جمہوریت دراصل ہے کیا

نیب سیاسی اکابرین کے سامنے دولت کمانے اوراختیارات کے ناجائز استعمال کے ناقابل تردید ثبوت رکھ رہاہے۔

raomanzar@hotmail.com

جمہوریت بالاخرہے کیا!اس کی لغوی تعریف سے درگزر کرتے ہوئے اس نظام کی جوہری روح ی طرف دیکھا جائے تومعاملات سمجھ میں آجاتے ہیں۔ جمہوریت کی عمرکتنے سوسال ہے۔یہ کن کن مراحل سے گزرکروقت کی بھٹی میں پختہ ہوئی۔یہ سب کچھ اہم ضرورہے مگراہم ترین نہیں۔

کبھی کبھی تولگتاہے کہ ہمارے جیسے تیسری یاشائدچوتھی دنیاکے ملک کے لیے جمہوریت صرف اورصرف ایک نعرہ ہے جسکی آڑ میں خوفناک ترین مالی مفادکاکھیل کھیلا جاتا ہے۔ ایک ایسا شغل جوقوم کی ہڈیوں سے گودا بھی چوس ڈالتا ہے۔ مگر سوال مکمل طور پر برقرار ہے کہ جمہوریت ہے کیا؟

چلیے الیکشن کے ذریعے ووٹ لینے سے اسکاایک اہم ترین جزومکمل ہوجاتاہے۔مگرتھوڑاسارُک کر سوچیے۔ کیا الیکشن میں ووٹ ڈالنے اوربیلٹ بکس طاقت کے زورپر بھرنے میں فرق نہیں ہے؟ کیا ووٹ کی طاقت اگرچھین لی جائے تو اس نظام کو کیا نام دیاجائیگا۔کہلائے گاتووہ ڈیموکریسی ہی، اُجڑے ہوئے چمن کی طرح جہاں ہرپھول رنگ وبوکے بغیر ہے۔ہمارے ملک کے ساتھ بالکل یہی ہواہے۔

جنرل ضیاء الحق کوپیپلزپارٹی کی حکومت واپس آنے میں اپنی شکست نہیں بلکہ موت نظرآتی تھی۔مرتے دم تک آرمی چیف کا عہدہ نہ چھوڑنے کافیصلہ اسی ذہنی کمزوری کی دلیل تھا۔ بھٹو کا خوف اس کے ذہن پر اس طرح سوارتھاکہ آزادی اظہار،عوامی طاقت اور انسانی حقوق جیسے بلنداستعارے اس کے لیے صرف لفظ تھے۔بغیرمطلب کے انتہائی ناپسندیدہ الفاظ۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ ضیاء الحق نے پورے سماج کوایک خاص ساخت میں ڈھالنے کی مکمل کوشش کی۔ مذہب کواس طرح استعمال کیاگیاکہ اس کا ظاہری پہلوحددرجہ اہم ہوگیا۔ یعنی نظرآنے والی عبادات اوررسومات نے لوگوں کواپنی گرفت میں لے لیا۔ اسلام جیسے انقلابی مذہب کے بنیادی عملی اُصولوں کو بالائے طاق رکھ دیاگیا۔نتیجہ یہ ہواکہ پورا ملک Bipolarہوگیا۔

تقریباًہرآدمی دوہری شخصیت کا مالک بن گیا۔ایک وہ جوعام لوگوں یامعاشرہ میں سانس لینے کے لیے تھی اوردوسری متضاد شخصیت،کسی بھی ثبوت کے بغیرہرطرح کے عیش وحرکات کے لیے تھی۔منافقت کی چھتری نے پورے سماج کواس طرح چھائوں میں لے لیاکہ سوچ اور فکری شعور کو پست ترین سطح پرلے آیاگیا۔

بات یہاں نہیں رُکتی۔پیپلزپارٹی کوزیرکرنے کے لیے ایسے لوگ سیاست میں لائے گئے جنکاصرف ایک نظریہ تھا۔پیپلزپارٹی کے خلاف بغض اورنفرت۔ نام لکھنے کاکوئی فائدہ نہیں۔کیونکہ ہرایک کے علم میں ہے کہ انتہائی ادنیٰ لوگوں کی کھیپ بنائی گئی۔انکومالی مفادات کاچسکا لگایا گیا اور الیکشن کوایک کھیل بنادیا گیا۔ایساکھیل جسکی ڈورضیاء الحق اور بعدازاں اس کے ساتھیوں کے پاس تھی۔آج آپ جتنے جفادری سیاستدان دیکھ رہے ہیں۔

