پنج سالہ ترقیاتی منصوبے کہاں گئے

میرا حکومت پاکستان اور پلاننگ کمیشن سے یہی سوال ہے کہ آخر اب پنج سالہ منصوبے کیوں نہیں بنتے؟


Mahnaz Rehman October 10, 2018

میرا تعلق اس گھرانے سے ہے جہاں اخبار پڑھے بغیر صبح نہیں ہوتی تھی اس لیے مجھے بھی بچپن سے اخبار بینی کی لت لگ گئی تھی۔ ابی، امی اور ان کے دوستوں کے سیاسی، ادبی اور سماجی تبصرے بھی کانوں میں پڑتے رہتے تھے۔

مجھے یاد ہے اس زمانے میں کسی بھی پنج سالہ منصوبے کے آغازکو اخبارات میں بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ عوام بھی ان میں بڑی دلچسپی لیتے تھے کہ حکومت 5سال میں کیا کرنے جا رہی ہے۔ یہی دلچسپی اور یقین عوام کو غیر شعوری طور پر حکومت کے احتساب پر بھی آمادہ کرتے تھے یعنی عوام اپنے خلوص اور اعتماد کی بنا پر حکومتی کاموں کی مانیٹرنگ کرتے رہتے تھے۔

سنتے ہیں کہ فنانس منسٹر ملک غلام محمد نے سوویت یونین کے پنج سالہ منصوبے سے متاثر ہوکر پاکستان کا پہلا پنج سالہ منصوبہ اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو 1948ء میں پیش کیا تھا ۔ان کی منظوری کے بعد 1950-55 کا پہلا ترقیاتی پروگرام شروع کیا گیا۔اس کا مقصد صنعتی عمل کو تیزکرنا اور بینکاری اور مالیاتی سروسزکو وسعت دینا تھا۔ سوویت یونین کے پنج سالہ منصوبے سے متاثر ہونے والی بات پڑھ کریقینی طور پر دماغ کی بتی جل اٹھتی ہے۔

ظاہر ہے وہاں سارے ترقیاتی کام مرکزی منصوبہ بندی کے تحت ہوتے تھے اور ہم ٹہرے مغربی فوجی بلاکوں میں پناہ ڈھونڈنے والے ۔ خیر اس پر آگے چل کر بات ہوگی ۔ پہلے اپنے ترقیاتی منصوبوں پر نظر تو دوڑا لیں۔ '' برانڈ اکیڈمی کو پاکستان کی تاریخ میں کل آٹھ ترقیاتی منصوبے ملتے ہیں: متذکرہ بالا منصوبہ اس کی فہرست میں شامل نہیں۔

٭پہلا پنج سالہ منصوبہ 1955-1960 ء۔اسے وہ منصوبہ بند ترقی کا سیلانی آغاز کہتے ہیں۔ ٭دوسرا ترقیاتی منصوبہ 1960-1965 ء اسے وہ 'فنکشنل عدم مساوات' میں تجربہ کرنا کہتے ہیں۔ ٭تیسرا پنج سالہ منصوبہ 1965-70 ء، غیر معمولی واقعات کا اسیر۔ ٭چوتھا پنج سالہ منصوبہ1970-75 ء: شروع سے ہی نان اسٹارٹر۔ ٭پانچواں پنج سالہ منصوبہ۔1978-83 ء: درمیانی مدت کی منصوبہ بندی کی طرف واپسی۔ ٭چھٹا پنج سالہ منصوبہ۔ 1983-88 ء: عوام کی ترقی، عوام کی طرف سے، عوام کے لیے۔ ٭ساتواں پنج سالہ منصوبہ: 1988-1993 ء:طویل المعیاد وژن کا نقیب۔ ٭آٹھواں پنج سالہ منصوبہ: 1993-1998ء: بہتر میکرو اکنامک مینجمنٹ کی مشق۔

اگر آپ مارکیٹ اکانومی کے اصول اپناتے ہیں تو پھر اس طرح کے منصوبوں پر عمل مشکل ہو جاتا ہے ۔ بہر حال پاکستان کی معیشت شروع سے ایک ملی جلی معیشت رہی ہے ریاست اور نجی شعبے کا کردار ساتھ ساتھ چلتا رہا ہے۔ پاکستانی معیشت کے اہم شعبے زراعت ، صنعت اور سروسز ہیں۔

ہم تجارت کے معاملے میں ہمیشہ خسارے میں رہے ہیں یعنی ہماری درآمدی اشیا کی تعداد زیادہ اور برآمدات کم رہی ہیں۔ اس کا اثر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑتا ہے۔ ان اقتصادی مسائل کی وجہ سے روپے کی قدرکم ہوتی جا رہی ہے حالانکہ پاکستان قدرتی وسائل، انسانی سرمایہ اور بہترین جفرافیائی محل وقوع رکھتا ہے۔

انسانی ترقی کی انڈیکس کے چار معیارات ہیں: پیدائش کے بعد متوقع عمر، تعلیم کا اوسط دورانیہ اور متوقع تعلیمی سال اور فی کس قومی آمدنی۔ ترقیاتی منصوبے ان ہی معیارات کے مطابق بنائے جاتے ہیں گو شروع میں صرف مجموعی اقتصادی گروتھ پر توجہ رہی اور پاکستان کے بائیس امیر خاندان سامنے آئے لیکن پھر ڈاکٹر محبوب ا لحق نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور انسانی ترقی کے لیے کام شروع کیا۔دوسرے پنج سالہ منصوبے کے بارے میں ذوالفقار علی بھٹو کی ایک تقریر مل گئی۔

