جب تک لکھنے والے زندہ ہیں
وہ لوگ جنھیں کتابوں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں، انھیں ڈالر مپل کی کتابوں میں گزرے زمانے سانس لیتے دکھائی دیتے ہیں۔
اب یہ بات دس بارہ برس پرانی ہوئی کہ برصغیرکے تینوں ملکوں میں ادب کا جشن منایا جاتا ہے۔ دور درازکے ملکوں سے مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف زبانوں میں لکھنے والے جے پور، دلی،کراچی، ڈھاکا اور لاہور میں جمع ہوتے ہیں اور اپنی اپنی بولیاں بول کر اپنے شہروں کو سدھارتے ہیں۔
کچھ لوگ ان کتاب میلوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے زمانوں میں جب دہشت اور بربریت شہروں اور بستیوں میں پھیرے ڈالتی ہو ، ماضی کے چنگیز خانی لشکر بستیوں کو روندتے تھے، آج کے پیل پیکر ٹینکوں کے 16اور 18فولادی پہیوں پر چڑھی ہوئی آہنی زنجیریں گھروں اور بلند عمارتوں کو پل بھر میں زمین پر بچھا دیتی ہوں۔ ابابیلوں کی کنکریاں گئے دنوں کی یاد ہوگئی ہوں، اب ڈرون اپنے شکارکا تعاقب کر کے انھیں خاکستر کرتے ہوں ، ایسے زمانے میں ادب کی بات بے وقت کی راگنی ہے۔
یہ ناصح مشفق کہتے ہیں کہ باد فنا کے بگولے ہر طرف رقص کرتے ہوں تو عافیت اسی میں ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے رہو اور اس دن کا انتظارکرو جب تمہارے شہروں میں امن چین ہو اور اس کا اندیشہ نہ ہو کہ نکلوگے توکسی خود کش بمبارکا نوالہ بن جاؤگے یا نیند کی گولی کے بجائے تولہ بھر سیسے اور بارود کی گولی تمہیں ابدی نیند سلادے گی ۔
ایسے لوگوں کا سوال اور ان کا مشورہ دونوں قدرے حیران کردیتے ہیں ۔ انھیں کیسے یاد دلائیں کہ حضور انسان پر جب بھی بُری گھڑی آئی تو ایسا اعلیٰ ادب تخلیق ہوا جس کا ڈنکا آج بھی بجتا ہے ۔ جلا وطنی کا جو نوحہ اب سے ہزاروں برس پہلے لکھا گیا اور جو عہد نامہ قدیم کا ایک مشہور باب ہے وہ بیسویں صدی میں بونی ایم کی آواز اور سازکا لباس پہن کر آج دنیا کے تمام شہروں میں سنائی دیتا ہے اور ہر دورکے جلا وطن اس کے لفظوں اور آہنگ سے اپنے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں۔
سعدی جیسے شاعر بے بدل کو ہلاکوکے لشکری گرفتار کرتے ہیں اور وہ مٹی کی ٹوکریاں ڈھونے کی مشقت پر لگا دیا جاتا ہے تو اسے پہچان کر اس کا ایک مداح زرِ تاوان دے کر وحشیوں کی قید سے رہائی دلاتا ہے۔ وہی سعدی جس نے بغداد کا صرف چھ اشعار میں وہ مرثیہ لکھا جو ہمارے تہذیبی حافظے میں ہمیشہ محفوظ رہے گا۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ کتاب خواہ مٹی کی تختیوں پرکندہ کرکے اور اسے آگ میں پکا کر محفوظ کی گئی ہو یا آج کاغذ پر چھپنے والی کتابیں ہوں، سب ہی گزرے ہوئے دنوں کی اور آنے والے زمانوں کی کہانیاں سناتی ہیں اور یہ کہانیاں لکھنے والے، داستان در داستان تحریرکرنے والے کیسے دلچسپ لوگ ہوتے ہیں ۔ ان ہی میں سے ایک ولیم ڈالر مپل ہے جو یوں تو کمال کہانیاں لکھتا ہے،اس کی لکھی ہوئی کتابیں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ جے پور لٹریچر فیسٹیول کا ایک اہم کردار بھی ہے ۔
