قمر علی عباسی بھی ہم سے روٹھ گئے…

ایسا کیوں ہورہا ہے کہ پڑھے لکھے، قابل، دانشور، صحافی، حلیم وبردبار قسم کے لوگ ہم سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں،

ایسا کیوں ہورہا ہے کہ پڑھے لکھے، قابل، دانشور، صحافی، حلیم وبردبار قسم کے لوگ ہم سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں، ابھی پچھلے دنوں اظفر رضوی کا بہیمانہ قتل کردیا گیا، وہ ماہر تعلیم تھے، اچھے مقرر تھے اور سب سے بڑی بات وہ ایک اچھے انسان تھے۔ خداوند کریم اچھے انسانوں کو اس لیے بھی جلدی اٹھا لیا کرتا ہے کہ ان کو اس فانی، تعفن زدہ دنیا میں رہنا نہ پڑے۔

ان کے بعد قمر علی عباسی کا امریکا میں انتقال ہوگیا۔ وہ ایک عرصے سے امریکا میں مقیم تھے، قمر علی عباسی نے اردو میں سفرنامے کو جو عروج بخشا اس کی سند مل سکتی ہے، وہ جہاں جہاں بھی گئے قارئین کے لیے لازوال سفرنامے لکھے۔ قمر علی عباسی کا تعلق ضلع مراد آباد کی تحصیل، سرزمین سبزہ گل، شہردلبراں، مردم آمیز و مردم خیز امروہہ سے ہے جیساکہ جون ایلیا، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، صادقین، اقبال مہدی، رئیس امروہوی، سید میر تقی کا تھا۔ امروہہ نے جید علما، جید شعرا، عظیم فلسفی، عظیم القدر مصور، نہایت ہی ذہین و فطین لوگوں کو جنم دیا ہے۔ قمر علی عباسی 1991 سے امریکا میں تو آباد تھے لیکن روحانی طور سے وہ امروہہ ہی میں رہتے تھے۔ قمر علی عباسی کی تحریر میں برجستگی، سلاست، روانی، ساتھ ہی ساتھ ٹھہراؤ، روانی کے ساتھ ٹھہراؤ ممکن ہوا نہیں کرتا لیکن ان کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، ان کی تحریر میں قاری کو کہیں بھی بوریت، اکتاہٹ، اجنبیت یا تھکان کا احساس نہیں ہو پاتا تھا۔

میں نے قمر علی عباسی کو ایک بہت وضعدار آدمی پایا، ان کے لفظوں کی کاٹ، جملوں کی ادائیگی، بات کرنے کا ڈھنگ سامعین کو ان کی باتیں سننے پر مجبور کردیتا تھا۔ وہ نہایت ہی نفیس انسان تھے۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے، ہم سے دور چلے گئے ہیں، کہیں بہت دور... جہاں سے کوئی آنہیں سکا۔ لیکن وہ ہم کو، اپنے اہل خانہ کو دیکھ رہے ہیں، سن رہے ہیں، وہ کراچی کے حالات کے بارے میں بہت افسردہ رہا کرتے تھے۔ ابھی ان ہی دو تین سال کے دوران ان کے دو یا تین فون میرے والد محترم کے پاس آئے، نیلوفر آنٹی کی ایک کتاب آئی تھی اس پر تبصرے کے لیے۔

اس دوران میری بھی ان سے ملاقات ہوئی تو گویا ہوئے، میاں صاحبزادے، یہ ان کا ایک خاص انداز تھا میرے لیے تھا یا ہر نوجوان کے لیے تھا معلوم نہیں، لیکن معلوم ہے تو اتنا کہ وہ مجھ سے پڑھنے پڑھانے، لکھنے لکھانے کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اس شہر اندھیار جو کبھی عروس البلاد تھا اس کے بارے میں پوچھتے۔ اس سے پہلے کہ میں ان کو کچھ بتاتا وہ کہتے یار! کل وہاں بہت ہی برا ہوگیا، پرسوں گلشن چورنگی میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ کراچی کے بارے میں ہم سے زیادہ باخبر رہنے والے آدمی تھے، ان کا ایک سفرنامہ ہے ''بغداد زندہ باد'' میں نے وہ پڑھا، پڑھتے پڑھتے اچانک ہی نیند آگئی اب نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے، کراچی کسی سولی سے کم ہے کیا؟ آپ کو نیند نہیں آتی؟ خیر میں کچھ ابواب پڑھ کر سوگیا، بخدا میں نے خواب میں اپنے آپ کو عربی لباس میں اونٹ کا بھنا ہوا گوشت اور اسی جانور پر سوار ہوتا ہوا دیکھا۔ میری آنکھ کھل گئی، میں نے تیسرے دن امریکا فون کرکے ان کو یہ ماجرا سنایا، وہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے، کہنے لگے میاں صاحبزادے اونٹ پر سوار ہونا تو خواہش ہوسکتی ہے لیکن گوشت کھانا تو فطرت ٹھہری۔


قمر علی عباسی اس دور میں ایک بہترین شوہر، نفیس باپ، لاجواب دوست تھے، آج کے اس ناہنجار دور میں آپ کے دوزانو بیٹھ کر رونے والا بھی کوئی نہیں ہوگا، آپ کی دلجوئی کرنے والا کہاں ملے گا، وہ ایسے دوست تھے جو دوزانو بیٹھ کر غم میں شریک ہوتے تھے، دلجوئی کرتے تھے۔ کئی بار انھوں نے میری پیٹھ تھپتھپائی، آج کل پیٹھ پیچھے چھرا گھونپنے والے تو ضرور ملیں گے، قاتل، عیاش، نقال، غدار تو ضرور ملیں گے، ایک اچھا دوست، ایک اچھا بھائی نہیں ملے گا، وہ اچھے دوست اور اچھے بھائی (میرے والد صاحب کے لیے تھے) میرے لیے وہ اچھے دوست تھے۔ ایکسپو سینٹر میں، آرٹس کونسل میں، کئی اور اجلاسوں میں ان سے ملاقاتیں رہیں۔ قمر علی عباسی ان سفرنامہ نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں، جنھوں نے غالباً اردو سفرنامہ نگاری کو ایک نئی جہت، نئی سمت اور نئی راہ دکھائی۔ ان سے پہلے بھی اردو کے کئی نامور سفرنامہ نگار گزرے ہیں لیکن سفرنامے کے جو مطلوبات خاص ہوا کرتے ہیں وہ ان میں نہیں تھے۔

آپ قمر علی عباسی کے تمام سفرنامے اٹھاکر دیکھ لیں، پہلے باب سے لے کر آخر تک آپ کو ایک روانی، ایک تسلسل ملے گا، یہی ایک سفرنامے کا خاصہ ہونا چاہیے، ان کے سفرناموں میں ایک اچھوتا پن، آپ کو اپنی جانب کھینچتا ہوا ملے گا۔ ان کا انداز بیان، زور تحریر، اور صاف متن ملے گا جو یہ باور کراتا ہے کہ اردو سفرنامہ نگاری میں وہ ایک بلند پایہ درجے پر فائز ہیں اور بلاشبہ و شک وہ اس حق کے خاص مستحق بھی ہیں، انھوں نے سفرنامہ نگاری کی صحیح معنوں میں آبیاری کی اور کیوں نہ کرتے، جس شخص کا کام ہی لفظوں سے کھیلنا، جملوں کی برجستگی کا ہونا اور انسانی نفسیات کو پہچاننا ہو وہ صحیح معنوں میں ایک اچھا شاعر، اچھا ادیب، ایک اچھا مصور، ایک صحافی ہی ہوگا۔

ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

فن سفرنامہ نگاری میں حکومت پاکستان نے ان کی ادبی و علمی خدمات کے اعتراف میں 2000 میں ان کو تمغہ امتیاز سے نوازا اور1991 میں (APNS) ایوارڈ سے نوازا، ہزاروں لوگ روزانہ کی بنیاد پر بیرون ملک سفر کرتے ہیں، ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو قارئین کے لیے وطن واپس پہنچ کر ان ملکوں کی ثقافت، تہذیب و تمدن، رسم و رواج کے بارے میں آگاہی دیں، ہزاروں میں سے چند، چند میں سے ایک اور وہ قمر علی عباسی۔ امروہہ مرکز کراچی میں ایک شام ان کے نام تھی، اس شام امروہہ مرکز میں حاضرین و سامعین کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی، کرسی صدارت پر میرے والد محترم تھے۔ میں نے دیکھا لوگوں کا ایک ہجوم ہے جو ان کے بارے میں جاننا چاہ رہا تھا۔ انھوں نے اس موقع پر بہت سیر حاصل گفتگو کی، اپنی محنت و مشقت کے بارے میں لوگوں کو بتایا کہ وہ زمانہ کیسا تھا۔ بخدا اس زمانے میں غربت ہوگی، افلاس ہوگا، لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی، اسٹریٹ کرائمز نہیں ہوں گے، اغوا برائے تاوان نہیں ہوتے ہوں گے، پسماندگی ہوگی لیکن ذہنی آسودگی حاصل ہوگی۔ ہر عظیم آدمی کا ماضی محنت ہی سے عبارت ہوتا ہے۔ وہ ریڈیو پاکستان کراچی اور خضدار سے تقریباً 32 سال منسلک رہے اس زمانے میں کم سفر کیے ہوں گے، اور وہیں سے وہ ریٹائر ہوئے، لیکن اس کے بعد وہ اور زیادہ متحرک، جوان، زندہ دل، شعلہ جوان ہوتے گئے، کیونکہ کھل کر ان کو گھومنے کا موقع ملا، گویا وہ ویزے سے لے کر ٹکٹ تک اور بیرون ملک میں قیام سے لے کر وہاں ٹھہرنے تک اور واپس آنے پر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہوں گے اور ہم لوگ گھر بیٹھے بغیر پائی خرچ کیے ان کے ساتھ پہنچ جاتے تھے، یہ ہے سفر نامہ نگاری۔ خدا کسی کسی کو چیزوں کو پرکھنے، اس کو چھو کر محسوس کرنے، لفظوں میں جان ڈالنے، قاری کو اپنے احاطہ تحریر میں جکڑ لینے کا ہنر دیتا ہے، جو بالخصوص خدا نے قمر علی عباسی صاحب کو دیا تھا۔ آج وہ ہم میں نہیں رہے اب وہ اس دنیا سدھار گئے ہیں۔ع

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
Load Next Story