پانی کی کمائی

غریب کہلانے والے بھینسوں کے باڑے کے مالکان اور دودھ فروش کروڑوں میں کھیل رہے ہیں۔


Muhammad Saeed Arain October 11, 2018

پہلے دودھ میں پانی ملانے والوں کی کمائی کو پانی کی کمائی کہا جاتا تھا اور برف بنانے والوں کو پانی برف بناکر فروخت کرنے والوں کو پانی فروش کہا جاتا تھا۔ اب دودھ میں پانی کی جگہ برف ملائی جاتی ہے اور دودھ فروش قسم کھاتے ہیں کہ انھوں نے دودھ میں پانی نہیں ملایا اور دودھ بھی برف سے ٹھنڈا کرکے محفوظ کیا جاتا ہے ۔

غریب کہلانے والے بھینسوں کے باڑے کے مالکان اور دودھ فروش کروڑوں میں کھیل رہے ہیں۔ باڑہ مالکان کو بھینسوں کی خوراک کے لیے پانی درکار ہوتا ہے اور باڑوں کے لیے پانی ایک بنیادی ضرورت بن چکا ہے جو وہ زمین سے یا سرکاری لائنوں سے حاصل کرتے ہیں اور مفت میں حاصل کیا گیا یہ پانی دودھ میں ملا کر دودھ کی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے جس پر کوئی ٹیکس نہیں، البتہ ہر سال دودھ کا نرخ بڑھانا دودھ فروشوں نے اپنا بنیادی حق بنا رکھا ہے۔

سپریم کورٹ کی توجہ منرل واٹر بنانے والوں پر اب مرکوز ہوئی ہے ، جو سالوں سے پانی مختلف ناموں سے شفاف اور صحت افزا قرار دے کر مہنگے داموں بلکہ کولڈ ڈرنک کے نرخوں پر منرل واٹر کمپنیاں فروخت کر رہی ہیں اور اکثر کمپنیوں کا منرل واٹر کس معیار کا ہے کسی کو نہیں پتہ۔ بڑی بڑی کمپنیاں پانی کو کمائی کا ذریعہ بناکر قدرتی نعمت زمین سے مفت میں حاصل کرکے بغیر کسی ٹیکس کے فروخت کرکے کروڑوں روپے ماہانہ کما رہی ہیں۔

بڑی کمپنیوں کی تقلید میں اب بازاروں گلیوں میں بھی پانی صاف شفاف ہونے کا دعویٰ کرنے والی ملک بھر میں ہزاروں دکانیں کھل گئی ہیں اور پانی کی فروخت کا یہ کاروبار تیزی سے پھیل رہا ہے جن میں کسی کے پاس لائسنس ہے تو باقی متعلقہ محکمے کی ملی بھگت سے یہ کاروبار کر رہی ہیں اور قدرتی نعمت کسی حکومتی ٹیکس کمائی کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔

پانی کو اب ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس والوں نے بھی کاروبار بنالیا ہے۔ پہلے ہر چھوٹے بڑے ہوٹل میں پینے کا ٹھنڈا پانی آنے والے گاہکوں کو ہی نہیں بلکہ پیاسوں کو بھی بغیر کھائے پیے پینے کو مفت مل جایا کرتا تھا مگر پانی کے کاروبار بننے کے بعد پہلے بڑے ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس نے گاہکوں کے لیے پانی کی مفت فراہمی بند کردی ہے اور منرل واٹر کے فریج اور ریفریجریٹروں کے ذریعے پانی کی بوتلیں فروخت کرنا شروع کردیں اور اب درمیانے درجے کے ہوٹل اور ریسٹورنٹس بھی اس کاروبار میں آ گئے ہیں اور وہاں بھی پانی کی کھلی ہوئی یا سیل بند بوتلیں خریدنا پڑ رہی ہیں اور اب مفت پانی صرف تیسرے درجے کے چائے کھانے کے ہوٹلوں اور چھپر ہوٹلوں میں مفت مل جاتا ہے جہاں کھلے ہوئے بڑے بڑے ڈرموں میں پانی ضرور ہوتا ہے جو کبھی ڈرم دھلنے سے تبدیل نہیں ہوتا اور آلودہ یقینی طور پر ہوتا ہے اور غریب یہ مضر صحت پانی مفت ملنے پر پینے پر مجبور ہیں۔

