تحریک اور آغاز سفر…

پختہ عقیدہ اور سچا نظریہ صرف اس وقت عوامی پذیرائی حاصل کرتا ہے جب کسی خاص شخصیت کے ذریعے اسے پذیرائی ملتی ہے


Khalidah Ateeb June 10, 2013

پختہ عقیدہ اور سچا نظریہ صرف اس وقت عوامی پذیرائی حاصل کرتا ہے جب کسی خاص شخصیت کے ذریعے اسے پذیرائی ملتی ہے، انتہائی نامساعد حالات اور غیر یقینی صورتحال میں ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے نوجوان نے یہ فریضہ اس خوش اسلوبی سے انجام دیا کہ سارا عالم انگشت بدنداں رہ گیا۔

ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر اجتماعی مفاد کی بات گھٹے ہوئے ماحول میں استحصال کا شکار عوام کے لیے گویا خوشگوار ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ۔ 11جون 1978کو جامعہ کراچی میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی APMSOکے نام سے قائم ہونے والی تنظیم پاکستان کی طلبا سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوئی ۔ مٹھی بھر نوجوانوں نے برسوں سے قائم طلبہ تنظیموں کی فصیلوں میں دراڑیں ڈال دیں جس کے رد عمل کے طور پر ان تنظیموں نے APMSOپر جامعہ کراچی میں زندگی تنگ کردی یہ نوجوان جامعہ کراچی سے نکل کر نہ صرف سارے شہر کراچی میں پھیل گئے بلکہ سندھ کے شہری علاقوں میں شعوری بیداری کا عمل شروع کردیا حقیقت پسندی اور عملیت پسندی کا فلسفہ دیا۔

قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں حالات کا جبر برداشت کیا لیکن کوئی بھی حربہ الطاف حسین کو ان کے مشن اور مقصد سے پیچھے نہ ہٹاسکا ۔دہرے نظام کے خلاف جاگیردارانہ اور وڈیرانہ سوچ کی مخالفت میں ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہزاروں کارکنان کی شہادت کا صدمہ برداشت کیا بڑے بھائی اور نوجوان بھتیجے کی شہادت کا کرب سہا لیکن 98فیصدمظلوموں کی داد رسی کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ تعلیمی ادارے سے شروع ہونے والی تحریک اب عام لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکی تھی برسوں سے ظلم کی چکی میں پسنے والے استحصال کا شکار عوام الطاف حسین کی آواز بن کر ظالموں کے لیے خوف کی علامت بن گئے یہ تمامتر عمل انفرادی مفادات کے لیے نہیں اجتماعی مفادات کے لیے تھا یہی وجہ ہے کارکنان نے دن اور رات کی تمیز بھلاکرانتھک محنت کی گھر گھر قائد کا پیغام پہنچایا اور ایک ایسے انقلاب کی راہ ہموار کی جو سارے نظام کوتبدیل کرنے کے لیے تھاعام لوگوں کے درمیان سے قیادت نکالی۔

تاکہ وہ جن مشکلات سے گذرے ہیں ان کا حل تلاش کریں پڑھے لکھے اور باصلاحیت افراد کو جاگیرداروں اور وڈیروں کے برابر ایوانوں میں بٹھایا جو ان سے برداشت نہ ہوااور ایم کیو ایم کو ختم کرنے کی سازشیں تیار ہونے لگیں ہزاروں کارکن شہید کردیے گئے،ہزاروں نے قیدو بند کی صعوبتیں جھیلیں لیکن اپنے قائد اور تحریک سے عہد وفا پر آنچ نہ آنے دی حتٰی کے حالات کے جبر کے تحت قائد تحریک کو اپنا وطن چھوڑ کردیار غیر میں جلا وطنی کی زندگی گزارنی پڑی رہبر و رہنما ء کی دور ی سے یہ گمان کرلیا گیا تھا کہ کارکنان مایوسی کا شکار ہوکر گھر بیٹھ جائیں گے اور تحریک ختم ہوجائے گی۔