بنیادی طورپریہ اسی انتقامی اور انتظامی منصوبہ کی پیداوارہیں جسے ملک میں خاص حکمتِ عملی سے پروان چڑھایا گیا تھا۔ 1985کاالیکشن کتنابڑاقومی مذاق تھا،اس پرکچھ بھی لکھناوقت کوضایع کرنا ہے۔ مگر جو لوگ گلی محلہ کے کونسلرنہیں بن سکتے تھے انھیں صوبائی اورقومی سطح کا لیڈربنادیاگیا۔حدتویہ ہے کہ وہ سیاسی بونے واقعی اپنے آپ کولیڈرسمجھنے لگے۔سیاسی کرپشن کی جوداغ بیل 1985میں ڈالی گئی،وہ تین دہائیوں کے بعد اس ملک کو عذاب میں مبتلاکرچکی ہے۔

اس مصنوعی قیادت کا اصل روح رواضیاء الحق تھا۔لہذایہ جعلی طریقے سے مسلط سیاستدان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس شخص کے عملی خیالات کی تصویربن گئی۔ حکومت میں رہ کرناجائزپیسہ کمانے کو ہر طریقے سے قبول کرلیاگیا۔معاشرے میں اس درجہ تبدیلی آگئی کہ برائی کواچھائی اورنیکی کوبیوقوفی کادرجہ دیدیا گیا۔ضیاء الحق کے دس بارہ برس کی"سوشل انجینئرنگ" آج تک قائم ہے۔

مضبوط ہے اورپھل پھول رہی ہے۔ضیاء الحق کی جانشین سیاست کا ایک اہم نکتہ یہ بھی تھاکہ پیپلزپارٹی کو کیسے خراب کرنا ہے۔ اس کی قیادت پرکیسے زندگی تنگ کرنی ہے۔مگراب یہ تشدد پسندانہ رویہ تحریک انصا ف کے خلاف موجود ہے۔

قصہ کوتاہ یہ کہ پیپلزپارٹی اپنے نئے قائدکے بوجھ تلے راہ فناپرگامزن ہے۔سیاست میں وہ تمام کھلاڑی جوکسی نہ کسی طرح جنرل ضیاء الحق کی گودمیں کھیلتے رہے، بدقسمتی سے اس ملک کے مقدرکے مالک بن چکے ہیں۔کوئی طریقہ نہیں کہ اس انتہائی ادنیٰ قیادت سے پیچھاچھڑوایاجاسکے۔یہ جعلی قیادت اب اصل قیادت بن چکی ہے یابنائی جاچکی ہے۔ ان خاندانوں یاگروہوں کا طرزعمل بالکل صا ف ہے۔ تمام لوگ پیسہ کے معاملے میں انتہائی پختہ کار ہیں۔


ناجائز طریقے سے دولت کمانے میں یہ گروہ اس طرح مہارت حاصل کرچکاہے کہ اب ترکی،چین اور دیگرممالک کے منفی لوگ ان کے شاگرد ہیں۔ ضیاء الحق کی ترتیب شدہ اس کھیپ نے اپنے ملک کے علاوہ دیگرممالک کی اشرافیہ کوناجائزدولت کمانے پر لگا دیا ہے۔اُردگان اوراس کے خاندان کی ہمارے ملک سے نسبت کی وجہ سوفیصدناجائزکمیشن اورپیسے کمانے کاوہ سلسلہ ہے جسکی تاریںمقامی سیاستدانوں سے جاملتی ہیں۔

گزشتہ دس برس میں محترم زرداری اوران کے دوستوں نے سندھ کے معاشی نظام کے بخیے اُدھیڑدیے ہیں۔سندھ کیا اور پنجاب کیا، پورا ملک ایک اقتصادی لاش بن چکاہے۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ"جمہوریت"کے نام پر کیا گیا ہے۔الیکشن جیتنے کے تمام گُران جفادریوں کے پاس ہیں۔ ووٹ خریدنے کے لیے دولت بھرپورطریقے سے خرچ سکتے ہیں۔لہذاہماری مقامی جمہوریت ان کی جیب میں ہے۔

مگرمیراابتدائی سوال ابھی تک برقرار ہے۔ ووٹ ڈالنے والے حصہ پرتھوڑی سی گزارشات پیش کی۔مگرکیا بے لاگ احتساب جمہوری نظام کامرکزی نکتہ نہیں ہے۔کیاسچ بولنا، سرکاری وسائل کی حفاظت کرناجمہوریت کاخاصہ نہیں ہے۔ کیاجمہوریت کسی بھی شخص یاگروہ کواجازت دیتی ہے کہ ووٹ کی طاقت سے اقتدارپرقبضہ کرنے کے بعدملک کے معاشی نظام کوصرف اورصرف اپنے فائدے کے لیے استعمال کرے۔مگرہمارے ملک میں یہ سب کچھ ہوا ہے۔

ضیاء الحق کے بالکوں نے وہی فارمولااستعمال کیاکہ ہرنظام کی ظاہری ساخت برقراررہے مگر اندر سے دائولگانے کے تمام لوازمات بدرجہ اَتم موجود ہوں۔واویلہ اچھی اچھی باتوں کاہو۔ مگر اصل کام صرف اورصرف ناجائزدولت کمانااوراپنے اقتدارکو دوام دیناہو۔منافقت آج اوجِ ثریاپرہے۔صرف اشرافیہ نہیں،یہ خوفناک منافقت عام آدمی کی روح میں بھی اتر چکی ہے۔

