حکومت کو سنجیدہ ہونا چاہیے
وزیر اعظم کو جلد پتہ لگ جائے گا کہ پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔
عمران خان جب بھی سٹیج پر کھڑے ہوتے تو حکومت کے خلاف الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ ایسے وعدے کرتے کہ مجمع کویقین ہوجاتا کہ تبدیلی صرف عمران خان ہی لا سکتا ہے 'انھوں نے کیا زبردست وعدہ کیا تھا کہ حکومت بیرونی ممالک سے قرضے لے رہی ہے اگر کبھی مجھے باہر سے قرض لینا پڑا تو میں خود کشی کرنے کو ترجیح دوں گا لیکن قرض کے لیے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا۔
آج وزیر اطلاعات ٹی وی پر کہہ رہے تھے کہ ہم نے سعودی عرب' چین اور ایران سمیت دوست ملکوں سے قرض مانگا لیکن انھوں نے انکار کردیا 'اب حکومت آئی ایم ایف کے پاس جا رہی ہے۔عمران خان کو حکومت میں آنے کے بعد آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو رہا ہے 'اس لیے تو کہتے ہیں کہ'' پہلے تولو پھر بولو''۔
صرف قرضے کا مسئلہ نہیں بلکہ حکومت کئی مواقع پر یوٹرن یا قلابازیاں کھا چکی ہے 'اب تو آئی جی پنجاب کے سیاسی وجوہ پر ٹرانسفر پر' ان کے پیارے جناب ناصر درانی کو بھی استعفا دینا پڑا کیونکہ ان کے ساتھ پولیس میں عدم مداخلت کا وعدہ کیا گیا تھا جب کہ ہر جگہ سیاسی مداخلت ہو رہی ہے'ان حالات میں وہ کیا خاک پولیس میں اصلاحات کر سکیں گے۔حکومت کی قلابازیوں کی چند مثالیں۔
انتخابات سے قبل اور بعد میں عمران خان نے وزیر اعظم ہاؤس میں نہ رہنے کا عہد کیا لیکن بالآخر انھوں نے وزیر اعظم ہاؤس میں ملٹری سیکریٹری کے مکان میں رہنے کو ترجیح دی 'ان کے ذرایع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا نیا گھر پی ایم ہاؤس اسٹاف کالونی میں واقع ہے 'حالانکہ مذکورہ مکان وزیر اعظم کے لیے مختص رہائش سے چند گز کے فاصلے پر واقع ہے'وزیر اعظم ہاؤس کے ملٹری سیکریٹری کے گھر میں رہنے سے یہ ہوا کہ ایک اضافی خرچہ ہو رہا ہے 'اب ملٹری سیکریٹری 'پرنسپل سیکریٹری کے گھر منتقل ہوگئے ہیں اور پرنسپل سیکریٹری نے باہر کرایے پر گھر لے لیا ہے۔
حلف برداری کے ایک دن بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اپنی حکومت کے اول تین مہینے میں کوئی بیرونی دورہ نہیں کریں گے لیکن وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے پر گئے، پھر کہا گیا کہ مستقبل میں سرمایہ کاری کے لیے حکومتی سطح پر مذاکرات کے لیے انھیں جانا پڑا۔کابینہ اجلاس میں طے کیا گیا تھا کہ غیر ملکی دوروں کے لیے خصوصی طیارہ استعمال نہیں ہوگالیکن وزیر اعظم اپنے لیے مختص طیارے ائرفورس ون کے ذریعے روانہ ہوئے' ترجمان نے صفائی دی کہ چونکہ وزیر اعظم کو تین شہروں میں جانا تھا اور یہ کمرشل پروازوں کے ذریعے ممکن نہ تھا۔
وفاقی کابینہ کے دوسرے اجلاس میں وفاقی وزراء کے غیر ملکی دوروں پر پابندی لگائی گئی 'وزیر اعظم کے ساتھ دورے پر چار وزراء و مشیر سعودی عرب اور امارات کے دورے پر گئے 'جن میں وزیر خارجہ'وزیر خزانہ'وزیر اطلاعات اور مشیر تجارت شامل تھے۔کابینہ کے اسی اجلاس میں وزیر اعظم اور وزراء کے کمرشل پروازوں سے سفر کا فیصلہ کیا گیا لیکن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کابل کے دورے پر خصوصی پرواز سے گئے تھے۔
افغانیوں اور بنگالیوں کو پاکستانی شہریت دینے کے لیے عمران خان کا اعلان'یو ٹرن کی ایک اور مثال ہے' اپنے ماتحت وزارت داخلہ کو اس سلسلے میں جامع پالیسی مرتب کرنے کی بھی ہدایت کی لیکن بعد میں انھوں نے اپنا بیان بدل دیا اور پارلیمنٹ سے کہا کہ ان کا بیان غور و فکر کے لیے ہے کوئی حتمی پالیسی نہیں ہے۔
بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنا عمران خان کا ایک اور وعدہ تھا لیکن ان کی حکومت نے اس کے الٹ کام کیا' ڈی پی او پاک پتن رضوان گوندل کو پہلے منصب سے ہٹایا گیا اور جب انھوں نے خاور مانیکا سے معافی مانگنے سے انکار کیا توایک غیر آدمی کے کہنے پر وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے رضوان گوندل کو طلب کرکے معافی مانگنے پر مجبور کیا اور انکار پر ان کا تبادلہ کردیا گیا.
وفاقی حکومت نے اس معاملے میں کچھ نہ کیا 'سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیا' جرم ثابت ہونے پر وزیر اعلی 'خاور مانیکا اور جمیل گجر کو سپریم کورٹ سے معافی مانگنی پڑی 'چکوال اور راجن پور کے ڈپٹی کمشنر نے سیاسی دباؤ کی شکایت کی تو انھیں شوکاز نوٹس جاری کردیے گئے 'وزیر اعظم نے لاہور میں تقریر کرتے ہوئے سرکاری افسروں کو خبردار کیا کہ آیندہ ان کے ساتھ سیاسی زیادتی کو میڈیا تک نہیں پہنچنا چائیے ورنہ اچھا نہیں ہوگا یعنی سیاسی لوگوں کو سمجھانے کے بجائے سرکاری افسروں کو دھمکیاں دی گئیں'اس کو کہتے ہیں کہ'' الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے''۔
اقتصادی مشاورتی کونسل کی تشکیل میں یوٹرن لیا گیا'عاطف میاں کو کونسل کا رکن بنایا گیا 'جب عقیدے کی بنیاد پر دباؤ بڑھا تو وزیر اطلاعات نے بیان دیا کہ حکومت انتہا پسندوں کے دباؤ میں نہیں آئے گی لیکن بعد میں حکومت نے شکست مان لی اور عاطف میاں کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ گیس کے نرخوں میں اضافے کے معاملے پر وزیر اطلاعات ابتداء میں انکار کرتے رہے لیکن جب وزیر پٹرولیم نے نرخوں میں اضافے کا اعلان کیا تو فواد چوہدری ان کے ساتھ کھڑے تھے۔
سی پیک پر کئی دفعہ بیانات بدلے 'وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ حکومت سی پیک پر نظر ثانی کا ارادہ رکھتی ہے اور فیصلے تک اس پر کام روک دیا جائے گا'جب اس خبر نے ناراضی اور قیاس آرائیوں کو جنم دیا تو مشیر کو اپنے الفاظ واپس لینے پڑے اور کہا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا ہے حالانکہ اب پھر وزیر اعظم نے کوئٹہ میں اعلان کیا کہ حکومت سی پیک پر نظر ثانی کرے گی 'معلوم نہیں حکومت کیا کرنا چاہتی ہے ۔
اس سلسلے میں صفائی کے لیے آرمی چیف کو بھی چین جانا پڑا۔عمران خان اہم عہدوں پر منظور نظر افراد کو گزشتہ حکومت کے دور میں تعینات کیے جانے پر تنقید کرتے رہے 'جب نجم سیٹھی کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا تو انھوں نے سخت الفاظ میں تنقید کی تھی' ان کے استعفا کے فوراً بعد عمران نے اپنے دوست احسان مانی کو کرکٹ بورڈ کا نیا سربراہ بنادیا'اب پتہ نہیں کہ نواز شریف غلط تھے یا عمران خان غلط ہیں۔عمران خان ہمیشہ تنقید کرتے رہے کہ ترقیاتی کاموں کا افتتاح میاں نواز شریف کو نہیں کرنا چاہیے اب وزیراعظم عمران خان نے راولپنڈی' میانوالی ایکسپریس کا افتتاح کیا اور پچاس لاکھ مکانوں کے منصوبے کا افتتاح بھی کر رہے ہیں تو شاید وہ اپنی تنقید بھول چکے ہیں۔
انھوں نے خواجہ سعد رفیق کی طرف سے حلقہ این اے ۔131کی گنتی کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی لے لیا حالانکہ انھوں نے حزب اختلاف کی طرف سے دھاندلی کے الزام میں ہر حلقہ کھولنے کا اعلان کیا تھا۔وزیر اعظم عمران خان نے امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو کی ٹیلیفون کال وصول کی 'امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق پومپیو نے ان پر پاکستان سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی پر زور دیا 'اس دعوے کی پاکستان کے دفتر خارجہ نے تردید کی 'جب امریکہ نے دوبارہ وہی بات اور مطالبہ دہرایا تو پاکستانی دفتر خارجہ نے خاموشی اختیار کرلی۔
بھارت کے وزیر اعظم نے عمران خان کو مبارکباد کا پیغام بھیجا فوراً ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نے جامع مذاکرات کی پیشکش کی ہے جس کی بھارت نے تردید کی' بعدازاں دفتر خارجہ کو بیان واپس لینا پڑا۔سابق چیئرمین سینیٹ میاں محمد سومرو کو وزیر مملکت کا حلف لینے کا کہا گیا تو انھوںنے انکار کردیا اور واپس کراچی چلے گئے 'اب حکومت نے وفاقی وزیر کا عہدہ دے دیا۔تحریک انصاف میں شبلی فراز'محسن عزیز اور جنرل (ر)افتخار حسین شاہ جیسے قابل لوگ موجود ہیں'ان لوگوں کی موجودگی کے باوجود کونسلر سطح کے لوگوں کو وزارتیں دی گئی ہیں۔
خیبر پختونخوا کو اس وقت بہت سے مسائل کا سامنا ہے جن میں پاک افغان سر حدی صورت حال' امریکی خدشات کو دور کرنا'دہشت گردی کے اڈے ختم کرنا اور سب سے اہم فاٹا کا صوبے کے ساتھ الحاق کا مسئلہ ہے 'جناب افتخار حسین شاہ صوبے کے بہترین گورنر رہ چکے ہیں'ان جیسے تجربہ لوگوں کو گورنر لگانا چاہیے۔اہم عدالتی اصلاحات'الیکٹورل ریفارمز'تعلیمی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم کو جلد پتہ لگ جائے گا کہ پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک کو 'نان سٹیٹ ایکٹرز'کی بڑھتی ہوئی طاقت کا سامنا ہے۔اور بعض فیصلوں میں ریاست ان گروہوں کی یرغمال بنی ہوئی ہے۔ملک کو اہم اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔ اور سب سے بڑا مسئلہ تو ریاست کو سیکیورٹی کے بجائے ایک عوام دوست فلاحی ریاست بنانا ہے جس کے بغیر تبدیلی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ایک اس کا بیانیہ ہے ' اس ملک کو فرقہ پرستی اور پراکسی جنگوں نے تباہ کردیا۔ ہندوستان' افغانستان سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کرنا ضروری ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ خارجہ اور سیکیورٹی پالیسی کا اختیار عوامی نمایندوں کے پاس ہو ۔