سندھ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی

صوبائی اسمبلی میں پی اے سی کا چیئرمین حزب اقتدار یا حزب اختلاف میں سے کوئی بھی رکن ہو سکتا ہے۔

tauceeph@gmail.com

پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے تحریک انصاف کی حکومت کی پیروی کرتے ہوئے صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی حزب اختلاف کے سپرد کرنے سے انکار کردیا۔

حکومت سندھ کے جواں سال مشیر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان لندن میں ہونے والے میثاق جمہوریت میں وفاق میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا عہدہ قائد حزب اختلاف کو دینے پر اتفاق ہوا تھا، صوبائی سطح پر ایسا کوئی قانون ہے نہ روایت ہے۔ لہٰذا صوبائی اسمبلی میں پی اے سی کا چیئرمین حزب اقتدار یا حزب اختلاف میں سے کوئی بھی رکن ہو سکتا ہے۔

سندھ اسمبلی میں اس وقت قائد حزب اختلاف تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی ہیں۔ موصوف یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ صوبہ میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ کا عہدہ قائد حزب اختلاف کو دیا جائے۔ تحریک انصاف کا جمہوری اقتدار پارلیمنٹ کی روایات سے تعلق کم رہا ہے مگر پیپلز پارٹی کا یہ مؤقف ان کے حامیوں کے لیے جو ریاستی اداروں کی شفافیت پر یقین رکھتے ہیں مایوسی کا باعث بنا ہے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے میثاق جمہوریت کی پاسداری کرنے کے وعدے کے باوجود عوام کے جاننے کے حق (Right to know) کو یقینی بنانے کے لیے حقیقی اقدامات نہیں کیے۔ سندھ ہائی کورٹ کی مداخلت کے باوجود انفارمیشن کمیشن ابھی تک فعال نہیں ہوسکا ہے۔ گزشتہ صدی میں 90ء کی دھائی میں سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد سرد جنگ اختتام کو پہنچی۔ فری مارکیٹ اکنامی نے سوشلسٹ اکنامی کی جگہ لے لی، یوں آزاد تجارت ریاست کی پابندیوں کے بغیر کاروبار کا تصور سامنے آیا۔

ریاست کے وظائف کم ہونے لگے اور ریاست کے وظائف غیر ریاستی اداروں کو منتقل ہوئے ، سرکاری اداروں کے احتساب کا ایک نیا تصور ابھر کر سامنے آیا۔ بین الاقوامی سطح پر یہ بات کہی جانے لگی کہ عوام کی ریاست کے تمام ستونوں پر بالادستی اس وقت تک یقینی نہیں ہوگی جب تک عوام کو ریاستی اداروں کے بارے میں جاننے کا حق نہیں ہوگا۔ یورپی ریاستوں میں تصور خاصا پرانا تھا۔

برطانیہ، ہالینڈ، جرمنی اور اسکنڈے نیوین ممالک ریاستی اداروں کے تمام معاملات تک عوامی کو رسائی حاصل تھی۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ کے سامنے برطانیہ کے شاہی خاندان سمیت تمام اداروں بشمول فوج کے اخراجات کے متعلق دستاویزات پیش کی جاتی تھیں۔ امریکا نے تیسری دنیا کے ممالک میں فوجی آمریتوں کو مضبوط کرنے کے لیے ہر قسم کی بدعنوانیوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کی ہوئی تھی ۔

جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق، حسنی مبارک اور شاہ ایران جیسے ڈکٹیٹر ان کے زیر اثر رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی ڈکٹیٹرں نے اربوں ڈالر کمائے مگر کبھی ان کی دولت پر اعتراض نہیں ہوا۔ مگر جب سرد جنگ ختم ہوئی تو جمہوری نظام کی اہمیت ترقی پذیر ممالک میں بھی اجاگر ہونے لگی۔ پاکستان میں 1988ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت بے نظیر بھٹو کی قیادت میں قائم ہوئی۔

پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں ریاستی اداروں کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی اور ریاستی اداروں کو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دینے کی قانون سازی کے وعدے کیے تھے مگر صدر غلام اسحاق خان نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو 18 ماہ اقتدار میں رہنے کے بعد برطرف کردیا۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت کو ان کے اپنے صدر فاروق لغاری نے 58(2)B کا استعمال کرتے ہوئے برطرف کردیا۔ پھر یہ صورتحال مسلم لیگ کی حکومتوں کے ساتھ ہوئی۔

غلام اسحاق خان اور جنرل پرویز مشرف نے منتخب حکومتوں کو برطرف کرتے ہوئے ان پر بدعنوانیوں اور غیر شفافیت کے الزامات لگائے۔ اسی دور میں منتخب اراکین کے احتساب کے لیے اداروں کے قیام کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ نئی صدی کے آغاز کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو لندن کی آزاد فضاؤں میں سوچ بچار کا موقع ملا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے یہ محسوس کیا کہ مقتدر قوتیں منتخب حکومتوں کی برطرفی کے لیے کرپشن اور مختلف نوعیت کی بدعنوانیوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔


اس ہتھیار کو غیر مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ریاستی اداروں کو پارلیمنٹ کے سامنے مکمل طور پر جوابدہ کیا جائے۔ اس منصوبے کے لیے آئین میں جاننے کے حق کو یقینی بنانے کی غرض سے ترمیم، دفاعی بجٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کو مؤثر بنانے اور اس کی سربراہی قائد حزب اختلاف کو محض وفاق کی سطح پر نہیں بلکہ صوبے سے لے کر یونین کونسل کی سطح تک یقینی بنانے پر یہ رہنما متفق ہوئے تھے۔ پھر میثاق جمہوریت میں چار وزارتوں کے علاوہ تمام وزارتیں صوبوں کو منتقل کرنے پر بھی اتفاق ہوا تھا جوکہ صوبائی خودمختاری کی بنیاد تھی۔

اس بناء پر صوبے میں شفافیت کا اصول زیادہ ضروری ہوچکا تھا۔ پاکستان کی تاریخ کی اہم ترین بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری اور مسلم لیگ کے صدر میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر عملدرآمد یقینی بنایا،یوں 2010ء میں پارلیمنٹ نے آئین میں اٹھارویں ترمیم کی۔ عوام کے جاننے کے حق کو یقینی بنانے کے لیے آرٹیکل 19-A آئین میں شامل کیا گیا۔

آئین میں درج مشترکہ فہرست کو ختم کرتے ہوئے اس فہرست میں درج تمام شعبے صوبوں کو منتقل ہوئے۔ جب یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بنے۔ ایسا ہی چاروں صوبوں میں بھی ہوا۔ پھر 2013ء میں جب میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو وفاق اور چاروں صوبوں میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کے سربراہ قائد حزب اختلاف مقرر ہوئے۔ اس کمیٹی میں حکومت اور حزب اختلاف کو مساوی نمایندگی دی گئی۔

پارلیمنٹ کی کارکردگی کا جائزہ لینے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا دائرہ کار زیادہ وسیع ہونا چاہیے اور کمیٹی کے سامنے جس وزارت کے اکاؤنٹس پیش کیے جائیں ان کی جانچ پڑتال کے لیے آزاد ماہرین کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں۔ مگر تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی پارلیمانی روایات سے انحراف کرتے ہوئے پی اے سی کی سربراہی قائد حزب اختلاف کو دینے سے انکار کیا اور یہ منطق پیش کی کہ مسلم لیگ کے سربراہ کی سربراہی میں کمیٹی اپنی سابقہ حکومت کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال نہیں کرسکے گی۔

اب شہباز شریف کو گرفتار کرکے کرپشن کے ہتھیار کے ذریعے اس مؤقف کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سابق قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کے بعض وزراء پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے کام کی نوعیت کو سمجھ نہیں پائے اور اس حقیقت کو فراموش کررہے ہیں کہ ماضی کی طرح برسر اقتدار جماعت کا رکن پی اے سی کا چیئرمین ہوگا تو کمیٹی کی غیر جانبداری برقرار نہیں رہے گی اور اتنی اہم کمیٹی 1988ء سے 1999ء پھر 2002ء سے 2007ء تک وجود میں آنے والی کمیٹیوں کی طرح بے اثر ہو کر رہ جائے گی۔

اس وقت پیپلز پارٹی کی پوری قیادت پر کرپشن کے الزامات لگ رہے ہیں۔ صوبہ سندھ کے کئی سابق وزراء اور بہت سارے افسر جن میں سیکریٹری کے عہدے پر کام کرنے والے بھی شامل ہیں بدعنوانیوں کے الزامات کی زد میں ہیں۔ صوبائی حکومت نیب اور ایف آئی اے کی حکومت سندھ کے معاملات میں مداخلت پر شور مچاتی رہی ہے اور اپنے وزراء اور افسروں کو بے گناہ قرار دیتی رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت اس حقیقت کو فراموش کررہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کرپشن اور غیر شفافیت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھنے والی جماعتوں کو سیاسی عمل سے خارج کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اب تحریک انصاف کے پاپولرازم کے ماڈل نے اس ہتھیار کو مزید مستحکم کردیا ہے۔ یوں سیاسی جماعتیں بے اثر ہورہی ہیں۔ سول سوسائٹی کو نئی پابندیوں کے ساتھ مفلوج کیا جارہا ہے۔

آزادئ صحافت کے ادارے پر نہ نظر آنے والی پابندیاں عائد کرنے کے لیے میڈیا کو اقتصادی طور پر کھوکھلا کیا جارہا ہے۔ اس صورتحال میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ حکمراں جماعت کے کسی رکن کو بنانے کا مطلب بدعنوان انتظامیہ کے کارنامے چھپانے کے مترادف ہوگا۔یوں اسٹیبلشمنٹ کو مزید حملوں کا موقع ملے گا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں اطلاعات کے قانون پر عملدرآمد کے لیے انفارمیشن کمیشن کو فعال کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اب اگر حکومت سندھ کے اکاؤنٹس کو بھی پی اے سی میں اپنے حامی رکن کو سربراہ بنا کر عام کرنے سے روکے گی تو پھر عمران خان کے اس نعرے پر کون یقین نہیں کرے گا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت شفاف نہیں ہے؟
Load Next Story