یہ کھیل آخر کب تلک
پاکستان میں کرپشن ایک ایسا الزام ہے، جو ہر سیاستدان کا مقدر ہے، مگر آج تک کسی ایک پر یہ الزام ثابت نہیں ہوسکا۔
میاں شہباز شریف کو آشیانہ ہاؤسنگ اسیکنڈل میں نیب نے گرفتارکر لیا ۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے من پسند کمپنی کو اس اسکیم کا ٹھیکہ دے کر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے، حالانکہ اس پروجیکٹ پرکام شروع ہی نہیں ہو سکا ہے ۔ اس گرفتاری کے پس پشت عزائم واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ بہرحال آجکل شریف خاندان کرپشن کے مختلف الزامات کے تحت احتساب کی زد پر ہے۔
پاکستان میں کرپشن ایک ایسا الزام ہے، جو ہر سیاستدان کا مقدر ہے، مگر آج تک کسی ایک پر یہ الزام ثابت نہیں ہوسکا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پورا ملک اس غلاظت میں بری طرح لتھڑا ہوا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ افراد سے زیادہ نظام میں پائے جانے والے اسقام ہیں ، اگر افرادکے بجائے ان اسقام پر توجہ دی جائے اور نظم حکمرانی میں شفافیت لانے کی کوشش کی جائے تو صرف کرپشن ہی نہیں دیگر بیشمار انتظامی خرابیوں اور نقائص پر قابو پانا آسان ہوسکتا ہے، مگر اس سسٹم کے جاری رہنے ہی کی وجہ سے حکمران اشرافیہ کی اقتدار پر بالادستی اورکنٹرول قائم ہے۔ اس لیے صرف افراد کو نشانہ بناکر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کی محض ایک ڈھکوسلہ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں ہے۔
احمد فراز نے کہا تھا کہ
میں آج زد پہ اگر ہوں، تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں
یعنی آج جو سیاسی جماعت اقتدارکے نشے میں کسی دوسری سیاسی جماعت کی کردارکشی پر بغلیں بجا رہی ہے،کل اس کا نمبر بھی آنا یقینی ہے۔ یہ کھیل ویسے تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا، مگروقت گذرنے کے ساتھ اس میںتیزی آتی گئی۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں کون سی ایسی شخصیت ہے، جس پرکرپشن، بد عنوانی اور ملک دشمنی کے الزام نہ لگے ہوں۔
حسین شہید سہروردی ہوں یا قرارداد لاہور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق ۔ بطل حریت باچا خان ہوں یا ملک کو وفاقی جمہوریہ کے طور پر چلانے کا مطالبہ کرنے والے جی ایم سید ، میر غوث بخش بزنجو ہوں یا سیٹو سینٹو میں بغیر سوچے سمجھے شمولیت پر اعتراض کرنے والے میاں افتخارالدین ۔ ہر وہ رہنماجس نے ریاستی اداروں کے ماورائے آئین اقدامات پرتنقیدکی غداراور ملک دشمن قرار دیا گیا۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کرپشن صرف مالیاتی نہیں ہوتی، بلکہ اخلاقی، آئینی اور قانونی بھی ہوتی ہے۔آئین میں تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز ، اقتدار و اختیار کا غلط استعمال، اقربا پروری اور میرٹ اور شفافیت کو نظر انداز کرنا بھی عالمی سطح پر متعین کردہ تعریف کے مطابق کرپشن ہے۔کرپشن صرف پاکستان ہی کا نہیں ترقی یافتہ ممالک سمیت پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ کرپشن دراصل گورننس کی کمزوریوں کا شاخسانہ ہوتی ہے۔ اچھی حکمرانی (Good Governance) کے ذریعے کرپشن جیسی برائیوں پر کنٹرول کرنا تقریباً آسان ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر گورننس کمزور ہو، تودیگر انتظامی و سماجی برائیوںمیں اضافے کے ساتھ کرپشن بھی کنٹرول سے باہرہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میںگورننس کا نظام اچھا ہونے کی وجہ سے کرپشن کنٹرول میں رہتی ہے ۔ اس کے برعکس ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں کمزورگورننس کی وجہ سے کرپشن کا جن قابوسے باہر رہتا ہے، جو اکثر آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔
بانی پاکستان نے دستور ساز اسمبلی میں اپنی پالیسی تقریر کے دوران جہاں ایک طرف ریاست کے سیاسی و انتظامی خدوخال واضح کیے تھے، وہیں انھوں نے کرپشن کے بارے میں کھل کر اظہار کیا تھا اور ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن کو قرار دیا تھا ۔انھوں نے سیاستدانوں اور ریاستی ذمے داروں کو اس سے بچنے کی تلقین کی تھی، مگر وطن عزیز میں روز اول ہی سے متوازی حکمرانی کے تصور نے گورننس کو صحیح خطوط پر استوار نہیں ہونے دیا ۔ جس کی وجہ سے ایک طرف انتظامی ڈھانچہ کمزور ہوتا چلا گیا۔دوسری طرف ملک مختلف نوعیت کی کرپشن میں لتھڑتا چلا گیا ۔
اب جہاں تک مختلف نوعیت کی بدعنوانیوں کا تعلق ہے، تو یہ وطن عزیزکے سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کی رگ وپے میں سرائیت کرچکی ہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ سنجیدگی کے ساتھ ریاست کے انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور گورننس کو جدید خطوط پر استوارکرنے کی کوشش کی جاتی، تاکہ ملک میں اچھی حکمرانی قائم ہوتی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا، مگر بعض بااثر قوتوں نے اقتدارواختیار پر اپنے کنٹرول قائم کرنے کی خاطرجمہوری عمل کو derail کرنے اور متوازی حکمرانی قائم کرنے کا سلسلہ پہلے دن ہی سے شروع کر دیا تھا ۔ اس مقصد کے لیے کرپشن کو ایشو بناکر سیاسی قائدین کو سیاسی عمل سے دور کرنے کاکھیل کوئی نیا نہیں ہے۔ آج کل اس کھیل کی زد میں شریف خاندان ہے۔
یہ نہیں کہاجاسکتا کہ میاں نواز شریف اور ان کا خاندان کوئی پارسا یادیانت دارخاندان ہے۔ اس بات میں بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ انھوں نے یا ان کی جماعت سے متعلق بیشتر رہنماؤں نے دوران اقتدارکسی قسم کی بدعنوانی نہیں کی ہوگی، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا وطن عزیز میں سیاستدانوں کے علاوہ بیوروکریسی اور دیگر ریاستی ادارے ہر قسم کی کرپشن سے پاک اور مبرا ہیں؟ کیا یہ ادارے آئین میں تفویض کردہ ذمے داریاں پوری کررہے ہیں؟
کیاعدالتوں میں ہر سطح پرکرپشن نہیں ہے؟ مسائل کے بحرانی شکل اختیارکرنے کا اصل سبب یہ ہے کہ کوئی ادارہ مقدس گائے بن کر بیٹھ گیا ہے۔کسی نے خود کو ہر قسم کی تنقید سے بلند و بالاکرلیا ہے۔ایسے میں صرف سیاستدان ہی وہ کمزور ترین طبقہ ہیں، جوعوام کے علاوہ ریاست کے تنخواہ دار اداروں کی زد پر رہتے ہیں ، جن پرکوئی بھی قسم کا الزام لگاکر ان کا میڈیا ٹرائیل ہرکس وناکس کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا ہے۔
اس صورتحال کی ذمے داری خود سیاستدانوں پر بھی عائد ہوتی ہے، جو اقتدار میں آنے یا عوامی نمایندگی کی بنیاد پر ایوانوں میں ہونے کی صورت میں پارلیمان کو اہمیت دینے، اس کے کردار کو assertive بنانے اور ریاستی اداروں کو حکومت کے بجائے پارلیمان کی بالادستی قبول کرنے پر مجبورکرنے میں ناکام رہیں ۔ سیاسی جماعتیں بار بار ایک ہی بل سے ڈسی جاتی ہیں، مگر اس بل کو بند کرنے میں نا کام چلی آرہی ہیں ۔ اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں اس سیاسی عزم وبصیرت کا فقدان ہو، جو جمہوری اداروں کو مستحکم بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے یا پھر جلد اقتدار میں آنے کی خواہش انھیں دور رس اقدامات سے روکتی ہو ۔ بہر حال اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں، جمہوری نظم حکمرانی کی کمزوری میں سیاستدانوں کا بھی کردار ہے۔
عرض ہے کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں کرپشن اور بدعنوانیوں کا بازارگرم نہیں ہے۔اس بات میں بھی دو رائے نہیں کہ ملک میں سیاسی اور سماجی انتشار اپنے عروج پر ہے، مگر ان تمام خرابیوں کا سبب کیا ہے، اس پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ وہ ہے اچھی حکمرانی یعنی Good Governance کا قیام۔ پاکستان سے کرپشن کی لعنت اسی وقت ختم ہوسکتی ہے، جب تمام ریاستی ادارے دوسرے اداروں اور شعبوں کے کاموں میں مداخلت بند کریں اور آئین کی متعین کردہ حدود کے اندر اپنی ذمے داریاں پوری کرنے پر آمادہ ہو جائیں ۔ ایک آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم ہی پرکیا منحصر ہے، اس ملک میں ان گنت اسکیمیں کرپشن اور بدعنوانیوں کا سبب بنی ہوئی ہیں، مگر ان پر انگشت نمائی کی کس میں جرأت ہے ۔
