طاقت جمہوریت کا جوہر …آخری حصہ
جمہوریت ایک ایسی پرکشش آئیڈیالوجی ہے جو عوام کو تھیوری کی حد تک مرکز بناتی ہے اور بڑی مہارت کے ساتھ عوام کے نام پر۔۔۔
KARACHI:
جمہوریت ایک ایسی پرکشش آئیڈیالوجی ہے جو عوام کو تھیوری کی حد تک مرکز بناتی ہے اور بڑی مہارت کے ساتھ عوام کے نام پر، عوام ہی کے ذریعے، عوام کے خلاف عملی اقدامات ممکن بناتی ہے۔ جمہوریت عوام کی امنگوں اور خواہشوں کی کس حد تک پاسداری کرتی ہے اس کا اطلاق اگر عملی سطح پر کریں تو پاکستان میں تو بری طرح ناکام ہوتی ہی ہے مگر دنیا کے بہت سے ایسے ممالک میں بھی اس کی کھوکھلی حقیقت سامنے آجاتی ہے جو جمہوریت کے نمائندے اور جمہوری نظام کے بانی سمجھے جاتے ہیں ، مثلاً برطانیہ، امریکا اور یورپ وغیرہ۔
جہاں سیاستدان جمہوریت، انصاف، امن، آزادی رائے وغیرہ جیسے خیالات کو اپنے سیاسی تناظر میں وقت کی ضرورت کے مطابق ڈھالتے رہتے ہیں۔ اپنی سیاسی زندگی کی بقا کے لیے ان خیالات کی تبدیلی کا عمل سیاستدانوں کے لیے اس لیے ضروری ہوتا ہے تاکہ عوام کو مطمئن کرسکیں۔ اگرچہ جمہوریت کے نمائندگان دعویٰ کرتے ہیں کہ جمہوریت میں عوامی رائے کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے، مغربی ممالک میں اس کی سچائی روزمرہ زندگی سے متعلق پالیسی سازی میں کسی حد تک ثابت ہوتی ہے، مگر قانون سازی اور پالیسی سازی میں وہ فیصلے جو سرمایہ داروں یا طاقتور طبقات کے مفادات پر منفی اثرات مرتب کرسکتے ہوں ان میں مغربی حکومتیں عوامی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے سرمایہ داروں کے تحفظ کو یقینی بناتی ہیں، جیسا کہ عراق جنگ میں برطانوی حکومت کا عوام کی مرضی کے خلاف فیصلہ کرنا، اسی طرح Genetically modified Crops جینیاتی اجناس کی برطانیہ میں کاشت کا فیصلہ بلیئر حکومت نے عوام کی واضح اکثریت کی مخالفت کے باوجود کیا۔
کہا یہ بھی جاتا ہے کہ اس پالیسی کو منظور کرانے کے لیے امریکی ملٹی نیشنل کمپنی مونسینٹو اور برطانوی سرمایہ دار لارڈ سینس بری نے لاکھوں پاؤنڈز نیو لیبر پارٹی پر لگائے۔ اسی طرح یورپی یونین کے تحت Single Market Economy (SEM) کے معاہدے کی بنیاد یورپ اور برطانیہ کے تاجروں نے رکھی تھی اور جمہوری حکومتوں کے سربراہان کے ذریعے سرمایہ داروں نے اس پالیسی کو منظور کرایا۔ جمہوریت کے نام پر عوامی رائے اور مفادات کے برعکس، سرمایہ داروں کو تحفظ دینے والی پالیسیوں کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں جن سے جمہوریت کی خیالیات کا اصل چہرہ عیاں ہوتا ہے اور اس کی عملی سطح پر ناکامی سامنے آتی ہے، اسی طرح پاکستان میں پیپلز پارٹی کا مسلم لیگ ق کو حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ شاید درست نہ تھا، مسلم لیگ ق وہ جماعت تھی جس کو مشرف حکومت کے بعد ہونے والے الیکشن میں عوام نے واضح طور پر مسترد کردیا تھا، عوام نے ان کو اپنا نمائندہ چننے سے عملی سطح پر انکار کردیا مگر پیپلز پارٹی نے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ''مفاہمت'' کے نام پر ایوان حکومت میں لا بٹھایا۔
مفاہمت کے نام پر مخالف قوتوں کو اپنے اندر جذب کرنا بھی آزاد منڈی کی معیشت کی آئیڈیالوجی کا حصہ ہے، جس کا اطلاق پیپلز پارٹی کے اس دور حکومت میں جا بجا کیا گیا، اگرچہ مفاہمت کے نظریے کی اصطلاح کے پسِ پردہ ہے گلیائی فلسفے میں موجود طاقت کا وہ تصور عمل آرا ہے جس کے تحت 'پہلا' اپنے مخالف 'دوسرے' کو مفاہمت کے نام پر اپنے حق میں کرتا ہوا اپنے اندر جذب کرتا چلا جاتا ہے۔ کچھ یہی کام پیپلز پارٹی عملی سطح پر اپنے ہر مخالف کے ساتھ کرتی رہی۔ ڈرون حملوں پر عوامی رائے کو کسی خاطر میں نہیں لایا گیا، دہشت گردی کے نام پر ہونے والی جنگ میں اگرچہ ایک ڈکٹیٹر نے پاکستان کو شریک کیا تھا مگر جمہوریت کی آئیڈیالوجی کے مطابق عوامی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے اس جنگ سے خود کو الگ کرنا پیپلز پارٹی کی ''جمہوری حکومت'' کا پہلا جمہوری فرض تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
اس نام نہاد جمہوری حکومت نے عوام کی خواہشات کو قدم قدم پر نظر انداز کیا، پھر بھی یہ پانچ سالہ دور حکومت اس لیے جمہوری ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سیاستدانوں نے الیکشن کے ذریعے حکومت حاصل کی، اس کے بعد ہر پالیسی پر عمل ایک ڈکٹیٹر (مشرف) کی نمائندگی کرتا رہا، مشرف اور زرداری کے بر سرِ اقتدار ہونے کے طریقے میں فرق تھا، مگر طریقہ حکومت یکساں رہا۔ تو کیا پیپلز پارٹی کی حکومت واقعی جمہوری حکومت تھی؟
نمائندہ جمہوریت کی آئیڈیالوجی کی سچائی اورکامیابی کا اندازہ عملی سیاسی ساختوں کی حالت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں عوام کے احساسات کس نوع کے ہیں، کیا عوام احساس تحفظ کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں یا بے یقینی، خوف و ہراس اور انتشار کا شکار ہیں۔ جمہوریت ہے یا آمریت تھی، ہمارے عوام کی حالت نہیں بدلی، وہ پہلے بھی بے یقینی اور خوف و ہراس کے سایوں کی لپیٹ میں تھے اور جمہوری حکومت میں بھی اسی انتشار کا شکار رہے۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا پاکستان، جمہوریت بھی طاقت کے استعمال کا ایک مہذب لبادہ ہے جو عوام کو دھوکا دینے کے لیے سرمایہ دار اور طاقت ور طبقات پہن لیتے ہیں۔ پولیٹیکل سائنسدان رابرٹ ڈال کا خیال ہے کہ ماضی میں جمہوریت کے نام پر یہ بر سرِ اقتدار طبقات جو ایک منظم اقلیت تھی، نے غیر منظم اکثریت (عوام) کو اپنے ماتحت کر رکھا تھا، مگر تکثیری جمہوریت میں بہت سے عناصر کی موجودگی میں سرمایہ داروں کے لیے جمہوریت کے نام پر کنٹرول کرنا اس لیے مشکل ہوگیا ہے کیونکہ میڈیا کے کردار نے حکمرانوں کی طاقت کو تقسیم کردیا ہے۔
اس سے پہلے کرپٹ سیاستدانوں کے لیے حکومت کرنا اس لیے آسان ہوتا تھا کہ عوام کو بہت سے حقائق کی خبر ہی نہیں ہوتی تھی۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا کے ذریعے کیسی رائے ہموار کی جاتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میڈیا کو بھی سرمایہ دار اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہوئے عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرتے ہیں، یہاں ایک طرف تو میڈیا کا جانبدارانہ کردار سامنے آتا ہے تو دوسری طرف جمہوری عمل کے نام پر ہونے والے اس الیکشن کے شفاف ہونے پر سوالیہ نشان ہے۔ مغربی ترقی یافتہ ممالک میں اور پاکستان میں فرق یہ ہے کہ مغرب میں عوام نے طاقتور طبقات کے مقابل عوامی طاقت کے ذریعے اپنے بنیادی حقوق حاصل کیے ہیں۔
جس ملک کے عوام اپنی طاقت کو بروئے کارلاتے ہوئے سیاست کی استحصالی ساختوں کا انہدام کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہی اپنی مرضی کی نئی ساختوں کی تشکیل کرتے ہیں اور جو طاقت کا کسی بھی سطح پر استعمال کرنے کے اہل نہیں ہوتے وہ برسرِاقتدار طبقات کی ترتیب دی ہوئی مخصوص ساختوں میں ہی زندہ رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، جیسے پاکستانی عوام جو ہمیشہ اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ کوئی لیڈر ہی ان کو پکارے تو ہی اپنی طاقت کو بروئے کار لائیں گے۔ قدیم دور کی شاہانہ آمریت تھی یا جدید جمہوریت، طاقت کے نظریات روپ بدل بدل کر نئی ساخت میں ڈھل کر ہر عہد کی سیاست کے ان دیکھے، مگر بنیادی اور ضروری عناصر رہے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا، طاقت کے بغیر سیاست نہیں ہوسکتی، کیونکہ جمہوریت بھی سرمایہ داروں اور طاقتور طبقات کا طاقت استعمال کرنے کا مہذب آلہ ہے۔