جادو اور اس کی حقیقت
مضبوط قوت ارادی کے لوگ، عامل اور رجال کی شکلوں میں آج بت خانہ میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں۔
لغت کے لحاظ سے ہر اس چیز کو سحر کہتے ہیں جس کا سبب پوشیدہ ہو اس کا ماخذ سحر ہے جس کے معنی ''پھیپھڑا'' ہے جو ایک اندرونی عضو ہے اور اپنی لطیف اور نازک بناوٹ کے لحاظ سے حیرت انگیز بھی۔ سحر کے متعلق علما سلف و خلف میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام راغبؒ اصفہانی لکھتے ہیں۔ سحر کا اطلاق چند معانی پرکیا جاتا ہے۔ (1) دھوکہ اور تخیلات جن کی کوئی اصل و حقیقت نہیں ہوتی۔ جیساکہ شعبدہ باز لوگوں کی نگاہوں سے بچا کر ہاتھ کی صفائی دکھاتے ہیں۔
علامہ رشید رضاؒ مصری لکھتے ہیں۔ سحرکی تین اقسام ہیں۔ (1)اسباب طبیعیہ کے ذریعے مادہ کے مخفی خواص سے واقف لوگ، ناواقفوں کو جو کرتب دکھاتے ہیں ۔ (2)شعبدہ بازی جس میں مہارت کا دارومدار ہاتھ کی صفائی پر ہوتا ہے کہ ایک چیز کو جلدی سے چھپا کر دوسری چیز دکھا دیتے ہیں یا اسی چیز کو صورت بدل کر پیش کردیتے ہیں۔ یہ شعبدہ بازی ہے جادو نہیں ۔ جدید اصطلاح میں ہپناٹزم اور مسمریزم کہتے ہیں یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں ارواح، شیاطین سے مدد لی جاتی ہے۔
امام بخاریؒ نے ترجمہ الباب میں تمام ان آیات کو جمع کردیا ہے جو سحر پر صراحۃً یا اشارۃً دال ہیں۔ آپ نے نفاثات کا ترجمہ سواحر (جادوگرنیاں) کیا ہے۔ پھر اس حدیث کو ذکر کیا ہے جس میں رسول اکرمؐ پر جادو کرنے کا ذکر ہے۔ علامہ انور شاہ کاشمیریؒ اس حدیث پر گفتگو کہتے ہیں۔ سحر میں یہ تاثیر ہے کہ وہ صحت کو مرض سے اور مرض کو صحت سے بدل دیتا ہے اور وہ جو بعض اوقات ساحروں کے عمل میں قلب ماہیت محسوس ہوتی ہے۔ تو وہ خیال بندی کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ اور ساحران فرعون کے تذکرے میں فرمایا ہے ''موسیٰؑ کو ان کے جادو کے زور سے ایسا خیال ہوتا تھا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں چل رہی ہیں '' (طٰہٰ۔66)تو درحقیقت رسیاں سانپ نہیں بن گئی تھیں بلکہ موسیٰ علیہ السلام کو ایسا خیال ہونے لگا تھا۔ امام ابو حنیفہ سحر کو محض خیال بندی کہتے تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ امام صاحب کو سحر کی تاثیر سے انکار ہے بلکہ وہ قلب ماہیت کی تاثیر کے منکر ہیں ۔
سحر محض خیال بندی ہے جب کہ معجزہ میں خیال بندی بالکل نہیں ہوتی بلکہ اصل حقیقت ہوتی ہے اور واقعی انقلاب ماہیت ہوجاتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں عصائے موسیٰ کے متعلق ارشاد فرمایا گیا ''جو کچھ ساحروں نے بنایا تھا اسے نگلنے لگا۔''(الشعرا۔ 45)
یعنی فی الحقیقت اژدھا بن گئی اور وہ کام کرنے لگا جو اژدھے کرتے ہیں۔
معجزہ اور جادو میں یہ فرق ہے کہ معجزات سراسر حقیقت ہوتے ہیں ان کا ظاہر اور باطن یکساں ہوتا ہے۔ جس قدر ان کو نگاہ غائر سے دیکھا جاتا ہے ان کی حقیقت اور اصلیت نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے اور اگر ساری مخلوق بھی ان کے مقابلے کی کوشش کرے تو یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی ، برخلاف اس کے جادو عجوبہ آفرینیاں، حیلہ گری اور چابک دستی سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔
سورۂ بقرہ آیت 102 میں بیان کیا گیا ہے کہ بابل میں ہاروت اور ماروت سے لوگ ایسا جادو سیکھتے تھے جو شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دے۔ یہ بھی ایک نفسیاتی اثر تھا اور اگر تجربے سے لوگوں کو اس عمل کی کامیابی نہ ہوتی تو وہ اس کے خریدار نہ بنتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ابلیس اپنے مرکز سے زمین کے ہر گوشے میں اپنے ایجنٹ روانہ کرتا ہے۔ پھر وہ ایجنٹ واپس آکر اپنی اپنی کارروائیاں سناتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے میں نے فلاں فتنہ برپا کیا۔ کوئی کہتا ہے میں نے فلاں شر کھڑا کیا۔ مگر ابلیس ہر ایک سے کہتا جاتا ہے کہ تو نے کچھ نہ کیا۔ پھر ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ایک بیوی اور اس کے شوہر میں جدائی ڈال آیا ہوں۔ یہ سن کر ابلیس اس کو گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو کام کرکے آیا ہے۔
بلاشبہ یہ بات درست ہے کہ جادو کا موثر ہونا بھی اللہ کے اذن کے بغیر ممکن نہیں ہے، مگر جو چیز ہزارہا سال سے انسان کے تجربے اور مشاہدے میں آرہی ہو اس کے وجود کو جھٹلانا محض تجاہل عارفانہ ہے۔ گوکہ جادو کی کوئی سائنسی توجیہہ نہیں کی جاسکتی لیکن دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو تجربے اور مشاہدے میں آتی ہیں مگر سائنس ان کے متعلق خاموش ہے۔ جادو کے ذریعے دوسرے شخص پر برا اثر ڈالنے کے لیے شیاطین یا ارواح خبیثہ یا ستاروں کی مدد مانگی جاتی ہے۔ اس لیے قرآن میں اسے کفرکہا گیا ہے۔
جبت، جادو ہی کی ایک شکل ہے۔ جبت کے اصلی معنی بے حقیقت، بے اصل اور بے فائدہ چیز کے ہیں۔ اسلام کی زبان میں جادو، کہانت (جوتش) فال گیری، ٹونے ٹوٹکے، شگون اور مہورت (علم نجوم کے مطابق کسی کام کے کرنے کا مبارک وقت) اور تمام دوسری وہمی و خیالی باتوں کو ''جبت'' سے تعبیر کیا گیا ہے ، چنانچہ حدیث میں آیا ہے ''جانوروں کی آوازوں سے فال لینا، زمین پر جانوروں کے نشانات قدم سے شگون لینا اور فال گیری کے دوسرے طریقے سب ''جبت'' کے قبیل سے ہیں۔
پس جبت کا مفہوم وہی ہے جسے ہم اردو زبان میں اوہام کہتے ہیں۔ ایام جاہلیت، سرتا پا، شیطنت کی پنجہ قدرت میں تھی۔ شراب اور جوا کی طرح ازلام بھی گندے شیطانی کام ہیں۔ ازلام فال گیری اور قرعہ اندازی کی اس صورت کو کہتے ہیں جو مشرکانہ عقائد اور اوہام سے آلودہ ہو۔ قرآن میں ارشاد ہے ''یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو( المآہدہ۔3) ازلام میں مشرکانہ فال گیری اور توہم پرستانہ فال گیری دونوں شامل ہیں اول الذکر کے ذریعے کسی دیوی یا دیوتا سے قسمت کا فیصلہ پوچھا جاتا ہے یا غیب کی خبر دریافت کی جاتی ہے۔ توہم پرستانہ فال گیری کے ذریعے زندگی کے معاملات یا قسمت کا حال ایسے ذرایع سے معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کا وسیلہ غیب ہونا کسی علمی طریق سے ثابت نہیں ہے۔ رمل، نجوم، جعفر، مختلف قسم کے شگون اور طریقے اس صنف میں شامل ہیں۔ چاند کے متعلق طرح طرح کے اوہام و تخیلات اور رسوم اہل عرب میں موجود تھے۔ چاند سے اچھے یا برے شگون لینا، بعض تاریخوں کو سعد اور بعض کو نجس سمجھنا، کسی تاریخ کو سفر کے لیے اور کسی کام کو شروع کرنے کے لیے اور کسی شادی بیاہ کے لیے منحوس یا مسعود خیال کرنا اور یہ سمجھنا کہ چاند کے طلوع و غروب اور اس کی کمی و بیشی اور اس کی حرکت اور اس کے گہن کا کوئی اثر انسانی قسمتوں پر پڑتا ہے پرلے درجے کی حماقت اور جہالت ہے۔ حق بات رائی کے برابر ہوتی ہے اور باطل اس کا پہاڑ بناکر پیش کرتا ہے:
ہیں کواکب کچھ' نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیںدھوکہ یہ بازی گر کھلا
مضبوط قوت ارادی کے لوگ، عامل اور رجال کی شکلوں میں آج بت خانہ میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں۔ ضعیف قوت ارادی کے لوگ ان کا شکار بن جاتے ہیں۔ ان کی وضع قطع، انداز گفتگو، جگہ کی سجاوٹ بناوٹ، تقدس اور معطر فضا کا پریشان انسان پر نفسیاتی اثر پڑتا ہے۔ سب کچھ لٹانے کو تیار ہیں لیکن ان کی چوکھٹ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ سب کچھ لٹانے کے ہوش میں آنے کا کیا فائدہ؟ جنات اور شیاطین ناقابل تردید حقیقت ہیں۔ ان کے شرور بھی اپنی جگہ مبنی بر حقائق ہیں۔ وہ انسانوں کو مختلف اعتبار سے پریشان کرتے ہیں۔ ان کے شر سے بچنے کے لیے صرف اور صرف کلام الٰہی کی ضرورت ہے۔ کلام ربانی میں محنت، ریاضت اور مہارت کافی و شافی ہے۔
علامہ رشید رضاؒ مصری لکھتے ہیں۔ سحرکی تین اقسام ہیں۔ (1)اسباب طبیعیہ کے ذریعے مادہ کے مخفی خواص سے واقف لوگ، ناواقفوں کو جو کرتب دکھاتے ہیں ۔ (2)شعبدہ بازی جس میں مہارت کا دارومدار ہاتھ کی صفائی پر ہوتا ہے کہ ایک چیز کو جلدی سے چھپا کر دوسری چیز دکھا دیتے ہیں یا اسی چیز کو صورت بدل کر پیش کردیتے ہیں۔ یہ شعبدہ بازی ہے جادو نہیں ۔ جدید اصطلاح میں ہپناٹزم اور مسمریزم کہتے ہیں یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں ارواح، شیاطین سے مدد لی جاتی ہے۔
امام بخاریؒ نے ترجمہ الباب میں تمام ان آیات کو جمع کردیا ہے جو سحر پر صراحۃً یا اشارۃً دال ہیں۔ آپ نے نفاثات کا ترجمہ سواحر (جادوگرنیاں) کیا ہے۔ پھر اس حدیث کو ذکر کیا ہے جس میں رسول اکرمؐ پر جادو کرنے کا ذکر ہے۔ علامہ انور شاہ کاشمیریؒ اس حدیث پر گفتگو کہتے ہیں۔ سحر میں یہ تاثیر ہے کہ وہ صحت کو مرض سے اور مرض کو صحت سے بدل دیتا ہے اور وہ جو بعض اوقات ساحروں کے عمل میں قلب ماہیت محسوس ہوتی ہے۔ تو وہ خیال بندی کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ اور ساحران فرعون کے تذکرے میں فرمایا ہے ''موسیٰؑ کو ان کے جادو کے زور سے ایسا خیال ہوتا تھا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں چل رہی ہیں '' (طٰہٰ۔66)تو درحقیقت رسیاں سانپ نہیں بن گئی تھیں بلکہ موسیٰ علیہ السلام کو ایسا خیال ہونے لگا تھا۔ امام ابو حنیفہ سحر کو محض خیال بندی کہتے تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ امام صاحب کو سحر کی تاثیر سے انکار ہے بلکہ وہ قلب ماہیت کی تاثیر کے منکر ہیں ۔
سحر محض خیال بندی ہے جب کہ معجزہ میں خیال بندی بالکل نہیں ہوتی بلکہ اصل حقیقت ہوتی ہے اور واقعی انقلاب ماہیت ہوجاتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں عصائے موسیٰ کے متعلق ارشاد فرمایا گیا ''جو کچھ ساحروں نے بنایا تھا اسے نگلنے لگا۔''(الشعرا۔ 45)
یعنی فی الحقیقت اژدھا بن گئی اور وہ کام کرنے لگا جو اژدھے کرتے ہیں۔
معجزہ اور جادو میں یہ فرق ہے کہ معجزات سراسر حقیقت ہوتے ہیں ان کا ظاہر اور باطن یکساں ہوتا ہے۔ جس قدر ان کو نگاہ غائر سے دیکھا جاتا ہے ان کی حقیقت اور اصلیت نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے اور اگر ساری مخلوق بھی ان کے مقابلے کی کوشش کرے تو یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی ، برخلاف اس کے جادو عجوبہ آفرینیاں، حیلہ گری اور چابک دستی سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔
سورۂ بقرہ آیت 102 میں بیان کیا گیا ہے کہ بابل میں ہاروت اور ماروت سے لوگ ایسا جادو سیکھتے تھے جو شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دے۔ یہ بھی ایک نفسیاتی اثر تھا اور اگر تجربے سے لوگوں کو اس عمل کی کامیابی نہ ہوتی تو وہ اس کے خریدار نہ بنتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ابلیس اپنے مرکز سے زمین کے ہر گوشے میں اپنے ایجنٹ روانہ کرتا ہے۔ پھر وہ ایجنٹ واپس آکر اپنی اپنی کارروائیاں سناتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے میں نے فلاں فتنہ برپا کیا۔ کوئی کہتا ہے میں نے فلاں شر کھڑا کیا۔ مگر ابلیس ہر ایک سے کہتا جاتا ہے کہ تو نے کچھ نہ کیا۔ پھر ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ایک بیوی اور اس کے شوہر میں جدائی ڈال آیا ہوں۔ یہ سن کر ابلیس اس کو گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو کام کرکے آیا ہے۔
بلاشبہ یہ بات درست ہے کہ جادو کا موثر ہونا بھی اللہ کے اذن کے بغیر ممکن نہیں ہے، مگر جو چیز ہزارہا سال سے انسان کے تجربے اور مشاہدے میں آرہی ہو اس کے وجود کو جھٹلانا محض تجاہل عارفانہ ہے۔ گوکہ جادو کی کوئی سائنسی توجیہہ نہیں کی جاسکتی لیکن دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو تجربے اور مشاہدے میں آتی ہیں مگر سائنس ان کے متعلق خاموش ہے۔ جادو کے ذریعے دوسرے شخص پر برا اثر ڈالنے کے لیے شیاطین یا ارواح خبیثہ یا ستاروں کی مدد مانگی جاتی ہے۔ اس لیے قرآن میں اسے کفرکہا گیا ہے۔
جبت، جادو ہی کی ایک شکل ہے۔ جبت کے اصلی معنی بے حقیقت، بے اصل اور بے فائدہ چیز کے ہیں۔ اسلام کی زبان میں جادو، کہانت (جوتش) فال گیری، ٹونے ٹوٹکے، شگون اور مہورت (علم نجوم کے مطابق کسی کام کے کرنے کا مبارک وقت) اور تمام دوسری وہمی و خیالی باتوں کو ''جبت'' سے تعبیر کیا گیا ہے ، چنانچہ حدیث میں آیا ہے ''جانوروں کی آوازوں سے فال لینا، زمین پر جانوروں کے نشانات قدم سے شگون لینا اور فال گیری کے دوسرے طریقے سب ''جبت'' کے قبیل سے ہیں۔
پس جبت کا مفہوم وہی ہے جسے ہم اردو زبان میں اوہام کہتے ہیں۔ ایام جاہلیت، سرتا پا، شیطنت کی پنجہ قدرت میں تھی۔ شراب اور جوا کی طرح ازلام بھی گندے شیطانی کام ہیں۔ ازلام فال گیری اور قرعہ اندازی کی اس صورت کو کہتے ہیں جو مشرکانہ عقائد اور اوہام سے آلودہ ہو۔ قرآن میں ارشاد ہے ''یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعے سے اپنی قسمت معلوم کرو( المآہدہ۔3) ازلام میں مشرکانہ فال گیری اور توہم پرستانہ فال گیری دونوں شامل ہیں اول الذکر کے ذریعے کسی دیوی یا دیوتا سے قسمت کا فیصلہ پوچھا جاتا ہے یا غیب کی خبر دریافت کی جاتی ہے۔ توہم پرستانہ فال گیری کے ذریعے زندگی کے معاملات یا قسمت کا حال ایسے ذرایع سے معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کا وسیلہ غیب ہونا کسی علمی طریق سے ثابت نہیں ہے۔ رمل، نجوم، جعفر، مختلف قسم کے شگون اور طریقے اس صنف میں شامل ہیں۔ چاند کے متعلق طرح طرح کے اوہام و تخیلات اور رسوم اہل عرب میں موجود تھے۔ چاند سے اچھے یا برے شگون لینا، بعض تاریخوں کو سعد اور بعض کو نجس سمجھنا، کسی تاریخ کو سفر کے لیے اور کسی کام کو شروع کرنے کے لیے اور کسی شادی بیاہ کے لیے منحوس یا مسعود خیال کرنا اور یہ سمجھنا کہ چاند کے طلوع و غروب اور اس کی کمی و بیشی اور اس کی حرکت اور اس کے گہن کا کوئی اثر انسانی قسمتوں پر پڑتا ہے پرلے درجے کی حماقت اور جہالت ہے۔ حق بات رائی کے برابر ہوتی ہے اور باطل اس کا پہاڑ بناکر پیش کرتا ہے:
ہیں کواکب کچھ' نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیںدھوکہ یہ بازی گر کھلا
مضبوط قوت ارادی کے لوگ، عامل اور رجال کی شکلوں میں آج بت خانہ میں بھگوان بنے بیٹھے ہیں۔ ضعیف قوت ارادی کے لوگ ان کا شکار بن جاتے ہیں۔ ان کی وضع قطع، انداز گفتگو، جگہ کی سجاوٹ بناوٹ، تقدس اور معطر فضا کا پریشان انسان پر نفسیاتی اثر پڑتا ہے۔ سب کچھ لٹانے کو تیار ہیں لیکن ان کی چوکھٹ چھوڑنے کو تیار نہیں۔ سب کچھ لٹانے کے ہوش میں آنے کا کیا فائدہ؟ جنات اور شیاطین ناقابل تردید حقیقت ہیں۔ ان کے شرور بھی اپنی جگہ مبنی بر حقائق ہیں۔ وہ انسانوں کو مختلف اعتبار سے پریشان کرتے ہیں۔ ان کے شر سے بچنے کے لیے صرف اور صرف کلام الٰہی کی ضرورت ہے۔ کلام ربانی میں محنت، ریاضت اور مہارت کافی و شافی ہے۔