کیا یہ اتفاق ہے کہ اگرانٹرنیٹ پرجاکرپوری دنیاکی سب سے کرپٹ سیاسی جماعت اورکرپٹ ترین حکمران تلاش کریں توجواب میں پاکستان کایہی سیاسی گروہ،جسے پارٹی نہیں کہا جاسکتا اور وہی خاندان جو ملک کوضیاء الحق تحفہ میں دے گیا تھا،سامنے آتاہے۔یہ شرمناک حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں کرپٹ ترین سیاسی پارٹی اورسیاسی شخصیت دونوں ہمارے ملک کے جمہوری نظام کی پاسبان ہیں۔نام نہیں لکھنا چاہتا۔مگرسب جانتے ہیں کہ کن لوگوں کے متعلق گزارشات کررہاہوں۔

2018کے الیکشن میں وقتی طورپریہ شخصیات خاک چاٹنے پرمجبورہوئی ہیں۔کیونکہ عوام ان کے سیاسی اورمعاشی نعروں کے چنگل ے تھوراسا باہر نکل آئے ہیں۔ مگر پروپیگنڈا، بھرپورپیسے کااستعمال اور پاوربروکرزکوتوقع سے بڑھ کرفیس دینے کے سہارے،یہ زیادہ دیرحکومت سے باہرنہیں رہیں گے۔

یہ افورڈہی نہیں کرسکتے کہ سرکاری طاقت کے بغیر سانس لے سکیں۔کیونکہ سرکاری اختیارات ان کی ناجائزدولت کوحددرجہ تحفظ دیتے ہیں۔حکومت میں رہناان کی ذاتی مجبوری ہے۔مگر ظلم یہ ہے کہ اس پورے معاملے کویہ گروہ یاشخصیات جمہوریت کانام دیتی ہیں۔ابھی سابقہ حکومت کوگئے ہوئے صرف اور صرف ایک ڈیرھ ماہ ہوا ہے۔ مگرمعمولی سی پوچھ گچھ نے ان کے کس بل نکالنے شروع کردیے ہیں۔نیب مکمل احتیاط کر رہاہے۔پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے۔

ان سیاسی اکابرین کے سامنے دولت کمانے اوراختیارات کے ناجائز استعمال کے ناقابل تردید ثبوت رکھ رہاہے۔ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔یہ لوگ بتاہی نہیں سکتے کہ دولت کہاں سے آئی ہے اورکیونکرآئی ہے۔ صرف ڈیڑھ ماہ میں ان اکابرین کے گرفتارشدہ کارندے،ان کے سامنے بیٹھ کربیان دے رہے ہیں کہ تمام غلط کام انھی کے کہنے پرکیے ہیں۔ سب کومعلوم ہے کہ اصلیت کیاہے۔جرم کہاں سرزردہوئے ہیں۔مگراس سطحی سی تفتیش کو "جمہوریت دشمنی"کانام دیا جا رہا ہے۔

سوچیے،اگریہ لوگ چین میں ہوتے،تواب تک ان کا کیاحشرہوچکاہوتا۔اگریہ سعودی عرب کے شہری ہوتے تو ناجائزدولت ان سے چھینی جاچکی ہوتی۔یہ کونوں کھدروں میں چھپے،زندگی کی دعائیں مانگ رہے ہوتے۔اگریہ یو کے یاکسی مہذب ملک میں ہوتے،توتمام عمرکے لیے جیل ان کا مقدر ہوتا۔ مگران کی خوش قسمتی ہے کہ یہ پاکستان جیسے منتشر ملک میں ہیں۔یہاں تھوڑی دیرکے لیے گرم ہوالگے،تویہ شورمچاناشروع کردیتے ہیں کہ سیاسی انتقام لیا جارہا ہے۔

ضمنی انتخابات پراثراندازہونے کی کوشش ہورہی ہے۔یہ نعرہ تو اب سن سن کرکان پک چکے ہیں،کہ جمہوریت کو شدید خدشات لاحق ہوچکے ہیں۔گزارش ہے کہ اگرجمہوریت ان کی خواہش کے مطابق چلنی ہے،توہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ان کی خودساختہ جمہوریت نے ملک کومذاق بناکر رکھ دیاہے۔اس وقت صرف اورصرف ایک کام ہونا چاہیے۔

تمام ادارے یکسوہرکران سیاسی قزاقوں سے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لیں۔ ہرحربہ استعمال کرکے ان کے ناجائزاثاثہ جات کوضبط کریں۔سونے کے بنے ہوئے وہ بُتہیں،جن سے سونانکال لیاگیاتوان کے ڈراونے اصل چہروں کودیکھ کرقوم ایک بارتذبذب کا شکار ہوجائیگی کہ یہ تھے ہمارے شفاف لیڈر!

 
Load Next Story