شمسی توانائی سے چلنے والے نظام آبپاشی پنجاب میں ابھرتا خاموش ’’نیلا انقلاب‘‘

یہ منصوبہ پنجاب بھر کے تمام 36 اضلاع میں کامیابی سے جاری ہے


ابتدائی طور پر یہ جدید نظام کل 120000 ایکڑ رقبے پر لگائے جانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے جس پر عمل درآمد جاری ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان ایک زرعی ملک ہے... یہ روایتی جملہ آپ نے اتنی بار پڑھا یا سنا ہوگا کہ اب تو اسے لکھنا بھی رسمی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ پاکستان کا ذکر ہو اور زراعت کا نام نہ آئے۔ دونوں ایک دوسرے کےلیے لازم و ملزوم ہیں۔

پاکستانی معیشت کےلیے زرعی شعبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ زراعت، پاکستان کی خالص قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا 21 فیصد ہے، جبکہ ملک میں کل روزگار کا 45 فیصد زراعت سے منسلک ہے۔ گویا زراعت نہ صرف ملکی معیشت کےلیے اہم ہے بلکہ ملک کی سب سے بڑی آبادی کا روزگار براہ راست یا بلاواسطہ طور پر زراعت ہی سے وابستہ ہے۔

پاکستان کو اتنے وسیع پیمانے پر روزگار فراہم کرنے والی زراعت بجائے خود زرعی پانی کی مرہون منت ہے۔ آبپاشی کےلیے درکار پانی کے بغیر زراعت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا؛ لیکن بدقسمتی سے دنیا کا سب سے بڑا آبپاش اور نہری نظام رکھنے کے باوجود پاکستان زرعی پانی کی شدید کمی کا شکار ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی بات کریں تو پانچ دریاؤں کی دھرتی ملک کے سب سے بڑے زرعی رقبے کی حامل ہے۔ مگر زرعی پانی کے حوالے سے یہاں بھی انتہائی مخدوش صورت حال ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے اور نقدآور فصلیں اگانے کےلیے سالانہ 70 ملین ایکڑ فٹ (70 ایم اے ایف) پانی درکار ہے۔ جبکہ 1991 میں پاکستان کے دریائی پانی کی تقسیم سے متعلق صوبوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے (پاکستان واٹر اکارڈ) کے تحت پنجاب کےلیے 55 ایم اے ایف پانی مختص کیا گیا تھا۔ اس میں سے بھی فیلڈ اور فارم کی سطح پر صرف 42 سے 45 ایم اے ایف زرعی پانی دستیاب ہے۔ باقی دریاؤں، نہروں اور نالوں سمیت مختلف عوامل کی نذر ہو جاتا ہے۔ گویا مجموعی طلب کا نصف زرعی پانی ہی فیلڈ کی سطح پر دستیاب ہوتا ہے۔

جہاں ایک طرف بڑھتی آبادی کے باعث زیادہ پیداوار کی ضرورت ہے وہیں دن بدن پانی کی دستیابی بھی کم ہو رہی ہے، جس سے صورتحال بہتر ہونے کے بجائے مزید تنزلی کی جانب گامزن ہے... اور ہر گزرتے دن کے ساتھ پانی کی قلت بڑھتی ہی جارہی ہے جس سے کئی عالمی ادارے اور ماہرین خبردار کرچکے ہیں۔



یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورت حال کا ادراک ہمارے ارباب اقتدار اور متعلقہ زرعی ماہرین کو بھی ہے؟ خوش قسمتی سے اس کا جواب ''ہاں'' میں ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ نہ صرف مقتدرانِ وقت کو اس مسئلے کا بخوبی اندازہ ہے بلکہ اس ضمن میں پہلے سے ہی زمینی سطح پر ٹھوس اقدامات کا آغاز کردیا گیا ہے۔

زرعی پانی کی کمیابی اور بڑھتی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ فی ایکڑ زیادہ پیداوار دینے والی فصلوں کی دریافت کے ساتھ ساتھ ان کی آبپاشی کے روایتی ذرائع کے بجائے جدید طریقہ ہائے آبپاشی اپنائے جائیں۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں قطرہ قطرہ نظام آبپاشی، جسے ''ڈرپ اریگیشن'' بھی کہا جاتا ہے، فروغ پا رہا ہے۔

