آئی ایم ایف ضرور مگر پہلی اور آخری بار
پاکستان 1952ء سے لے کر اب تک آئی ایم ایف سے 18 پروگرام لے چکا ہے جن میں سے محض 70 فیصد فنڈز استعمال ہوئے۔
دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے گولڈ اسٹینڈرڈ کے نظام کو خیر باد کہنا پڑا۔ پھر فیصلہ ہوا کہ ایسا نظام وضع کیا جائے کہ جس سے بین الاقوامی تجارت سے صنعتی ترقی یافتہ ممالک کو مساوی فائدہ حاصل ہو اور ایک دوسرے کے ساتھ نہ الجھیں بلکہ مسابقت کی بنیاد پر ان ممالک کی منڈیوں میں اشیا بیچیں اور اس مقصد کے لیے وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے وجود میں لائے تاکہ قرضے فراہم کرکے ان ممالک کی معیشتوں میں قوت خرید بحال رکھی جائے۔
دنیا کے 44 ممالک کے نمایندوں کی منظوری سے آئی ایم ایف کا ادارہ قائم کیا گیا۔ یہ ایک خود مختار ادارے کے طور پر عمل میں لایا گیا اور اس کا الحاق اقوام متحدہ سے ہے۔ وہ تمام ممالک جو فنڈز آرٹیکل آف ایگریمنٹ کے تحت اس کے لیے رقم فراہم کرتے ہیں انھیں اس کی ممبر شپ آفر کی جاتی ہے۔ آج اس کے ممبرز ممالک کی تعداد 44 سے بڑھ کر 183 ہو چکی ہے۔
پاکستان 1952ء سے لے کر اب تک آئی ایم ایف سے 18 پروگرام لے چکا ہے جن میں سے محض 70 فیصد فنڈز استعمال ہوئے۔ 1988ء سے لے کر اب تک پاکستان نے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت قرضے کے 12 پروگرام حاصل کیے جن میں 11 درمیان میں ہی چھوڑ دیے گئے۔ اور اب ایک بار پھر نہ چاہتے ہوئے بھی موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے پاس جا رہی ہے۔ چند ایک دوست احباب اس پر بہت تنقید بھی کر رہے ہیں کہ اسد عمر اور اُن کی ٹیم کی جانب سے پہلے شور مچایا جارہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے مگر اب انھوں نے یو ٹرن لیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے نہ چاہنے کے باوجود اُسے جانا کیوں پڑ رہاہے؟ کیا کوئی دوسرا ملک پاکستان کی مدد کرنے کو تیار نہیں؟ اس سوال کے جواب سے پہلے قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ راقم نے گزشتہ سال انھی دنوں کہا تھا کہ ن لیگ کی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم اس نہج پر پہنچے چکے ہیں کہ 2018ء میں پاکستان کو 12سے 15ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق حکومت کے خزانے میں 8.4 ارب ڈالر موجود ہیں جو 2 ماہ کی درآمدات کے لیے بھی ناکافی ہیں۔ حکومت سنبھالنے کے بعد سے ہی پی ٹی آئی مختلف مالی آپشنز پر غور کررہی ہے، ان آپشنز میں چین اور سعودی عرب سے مالی امداد حاصل کرنا بھی شامل ہے، تاہم ہم ناکام رہے۔ (ایک مالی سال کے لیے حکومت کو 12 ارب ڈالر درکار ہوتے ہیں)۔اس معاشی چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لیے حکومت نے مختلف اقدامات کیے ہیں جن میں درامدی اشیاء پر ڈیوٹی، گھریلو گیس کی قیمتوں اور مرکزی بینک کے شرح سود میں اضافہ شامل ہیں، جب کہ دسمبر سے ڈالر 18 فیصد مزید مہنگا ہوچکا ہے۔
حکومت بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافے کا سوچ رہی ہے، تاہم اب تک اٹھائے گئے حکومتی اقدامات سے صورتحال میں ذرہ برابر بھی بہتری نہیں آئی ہے۔اگر ہم آئی ایم ایف کے حوالے سے ماضی کی بات کریں تو نواز شریف کے دوسرے دور ِاقتدار میں 20 اکتوبر 1997ء کو آئی ایم ایف سے ایکسٹنڈڈ فنڈ اور ایکسٹنڈڈ کریٹ کی مد میں 1.13 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا ۔مسلم لیگ ن کے تیسرے دورِ اقتدار میں 4 ستمبر 2014ء کو ایکسٹنڈڈ فنڈ کی مد میں 4.3 ملین ڈالر قرضہ حاصل کیا گیا۔ جو تمام کا تمام استعمال کیا گیا ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور اقتدار میں 11 اگست 1973ء کو 75 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔
11 نومبر 1974ء کو 75 ملین ڈالر کا ایک اور قرضہ حاصل کیا گیا۔ اسی دور حکومت میں 9 مارچ 1977ء کو 80 ملین ڈالر کا ایک اور قرضہ حاصل کیا گیا تھا۔پیپلز پارٹی کے دوسرے دور ِ اقتدار میں جب ملک پر بینظیر بھٹو حکمران تھیں ، اسٹینڈ بائی کی مد میں28دسمبر 1988ء کو 273.1 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار میں 22 فروری 1994ء کو آئی ایم ایف سے ایکسٹنڈڈ فنڈ اور ایکسٹنڈڈ کریٹ کی مد میں 985.7 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔
پرویز مشرف کی آمریت کے بعد جب پیپلز پارٹی ایک بار پھر اقتدار میں آئی تو 24 نومبر 2008ء کو آئی ایم ایف نے ایک بار پھر7.2 بلین ڈالر قرض کی صورت میں دیے۔جنرل پرویز مشرف کے دوراقتدار میں 29 نومبر 2000ء کو پاکستان نے اسٹینڈ بائی کی مد میں 465 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔ اگلے ہی سال یعنی 6 دسمبر 2001ء میں ایکسٹنڈڈ کریڈٹ کے تحت پاکستان نے ایک بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ حکومت کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑ رہا ہے۔ ملک اس وقت جس شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے، اس پر حکومت سمیت ہر شخص متفکر ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بہت کم رہ گئے ہیں جن سے بھاری غیر ملکی قرضوں کی اقساط اداکرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ تجارتی اور مالیاتی خسارے نے معیشت کو بری طرح زیر بار کر رکھا ہے۔ پاور سیکٹر میں گردشی قرضے کھربوں روپے تک پہنچ گئے ہیں ۔ ترقیاتی اسکیموں کے لیے خزانے میں پیسہ نہیں۔
بہرکیف اگر آپ بیمار ہوں تو آپ کے پاس ڈاکٹر کے پاس جانے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہوتا۔ آئی ایم ایف سے جو پیسہ حاصل ہوگا، وہ پاکستان کو غیرملکی قرضوں کی مد میں ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کے لیے استعمال کیا جائے گا لیکن اس سے ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا کیونکہ ملک میں معاشی سرگرمیاں سُست روی کا شکار ہیں۔گزشتہ مالی سال میں حکومت کے اخراجات آمدنی سے کہیں زیادہ تھے، جس کی وجہ سے 2.2 کھرب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا، اس خسارے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، سیکیورٹی اخراجات اور ترقیاتی منصوبوں سمیت دوسرے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو بینکوں سے پیسے ادھار لینا پڑتے ہیں۔
دوسری طرف ماہانہ درآمدات ملکی برآمدات سے 2.7 ارب ڈالر زیادہ ہیں جس کے باعث تیل، خام مال اور مشینری کی ضروری درآمدات کے لیے حکومت کے خزانے میں خاطر خواہ سرمایہ نہیں بچ پاتا، خزانے میں اتنے بھی پیسے نہیں بچتے کہ معیشت کے ضروری کام کیے جا سکیں اور غیرملکی قرضوں (90 ارب ڈالر سے زائد) کی ادائیگی کی جاسکے۔اب ان ادائیگیوں کے بعد ملک کے بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں سب سے اہم مسئلہ ایکسپورٹ بل کو بڑھانا اور امپورٹ بل کو کم کرنا ہے، اور یہ تبھی ممکن ہے جب بہترین مینجمنٹ سسٹم کام کر رہا ہو۔
اس لیے اُمید کی جا سکتی ہے کہ نئی حکومت جس کے پاس خزانے خالی تھے، انھیں مستقبل میں ایسے اقدامات کرنے ہیں جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ آئی ایم ایف کا چوائس پہلی اور آخری مرتبہ ہی لیا گیا ہے۔