وقتی طور پر تو یہ دوری اثر انداز ہوئی لیکن قائد کی ہدایت کے مطابق کارکنان نے روپوشی اختیار کی اور قائدکے ٹیلیفو نک رابطے نے کارکنان کے حوصلے بلند رکھے جو لوگ الطاف حسین کا Chapter Closeکرنا چاہتے تھے ان کا ہر حربہ ناکام رہا الطاف حسین کا فلسفہ اور ان کی فکر روشنی سارے ملک میں پھیل گئی یقینا انقلابی تحریکوں میں سچے اور مخلص ساتھی ہی تحریک کا سرمایہ ہوتے ہیں اور خراب حالات میں وہی ظلم و جبر کا نشانہ بھی بنتے ہیں لیکن تحریکیں ہمیشہ آگ و خون کے دریا عبور کرکے کامیابی حاصل کرتی ہیں۔ تحریکوں کا سفر عموما بہت طویل اور صبر آزما ہوتا ہے اور ان سب مراحل میں ثابت قدم رہنے والے ہی منزل تک ساتھ پہنچتے ہیں۔

متحدہ کے فکر و فلسفہ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے الطاف حسین کی شخصیت کو سمجھا جائے اور ان کی شخصیت کو ماضی اور حال کے تناظر میں پرکھا جائے تاکہ ایک بہترین رول ماڈل ہمارے سامنے ہو۔اور اس طرح سے صرف الطاف بھائی کی شخصیت ہمارے لیے رول ماڈل کے طور پر سامنے آتی ہے ۔ دنیا میں جتنی بھی تحریکوں نے جنم لیااگر ہم ان کا جائزہ لیں تو یہ چیز اظہر من الشمس نظر آتی ہے کہ حالات کے جبر سے تنگ آئے لوگ تبدیلی کے لیے کسی ایک نکتے یا سوچ پر متفق ہوکر اس کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں اور اپنے رہبر و رہنما پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں تب کامیابی مقدر ہوتی ہے ۔ بالکل اسی طرح 98فیصد مظلوموں نے قائد تحریک کی رہبری و رہنمائی میں 2فیصد مراعات یافتہ طبقے سے نجات کے لیے جدو جہد شروع کی پرانے اور فرسودہ نظام سے چھٹکارے کے لیے میدان عمل میں آئے تاکہ انقلاب کی راہ ہموار ہوسکے جب بھی کسی معاشرے میں انقلاب کی آہٹ محسوس ہوتی ہے تو ظالم اور جابر حکمراں اور خوفزدہ ریاستی ادارے اس کے آگے بند باندھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

انقلاب نہ گولہ بارود سے رکتا ہے اور نہ ہی جبر وتشدد اسکا راستہ روک سکتے ہیں بلکہ انقلاب تو ایسا بہتا دریا ہے جو اپنا راستہ خود بناتاہے اور اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے صدیوں سے یہ کھیل جاری ہے۔ ایم کیو ایم ایک انقلابی تحریک ہے جس نے نامساعد حالات میں اپنا سفر شروع کیا اور پاکستان کی تیسری اور سندھ کی دوسری بڑی جماعت کے طور پر اپنی حیثیت منوائی۔سندھ کے شہری علاقوں سے نکل کر الطاف حسین کے فکر و فلسفے کو پاکستان کے تمام مظلوموں نے اپنی آواز بنالیا گلگت بلتستان اور کشمیر میں بھی ایم کیو ایم کو پذیرائی حاصل ہوئی گو کہ طاغوتی قوتیں آج بھی سر گرم عمل ہیں اور ہر سطح پر ایم کیو ایم اور اس کے قائد کے خلاف منفی پروپیگنڈہ جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن حق پرستی کا یہ قافلہ رواں دواں ہے اور الطاف حسین کی رہبری و رہنمائی اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 11جون کا دن خود احتسابی کا دن ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دن ہر کارکن انفرادی طور پر اپنا جائزہ لے اور اپنی بشری کمزوریوں پر قابو پاتے ہوئے تحریکی فکر و فلسفے اور تحریکی نظم و ضبط کے قالب میں اپنے آپ کا ڈھالیں کیونکہ یہی کامیابی کی کنجی ہے اور اس کے تسلسل کا راز بھی اسی کلیہ میں مضمر ہے ۔ محنت و لگن جو ایم کیو ایم کے کارکنان کا خاصہ ہے اسے اپنے مزاج کا حصہ بناکر ہی ہم اپنے قائد کا مان بڑھا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں