ضمنی انتخاب راوی چین لکھتا ہے لیکن

پنجاب میں ضمنی الیکشن کے بعد بھی تخت پنجاب کی جنگ میں کسی فریق کے اوپر نیچے ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

پنجاب میں جنرل الیکشن کے بعد پہلے ضمنی الیکشن 14اکتوبر کو ہونے جا رہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف 175 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے اور حکومت کر رہی ہے۔ ن لیگ 162 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبرپر ہے۔

ق لیگ کی 10، پیپلزپارٹی کی 8، راہ حق پارٹی کی 1اور آزاد ارکان کی دو نشستیں ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی ن لیگ پر اپنی برتری اگرچہ14 نشستوں کی ہے، لیکن چونکہ ق لیگ اس کی باقاعدہ طور پر اتحادی ہے اور اس حیثیت میں ہی چوہدری پرویزالٰہی اسپیکرپنجاب اسمبلی منتخب ہوئے ہیں، لہٰذا عملی طور پر ن لیگ پر پنجاب حکومت کی برتری 24 نشستوں کی ہو جاتی ہے۔

اس تناظر میں ضمنی الیکشن کا جو بھی نتیجہ ہو، پنجاب حکومت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔ ن لیگ کو یہ توقع بالکل نہ تھی کہ 25 جولائی کے الیکشن میں تخت پنجاب بھی اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس کے سیاسی اور صحافتی حکمت کار پوری تیاری کرکے بیٹھے تھے کہ عمران خان وزیراعظم بن گئے تو بھی پنجاب میں ن لیگ ہی کا دور دورہ ہوگا، اور شہبازشریف ہی تیسری بار وزیراعلیٰ ہوں گے۔

بعداس کے، ''میثاق جمہوریت'' کو نئی زندگی دے کرکے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف ''دمادم مست قلندر'' ہو گا، اور بطور وزیراعظم ان کو چلنے نہیں دیا جائے گا، جیسا کہ 1988ء میں بے نظیر بھٹو کو نہیں چلنے دیا گیا تھا۔ کم ازکم ن لیگ کے اندر کوئی یہ سوچ بھی نہیں رہا تھا۔

یہاں ایک نکتہ کی وضاحت ضروری ہے۔ پنجاب میں ن لیگ سے پہلے ق لیگ بھی برسراقتدار رہی ہے، اور کسی زمانہ میں پیپلزپارٹی کی حکومت بھی رہ چکی ہے، لیکن تحریک انصاف کی اس سے پہلے پنجاب میں کبھی حکومت نہیںرہی۔ پنجاب میں تحریک انصاف کی کامیابی اس وجہ سے ہوئی کہ اس نے الیکشن میں ''احتساب'' کا نعرہ لگایا اور کہا کہ پنجاب میں غربت ، مہنگائی اور بیروزگاری کی واحد وجہ وہ کرپشن ہے، جس کو ن لیگی حکومت بجائے ختم کرنے کے مزید پروان چڑھا رہی ہے۔

بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں اور مہنگائی میں اضافہ کو بھی حکومتی کرپشن سے جوڑا گیا۔ برسراقتدار آنے کے بعد مگر تحریک انصاف حکومت نے بھی جس روایتی اندازمیں بجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کا فیصلہ کیا، حقیقتاًاس نے عوام میں بڑی مایوسی پیدا کی ہے۔

بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں فوری اضافہ کے حکومتی اعلانات سے عوام میں پیدا ہونے والی بے چینی کی یہ لہر پنجاب میں ضمنی الیکشن پر واقعتاً اثر انداز ہوتی نظر آ رہی تھی۔ نوازشریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا کرنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم نامہ سے بھی ن لیگ کو بے انتہا سیاسی فائدہ بھی پہنچا۔ ضمنی الیکشن کی حد تک پنجاب میں پیپلزپارٹی سے بھی اس کے معاملات طے پا گئے۔ رانا مشہود سے وہ متنازعہ بیان بھی اسی تناظر میں دلوایا گیا، جس میں ن لیگ اور'' ایسٹیبلشمنٹ''کے درمیان ''مفاہمت'' کی نوید سنائی گئی۔