پاکستان بالخصوص پنجاب میں بھی گزشتہ کئی سال سے یہ جدید نظام آبپاشی رائج کرنے کےلیے حکومتی سطح پر کام جاری ہے۔ اس سلسلے میں حکومت پنجاب نے عالمی بینک کے تعاون سے خطیر لاگت سے ''پنجاب میں آبپاش زراعت کی ترویج کا منصوبہ'' کے نام سے پروجیکٹ شروع کیا تھا جو گزشتہ چھ سال سے کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ اس کی کامیابی اور مثبت اثرات مدنظر رکھتے ہوئے حال ہی میں اس منصوبے کو مزید چار سال یعنی 2021 تک توسیع دے دی گئی ہے۔

محکمہ زراعت کے شعبہ اصلاح آبپاشی یعنی واٹرمینجمنٹ کے زیر نگرانی چلنے والے اس منصوبے کے تحت پنجاب بھر میں نہری کھالوں کی پختگی اور زمین کی ہمواری کےلیے لیزر لینڈ لیولرز کی رعایتی نرخوں پر فراہمی کے ساتھ ساتھ جدید نظام ہائے آبپاشی یعنی Drip and Sprinkler Irrigation کی تنصیب کی جارہی ہے۔ یہ نظام نجی کمپنیوں کی شراکت کی مدد سے 60 فیصد سبسڈی پر لگائے جارہے ہیں۔ یعنی کل لاگت کا 60 فیصد حکومت جبکہ 40 فیصد بہ ذمہ کاشت کار ہوتا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ جدید نظام کل 120000 ایکڑ رقبے پر لگائے جانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے جس پر عمل درآمد جاری ہے۔

قطرہ قطرہ (ڈرپ) نظام آبپاشی سے متعلق تکنیکی تفصیلات کسی علیحدہ مضمون میں بیان کی جائیں گی۔ فی الحال یہ تذکرہ کرتے چلیں کہ ابتدائی طور پر یہ نظام ہائے آبپاشی سست رفتاری سے ترقی پسند کاشت کاروں میں اپنا مقام بنا رہے ہیں۔ اس سست روی کی کئی وجوہ ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ ان نظاموں کو چلانے کےلیے کسی پاور سورس یعنی توانائی کے منبع کا ضروری ہونا ہے۔ کیونکہ ملکی سطح پر توانائی کے بحران کے اثرات پنجاب پر بھی پڑے ہیں نیز فی یونٹ بجلی اور ایندھن مہنگا ہونے کی وجہ سے ان نظاموں کو چلانے کےلیے کاشت کاروں کو کثیر لاگت ادا کرنا پڑتی ہے۔

اس کا بہترین حل یہ نکالا گیا کہ ان نظاموں کی تنصیب کروانے والے کسانوں کو شمسی توانائی پر مبنی پاور سورس 80 فیصد رعایت کے ساتھ فراہم کیے جائیں۔ یہیں سے اس ''نیلے انقلاب'' کی ابتداء ہوتی ہے جو دھیمی رفتار اور خاموشی سے پنجاب بھر میں برپا ہورہا ہے۔

ڈرپ آبپاشی کےلیے شمسی توانائی متعارف کروائے جانے کے بعد پنجاب بھر کے ترقی پسند کاشت کار اس نظام کی جانب راغب ہورہے ہیں... اور پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسان یہ نظام لگوانے کےلیے خود محکمہ زراعت کے دفاتر کا رخ کر رہے ہیں، جبکہ اس سے پہلے محکمہ کا فیلڈ عملہ کسانوں کی دہلیز پر جاکر ترلے منتوں کے باوجود جدید نظام آبپاشی کی ترغیب دینے میں جزوی طور پر ناکام رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ پاکستان خصوصاً پنجاب کا کاشتکار جدید کے بجائے روایتی طریقہ آبپاشی کو ترجیح دیتا ہے۔