ڈالر مپل ایسی شہرت کم لکھنے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ وہ اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہوا ۔ 22برس کی عمر میں اس نے In Xanaduلکھی اور چشم زدن میں اس کا نام بہترین لکھنے والوں میں شمار ہونے لگا ۔ اس نے دلی میں ایک برس گزارا اور ''جنوں کا شہر '' لکھی ۔ اس کی تحریر میں مسلم طرزِ تعمیر کے ساتھ ہی موسیقی کا آہنگ اور آوازوں کا لحن بھی ہے ۔ اس کے لکھے ہوئے لفظوں کے آئینے میں صدیاں سانس لیتی ہیں اور تاریخ کے جھروکوں سے انسانوں کی زندگیاں اپنی جھلک دکھاتی ہیں۔ اس نے ٹیلی وژن کے لیے ''اسٹونز آف دی راج '' لکھی۔
اس کی یہ تحریریں اسے ہندوستان لائیں اور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پھر وہ یہیں کا ہو رہا ۔ اب وہ سال کے چھ مہینے دلی اور چھ مہینے لندن میں بسر کرتا ہے ۔ اس نے یوں تو بہت سی کتابیں لکھیں لیکن دکن کے بارے میں اس کی کتاب ''وہائٹ مغلز'' کو بہت شہرت حاصل ہوئی ۔ اٹھارویں صدی کے ہندوستان کے بارے میں لکھی جانے والی عشق اور بے وفائی کی یہ کہانی ہمارا ہاتھ تھام کر ان جلادوں تک لے جاتی ہے جن کا تیغہ حکم ملنے پر بڑے بڑوں کے سر صفائی سے اتار لیتا تھا،اس کے صفحوں پر مولا علی کی ٹیکری بھی ہے جس کا نقار خانہ مشہور مغینہ اور شاعرہ مہ لقا بائی چندا کا بنوایا ہوا تھا ۔ اس میں ہم فرانسیسیوں ، ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسروں اور نظام حیدرآباد کے منصب داروں سے ملتے ہیں ۔
شو ستریوں سے بھی ہماری ملاقات ہوتی ہے اور ایک ایسا سماج ہمارے اردگرد سانس لیتا ہے جس کے بارے میں کیرن آرمسٹرانگ نے لکھا ہے کہ یہ صرف محبت کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ تاریخ میں وہ لمحے بھی گزرے ہیں جب یورپی افراد نے مسلم سماج سے گہری وابستگی محسوس کی تھی۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ اسلام اور مغرب کے درمیان پل بنائے جاسکتے ہیں ۔
اس میں فرانسیسی سورما ہیں جو نظام کو فرانس کی سلطنت سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ برطانوی لڑاکے بھی ہمیں ملتے ہیں جن کا مقصد اپنے حریف فرانسسیوں کو نیچا دکھانا اور سلطنت برطانیہ کی عظمت کے پھریرے اڑانا تھا ۔
ادب کے میدان میں وہ رجب علی بیگ سرورکی داستان فسانۂ عجائب کی یاد تازہ کراتا ہے جب اشراف کے خاندان سے ایک برطانوی نوجوان ،ایک ہندو سوداگرکی بیٹی کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے اور اپنی محبوبہ کے خاندان کی طرف سے رد کیے جانے کے غم میں سودائی ہوجاتا ہے اور اسی حالت میں جان سے گزر جاتا ہے ۔ عاشقِ نامراد کا تابوت جب سوداگر کی گلی سے گزرتا ہے تو صدمے سے نڈھال محبوبہ جھروکے سے کود کر خودکشی کرلیتی ہے اور یوں عاشق و معشوق جو زندگی میں ایک دوسرے سے مل نہ سکے تھے ، موت انھیں یکجا کر دیتی ہے ۔
ڈالر مپل کی اس کتاب میں کہانیاں اور تاریخی حقائق یکجا ہوگئے ہیں ۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ گوا کو پرتگیزیوں نے 1510میں فتح کیا جب کہ اس کے صرف چند برس بعد مغل شمالی ہندوستان میں آچکے تھے ۔ پرتگیزیوں کی طرف سے گوا میں ''تعذیب'' Inquisitionکو رائج کرنے کی کوشش کی جارہی تھی ۔
