شعور کی نرسری…

زندگی گزارنے کے لیے انسان کچھ اصول اور ضابطے طے کرتا ہے جو اس کے شعور اور عقل کے معیار کے مطابق ہوتے ہیں۔۔۔


سید تیمور علی June 10, 2013

زندگی گزارنے کے لیے انسان کچھ اصول اور ضابطے طے کرتا ہے جو اس کے شعور اور عقل کے معیار کے مطابق ہوتے ہیں، لیکن عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب انسان کی جان خطرے میں آتی ہے تو وہ تمام اصول اور ضابطے بالائے طاق رکھ کر اپنی جان پہلے بچاتا ہے۔ لیکن اگر انسانی شعور کسی نظریے کے تابع ہو اور نظریہ بھی ایسا جو ایک بڑی سوچ کا حامل ہو جس کے ذریعے سے تاریخ کے دھارے کو موڑا جانا ہو، جب اس نظرئیے کے تحت انسان زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کی زندگی کسی ضابطے کی پابند نہیں ہوتی۔

صرف اس نظریے کے تحت آنے والے قواعدوضوابط اور نظم وضبط اس کے ملحوظ خاطر ہوتے ہیں۔ اے پی ایم ایس او اپنی تاریخ کی ایک منفرد طلبہ تنظیم ہے جس نے مادرِ علمی کراچی میں جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سندھ کے شہری علاقوں پر سیاسی طور پرکامیابی حاصل کی۔ APMSOکے قیام نے نوجوانوں میں ایک ایسی تبدیلی کی راہ ہموار کی جس کے ذریعے نئی نسل نے بڑے مقصد کے حصول کے لیے اپنے چھوٹے چھوٹے مقاصد کو بالائے طاق رکھا اور اپنے آپ کو ایک کٹھن راہ اختیار کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا کیونکہ جامعہ کراچی میں قائد تحریک الطاف حسین کے ہاتھوں لگنے والا پودا بظاہر کسی کے لیے منفعت بخش نظر نہیں آتا تھا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، اس نظرئیے اور اس کی سیاسی جماعت نے ان مقاصد کو حاصل کرنا شروع کیا جس کے لیے ا س نظرئیے نے جنم لیا تھا یعنی معاشرے سے ناانصافیوں کا خاتمہ، سماجی ناہمواریوں کو جڑ سے اکھاڑنا، فرسودہ جاگیردارانہ نظام کے اندر دراڑیں ڈالنا اور موروثیت کا خاتمہ کرنا۔

یہ حقیقت ہے کہ مکمل طور پر یہ مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکے لیکن آج ان سیاسی اور سماجی برائیوں کو ایک برائی کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے قول و فعل کے تضاد نے اس صورتحال کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ تبدیلی کا نعرہ لگا کر میدانِ عمل میں اُترے ، لیکن جب پارلیمنٹ کا حصہ بنے تو پورے خاندان کے ساتھ پاکستان کی چودھویں قومی اسمبلی میں رونق افروز ہو گئے۔ یہی وہ سوچ ہے جس نے پاکستان میں ترقی کی راہیں مسدود کر دی ہیں۔

اس کے برعکس ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں ان نوجوانوں کو بھیجا جائے جنھوں نے مسائل اور مصائب جھیلے ہوں ۔ جو اس نظام کے ڈسے ہوئے ہوں جس نے اپنے خونی پنجوں سے اس ملک کے غریب عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ لہٰذا تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے قول و فعل کے تضاد پر غور کریں۔ امید یہی ہے کہ نئی آنے والی حکومتیں شاید نظام کی تبدیلی کے لیے کچھ کرسکیں۔ لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تبدیلی کا آغاز سیاسی جماعتیں اپنے اندر سے نہیں کرتیں۔

16برس کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمنٹ میں جگہ بنائی ہے لیکن خبریں یہ آرہی ہیں کہ ان کے کلیدی رہنماؤں کا پورا خاندان پارلیمنٹ کا حصہ بن گیا ہے۔ اگر یہی تبدیلی کا خواب تھا تو اس کا انجام بھی ماضی کے جابروں سے مختلف نہ ہوگا۔ موروثیت کے خاتمے، جاگیردارانہ اور وڈیرانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ہمیں اپنے آپ سے تبدیلی شروع کرنا ہوگی۔ اس کے لیے نظم و ضبط اور اس پر عمل پیرا ہونا اور اقدار کی خاطر اقتدار کو قربان کرنا ہوگا۔

یہ دعویٰ اور بھی بہت سے لوگ کرتے نظر آرہے ہیں لیکن وہ بھی اپنی جماعت کے عہدوں اور پارلیمنٹ کے عہدوں میں اپنے خاندان والوں کو جگہ دینے کو ترجیح دے رہے ہیں اور 14برس اقتدار سے دور رہنے والے کارکنان کو جگہ دینے سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ یہی وہ عمل ہے جو حقیقی تبدیلی کی راہ میں حائل ہے۔ سادہ لوح معاشرے کو طاقتور نعروں سے بے وقوف بنانے کا عمل پاکستان کی تاریخ میں شروع سے جاری ہے اور تاحال جاری نظر آتا ہے۔ جب تک اس ناسور کو ہم نہیں ختم کرلیتے، آنے والی نسلوں کے تحفظ اور ترقی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

اس کے لیے آجAPMSOکے کارکنان اپنے قیام کی پینتیسویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ یہ دن اس عزم کی تجدید کے ساتھ منایاجائے کہ ہم اپنی زندگیوں کو تحریک کے نظم و ضبط کے مطابق رکھیں گے اور فرسودہ اور جاگیردارانہ نظام کے حقیقی خاتمے کے لیے آخری دم تک جدوجہد کر یں گے تاکہ پاکستان میں ایک ایسا منصفانہ نظام قائم ہوسکے جہاں نہ کوئی پنجابی ہو نہ سندھی، نہ بلوچی ہو نہ پٹھان ، بلکہ ہم ایک قوم بن جائیں جس کے لیے یہ وطن حاصل کیا گیا۔ جہاں تعلیم، صحت اور روزگار کے اندر دہرا معیار نہ ہو۔

میرٹ کی بنیاد پر اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن بن سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ روزگار کے ایسے مواقعے غریب عوام کو میسر ہوں جن سے وہ عزت کے ساتھ اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ یہ وہ خواب ہے جو قائد تحریک نے دیکھا ہے اور آج بھی پوری توانائی کے ساتھ وہ اس منزل کے حصول کے لیے نہ صرف تحریک کی قیادت کر رہے ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً تحریک کے کارکنان میں اپنے بصیرت افروز خطبات، تقاریر ، لیکچرز اور فکری نشستوں کے ذریعے روح پھونکتے ہیں۔ لہٰذا ہم تمام کارکنان اپنے ذاتی احتساب کے ساتھ APMSOکا پینتیسواں یوم تاسیس اس تجدید وفا کے ساتھ منائیں کہ ہم اپنی جدوجہد کو اس وقت تک جاری و ساری رکھیں گے تاوقتیکہ قائد تحریک الطاف حسین کی قیادت میں اپنی منزل کو نہ پالیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں