حجِ مقبول کی نشانیاں

حج کا اصل مقصد یہ ہے کہ حاجی کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کا تقرب پیدا ہوجائے۔


اگر حج شرعی طریقے کے مطابق ادا کیا جائے تو وہ ادا تو ہوجاتا، لیکن کیا مقبول بھی ہوتا ہے؟ فوٹو: فائل

SAN FRANCISCO: اسلام کی تمام عبادات نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ عظیم الشان اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں اور جس طرح دیگر عبادات کے انوار و برکات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ایک عبادت سے دوسری عبادت کی کمی پوری نہیں ہوسکتی، اسی طرح حج کے بھی انوار و برکات دوسری تمام عبادات سے یک سر مختلف ہیں اور اس کی بھی ضرورت اور کمی دوسری کسی عبادت سے پوری نہیں ہوسکتی، بل کہ اس کے انوار و برکات کو حاصل کرنے کے لیے تو بیت اللہ شریف جاکر حاضری دینا اس کی اوّلین شرط ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک انسان خود حج کرنے نہ جائے، محض حج کے فوائد و ثمرات سننے سے وہ اس کو کماحقہ سمجھ ہی نہیں سکتا۔ انسان جب خود حج کرنے جاتا ہے، تب اسے اس کے حقیقی منافع ا و ر اس کی برکات سمجھ میں آنے لگتی ہیں اور پھر اس کا دل گواہی دیتا ہے کہ اس کے اندر انقلاب آرہا ہے، اس کے کردار میں تبدیلی آرہی ہے، اس کی سوچ تبدیل ہورہی ہے، اس کے جذبات بدل رہے ہیں۔ چناں چہ بیت اللہ شریف جاکر انسان خود محسوس کرنے لگتا ہے کہ میں وہ نہیں ہوں جو اپنے وطن میں تھا، بل کہ یہاں آکر میں کچھ اور ہوگیا ہوں، یہ سب حج بیت اللہ کے حیرت انگیز اثرات کا نتیجہ ہیں۔

دُنیا میں اس وقت بھی سات بڑے عجائبات مشہور ہیں، لیکن ان سب کا حال یہ ہے کہ انسان اگر ان کو پانچ، دس مرتبہ بھی دیکھ لے تو ان سے اس کا جی بھر جاتا ہے اور مزید انہیں دیکھنے کا دل نہیں کرتا، لیکن ایک بیت اللہ شریف دُنیا میں ایسی مقناطیسی عمارت ہے کہ جس کو دیکھتے ہی انسان کا دل اس کی طرف کھنچا چلاتا ہے اور وہ انسان کے دل کو موہ لیتا ہے اور اس کو دیکھتے دیکھتے انسان کی آنکھیں سیر ہی نہیں ہوتیں۔

بہ ہر حال ایک ہے حج کا قبول ہونا اور ایک ہے حج کا ادا ہونا، یہ دونوں الگ باتیں ہیں۔ حج ادا تو اُسی وقت ہوجاتا ہے جب آدمی اس کے تمام اعمال و آداب قاعدے کے مطابق ادا کرلے۔ حج کے دو ہی رکن ہیں : ایک وقوف عرفہ اور دوسرے طواف زیارت۔ باقی کچھ واجبات ہیں، کچھ شرائط ہیں اور کچھ سنن و مستحبات ہیں۔ لہٰذا اگر حج شرعی طریقہ کار کے مطابق ادا کیا جائے تو وہ ادا تو ہوجاتا، لیکن کیا مقبول بھی ہوتا ہے؟

علمائے کرام نے حجِ مقبول کی چند علامتیں لکھی ہیں:

پہلی علامت جو حدیث شریف میں آئی ہے وہ یہ ہے: '' جن لوگوں کا حج قبول ہوجاتا ہے اُن کی کنکریاں اُٹھالی جاتی ہیں اور جو کنکریاں پڑی رہ جاتی ہیں یہ اُن لوگوں کی ہوتی ہیں جن کا حج مقبول نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے علماء نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ وہاں کی کنکریاں اُٹھا کر رمی نہ کی جائے کیوں کہ یہ اُن لوگوں کی کنکریاں ہوتی ہیں جن کا حج مقبول نہیں ہوتا۔''

دوسری علامت یہ ہے: '' حج سے واپس آنے کے بعد آدمی کے اعمال میں بہتری پیدا ہوجائے، اس لیے کہ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ نیکی کے فوراً قبول ہونے کی علامت یہ ہے کہ اُس کے بعد آدمی کو دوسری نیکی کی توفیق مل جاتی ہے، اس لیے ہر آدمی کو اس بات کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ فرائض و واجبات کی ادائی میں پہلے وہ جتنا اہتمام کرتا تھا اب اس سے زیادہ کرنے لگا ہے یا نہیں ؟ گناہوں سے بچنے کی پہلی جتنی کوشش کرتا تھا، اب اس سے زیادہ کرنے لگا ہے یا نہیں؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا حج اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوگیا ہے، اور اگر جواب نفی میں ہے تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ حج قبول نہیں ہوا۔

تیسری علامت یہ ہے کہ وہاں کی محبت اور عقیدت اس قدر دل میں رچ بس جائے کہ گویا آدمی اپنا دل ہی وہاں چھوڑ کر آجائے اور بار بار وہاں جانے کا شوق اس کے دل کے آنگن میں انگڑائیاں لینا شروع کردے ۔

اس میں شک نہیں کہ آدمی جب حج پر جاتا ہے تو اس کے ماحول کے نورانی اثرات و برکات اس پر لازمی پڑتے ہیں، اس لیے حاجی کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر دیکھے کہ وہاں کے ماحول کے نورانی اثرات ابھی تک اس پر موجود ہیں یا نہیں؟ اگر موجود ہیں تو اُن کے ماند پڑجانے سے پہلے ان کی حفاظت کرے، اس لیے کہ ہمارا معاشرہ اور ماحول ہر قسم کے گناہوں سے بھرا ہوا ہے، ہر جگہ دعوت گناہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ گناہ کی دعوت، نگاہ کو گناہوں سے بچانا آسان نہیں، کانوں کو گناہوں سے بچانا آسان نہیں ، کہیں غیبت، جھوٹ اور گالیاں زبان سے نکل جاتی ہیں، اسی طرح پیٹ کو حرام مال سے بچانا آسان نہیں، کہیں رشوت ہے تو کہیں تو سود، کہیں ناجائز ملازمتیں ہیں تو کہیں ناجائز ذرائع آمدن۔

حج کو بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی علماء نے لکھا ہے: '' حاجی کو چاہیے کہ وہ اپنا رُوحانی تعلق کسی اللہ والے کے ساتھ قائم کرلے۔

بہ ہر حال یہ انسان کی ایک فطرت ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول اور معاشرے سے ضرور متاثر ہوتا ہے۔

حج کا اصل مقصد یہ ہے کہ حاجی کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کا تقرب پیدا ہوجائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اُن سے عقیدت پیدا ہوجائے، اور نیک اعمال کی طرف رغبت اور گناہوں سے نفرت اُس کے دل میں جگہ کرجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں