ایک نئی دنیا کی تشکیل
ہماری سماجی روایات اور انسانوں اور ملکوں کے درمیان تعلقات کے ضابطے اب اذکار رفتہ ہوگئے ہیں۔
اہل خرد جب آج کی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو سخت مایوسی اور اضطراب کا شکار ہوجاتے ہیں ، جن انسانوں کو اشرف المخلوقات کہا گیا تھا ، وہ وقتی حیوانوں سے بھی بدتر ثابت ہو رہے ہیں۔ اس کی ویسے تو بہت ساری وجوہات ہیں لیکن اصل وجہ یہ نظر آتی ہے کہ انسان ہزاروں سال پرانے عقائد و نظریات سے چمٹا ہوا ہے۔ جو اب آوٹ ڈیٹڈ ہوگئے ہیں۔ گھر کے استعمال کی چیزیں جب پرانی ہوجاتی ہیں تو انسان انھیں تبدیل کردیتا ہے اور پرانی چیزوں کو بھوسی ٹکڑے خریدنے والوں کو دے دیتا ہے۔
ہماری سماجی روایات اور انسانوں اور ملکوں کے درمیان تعلقات کے ضابطے اب اذکار رفتہ ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے سماج انارکی جنگوں اور نفرتوں کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔ دنیا کا نظام فرسودہ ہوچکا ہے اور اس نظام کو چلانے والے فرسودہ ذہنیت کے مالک لوگ ہی ہیں جو جدید دنیا کے تقاضوں سے بے بہرہ ابھی تک رنگ نسل، ذات پات، زبان، کلچر، دھرم کے حصار میں قید ہیں۔ وہ نہ جدید دنیا کی معلومات اور حقائق سے آشنا ہیں نہ ان حقیقتوں سے واقف ہیں جو سائنس ٹیکنالوجی تحقیق و انکشافات سے دنیا کے سامنے آرہی ہیں۔
انسان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بد ترین جہل کا شکار ہے کیونکہ وہ جدید دورکی روشن حقیقتوں کو اپنے اذکار رفتہ نظریات سے متصادم سمجھتا ہے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ماضی کی زنجیروں سے آزاد کرکے علم و آگہی کی روشنی سے منور کرنے کے بجائے جہل کی زنجیروں کا ایسا قیدی بنا ہوا ہے جو آزادی کی نعمت سے واقف ہی نہیں ہے۔
انسان ٹی وی اسکرین پر جنگل کے باسیوں کو ایک دوسرے کا خون بہاتے، ایک دوسرے کو چیرتے پھاڑتے دیکھتا ہے تو جنگل کی وحشت ناکیوں سے متنفر ہوجاتا ہے لیکن شہروں میں انسانوں کا خون بہتے دیکھتا ہے تو اسے روز مرہ کا معمول سمجھ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ دنیا دو عالمی جنگوں میں اور بے شمار علاقائی جنگوں سے گزرچکی ہے اور آج بھی جنگوں کی طرف پیش رفت کررہی ہے۔ فلسطین اور کشمیر میں 7 عشروں سے انسانوں کا خون بہہ رہا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں رہنے والے انسانوں کو ہندو، مسلمان، عربوں، یہودیوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا گیا ہے۔
دنیا میں ہزاروں دانشور ، مفکر ، فلسفی، ادیب ، شاعر ہیں کیا یہ آفاقی سوچ رکھنے والے اندھے بہرے اور گونگے ہوگئے ہیں کہ انسان کے ہاتھوں انسانوں کو قتل ہوتے، تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں لیکن ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ دنیا اور ملکوں کو چلانے کا اختیار ایسے عقلی بونوں اورایسے جاہلوں کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے جو سر سے پیر تک تنگ نظری، وطنیت، قومی مفادات کی زنجیروں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ وہ تقسیم شدہ انسانوں کی تقسیم شدہ مفادات کی رکھوالی کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کی آنکھوں پر جہل کے پردے پڑ چکے ہیں، اسی وجہ سے یہ آنکھیں ابن آدم کو دیکھنے میں اندھے پن کا شکار ہوجاتی ہیں۔