برف کے کارخانے چلتے ہی پانی سے ہیں جو پانی وہاں میسر ہو اس سے برف بناکر مہنگے داموں فروخت کردی جاتی ہے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ برف جمانے کے ٹینکوں میں برف نکالے جانے کے بعد برف صاف کم اور دھندلی زیادہ ہوتی ہے جس میں پانی میں آنے والا کچرا، کیڑے، مکھی، مچھر اور کبھی کبھی برف میں جمے چوہے بھی نکل آتے ہیں مگر مضر صحت برف بنانے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا اور برف صاف کی بجائے میلی کیوں ہوتی ہے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

بازاروں میں شربت کی ریڑھیوں پر یہی برف اور مضر صحت پانی استعمال ہوتا ہے اور کولڈ ڈرنکس خریدنے کی مالی طاقت نہ رکھنے والے غریب یہ کھلے گلاسوں میں فروخت ہونے والا سستا مگر مضر صحت شربت پی کر پیاس بجھا لیتے ہیں معیار کون دیکھتا ہے۔

سالوں پہلے بڑے شہروں میں افغانوں اور پٹھانوں نے کولروں کے ذریعے ایک روپے گلاس پہ پانی بازاروں اور بس اسٹاپس پر فروخت کرنا شروع کیا تھا۔ اس پانی کو غیر معیاری سمجھ کر بھی غریب پیتے تھے جسے دیکھ کر بڑی کمپنیوں نے صاف شفاف پانی فروخت کرنے کے لیے مختلف سائز کی پلاسٹک کی بوتلیں بنالیں اور منرل واٹر کے نام پر پانی کا یہ کاروبار عروج پر پہنچ چکا ہے جو منرل اور معیاری نہ ہو صرف فلٹر ہو مگر شفاف نظر ضرور آتا ہے۔

غریب تو بوتلوں میں فروخت ہونے والا یہ مہنگا پانی خرید نہیں سکتے مگر درمیانے اور بڑے لوگوں نے پانی کی ٹھنڈی یہ بوتلیں ضرورت سے زیادہ مشینیں بھی بنا لی ہیں اور اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں نظر آتی ہیں ایک لیٹر بوتل 60 روپے میں ملنے لگی ہے۔ اپنے عوام کو صاف و شفاف پانی کی فراہمی ہر حکومت کا فرض ہوتا ہے مگر یہاں تو حکومتوں نے اپنے عوام کو صاف تو کیا مضر صحت پانی کی فراہمی پر بھی توجہ نہیں دی اور صحرائے تھر سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں لوگ پینے کے پانی کے لیے ترس رہے ہیں اور ملک کے دیگر بڑے شہروں کا بھی یہی حال ہے۔ وفاتی دارالحکومت اسلام آباد اور خوبصورت شہر لاہور میں بھی لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔

سپریم کورٹ نے آنے والے برسوں میں ملک میں ہونے والی پانی کی شدید قلت محسوس کرکے ڈیمز کی کمی محسوس کر لی مگر ہم ابھی کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں ''غدار'' بننے کو تیار ہیں مگر آنے والے سالوں میں پانی کا حصول کس قدر تشویش ناک صورتحال اختیار کرلے گا اس کی کسی کو فکر نہیں ہے۔

بھارت جب چاہے اپنے فالتو پانی سے ہمیں ڈبو دے یا جب بھی چاہے ہمارا پانی بند کرکے ہماری پیداوار تباہ کردے مگر حکومت کو فکر ہے نہ قوم کو پروا۔ حکومت کا کام سپریم کورٹ کر رہی ہے ڈیمز کے لیے فنڈ جمع ہو رہا ہے تو پانی سے کمائی میں مصروف کمپنیوں اور منافع خوروں سے اگلا اور پچھلا تمام حساب کرکے سب سے ڈیمز کے لیے خصوصی رقم وصول کی جانی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