ایک پرتگیزی پادری نے روم کو خط میں لکھا کہ تعذیب کی جتنی ضرورت یہاں (گوا) ہے ، کہیں اور نہیں ہوسکتی ۔ اس لیے کہ یہاں عیسائی ، ہندوؤں ، یہودیوں اور مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں ۔ پرتگیریزی افسر اعلیٰ جب باہر نکلتے ہیں تو وہ ریشمی لباس پہنتے ہیں ، ان پر چھتری کا سایہ ہوتا ہے ۔ ان کے ساتھ لشکریوں کا ایک جلوس چلتا ہے ۔
وہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ مشہور و معروف چار مینار سے مولا علی کی درگاہ کوہ شریف تک سڑک کے دونوں طرف چراغ روشن ہوتے تھے اور 13رجب سے 17رجب تک میلے کا سماں ہوتا تھا ۔ اس میلے میں امراء عوام میں رل مل جاتے اور بہ طور خاص طوائفوں سے ان کی ملاقاتیں رہتیں ۔ وہ ہمیں مہ لقا بائی چندا کی پیدائش کے بارے میں بتاتا ہے ۔ اس کی ماں راج کنور بائی کے بچنے کی کوئی اُمید نہ تھی لیکن یہ کوہ مولا علی کی درگاہ کا کرم تھا جس کے سبب راج کنور بائی بچ گئی اور تین مہینے بعد اس نے مہ لقا کو جنم دیا۔ یہ وہی مہ لقا ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ہے ۔
ولیم ڈالر مپل کی کتاب ''وہائٹ مغلز '' روایتوں اور کہانیوں سے بھری ہوئی ہے ۔ وہ تاریخ کا جویا ہے اور اسی لیے اس نے صفحوں پر ہندوستانی تاریخ کے ایسے دورکو زندہ کردیا ہے جس کے بارے میں ہم اس سے پہلے کم واقف تھے ۔
وہ لوگ جنھیں کتابوں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ، انھیں ڈالر مپل کی کتابوں میں گزرے زمانے سانس لیتے دکھائی دیتے ہیں ۔ آج کے دور میں کتنے ہی خوفناک اور تباہ کن ہتھیار ہر طرف بربادی کا نسخہ لکھتے ہوں ، جب تک لکھنے والے زندہ ہیں ، تاریخ کے مختلف زمانے صفحوں پر ہمیں اپنی بہاریں دکھاتے رہیں گے اور ہلاکت خیزیوں کو شکست دیتے رہیں گے ۔
کچھ لوگ ان کتاب میلوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے زمانوں میں جب دہشت اور بربریت شہروں اور بستیوں میں پھیرے ڈالتی ہو ، ماضی کے چنگیز خانی لشکر بستیوں کو روندتے تھے، آج کے پیل پیکر ٹینکوں کے 16اور 18فولادی پہیوں پر چڑھی ہوئی آہنی زنجیریں گھروں اور بلند عمارتوں کو پل بھر میں زمین پر بچھا دیتی ہوں۔ ابابیلوں کی کنکریاں گئے دنوں کی یاد ہوگئی ہوں، اب ڈرون اپنے شکارکا تعاقب کر کے انھیں خاکستر کرتے ہوں ، ایسے زمانے میں ادب کی بات بے وقت کی راگنی ہے۔
یہ ناصح مشفق کہتے ہیں کہ باد فنا کے بگولے ہر طرف رقص کرتے ہوں تو عافیت اسی میں ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے رہو اور اس دن کا انتظارکرو جب تمہارے شہروں میں امن چین ہو اور اس کا اندیشہ نہ ہو کہ نکلوگے توکسی خود کش بمبارکا نوالہ بن جاؤگے یا نیند کی گولی کے بجائے تولہ بھر سیسے اور بارود کی گولی تمہیں ابدی نیند سلادے گی ۔
ایسے لوگوں کا سوال اور ان کا مشورہ دونوں قدرے حیران کردیتے ہیں ۔ انھیں کیسے یاد دلائیں کہ حضور انسان پر جب بھی بُری گھڑی آئی تو ایسا اعلیٰ ادب تخلیق ہوا جس کا ڈنکا آج بھی بجتا ہے ۔ جلا وطنی کا جو نوحہ اب سے ہزاروں برس پہلے لکھا گیا اور جو عہد نامہ قدیم کا ایک مشہور باب ہے وہ بیسویں صدی میں بونی ایم کی آواز اور سازکا لباس پہن کر آج دنیا کے تمام شہروں میں سنائی دیتا ہے اور ہر دورکے جلا وطن اس کے لفظوں اور آہنگ سے اپنے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں۔