دانشور، مفکر، فلسفی، ادیب، شاعر، فنکار، آفاقی وژن رکھتا ہے لیکن انسانوں کی غیر انسانی تقسیم نے اسے سیکڑوں حوالوں سے بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ کیا انسانوں کے درمیان نفرتوں کو ہوا دینے والوں کو ہم انسان کہہ سکتے ہیں۔
دنیا کے اربوں انسان بھوک بیماری، افلاس، جہل، تنگ نظری کا شکار ہیں، ان اربوں انسانوں میں ہندو بھی ہیں، مسلمان بھی، سکھ بھی ہیں عیسائی بھی، بدھ بھی ہیں، پارسی بھی۔ کیا یہ تقسیم ہی ان کی بھوک، ان کے افلاس، ان کے جہل کی ذمے دار تو نہیں؟ غریب اور نادار عوام کی اس تقسیم کو ایک منظم شیطانی منصوبے کے تحت مضبوط کیا جا رہا ہے تاکہ یہ 7 ارب تقسیم در تقسیم کا شکار انسان، انسان بن کر دولت کے انباروں پر بیٹھنے والوں کے لیے خطرہ نہ بن جائیں۔ صرف دو عالمی جنگوں میں کروڑوں انسان بلا امتیاز مذہب و ملت خوفناک موت کا شکار ہوگئے۔
ان جنگوںکی اصل وہ انسانوں کی مختلف حوالوں سے تقسیم تھی اور دنیا کی معلوم تاریخ میں جتنی جنگیں لڑی گئیں ان کی اصل اور بنیادی وجہ بھی انسانوں کی مختلف حوالوں سے تقسیم ہی ہے ۔دنیا کی ہر جنگ کا سبب اور بڑا المیہ یہ ہے کہ ان جنگوں کا ایندھن بننے والے غریب طبقات ہی سے تعلق رکھتے ہیں خواہ وہ فوجی ہوں یا سویلین، ماضی میں جنگیں تلواروں ،خنجروں جیسے پرانے ہتھیاروں سے لڑی جاتی تھیں اور اس دست بدست لڑائی میں ایک انسان دوسروں انسان کا سر تلوار سے کاٹ دیتا تھا جو شخص سب سے زیادہ انسانوں کو قتل کرتا تھا وہ ہیرو اور بہادر کہلاتا تھا ۔ شاعر اس کی بہادری پر شاعری کرتے تھے، مورخ تاریخ میں اس کا ذکر سنہری حروف سے کرتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ جنگیں اصل میں معاشی مفادات کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشی مفادات کیوں پیدا ہوتے ہیں! اس کا آسان جواب یہ ہے کہ معاشی مفادات انسانوں کی تقسیم کا نتیجہ ہیں۔
اس حوالے سے ہم ہندوستان اور پاکستان کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور جنگوں کی وجہ کشمیر ہے۔ اس تنازعے میں اب تک 70 ہزار کشمیری شہید ہوچکے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان آج بھی سرحدوں پر خون خرابا جاری ہے ۔ بھارتی وزیر خارجہ کو اس تقسیم نے سفارتی آداب سے بھی بے بہرہ کردیا ہے۔
1947میں جب ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان وجود میں آیا تو اس کا نتیجہ 22 لاکھ بے گناہوں کے قتل کی شکل میں نکلا وحشی انسان حاملہ عورتوں کے پیٹ سے بچے نکال کر قتل کرتے رہے، اس ظلم سے انسانیت شرمسار ہے۔ یہ سفاکانہ مظالم کیوں ہوئے ؟ اس کا جواب ہے انسانوں کی تقسیم سے دنیا کا سرمایہ دار طبقہ دولت کے انبار جمع کرنا چاہتا ہے، اس کا ایک ذریعہ ہتھیاروں کی بے پناہ تیاری اور تجارت ہے۔ ہتھیاروں کے تاجر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دنیا میں جنگوں کے اسباب اورخوف پیدا کرتے ہیں اور جنگوں کی وجہ سے انسانوں کی تقسیم بنتی ہے ۔کیا ان عیاں حقیقتوں سے دنیا کے اہل فکر، اہل دانش، ادیب، شاعر بے خبرہیں ؟ اگر یہ طبقات ان حقائق سے باخبر ہیں تو پھر دنیا کے عوام کو ان سے آگاہ کیوں نہیں کرتے۔
جدید علوم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے ایک نئی اور ترقی یافتہ (فکری) دنیا کی تشکیل کے لیے راہ ہموار کردی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے اہل فکر، اہل دانش، ادیب، شاعر اس غیر متعصب اور انسانوں کی احمقانہ تقسیم پر اپنے ذہن، اپنے قلم کو حرکت میں کیوں نہیں لاتے؟ اندھیروں کے باسی کئی صدیوں سے اندھے بنے ہوئے ہیں انھیں دانائی اور بینائی دینا اور تقسیم کے آزار سے دنیا کے انسانوں کو بچانا حکمرانوں کا کام نہیں کیونکہ صدیوں کے اندھیروں نے انھیں اندھا کردیا ہے۔ یہ کام بلاشبہ اہل فکر، اہل دانش، ادیب، شاعر اور فنکارہی کرسکتے ہیں اور انھیں کرنا چاہیے اسی طرح ایک نئی دنیا تشکیل پا سکتی ہے جو تقسیم سے پاک ہوگی۔