پاکستان میں کرپشن ایک ایسا الزام ہے، جو ہر سیاستدان کا مقدر ہے، مگر آج تک کسی ایک پر یہ الزام ثابت نہیں ہوسکا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پورا ملک اس غلاظت میں بری طرح لتھڑا ہوا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ افراد سے زیادہ نظام میں پائے جانے والے اسقام ہیں ، اگر افرادکے بجائے ان اسقام پر توجہ دی جائے اور نظم حکمرانی میں شفافیت لانے کی کوشش کی جائے تو صرف کرپشن ہی نہیں دیگر بیشمار انتظامی خرابیوں اور نقائص پر قابو پانا آسان ہوسکتا ہے، مگر اس سسٹم کے جاری رہنے ہی کی وجہ سے حکمران اشرافیہ کی اقتدار پر بالادستی اورکنٹرول قائم ہے۔ اس لیے صرف افراد کو نشانہ بناکر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کی محض ایک ڈھکوسلہ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں ہے۔
احمد فراز نے کہا تھا کہ
میں آج زد پہ اگر ہوں، تو خوش گماں نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں
یعنی آج جو سیاسی جماعت اقتدارکے نشے میں کسی دوسری سیاسی جماعت کی کردارکشی پر بغلیں بجا رہی ہے،کل اس کا نمبر بھی آنا یقینی ہے۔ یہ کھیل ویسے تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا، مگروقت گذرنے کے ساتھ اس میںتیزی آتی گئی۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں کون سی ایسی شخصیت ہے، جس پرکرپشن، بد عنوانی اور ملک دشمنی کے الزام نہ لگے ہوں۔
حسین شہید سہروردی ہوں یا قرارداد لاہور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق ۔ بطل حریت باچا خان ہوں یا ملک کو وفاقی جمہوریہ کے طور پر چلانے کا مطالبہ کرنے والے جی ایم سید ، میر غوث بخش بزنجو ہوں یا سیٹو سینٹو میں بغیر سوچے سمجھے شمولیت پر اعتراض کرنے والے میاں افتخارالدین ۔ ہر وہ رہنماجس نے ریاستی اداروں کے ماورائے آئین اقدامات پرتنقیدکی غداراور ملک دشمن قرار دیا گیا۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کرپشن صرف مالیاتی نہیں ہوتی، بلکہ اخلاقی، آئینی اور قانونی بھی ہوتی ہے۔آئین میں تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز ، اقتدار و اختیار کا غلط استعمال، اقربا پروری اور میرٹ اور شفافیت کو نظر انداز کرنا بھی عالمی سطح پر متعین کردہ تعریف کے مطابق کرپشن ہے۔کرپشن صرف پاکستان ہی کا نہیں ترقی یافتہ ممالک سمیت پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ کرپشن دراصل گورننس کی کمزوریوں کا شاخسانہ ہوتی ہے۔ اچھی حکمرانی (Good Governance) کے ذریعے کرپشن جیسی برائیوں پر کنٹرول کرنا تقریباً آسان ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر گورننس کمزور ہو، تودیگر انتظامی و سماجی برائیوںمیں اضافے کے ساتھ کرپشن بھی کنٹرول سے باہرہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میںگورننس کا نظام اچھا ہونے کی وجہ سے کرپشن کنٹرول میں رہتی ہے ۔ اس کے برعکس ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں کمزورگورننس کی وجہ سے کرپشن کا جن قابوسے باہر رہتا ہے، جو اکثر آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔
بانی پاکستان نے دستور ساز اسمبلی میں اپنی پالیسی تقریر کے دوران جہاں ایک طرف ریاست کے سیاسی و انتظامی خدوخال واضح کیے تھے، وہیں انھوں نے کرپشن کے بارے میں کھل کر اظہار کیا تھا اور ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن کو قرار دیا تھا ۔انھوں نے سیاستدانوں اور ریاستی ذمے داروں کو اس سے بچنے کی تلقین کی تھی، مگر وطن عزیز میں روز اول ہی سے متوازی حکمرانی کے تصور نے گورننس کو صحیح خطوط پر استوار نہیں ہونے دیا ۔ جس کی وجہ سے ایک طرف انتظامی ڈھانچہ کمزور ہوتا چلا گیا۔دوسری طرف ملک مختلف نوعیت کی کرپشن میں لتھڑتا چلا گیا ۔
