بیاد انور احسن صدیقی ۔۔۔۔خبر اور نظر
پاکستان نے آزاد خارجہ پالیسی کا دامن اب تک نہیں تھاما۔ یہ سب ماضی کی حکومتوں کا تسلسل دکھائی دے رہا ہے۔
اتفاق کی بات ہے کہ اسی صفحے کے کالم نگار اور این ایس ایف کے سینئر ساتھی کا احباب سے تذکرہ رہا اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ آج کے اخبارات یعنی 4 اکتوبر پر دو اہم خبروں نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کروادی۔
انور احسن عام طور پر ہر ہفتے کی اہم خبر پر اپنی نظر رکھتے تھے اور ان کی کتاب خبر و نظر نے کافی شہرت حاصل کی۔ مگر آج نہ صرف ان دو خبروں نے مجھے ماضی میں کھینچ لیا بلکہ اسی طرز تحریر پر لکھنے پر مجبور کیا۔ ویسے کتنی بھی کوشش کی جائے ہر شخص کا طرز نگارش اور آہنگ جدا ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہاتھوں کی لکیریں اور آواز۔ مگر تحریر گوکہ ایک الگ شے ہے مگر ہر تحریر کا انداز اور آہنگ جدا ہوتا ہے اسی آہنگ کی بنا پر کلام پہچانا جاتا ہے۔ سو آج کے اخبار کی دو خبروں نے متوجہ کیا۔
ایک خبر تو امریکی صدر ٹرمپ کی ہے جس میں انھوں نے بڑے وثوق سے کہا ہے کہ امریکا نے سعودی حکومت کو بچا رکھا ہے ورنہ یہ حکومت دو ہفتے کی مار ہے اور بشمول ان کے اتحادیوں کے بھی نہیں چل سکتی۔ اس میں تو امریکا ہی جانتا ہے کہ اس میں کتنی سچائی ہے۔
مگر یہ بات مسٹر ٹرمپ نے سعودی عرب کے شاہ سلمان کے دورۂ روس کے بعد کہی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے۔ مسٹر پوتن اور سعودی فرمانروا کے درمیان اس ملاقات کا ذکر نہ ہی مغربی دنیا میں ہوا اور نہ مشرقی دنیا میں۔ اس موضوع پر قیاس ہی سے کام لیا جاسکتا ہے کیونکہ دونوں رہنماؤں کے مابین اگر کوئی یاد داشت سامنے آئی ہوتی تو پھر صداقت سامنے آتی۔ مگر محض سعودی فرمانروا کا ماسکو وزٹ ہی ناپسند رہا۔ حالانکہ عرب دنیا میں پانچ برس کے قریب جو قتل عام ہوا اور سعودی عرب سے اچھے تعلقات رکھنے والے ممالک جو شام کی حکومت کو گرانا چاہتے تھے اس میں امریکی ناکامی نے سعودی سلطنت کو معاشی طور پر بڑے منفی اثرات سے دوچار کیا اور جو عالمی پالیسی امریکا چاہتا تھا سعودی حکومت نے من و عن اس پر عمل کیا، اب جو بچے کچھے لوگ شام اور ترکی کے بارڈر پر رہ گئے ہیں، امریکا ان کا دفاع بھی نہیں کر پا رہا ہے جس کی وجہ سے سعودی عرب اور امریکی حکومت کے مابین بظاہر کوئی تلخی نظر نہیں آتی ہے مگر ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی عرب پر بہتان تراشی کی ہے۔
اس سے یہ منظر کشی سامنے آرہی ہے کہ سعودی امریکی تعلقات میں دونوں ممالک کی مجبوری شامل ہے۔ کیونکہ امریکا مشرق اوسط میں اپنی پسند کی پالیسی چلانا چاہتا ہے۔ جس کو بشار الاسد اور پوتن نے ناکام بنادیا ہے اور اس طرح شام کے رہنما کی حمایت میں جو ممالک بھی پس پشت تھے، ان کے مسٹر ٹرمپ سے کشیدہ تعلقات ہیں۔ اس طرح دنیا اب ایک بار پھر دو بلاکوں میں تقسیم ہوچکی ہے جس کو ہم کسی حد تک یوں بیان کرسکتے ہیں کہ ایک طرف سعودی عرب اور اس کے اتحادی ہیں جب کہ دوسری طرف کسی حد تک ترکی، قطر، لبنان، ایران اور اس کے اتحادی ہیں۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان کا جو نظریہ ہے کہ وہ سعودی عرب اور ایران تعلقات میں تلخیاں کم کرے گا، وہ کس حد تک اور کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔ یہ بھی علاقے کے مابین ایک بڑی مشکل ہے خاص طور سے بنگلہ دیش کی قائد حسینہ واجد نے جو تقریر جنرل اسمبلی میں فرمائی، اگر اس کا اس درمیان فکر و نظر کو استعمال کیا جائے تو لگتا ہے کہ انھوں نے دنیا کے سامنے پاکستان کو ایک جارح ملک قرار دیا ہے ۔
شاہ محمود قریشی جو ہمارے وزیر خارجہ ہیں ان کی راہ میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی ہے گوکہ ممکن ہے جو فساد وہ پھیلانا چاہتی تھیں کامیاب نہ ہوں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے گواپنے دورے کے دوران یہ واضح کردیا ہے کہ وہ پیسہ لینے نہیں آئے ہیں بلکہ عام رابطہ اور بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان گوکہ معاشی بحران کے قریب تر ہے چونکہ ماضی کے حکمرانوں نے ملکی زر کو اپنے مفاد میں استعمال کیا اور اس نہج پر کھڑا کردیا کہ پاکستان کو مشکلات درپیش ہیں۔ اسی اخبار میں دوسری اہم خبر ہے جس پر اپنے پیش رو کی جنبش قلم کے طرز پر نظر مقصود ہے جن کا تذکرہ کیا گیا ہے یعنی انور احسن کا، وہ خبر عالمی عدالت کے فیصلے پر ہے۔
عالمی عدالت انصاف کا جو فیصلہ آج سامنے آیا ہے وہ امریکا کے وہ فیصلے جو ایرانی عوام کے لیے تکلیف کا باعث تھے اور روز مرہ زندگی میں تلخیاں پیدا کرسکتے تھے اس سے ایران کو آزاد کردیا ہے۔ اس طرح ایران کو عالمی عدالت انصاف سے خوشحالی کا ایک نیا راستہ مل گیا ورنہ ایران ایماندار قیادت کے باوجود ملک میں معاشی صورتحال کی خرابی کی بدولت عوام میں مایوسی بڑھنے اور شورش کے امکانات بڑھ جاتے مگر اب صورتحال مختلف ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ سے ایران امریکا کے خلاف کھل کر بیانات داغ رہا ہے۔ اور خود اعتمادی میں اضافہ نظر آرہا ہے۔ کشمیرکے معاملے میں البتہ ایران کا موقف پاکستان کی حمایت پر مبنی ہے۔
گوکہ عرب ممالک میں گروہ بندی نے مشکلات پیدا کردی ہیں کہ وہ کھل کر ایران کی حمایت نہیں کرسکتا اور نہ کوئی عملی قدم ایران سے تعاون کے لیے بڑھا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ پاکستانی عوام پر گیس کا بم گرایا جاچکا ہے اور اب خبر یہ ہے کہ گیس کے دام 147 فیصد بڑھائے جاچکے ہیں لہٰذا ہر قسم کی پروڈکشن حد سے زیادہ مہنگی ہوجائے گی۔
بشمول ایکسپورٹ آئٹم جس سے برآمدات میں مزید کمی واقع ہوگی جس کی وجہ سے ڈالر کی مزید بلند سطح پر پرواز ہوگی مگر ان سب معاملات کے دباؤ کے باوجود پاکستان نے ایرانی گیس لائن سے ڈھکن نہیں اتارا گوکہ ایرانی گیس لائن بلوچستان کے بارڈر تک پہنچ چکی ہے مگر خارجہ امور میں پاکستان امریکی دباؤ میں ہے اور یہ ثابت ہوگیا عرب دنیا میں تقسیم کی صورتحال میں یہ کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا۔ پاکستان نے خارجہ امور پر جو ہوم ورک کیا تھا وہ قیاس اور منطق کی روح سے کمزور ثابت ہوا۔
گیس کا یہ دباؤ متوسط اور غریب لوگوں کو نئے پاکستان کی جو تصویر پیش کر رہا ہے وہ عوام دوست ہرگز نہیں۔ کیونکہ ملک کی کثیر آبادی مایوسی میں ہے۔ فی الحال جو خبریں آرہی ہیں اس کا تجزیہ کرنے سے مزید مشکل دن نظر آرہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان نے آزاد خارجہ پالیسی کا دامن اب تک نہیں تھاما۔ یہ سب ماضی کی حکومتوں کا تسلسل دکھائی دے رہا ہے۔