ہماری سماجی روایات اور انسانوں اور ملکوں کے درمیان تعلقات کے ضابطے اب اذکار رفتہ ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے سماج انارکی جنگوں اور نفرتوں کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔ دنیا کا نظام فرسودہ ہوچکا ہے اور اس نظام کو چلانے والے فرسودہ ذہنیت کے مالک لوگ ہی ہیں جو جدید دنیا کے تقاضوں سے بے بہرہ ابھی تک رنگ نسل، ذات پات، زبان، کلچر، دھرم کے حصار میں قید ہیں۔ وہ نہ جدید دنیا کی معلومات اور حقائق سے آشنا ہیں نہ ان حقیقتوں سے واقف ہیں جو سائنس ٹیکنالوجی تحقیق و انکشافات سے دنیا کے سامنے آرہی ہیں۔
انسان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بد ترین جہل کا شکار ہے کیونکہ وہ جدید دورکی روشن حقیقتوں کو اپنے اذکار رفتہ نظریات سے متصادم سمجھتا ہے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ماضی کی زنجیروں سے آزاد کرکے علم و آگہی کی روشنی سے منور کرنے کے بجائے جہل کی زنجیروں کا ایسا قیدی بنا ہوا ہے جو آزادی کی نعمت سے واقف ہی نہیں ہے۔
انسان ٹی وی اسکرین پر جنگل کے باسیوں کو ایک دوسرے کا خون بہاتے، ایک دوسرے کو چیرتے پھاڑتے دیکھتا ہے تو جنگل کی وحشت ناکیوں سے متنفر ہوجاتا ہے لیکن شہروں میں انسانوں کا خون بہتے دیکھتا ہے تو اسے روز مرہ کا معمول سمجھ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ دنیا دو عالمی جنگوں میں اور بے شمار علاقائی جنگوں سے گزرچکی ہے اور آج بھی جنگوں کی طرف پیش رفت کررہی ہے۔ فلسطین اور کشمیر میں 7 عشروں سے انسانوں کا خون بہہ رہا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں رہنے والے انسانوں کو ہندو، مسلمان، عربوں، یہودیوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا گیا ہے۔
دنیا میں ہزاروں دانشور ، مفکر ، فلسفی، ادیب ، شاعر ہیں کیا یہ آفاقی سوچ رکھنے والے اندھے بہرے اور گونگے ہوگئے ہیں کہ انسان کے ہاتھوں انسانوں کو قتل ہوتے، تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں لیکن ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ دنیا اور ملکوں کو چلانے کا اختیار ایسے عقلی بونوں اورایسے جاہلوں کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے جو سر سے پیر تک تنگ نظری، وطنیت، قومی مفادات کی زنجیروں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ وہ تقسیم شدہ انسانوں کی تقسیم شدہ مفادات کی رکھوالی کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کی آنکھوں پر جہل کے پردے پڑ چکے ہیں، اسی وجہ سے یہ آنکھیں ابن آدم کو دیکھنے میں اندھے پن کا شکار ہوجاتی ہیں۔
دانشور، مفکر، فلسفی، ادیب، شاعر، فنکار، آفاقی وژن رکھتا ہے لیکن انسانوں کی غیر انسانی تقسیم نے اسے سیکڑوں حوالوں سے بانٹ کر رکھ دیا ہے۔ کیا انسانوں کے درمیان نفرتوں کو ہوا دینے والوں کو ہم انسان کہہ سکتے ہیں۔