سعدی جیسے شاعر بے بدل کو ہلاکوکے لشکری گرفتار کرتے ہیں اور وہ مٹی کی ٹوکریاں ڈھونے کی مشقت پر لگا دیا جاتا ہے تو اسے پہچان کر اس کا ایک مداح زرِ تاوان دے کر وحشیوں کی قید سے رہائی دلاتا ہے۔ وہی سعدی جس نے بغداد کا صرف چھ اشعار میں وہ مرثیہ لکھا جو ہمارے تہذیبی حافظے میں ہمیشہ محفوظ رہے گا۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ کتاب خواہ مٹی کی تختیوں پرکندہ کرکے اور اسے آگ میں پکا کر محفوظ کی گئی ہو یا آج کاغذ پر چھپنے والی کتابیں ہوں، سب ہی گزرے ہوئے دنوں کی اور آنے والے زمانوں کی کہانیاں سناتی ہیں اور یہ کہانیاں لکھنے والے، داستان در داستان تحریرکرنے والے کیسے دلچسپ لوگ ہوتے ہیں ۔ ان ہی میں سے ایک ولیم ڈالر مپل ہے جو یوں تو کمال کہانیاں لکھتا ہے،اس کی لکھی ہوئی کتابیں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ جے پور لٹریچر فیسٹیول کا ایک اہم کردار بھی ہے ۔
ڈالر مپل ایسی شہرت کم لکھنے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ وہ اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہوا ۔ 22برس کی عمر میں اس نے In Xanaduلکھی اور چشم زدن میں اس کا نام بہترین لکھنے والوں میں شمار ہونے لگا ۔ اس نے دلی میں ایک برس گزارا اور ''جنوں کا شہر '' لکھی ۔ اس کی تحریر میں مسلم طرزِ تعمیر کے ساتھ ہی موسیقی کا آہنگ اور آوازوں کا لحن بھی ہے ۔ اس کے لکھے ہوئے لفظوں کے آئینے میں صدیاں سانس لیتی ہیں اور تاریخ کے جھروکوں سے انسانوں کی زندگیاں اپنی جھلک دکھاتی ہیں۔ اس نے ٹیلی وژن کے لیے ''اسٹونز آف دی راج '' لکھی۔
اس کی یہ تحریریں اسے ہندوستان لائیں اور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پھر وہ یہیں کا ہو رہا ۔ اب وہ سال کے چھ مہینے دلی اور چھ مہینے لندن میں بسر کرتا ہے ۔ اس نے یوں تو بہت سی کتابیں لکھیں لیکن دکن کے بارے میں اس کی کتاب ''وہائٹ مغلز'' کو بہت شہرت حاصل ہوئی ۔ اٹھارویں صدی کے ہندوستان کے بارے میں لکھی جانے والی عشق اور بے وفائی کی یہ کہانی ہمارا ہاتھ تھام کر ان جلادوں تک لے جاتی ہے جن کا تیغہ حکم ملنے پر بڑے بڑوں کے سر صفائی سے اتار لیتا تھا،اس کے صفحوں پر مولا علی کی ٹیکری بھی ہے جس کا نقار خانہ مشہور مغینہ اور شاعرہ مہ لقا بائی چندا کا بنوایا ہوا تھا ۔ اس میں ہم فرانسیسیوں ، ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسروں اور نظام حیدرآباد کے منصب داروں سے ملتے ہیں ۔
شو ستریوں سے بھی ہماری ملاقات ہوتی ہے اور ایک ایسا سماج ہمارے اردگرد سانس لیتا ہے جس کے بارے میں کیرن آرمسٹرانگ نے لکھا ہے کہ یہ صرف محبت کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ تاریخ میں وہ لمحے بھی گزرے ہیں جب یورپی افراد نے مسلم سماج سے گہری وابستگی محسوس کی تھی۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ اسلام اور مغرب کے درمیان پل بنائے جاسکتے ہیں ۔
