی کرکے ہم نے دنیا میں خود اپنامذاق بنا لیا ہے ۔
سڑکیں اور شاہراہیں بناناکسی بھی لحاظ سے غلط اور غیر ضروری نہیں۔ موٹر ویزکی اہمیت ساری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے ۔ ''سی پیک اورون روڈ ون بیلٹ'' کا منصوبہ بھی اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ بھی سڑکوں اور شاہراہوں پر مشتمل ایک عظیم منصوبہ ہے جس سے اِس دنیا کی سامراجی قوتیں ایک انجانے خوف میں مبتلاہیں۔
میاں نوازشریف نے اپنے پہلے دورحکومت میں موٹرویزکا منصوبہ شروع کیا تو ہمارے بہت سے سیاسی حلقوں کی جانب سے اُس پر بہت تنقید کی گئی، مگر آج 25 سال گزرجانے کی بعد سب کے سب اِس کی اہمیت وافادیت کے قائل نظر آتے ہیں ۔ اِسی طرح میٹرو بس کو جنگلہ بس منصوبہ قراردینے والے بھی خود اپنے شہر پشاور میں اِسے بالآخر شروع کرنے پرمجبور ہوگئے۔ متوسط اور غریب لوگوں کی سہولت میٹرو بس منصوبہ یقینا ایک لائق تحسین منصوبہ ہے۔ اِس پر دی جانے والی سبسڈی پر بھی اعتراض غلط اور غیر منطقی ہے۔
ہمارے خیال میں عوام کا پیسہ اگر عوام پر ہی خرچ ہوتواُس کرپشن اورغبن سے یقینا بہتر ہے جو اِس سے پہلے آنے والے حکمراں بڑی چالاکی اور ہشیاری سے کرتے رہے۔ صوبہ سندھ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہاں پچھلے دس سالوں میں ٹرانسپورٹ سمیت عوام کی بھلائی کے کسی منصوبے پرکوئی کام نہیں ہوا، لیکن بجٹ سارا کا سارا ہڑپ کرلیا گیا۔
میٹرو بس پر سبسڈی دیے جانے پراعتراض کرنے والوں کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پرخرچ ہونے والی اربوں روپے کی رقم نجانے کیوں دکھائی نہیں دیتی جو ہرسال قومی خزانے سے دیکر قوم کوبھکاری بنانے میں استعمال ہورہی ہے۔ اِس کی آڑ میں نجانے کتنی رقم کرپٹ مافیاکی جیبوں میں جا رہی ہے اِس کا بھی کسی کو غم نہیں ۔بہتر تو یہ ہوتا کہ اِس رقم سے لوگوں کوروزگار دینے کے کوئی ذرایع پیدا کیے جاتے اور انھیں بھکاری بنانے کی بجائے کسی کام کے قابل بنایاجاتا۔
ہمارا قومی المیہ ہی یہی ہے کہ اول تو یہاں کسی جمہوری حکومت کو پانچ سال سے زیادہ چلنے نہیں دیا جاتا اوراگر خوش قسمتی سے کوئی حکمراں اپنے پانچ سال پورے کرجائے تو نیا آنے والا اُس کے تمام کاموں کو رول بیک کردیتا ہے خواہ وہ اِس ملک و قوم کے مفاد میں ہی کیوں نہ ہوں ۔ خان صاحب کا بس نہیں چل رہا کہ وہ سی پیک ، میٹروبس اور اورنج ٹرین سمیت میاں صاحب کی تمام منصوبوں کو لپیٹ کر رکھ دیں ۔وہ اس کی خواہش بھی رکھتے ہوئے اُس پرعمل نہیں کر پا رہے ہیں کیونکہ اِن کی پشت پر اِس ملک کے 22کروڑ عوام کھڑے ہیں۔
تمام مخالفت کے باوجود ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ میاں صاحب نے بہر حال اِس ملک کی حتی المقدور بڑی خدمت کی ہے۔ انھیں اگر مزید وقت مل جاتا تووہ اِس ملک کو ایک ترقی یافتہ آزاد اور خودمختار ملک ضرور بنادیتے۔ہمارے لوگ ترکی کے صدر طیب اردوان کی بڑی مثالیں دیا کرتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ طیب اردوان کو کامیابی اورکامرانی کی منزلیں عبورکرنے کے لیے اُن کی قوم نے انھیں کتنے سال تفویض کیے۔ وہ 2003ء سے مسلسل برسراقتدار ہیں ۔
پندرہ سال میں انھوں نے اپنے ملک کو اِس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ ساری دنیا اُن کے کاموں کی معترف ہورہی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں جب جب معیشت کی بہتری کے کچھ آثار نمودار ہوتے ہیں کچھ طالع آزما اور سازشی عناصر سارا نظام ہی الٹ پلٹ کررکھ دیتے ہیں اور تواور نیا آنے والا حکمراں اپنی ضد اورانا کی تسکین کے لیے سابقہ دورکے سارے اچھے کاموں کو بھی لپیٹ کررکھ دیتا ہے ۔
معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام بھی نہایت ضروری ہوا کرتا ہے۔ یہ دونوں لازم اورملزوم ہیں۔قوم یہ جان لے کہ جب تک ہمارے یہاں سیاسی استحکام ممکن نہیں ہو گا ، معاشی استحکام بھی نہیں آ پائے گا ۔
چند ایک سال اچھے گزرتے ہیں اور خوشحالی اور بہتر مستقبل کی آس واُمید بندھنی شروع ہوتی ہے کہ کوئی نہ کوئی حادثہ یا سانحہ ایسا ظہور پذیر ہو جاتا ہے کہ ساری آس واُمیدیں خاک میں مل جاتی ہیں اور ہم اُلٹے قدم پیچھے کی جانب سفر شروع کردیتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو ہمیں اپنی اِن ساری ناکامیوں اور نامرادیوں کے پیچھے کارفرما ہمارا وہ سیاسی نظام ہی نظر آئے گا جو خود کسی نہ کسی وجہ سے ہمیشہ عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار رہتا ہے۔
ہم کبھی سوشلزم اورکمیونزم کے سحر میں گرفتار ہوکر ایوب دور کی دس سالہ اُس ساری محنت و کامرانی پر لمحے بھر میں پانی پھیر دیتے ہیں جس کی بدولت ہمارا ملک اِس خطے کا ایک مثالی صنعتی ملک بننے جا رہا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کمیونسٹ سوچ نے فیکٹریاں،کارخانے ، بینک اور تعلیمی درسگاہوں سمیت ہر شعبے کو حکومتی تحویل میں لے کر اُن کا حلیہ ہی بگاڑ کررکھ دیا گیا ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اِن تمام اداروں میں ضرورت سے زیادہ افراد کو بھرتی کرکے ہم نے خود ہی انھیں خسارے کے دلدل میں ہمیشہ کے لیے دھکیل دیا۔اسٹیل مل ، پی آئی اے ، واپڈا اورریلوے سمیت بہت سے ادارے ایسے ہیں جو آج تک اِس دلدل سے باہر نہیں نکل پائے ہیں ۔ اُن کا روزافزوں خسارہ ہماری کمزور معیشت کے لیے آج بھی ایک بہت بڑی مصیبت بنا ہوا ہے۔
ٓٓاِسی طرح ہمارے آج کے یہ نئے حکمراں بھی اپنی پر فریب انقلابی سوچ کی وجہ سے کچھ ایسے غلط اور ناقص فیصلے کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے ملک آگے کی بجائے پیچھے کی جانب تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے انھوں نے جو بے پرکی باتیں کی تھیں ۔ اب اُنہی پر عمل پیرا ہوکر وہ اِس ملک کو مصائب و مشکلات سے نکالنے کی بجائے اُس میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہیں ۔
وزیراعظم ہاؤس اور گورنرہاؤسز کو یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ بھی ہمارے اِن نئے حکمرانوں کی بچکانہ اور غیر ذمے دارانہ انداز فکرکی نشاندہی کرتا ہے۔دنیا بھر میں وزیر اعظم ہاؤس ، ایوان صدر اورگورنر ہاؤسز خاص الخاص عمارتوں میں شمارکیے جاتے ہیں۔ وہاں باہر سے آئے ہوئے غیر ملکی صدور، وزرائے اعظم اور وفود سے اہم سرکاری میٹنگز اورکانفرنسس ہوا کرتی ہیں اور وہاں انھیں استقبالیہ بھی دیا جاتا ہے۔
یہ عمارتیں اُس ملک کی شان و شوکت اورعزت ووقار کانشان ہوا کرتی ہیں ۔انھیں یونیورسٹیوں میں تبدیل کرکے ہم اِس ملک کی کوئی بہت بڑی خدمت نہیں کررہے ہوں گے۔ یونیورسٹیاں کہیں اور بھی بنائی جاسکتی ہیں۔ سیکیورٹی اعتبار سے اتنے حساس علاقے کو اِس طرح ہم غیر محفوظ بنارہے ہونگے۔اِس طرح ہم آیندہ آنے والے غیر ملکی وفود اور صدور یاوزرائے اعظموں کو پھر کہاں استقبالیہ دیا کریں گے۔
دو طرفہ تعلقات پر مبنی کانفرنسیں پھرکیا کسی کرائے کی جگہوں پرکی جائیں گی ۔کل یہ حکمراں چلے جائیں گے اور نیا آنے والے ضرورت کے مطابق ایک نیا وزیراعظم ہاؤس تعمیر کر رہا ہوگا۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہاکہ قوم کوکن فضول اور غیر سنجیدہ کاموں سے بہلایا جارہا ہے ۔ بھینسیں اورکٹے بیچ کر اور اُن کی پبلسٹی کرکے ہم نے دنیا میں خود اپنامذاق بنا لیا ہے ۔