دنیا کے اربوں انسان بھوک بیماری، افلاس، جہل، تنگ نظری کا شکار ہیں، ان اربوں انسانوں میں ہندو بھی ہیں، مسلمان بھی، سکھ بھی ہیں عیسائی بھی، بدھ بھی ہیں، پارسی بھی۔ کیا یہ تقسیم ہی ان کی بھوک، ان کے افلاس، ان کے جہل کی ذمے دار تو نہیں؟ غریب اور نادار عوام کی اس تقسیم کو ایک منظم شیطانی منصوبے کے تحت مضبوط کیا جا رہا ہے تاکہ یہ 7 ارب تقسیم در تقسیم کا شکار انسان، انسان بن کر دولت کے انباروں پر بیٹھنے والوں کے لیے خطرہ نہ بن جائیں۔ صرف دو عالمی جنگوں میں کروڑوں انسان بلا امتیاز مذہب و ملت خوفناک موت کا شکار ہوگئے۔
ان جنگوںکی اصل وہ انسانوں کی مختلف حوالوں سے تقسیم تھی اور دنیا کی معلوم تاریخ میں جتنی جنگیں لڑی گئیں ان کی اصل اور بنیادی وجہ بھی انسانوں کی مختلف حوالوں سے تقسیم ہی ہے ۔دنیا کی ہر جنگ کا سبب اور بڑا المیہ یہ ہے کہ ان جنگوں کا ایندھن بننے والے غریب طبقات ہی سے تعلق رکھتے ہیں خواہ وہ فوجی ہوں یا سویلین، ماضی میں جنگیں تلواروں ،خنجروں جیسے پرانے ہتھیاروں سے لڑی جاتی تھیں اور اس دست بدست لڑائی میں ایک انسان دوسروں انسان کا سر تلوار سے کاٹ دیتا تھا جو شخص سب سے زیادہ انسانوں کو قتل کرتا تھا وہ ہیرو اور بہادر کہلاتا تھا ۔ شاعر اس کی بہادری پر شاعری کرتے تھے، مورخ تاریخ میں اس کا ذکر سنہری حروف سے کرتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ جنگیں اصل میں معاشی مفادات کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشی مفادات کیوں پیدا ہوتے ہیں! اس کا آسان جواب یہ ہے کہ معاشی مفادات انسانوں کی تقسیم کا نتیجہ ہیں۔
اس حوالے سے ہم ہندوستان اور پاکستان کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور جنگوں کی وجہ کشمیر ہے۔ اس تنازعے میں اب تک 70 ہزار کشمیری شہید ہوچکے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان آج بھی سرحدوں پر خون خرابا جاری ہے ۔ بھارتی وزیر خارجہ کو اس تقسیم نے سفارتی آداب سے بھی بے بہرہ کردیا ہے۔
1947میں جب ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان وجود میں آیا تو اس کا نتیجہ 22 لاکھ بے گناہوں کے قتل کی شکل میں نکلا وحشی انسان حاملہ عورتوں کے پیٹ سے بچے نکال کر قتل کرتے رہے، اس ظلم سے انسانیت شرمسار ہے۔ یہ سفاکانہ مظالم کیوں ہوئے ؟ اس کا جواب ہے انسانوں کی تقسیم سے دنیا کا سرمایہ دار طبقہ دولت کے انبار جمع کرنا چاہتا ہے، اس کا ایک ذریعہ ہتھیاروں کی بے پناہ تیاری اور تجارت ہے۔ ہتھیاروں کے تاجر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دنیا میں جنگوں کے اسباب اورخوف پیدا کرتے ہیں اور جنگوں کی وجہ سے انسانوں کی تقسیم بنتی ہے ۔کیا ان عیاں حقیقتوں سے دنیا کے اہل فکر، اہل دانش، ادیب، شاعر بے خبرہیں ؟ اگر یہ طبقات ان حقائق سے باخبر ہیں تو پھر دنیا کے عوام کو ان سے آگاہ کیوں نہیں کرتے۔
جدید علوم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے ایک نئی اور ترقی یافتہ (فکری) دنیا کی تشکیل کے لیے راہ ہموار کردی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے اہل فکر، اہل دانش، ادیب، شاعر اس غیر متعصب اور انسانوں کی احمقانہ تقسیم پر اپنے ذہن، اپنے قلم کو حرکت میں کیوں نہیں لاتے؟ اندھیروں کے باسی کئی صدیوں سے اندھے بنے ہوئے ہیں انھیں دانائی اور بینائی دینا اور تقسیم کے آزار سے دنیا کے انسانوں کو بچانا حکمرانوں کا کام نہیں کیونکہ صدیوں کے اندھیروں نے انھیں اندھا کردیا ہے۔ یہ کام بلاشبہ اہل فکر، اہل دانش، ادیب، شاعر اور فنکارہی کرسکتے ہیں اور انھیں کرنا چاہیے اسی طرح ایک نئی دنیا تشکیل پا سکتی ہے جو تقسیم سے پاک ہوگی۔