اب جہاں تک مختلف نوعیت کی بدعنوانیوں کا تعلق ہے، تو یہ وطن عزیزکے سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کی رگ وپے میں سرائیت کرچکی ہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ سنجیدگی کے ساتھ ریاست کے انتظامی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور گورننس کو جدید خطوط پر استوارکرنے کی کوشش کی جاتی، تاکہ ملک میں اچھی حکمرانی قائم ہوتی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا، مگر بعض بااثر قوتوں نے اقتدارواختیار پر اپنے کنٹرول قائم کرنے کی خاطرجمہوری عمل کو derail کرنے اور متوازی حکمرانی قائم کرنے کا سلسلہ پہلے دن ہی سے شروع کر دیا تھا ۔ اس مقصد کے لیے کرپشن کو ایشو بناکر سیاسی قائدین کو سیاسی عمل سے دور کرنے کاکھیل کوئی نیا نہیں ہے۔ آج کل اس کھیل کی زد میں شریف خاندان ہے۔
یہ نہیں کہاجاسکتا کہ میاں نواز شریف اور ان کا خاندان کوئی پارسا یادیانت دارخاندان ہے۔ اس بات میں بھی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ انھوں نے یا ان کی جماعت سے متعلق بیشتر رہنماؤں نے دوران اقتدارکسی قسم کی بدعنوانی نہیں کی ہوگی، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا وطن عزیز میں سیاستدانوں کے علاوہ بیوروکریسی اور دیگر ریاستی ادارے ہر قسم کی کرپشن سے پاک اور مبرا ہیں؟ کیا یہ ادارے آئین میں تفویض کردہ ذمے داریاں پوری کررہے ہیں؟
کیاعدالتوں میں ہر سطح پرکرپشن نہیں ہے؟ مسائل کے بحرانی شکل اختیارکرنے کا اصل سبب یہ ہے کہ کوئی ادارہ مقدس گائے بن کر بیٹھ گیا ہے۔کسی نے خود کو ہر قسم کی تنقید سے بلند و بالاکرلیا ہے۔ایسے میں صرف سیاستدان ہی وہ کمزور ترین طبقہ ہیں، جوعوام کے علاوہ ریاست کے تنخواہ دار اداروں کی زد پر رہتے ہیں ، جن پرکوئی بھی قسم کا الزام لگاکر ان کا میڈیا ٹرائیل ہرکس وناکس کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا ہے۔
اس صورتحال کی ذمے داری خود سیاستدانوں پر بھی عائد ہوتی ہے، جو اقتدار میں آنے یا عوامی نمایندگی کی بنیاد پر ایوانوں میں ہونے کی صورت میں پارلیمان کو اہمیت دینے، اس کے کردار کو assertive بنانے اور ریاستی اداروں کو حکومت کے بجائے پارلیمان کی بالادستی قبول کرنے پر مجبورکرنے میں ناکام رہیں ۔ سیاسی جماعتیں بار بار ایک ہی بل سے ڈسی جاتی ہیں، مگر اس بل کو بند کرنے میں نا کام چلی آرہی ہیں ۔ اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں اس سیاسی عزم وبصیرت کا فقدان ہو، جو جمہوری اداروں کو مستحکم بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے یا پھر جلد اقتدار میں آنے کی خواہش انھیں دور رس اقدامات سے روکتی ہو ۔ بہر حال اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں، جمہوری نظم حکمرانی کی کمزوری میں سیاستدانوں کا بھی کردار ہے۔
عرض ہے کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں کرپشن اور بدعنوانیوں کا بازارگرم نہیں ہے۔اس بات میں بھی دو رائے نہیں کہ ملک میں سیاسی اور سماجی انتشار اپنے عروج پر ہے، مگر ان تمام خرابیوں کا سبب کیا ہے، اس پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ وہ ہے اچھی حکمرانی یعنی Good Governance کا قیام۔ پاکستان سے کرپشن کی لعنت اسی وقت ختم ہوسکتی ہے، جب تمام ریاستی ادارے دوسرے اداروں اور شعبوں کے کاموں میں مداخلت بند کریں اور آئین کی متعین کردہ حدود کے اندر اپنی ذمے داریاں پوری کرنے پر آمادہ ہو جائیں ۔ ایک آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم ہی پرکیا منحصر ہے، اس ملک میں ان گنت اسکیمیں کرپشن اور بدعنوانیوں کا سبب بنی ہوئی ہیں، مگر ان پر انگشت نمائی کی کس میں جرأت ہے ۔