سڑکیں اور شاہراہیں بناناکسی بھی لحاظ سے غلط اور غیر ضروری نہیں۔ موٹر ویزکی اہمیت ساری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے ۔ ''سی پیک اورون روڈ ون بیلٹ'' کا منصوبہ بھی اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ بھی سڑکوں اور شاہراہوں پر مشتمل ایک عظیم منصوبہ ہے جس سے اِس دنیا کی سامراجی قوتیں ایک انجانے خوف میں مبتلاہیں۔
میاں نوازشریف نے اپنے پہلے دورحکومت میں موٹرویزکا منصوبہ شروع کیا تو ہمارے بہت سے سیاسی حلقوں کی جانب سے اُس پر بہت تنقید کی گئی، مگر آج 25 سال گزرجانے کی بعد سب کے سب اِس کی اہمیت وافادیت کے قائل نظر آتے ہیں ۔ اِسی طرح میٹرو بس کو جنگلہ بس منصوبہ قراردینے والے بھی خود اپنے شہر پشاور میں اِسے بالآخر شروع کرنے پرمجبور ہوگئے۔ متوسط اور غریب لوگوں کی سہولت میٹرو بس منصوبہ یقینا ایک لائق تحسین منصوبہ ہے۔ اِس پر دی جانے والی سبسڈی پر بھی اعتراض غلط اور غیر منطقی ہے۔
ہمارے خیال میں عوام کا پیسہ اگر عوام پر ہی خرچ ہوتواُس کرپشن اورغبن سے یقینا بہتر ہے جو اِس سے پہلے آنے والے حکمراں بڑی چالاکی اور ہشیاری سے کرتے رہے۔ صوبہ سندھ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہاں پچھلے دس سالوں میں ٹرانسپورٹ سمیت عوام کی بھلائی کے کسی منصوبے پرکوئی کام نہیں ہوا، لیکن بجٹ سارا کا سارا ہڑپ کرلیا گیا۔
میٹرو بس پر سبسڈی دیے جانے پراعتراض کرنے والوں کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پرخرچ ہونے والی اربوں روپے کی رقم نجانے کیوں دکھائی نہیں دیتی جو ہرسال قومی خزانے سے دیکر قوم کوبھکاری بنانے میں استعمال ہورہی ہے۔ اِس کی آڑ میں نجانے کتنی رقم کرپٹ مافیاکی جیبوں میں جا رہی ہے اِس کا بھی کسی کو غم نہیں ۔بہتر تو یہ ہوتا کہ اِس رقم سے لوگوں کوروزگار دینے کے کوئی ذرایع پیدا کیے جاتے اور انھیں بھکاری بنانے کی بجائے کسی کام کے قابل بنایاجاتا۔
ہمارا قومی المیہ ہی یہی ہے کہ اول تو یہاں کسی جمہوری حکومت کو پانچ سال سے زیادہ چلنے نہیں دیا جاتا اوراگر خوش قسمتی سے کوئی حکمراں اپنے پانچ سال پورے کرجائے تو نیا آنے والا اُس کے تمام کاموں کو رول بیک کردیتا ہے خواہ وہ اِس ملک و قوم کے مفاد میں ہی کیوں نہ ہوں ۔ خان صاحب کا بس نہیں چل رہا کہ وہ سی پیک ، میٹروبس اور اورنج ٹرین سمیت میاں صاحب کی تمام منصوبوں کو لپیٹ کر رکھ دیں ۔وہ اس کی خواہش بھی رکھتے ہوئے اُس پرعمل نہیں کر پا رہے ہیں کیونکہ اِن کی پشت پر اِس ملک کے 22کروڑ عوام کھڑے ہیں۔
تمام مخالفت کے باوجود ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ میاں صاحب نے بہر حال اِس ملک کی حتی المقدور بڑی خدمت کی ہے۔ انھیں اگر مزید وقت مل جاتا تووہ اِس ملک کو ایک ترقی یافتہ آزاد اور خودمختار ملک ضرور بنادیتے۔ہمارے لوگ ترکی کے صدر طیب اردوان کی بڑی مثالیں دیا کرتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ طیب اردوان کو کامیابی اورکامرانی کی منزلیں عبورکرنے کے لیے اُن کی قوم نے انھیں کتنے سال تفویض کیے۔ وہ 2003ء سے مسلسل برسراقتدار ہیں ۔
پندرہ سال میں انھوں نے اپنے ملک کو اِس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ ساری دنیا اُن کے کاموں کی معترف ہورہی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں جب جب معیشت کی بہتری کے کچھ آثار نمودار ہوتے ہیں کچھ طالع آزما اور سازشی عناصر سارا نظام ہی الٹ پلٹ کررکھ دیتے ہیں اور تواور نیا آنے والا حکمراں اپنی ضد اورانا کی تسکین کے لیے سابقہ دورکے سارے اچھے کاموں کو بھی لپیٹ کررکھ دیتا ہے ۔
معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام بھی نہایت ضروری ہوا کرتا ہے۔ یہ دونوں لازم اورملزوم ہیں۔قوم یہ جان لے کہ جب تک ہمارے یہاں سیاسی استحکام ممکن نہیں ہو گا ، معاشی استحکام بھی نہیں آ پائے گا ۔