اگرچہ یہ ایک گھڑی ہوئی کہانی تھی اورحقیقت کا اس میں شائبہ تک نہیں تھا ، اس کے باوجود حکومت سے مایوسی کی لہر کے ساتھ مل کر ن لیگ کا یہ تیر ابتدائی طور پر نشانے پر بیٹھا۔ گورنر پنجاب محمد سرور کی خالی کردہ سینیٹ کی نشست پر ن لیگی امیدوار نے نہ صرف اپنے پارٹی ووٹ پورے لیے، بلکہ اضافی طور پر تحریک انصاف کے تین ووٹ بھی لے اڑا؛ حالانکہ کچھ عرصہ پہلے اسپیکرکے انتخاب میں ن لیگ کے 12 ارکان نے بغاوت کر دی تھی اور ن لیگ کا شیرازہ بکھرتا نظر آ رہا تھا۔

پنجاب میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر پہلے بھی کسی اپ سیٹ کا امکان نہیں تھا ، اور اب بھی نہیں۔ گجرات اور تلہ گنگ میں چوہدری پرویزالٰہی کی نشستوں پر چوہدری مونس الٰہی اور چوہدری سالک حسین کی کامیابی یقینی ہے۔ اٹک میں طاہر صادق اور ٹیکسلا میں چوہدری غلام سرور کی خالی کردہ نشستوں پر بھی تحریک انصاف کو کوئی مسئلہ نہیں۔ راولپنڈی میں شیخ رشیداحمد کے بھانجے کی نشست بھی محفوظ ہے۔

لاہورمیں عمران خان کی خالی کردہ نشست پر ہمایوں اختر خان کو ابتدائی طور پر کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ ضمنی الیکشن سے عین پہلے نوازشریف کی رہائی اور بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے حکومتی اعلانات سے ان کو دھچکا بھی لگا، لیکن شہبازشریف کی ڈرامائی گرفتاری کے بعد یہ ساری چیزیں پس منظر میں چلی گئی ہیں اور اب یہاں بھی تحریک انصاف کی پوزیشن بہت مستحکم نظر آ رہی ہے۔ ویسے بھی یہ حلقہ ہمایوں اختر خان کے لیے نیا نہیں۔1993ء اور 2002 ء میں وہ یہاں سے جیت چکے ہیں۔

یہاں سے ہمایوں اختر خان کا چوہدری اعتزازاحسن کو ہرانا الیکشن 1993ء کا بہت بڑا اپ سیٹ تھا۔ ضمنی الیکشن میں ووٹروں کا رجحان عام طور پر ان حکومتی امیدواروں کی طرف زیادہ ہوتا ہے، جن کے حکومت کا حصہ ہونے کے ساتھ وزیر بننے کا بھی امکان ہوتا ہے، کیونکہ آیندہ پانچ سال میں ووٹروں کے کام کروانے کے لیے وہ نسبتاًبہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ اس طرح ظاہراً تحریک انصاف این اے 131 کی یہ مشکل نشست بھی دوبارہ جیتتی نظر آ رہی ہے۔ تاہم حمزہ شہباز کی خالی کردہ نشست پر تحریک انصاف کی پوزیشن کافی کمزور ہے۔

اس نشست پر حمزہ شہباز ن لیگی امیدوار شاہد خاقان عباسی کے لیے ذاتی طور پر بھی سرگرم ہیں، لہٰذا یہاں سے ن لیگ کو کوئی خطرہ نہیں، بلکہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی فی الوقت یہی ایک نشست ہے، جس پر ن لیگ کی کامیابی یقینی ہے۔گویا ضمنی الیکشن کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی عددی پوزیشن پہلے سے بہت بہتر ہو جائے گی۔

پنجاب میں ضمنی الیکشن کے بعد بھی تخت پنجاب کی جنگ میں کسی فریق کے اوپر نیچے ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ تحریک انصاف کے لیے راوی چین لکھتا ہے؛ لیکن حکومتی فیصلوں کے نتیجہ میں مہنگائی کا جو خوف ناک ریلا عوام کی طرف بڑھ رہا ہے، اس کا ردعمل ضرور ظاہر ہو گا اور وہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کی نئی نویلی حکومت کا مزہ کرکرا کر سکتاہے ، شاعر نے کہا تھا ،

ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا

ایسا نہ ہو کہ تو بھی مداوا نہ کرسکے
Load Next Story