اس میں فرانسیسی سورما ہیں جو نظام کو فرانس کی سلطنت سے وابستہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ برطانوی لڑاکے بھی ہمیں ملتے ہیں جن کا مقصد اپنے حریف فرانسسیوں کو نیچا دکھانا اور سلطنت برطانیہ کی عظمت کے پھریرے اڑانا تھا ۔
ادب کے میدان میں وہ رجب علی بیگ سرورکی داستان فسانۂ عجائب کی یاد تازہ کراتا ہے جب اشراف کے خاندان سے ایک برطانوی نوجوان ،ایک ہندو سوداگرکی بیٹی کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے اور اپنی محبوبہ کے خاندان کی طرف سے رد کیے جانے کے غم میں سودائی ہوجاتا ہے اور اسی حالت میں جان سے گزر جاتا ہے ۔ عاشقِ نامراد کا تابوت جب سوداگر کی گلی سے گزرتا ہے تو صدمے سے نڈھال محبوبہ جھروکے سے کود کر خودکشی کرلیتی ہے اور یوں عاشق و معشوق جو زندگی میں ایک دوسرے سے مل نہ سکے تھے ، موت انھیں یکجا کر دیتی ہے ۔
ڈالر مپل کی اس کتاب میں کہانیاں اور تاریخی حقائق یکجا ہوگئے ہیں ۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ گوا کو پرتگیزیوں نے 1510میں فتح کیا جب کہ اس کے صرف چند برس بعد مغل شمالی ہندوستان میں آچکے تھے ۔ پرتگیزیوں کی طرف سے گوا میں ''تعذیب'' Inquisitionکو رائج کرنے کی کوشش کی جارہی تھی ۔
ایک پرتگیزی پادری نے روم کو خط میں لکھا کہ تعذیب کی جتنی ضرورت یہاں (گوا) ہے ، کہیں اور نہیں ہوسکتی ۔ اس لیے کہ یہاں عیسائی ، ہندوؤں ، یہودیوں اور مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں ۔ پرتگیریزی افسر اعلیٰ جب باہر نکلتے ہیں تو وہ ریشمی لباس پہنتے ہیں ، ان پر چھتری کا سایہ ہوتا ہے ۔ ان کے ساتھ لشکریوں کا ایک جلوس چلتا ہے ۔
وہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ مشہور و معروف چار مینار سے مولا علی کی درگاہ کوہ شریف تک سڑک کے دونوں طرف چراغ روشن ہوتے تھے اور 13رجب سے 17رجب تک میلے کا سماں ہوتا تھا ۔ اس میلے میں امراء عوام میں رل مل جاتے اور بہ طور خاص طوائفوں سے ان کی ملاقاتیں رہتیں ۔ وہ ہمیں مہ لقا بائی چندا کی پیدائش کے بارے میں بتاتا ہے ۔ اس کی ماں راج کنور بائی کے بچنے کی کوئی اُمید نہ تھی لیکن یہ کوہ مولا علی کی درگاہ کا کرم تھا جس کے سبب راج کنور بائی بچ گئی اور تین مہینے بعد اس نے مہ لقا کو جنم دیا۔ یہ وہی مہ لقا ہے جس کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ہے ۔
ولیم ڈالر مپل کی کتاب ''وہائٹ مغلز '' روایتوں اور کہانیوں سے بھری ہوئی ہے ۔ وہ تاریخ کا جویا ہے اور اسی لیے اس نے صفحوں پر ہندوستانی تاریخ کے ایسے دورکو زندہ کردیا ہے جس کے بارے میں ہم اس سے پہلے کم واقف تھے ۔
وہ لوگ جنھیں کتابوں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ، انھیں ڈالر مپل کی کتابوں میں گزرے زمانے سانس لیتے دکھائی دیتے ہیں ۔ آج کے دور میں کتنے ہی خوفناک اور تباہ کن ہتھیار ہر طرف بربادی کا نسخہ لکھتے ہوں ، جب تک لکھنے والے زندہ ہیں ، تاریخ کے مختلف زمانے صفحوں پر ہمیں اپنی بہاریں دکھاتے رہیں گے اور ہلاکت خیزیوں کو شکست دیتے رہیں گے ۔