قارئین کی دلچسپی کے لیے اس کے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ ''میں اپنی اقتصادی منصوبہ بندی کا تجزیہ اور تشریح حکومت کی اقتصادی پالیسی کے تناظرمیں کرونگا۔ ترقی کے مختلف مراحل میں اپنی سمت، رفتار، لیبر آرگنائزیشن اور ترجیحات کا تعین قومی تقاضوں سے الگ تھلگ رہ کے نہیں کیا جاسکتا جن میں اقتصادی خود انحصاری کے علاوہ افکار، پروفیشن اور رہائش کے انتخاب کی آزادی شامل ہے۔

ہمارا دوسرا پنج سالہ منصوبہ انتہائی حقیقت پسندانہ بنیادوں پر تیارکیا گیا ہے۔ ہمارے لیے پہلی توجہ طلب بات فرد کی لازمی آزادی کو تسلیم کرنا ہے۔ ہر فرد اپنے گلے میں کوئی نیا جوا ڈالنے سے جو اس کی سرگرمیوں کو محدود کرے، نفرت کرتا ہے۔اس امر کی عکاسی اس منصوبے میںملتی ہے۔ ہم نے اپنا دوسرا پنج سالہ منصوبہ بہت ہی حقیقت پسندانہ بنیادوں پر تشکیل دیا ہے۔ یہاں میں اس کی وضاحت کرنے کی اجازت چاہوں گا۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ انسان اپنی سرگرمیوں کو محدود کرنیوالا کوئی بھی نیا طوق پہننے سے نفرت کرتا ہے اس لیے اس منصوبے میں انسان کی لازمی آزادی کو تسلیم کیا گیا ہے اور یہ منصوبہ اس کا عکاس ہے منصوبے کی سرمایہ کاری کے لیے چھپن فی صد داخلی وسائل کا حساب ذاتی بچتوں کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔منصوبے میں فرد کی اپنی قوت اختراع اور دانش کو کارآمد طور پر استعمال کرنے کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔

حکومت عوام پر کوئی سخت گیر سماجی اور اقتصادی ڈھانچہ تھوپنا نہیں چاہتی بلکہ اکثریت کے حقیقی کردار کے لیے راہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔ ہماری معیشت کی بنیاد جزوی طور پر آزاد کاروباری اقدام یا انٹرپرائز پر رکھی گئی ہے۔یہاں فری انٹرپرائز کے دفاع میں چند الفاظ کہنا بیجا نہ ہوگا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے معاشرے میں جسکی معیشت فری انٹرپرائز کے اصول پر کام کرتی ہو وہاں لوگوں کی شخصیت اور صلاحیتوں کی فطری نشوونما کے مواقعے زیادہ ہوتے ہیں۔

بہر حال کارل مارکس اس سے انکاری تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ صنعتی معاشرے میں لازمی طور پر دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہوتا ہے اور محنت کش طبقے کو مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسکا نتیجہ طبقاتی جدوجہد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے لیکن ساری اقوام کی اقتصادی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا۔ یہ ہمیں اپنے نئے منصوبے کی دوسری بنیاد کی طرف لے جاتی ہے یعنی پبلک سیکٹرکی ضرورت اور ذمے داریاں۔ واپڈا یا پی آئی ڈی سی جیسا ادارہ، جس کا تصور اور منصوبہ بندی ایڈمنسٹریٹو اور اقتصادی ماہرین نے پیش کی، حکومت کی تائید اور وسائل کی قوت سے نجی کاروباری منتظمین کے محدود وسائل کے مقابلے میں بہتر اور تیز رفتارنتائج دے سکتا ہے۔

نجی شعبے کی قومی تعمیر کی سرگرمیوں میں ایسے سرکاری ادارے مدد دے سکتے ہیں لیکن ایسے سرکاری اداروں کو اپنی سرگرمیاں متعین دائرے کے اندر رکھنی چاہئیں اور لچکدار نجی شعبے کو خالی جگہیں پرکرنے کی اجازت دینی چاہیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ منصوبہ بند کاروبار اور نجی کاروبار میں خوشگوار مناکحت ہو چکی ہے۔اسی وجہ سے ہمارے منصوبے دونوں کی ضروریات کو ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔فی الوقت جزوی منصوبہ بند اور جزوی آزاد کاروبار ہی بہترین حل ہے۔

قارئین! بھٹوکی مندرجہ بالا تقریر سے لے کر آج تک پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے لیکن اقتصادی منصوبہ بندی کی اہمیت آج بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔گزشتہ دنوں قومی کمیشن برائے وقار نسواں اور کلیکٹو فار سوشل سائنس ریسرچ کے پروگرام دیہی عورتوں کے مسائل کے بارے میںبہت سی تجاویز پیش کی گئیں تو میرا یہی کہنا تھا کہ ان تجاویزکو اگر پنج سالہ منصوبے کا حصہ بنا دیا جائے تو یہ عملی شکل اختیار کرسکتی ہیں۔ اس پر نفیسہ شاہ نے حیران اورپریشان ہوکرکہا تھا کہ پنج سالہ منصوبے تو اب بنتے نہیں ہیں۔

میرا حکومت پاکستان اور پلاننگ کمیشن سے یہی سوال ہے کہ آخر اب پنج سالہ منصوبے کیوں نہیں بنتے؟ پاکستان کی ترقی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے عوام دوست منصوبہ بندی انتہائی ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