ڈرپ آبپاشی کو چلانے کےلیے شمسی توانائی کا استعمال شمسی پینلوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ان شمسی پینلز پر آنے والی کل لاگت کا 80 فیصد محکمہ برداشت کرتا ہے جبکہ صرف 20 فیصد ادائیگی کاشت کار کو کرنا ہوتی ہے۔ شمسی پینلز اور ان کی تنصیب کےلیے مالی معاونت حکومت پنجاب کے اعلان کردہ ''کسان پیکج'' کے تحت کی جاتی ہے جبکہ ڈرپ آبپاشی کی تنصیب عالمی بینک کے تعاون سے کی جارہی ہے۔ یوں دونوں منصوبہ جات مل کر پنجاب کے کسانوں کی زندگی میں وہ انقلابی تبدیلیاں لارہے ہیں جس کے ثمرات کئی دہائیوں تک کسانوں کو ملتے رہیں گے، ان شاء اللہ۔

پنجاب میں سورج سال بھر میں تقریباً 300 دن تک پوری آب و تاب سے چمکتا ہے۔ موسم کے حساب سے روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے تک سورج کی شعاعیں خطے کو منور کرتی ہیں۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب سورج سے توانائی حاصل کرنے کےلیے زرخیز ترین خطہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شمسی توانائی سے چلنے والے یہ جدید نظام ہائے آبپاشی جہاں ایک طرف کم پانی سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں تو وہیں، دوسری جانب، صوبے میں سورج کی روشنی جیسے مفت دستیاب وسائل سے ماحول دوست توانائی پیدا کرکے کثیر حکومتی سرمائے کی بچت کا باعث بھی بن رہے ہیں۔

یہ منصوبہ پنجاب بھر کے تمام 36 اضلاع میں کامیابی سے جاری ہے۔ اس کی مدد سے پنجاب کے خطہ پوٹھوہار کی بے ترتیب اور ناہموار زمینوں پر سورج کی توانائی کی مدد سے زرعی پانی پر دباؤ کے ذریعے اسے اونچے نیچے قطعات پر موجود پودوں اور فصلوں تک کامیابی سے ترسیل کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب جنوبی پنجاب کے ریگستانی اور ریتلے علاقوں میں سورج کی بے پناہ تپش ہی کو محرک بناکر فصلوں اور باغات کی کاشت کی جارہی ہے۔ اس نظام کا سب سے زیادہ فائدہ پنجاب کے ان دوردراز علاقوں کو ہو رہا ہے جہاں بجلی اور پانی جیسے وسائل دستیاب نہ ہونے کے باعث زرعی زمینیں بنجر اور بے آباد پڑی تھیں۔



لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پنجاب کے وسطی اضلاع ان نظاموں سے مستفید نہیں ہورہے۔ وسطی علاقوں مثلاً ساہیوال، فیصل آباد، اور لاہور ڈویژنز میں بھی یہ نظام کامیابی سے نصب کیے جا رہے ہیں۔ ان علاقوں میں بسنے والے ترقی پسند کاشتکار تیزی سے جدید طریقہ ہائے آبپاشی کی جانب رجوع کر رہے ہیں۔ تاہم بنیادی فوکس ایسے اضلاع ہیں جہاں آبپاشی کےلیے درکار پانی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے۔

شعبہ اصلاح آبپاشی (آن فارم واٹر مینجمنٹ) کے زیرنگرانی چلنے والے ''موسمیاتی اسمارٹ ٹیکنالوجی پیکیج کی فراہمی کے ذریعے اعلی قدر زراعت کے فروغ'' نامی پروجیکٹ کے تحت ابتدائی طور پنجاب بھر میں کل 20 ہزار ایکڑ پر شمسی توانائی سے چلنے والے مذکورہ نظام کی تنصیب کی جارہی ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت کسانوں کو بے موسمی سبزیوں کی کاشت کےلیے 50 فیصد رعایت پر ٹنل فارمنگ کی سہولت بھی مہیا کی جارہی ہے۔ یوں شمسی توانائی، قطرہ قطرہ آبپاشی، اور ٹنل فارمنگ جیسی جدید ٹیکنالوجیز کے حسین امتزاج سے پنجاب میں ایک ایسی زراعت کی راہ ہموار کی جارہی ہے جس میں انتہائی کم زرعی پانی اور وسائل کی مدد سے کئی گنا بہتر اور زیادہ پیداوار حاصل کی جاسکے گی۔ ان ہی خوبیوں کی بناء پر اس منصوبے کو ''خاموش نیلے انقلاب'' کا نام دیا ہے۔

طریقہ کار کی بات کریں تو اس نظام کی تنصیب میں دلچسپی رکھنے والے کاشت کار کو اصلاح آبپاشی کے قریبی تحصیل یا ضلع دفتر میں درخواست جمع کروانا ہو گی۔ درخواست فارم متعلقہ دفتر سے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ جبکہ یہ فارم اس لنک پر کلک کرکے آن لائن بھی ڈاؤن لوڈ کیے جا سکتے ہیں۔ نیز کاشت کار اپنے علاقے میں موجود کھالہ جات کی پختہ تعمیر کرنے والے فیلڈ افسران سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں جو انہیں تفصیلی رہنمائی اور ہر ممکن مدد فراہم کریں گے۔



یاد رہے کہ شمسی توانائی پینلز اور ڈرپ اریگیشن نظام، دو علیحدہ منصوبہ جات کے تحت فراہم کیے جاتے ہیں۔ تاہم پینلز کی تنصیب کےلیے یہ ضروری ہے کہ کاشت کار نے ڈرپ اریگیشن پہلے سے لگوا رکھی ہو یا پینلز کے ساتھ لگوانے میں دلچسپی رکھتا ہو۔

ایک نظام پر لگنے والے شمسی پینلز اور ڈرپ نظام کی پیمائش اور لاگت کا انحصار کئی عوامل پر ہوتا ہے جن میں دستیاب رقبہ، کاشت کی جانے والی فصل یا باغ کی قسم، زمین کی قسم، اور پانی کی دستیابی جیسے عوامل شامل ہیں۔

کسی ایک نظام پر زیادہ سے زیادہ 10 ہارس پاور تک پینلوں کی تنصیب کی جاسکتی ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شمسی توانائی سے چلنے والے ڈرپ نظام آبپاشی کی تنصیب محکمے کے بجائے منظور شدہ نجی اداروں اور کمپنیوں کے ذمے ہوتی ہے جو ڈیزائن تیار کرنے سے لے کر تنصیب اور بعد از تنصیب مرمت و دیکھ بھال جیسے عوامل تک کی ذمہ دار ہوتے ہیں جبکہ محکمے کی جانب سے کاشت کار/ کمپنی کو اس کی تنصیب کےلیے مالی اور ابتدائی تکنیکی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ کمپنیوں کی جانب سے فراہم کیا جانے والا خام مال زیادہ تر درآمد شدہ اور اعلی معیار کا حامل ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کمپنی کی جانب سے شمسی پینلز کےلیے لائف ٹائم گارنٹی بھی فراہم کی جاتی ہے۔

ملک میں مسلسل خشک سالی، ڈیموں کی عدم تعمیر اور روایتی طریقہ کار کی وجہ سے پانی کے بے تحاشا ضیاع کی وجہ سے مستقبل میں قلت آب کا شدید خطرہ ہے۔ اس کےلیے ابھی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں شمسی توانائی سے چلنے والے نظام آبپاشی کی ترویج و تنصیب نہایت خوش آئند ہے؛ اور یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ یہ ابھرتا نیلا انقلاب ملک کے تمام زرعی رقبے تک پھیل جائے گا کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔

نوٹ: درجِ بالا نظام ہائے آبپاشی کی مزید تفصیلات جاننے کےلیے محکمہ اصلاح آبپاشی کی ویب سائٹ پر کلک کیجیے نیز آپ نیچے دیئے گئے کمنٹ باکس کے ذریعے راقم الحروف سے بھی براہ راست معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ، کوشش ہوگی کہ آپ کی ہر ممکن مدد کی جائے کیونکہ یہ پلیٹ فارم تمام کسان بھائیوں کی بہتری اور معاونت کےلیے بنایا گیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |