ضمنی انتخابات ووٹرز کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا
عوام نے یہ بات فراموش نہیں کی ہے کہ پی ٹی آئی نے دوسری بار علامہ اقبال ؒ کے پوتے، ولید اقبال، کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔
ہمارے ہاں روائت تو یہی رہی ہے کہ جو سیاسی جماعت بھی برسرِ اقتدار ہوتی ہے، عمومی طور پر اُسی کے اُمیدوار ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں۔کسی بھی ضمنی انتخاب میں مقتدر پارٹی کے اُمیدوار کا ہار جانا بڑی ندامت سمجھی جاتی ہے اور یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ صوبے یا مرکز میں برسرِ اقتدار پارٹی عوامی حمائت کھو بیٹھی ہے، چنانچہ کوشش یہی کی جاتی ہے کہ ضمنی انتخاب کی کامیابی حکومتی جماعت کا مقدر بنے ۔ اس کے لیے ہمارے ہاں جو طریقے بروئے کار لائے جاتے ہیں، ہم سب ان سے آگاہ ہیں۔
شائد یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات ضمنی انتخاب میں عام انتخاب کی نسبت زیادہ زور لگتا ہے۔دھن، دھونس اور دھاندلی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ہماری عدلیہ چونکہ اب خاصی آزاد، متحرک اور طاقتور ہے، اس لیے اُمید تو یہی ہے کہ 14اکتوبر کو ملک بھر میں جو ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں، چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی موجودگی میںدھن، دھونس اور دھاندلی کے روائتی اور غیر جمہوری ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
ہمارے محترم چیف جج صاحب نے اپنے فیصلوں، اقدامات اور کردار سے ملک بھر میں کچھ ایسی مستحسن فضا قائم کی ہے کہ ضمنی انتخابات میں اُمیدواروں کی غیر جمہوری منہ زوری راہ نہیں پا سکے گی۔دو دن بعد تین درجن قومی وصوبائی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا میدان سجنے والا ہے۔ کئی حلقوں میں بعض ایسے پہلوان اُمیدوار بھی دوبارہ انتخاب لڑنے نکلے ہیں جو 25جولائی کے عام انتخابات میں شکست کھا گئے تھے۔ اب پھر قسمت آزمائی کے لیے عوام کے سامنے حاضر ہو رہے ہیں۔
ایسے اُمیدوارپی ٹی آئی میں بھی ہیں اور نون لیگ میں بھی ۔ پنجاب اورمرکز میں حکومت سازی کے لیے پی ٹی آئی کو کئی اتحادیوں کی بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑا تھا۔ یہ بیساکھیاں عمران خان حکومت کی مستقل کمزوری ہے۔ کسی بھی وقت، کوئی بھی ناگہانی صورت کسی ایک بیساکھی کے ٹوٹنے کا سبب بن سکتی ہے۔ پھر جو نتیجہ نکلے گا، سب جانتے ہیں۔ بیساکھیوں کو ممکنہ طور پر شکست وریخت سے بچانے کے لیے خان صاحب کو وزرا کی ایک فوج ''بھرتی'' کرنا پڑی ہے۔ تقریباً ہر اتحادی کو وزارت دے کر اکاموڈیٹ کر لیا گیا ہے۔
عوام حیران ہیں کہ خزانہ خالی ہے اور وزرا کی فوج کے اخراجات کہاں سے اور کیونکر پورے ہو سکیں گے؟ وزیر اعظم جناب عمران خان بھی اُس ٹھُمنے یا تھمّی کی طاقت سے آگاہ ہیں جس نے بیساکھی بن کر اُن کی حکومت کو سہارا دے رکھا ہے؛ چنانچہ گریٹ خان لامحالہ یہی چاہیں گے کہ 14اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میںاُن کی پارٹی کے اُمیدوار جیت سے ہمکنار ہوں ۔ یہ جیت انھیں پارلیمنٹ میں بڑے بڑے مسائل سے نجات دینے کا موجب بن جائے گی۔ پھر کوئی ایک آدھ بیساکھی ٹوٹ بھی جائے تو انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہ پچھلے دو ہفتوں کے دوران باقاعدہ لاہور بھی تشریف لاتے رہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سمیت صوبائی وزیروں کے ساتھ بھرپور میٹنگیں بھی کرتے رہے۔ مقصد فقط یہی تھا کہ صوبائی کابینہ کو مہمیز دے سکیں کہ ضمنی انتخابات میں پیٹھ نہیں لگنی دینی ہے۔
کہنا پڑے گا کہ 25جولائی کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو جو برتری ملی، اس میں خان صاحب کے تحرک اور جدوجہد کو اساسی مقام حاصل تھا۔ الیکٹیبلزنے بھی انھیں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا ہے لیکن عمران خان کی ذات اور شخصیت کو انتخابات میں جوہری حیثیت حاصل رہی۔ عوام نے بھی محبت اور اپنائیت کا اظہار کیا۔ ایک کروڑ68لاکھ ووٹ لینا پی ٹی آئی کے لیے آسان نہیں تھا۔اور اب عمران خان اور اُن کی پارٹی ضمنی انتخابات میں ایک بار پھر عوام کے سامنے ہیں۔
کپتان کی حکومت بنے تقریباً دو ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔ ان دو مہینوں کے دوران انھوں نے عوام کی بہبود اور بہتری کے لیے جو فیصلے کیے اور جو قدم اُٹھائے ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں۔ دیکھا جائے تو کسی بھی حکومت کے لیے ابتدائی ساٹھ دن کوئی اہمیت نہیں رکھتے لیکن فی الحقیقت اِنہی ساٹھ ایام کے دوران حکومت کی نیت، شہرت ، عزائم اور جہت عیاں ہو جاتی ہے۔ حکومتی خدوخال ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ ان گزرے دو مہینوں کے دوران خان صاحب کی حکومت کے پاؤں زمین پر نہیں لگ سکے ہیں۔
حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈہ اتنا قوی رہا ہے کہ دباؤ میں آ کر پی ٹی آئی حکومت کو اپنے کئی فیصلوں کی نفی کرتے ہُوئے کئی بار یو ٹرن لینا پڑا ہے۔ اس کی وجہ سے خان حکومت کی نیک نامی اور استحکام کو زک پہنچی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے بارے ایک منفی تاثر اُبھرا ہے۔ جو آدرش اور توقعات وابستہ کی گئی تھیں، انھیں دھچکا لگا ہے۔ وزیر اعظم عمران نے عوام سے کارکردگی دکھانے کے لیے100دن مانگے تھے لیکن عوامی مسائل اتنے گمبھیر ہو گئے ہیں کہ عوام یہ مانگ پوری کرنے پر تیار ہی نظر نہیں آئے۔ عوامی مسائل ناقابلِ برداشت ہو کر دراصل مصائب بن گئے ہیں۔ اور یہ روز افزوں ہیں۔ہر بندہ شاکی بن گیا ہے۔عوام اگر توقعات پوری نہ ہونے پر حکومت سے ناراض ہُوئے ہیں تو اس میں عوام کا کوئی قصور نہیں ہے۔
خان صاحب نے بذاتِ خود ایسے دعوے کیے تھے کہ عوامی توقعات کے پہاڑ ہمالہ بن گئے ۔ اب وہ حکمران بنے ہیں تو ان ساٹھ دنوں میں عوامی توقعات کی رائی بھی پوری نہیں ہو سکی ہے۔تاثر نمایاں ہُوا ہے کہ نَومنتخب حکمرانوں کے پاس کوئی پروگرام ہے نہ جہت، کوئی پالیسی ہے نہ سوچ ، کوئی منصوبہ بندی ہے نہ وسعتِ فکر۔سفارتی سطح پر بھارت، فرانس اور امریکا کے حوالے سے جو غلطیاں کی گئی ہیں ، اس نے مایوسی کو دوچند کر دیا ہے۔منی بجٹ نے عوام پر نیا بم گرایا ہے۔
وزیر خزانہ نے گیس، بجلی ، سی این جی، گاڑیوں کے چالان وغیرہ کے نرخ جس بے محابہ انداز میں بڑھائے ہیں، عوام کی جھکی کمر مزید جھک گئی ہے۔ خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہُوا ہے۔روپے کی قیمت کم اور ڈالر کی قیمت بے تحاشہ بڑھی ہے ۔ ابھی آئی ایم ایف سے دس ارب ڈالر کا قرض لینے کی صورت میں مہنگائی کا ایک اور ریلا آنے والا ہے۔ خان صاحب سے لگائی گئی محبتیں بھک سے ہوا میں اُڑ جائیں گی۔
عوام ریلیف چاہتے ہیں۔ خان صاحب نواز شریف کی مخالفت میں عوام کو بڑے بڑے ریلیف دینے کے دلاسے دیتے رہے ہیں۔ عوام یہ رونا سننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ خزانہ خالی ہے ، ریلیف کہاں سے دیں؟ عوام کہتے ہیں کہ خزانہ خالی تھا تو کس نے کپتان کو حکومتی تخت پر بیٹھنے پر مجبور کیا تھا؟مجموعی طور پر ملک پر ایک گمبھیر اور مایوس کن فضا کا غلبہ ہے۔ اور یہ خان حکومت کی بدقسمتی ہے۔ اِن کشیدہ حالات میں ضمنی انتخابات ہورہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کس کارکردگی کی بنیاد پر عوام پھر سے پی ٹی آئی کو ووٹ دیں؟
مزید کمر تڑوانے کے لیے؟عوام آخر پی ٹی آئی کے اُمیدوار کے مقابلے میں نون لیگ کے شاہد خاقان عباسی کو ووٹ کیوں نہ دیں؟ پہلے جناب نواز شریف کو 25جولائی کے عام انتخابات سے پہلے جیل میں ڈالا گیا تھا اور اب ضمنی انتخابات سے عین چند دن پہلے میاں شہباز شریف کو دھر لیا گیا ہے۔ ان دونوں واقعات نے خان صاحب کی حکومت بارے کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑا ہے۔ نون لیگ سے ہمدردی کے جذبات میں اضافہ ہُوا ہے اور یہ جذبات ضمنی انتخابات میں نون لیگ کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔
لوگ بجا طور پر کہتے ہیں کہ آخر ہم (لاہور میں)خواجہ سعد رفیق کے مقابلے میں ہمایوں اختر خان کو کیوں ووٹ دیں؟عوام نے یہ بات فراموش نہیں کی ہے کہ پی ٹی آئی نے دوسری بار علامہ اقبال ؒ کے پوتے ، ولید اقبال، کو ٹکٹ نہیں دیا ہے، محض اس لیے کہ ولید اقبال، کے پاس روپوں کے ڈھیر نہیں ہیں۔ یوں خصوصاً لاہور کے ضمنی انتخابات میں بھلا ووٹرز پی ٹی آئی کی طرف کیوں جائیں گے؟