مہاتیر محمد نے کیا کہا
جنرل اسمبلی کے ہال نے پچھلے بہتر برس میں ہر قابلِ ذکر عالمی رہنما کو دیکھا اور سنا ہے۔
SAN FRANCISCO:
ہر برس ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ایک طویل اجلاس منعقد ہوتا ہے جہاں کچھ تقاریر اس متغیر دنیا پر کچھ دیر کے لیے اثر چھوڑ جاتی ہیں۔جنرل اسمبلی کے ہال نے پچھلے بہتر برس میں ہر قابلِ ذکر عالمی رہنما کو دیکھا اور سنا ہے۔اس برس اگر میں کوئی ایک تقریر نکالوں تو وہ عصرِ حاضر کے سب سے معمر مدبر ملائشیا کے وزیرِ اعظم مہاتیر محمد کا دنیا سے خطاب ہے۔
میڈم aسپیکر !
یہاں میں نے آخری بار دو ہزار تین میں خطاب کرتے ہوئے اس دکھ کا اظہار کیا تھاکہ دنیا اپنے خواب بھلاتی جا رہی ہے اور چھوٹے ملک طاقتور ممالک کے رحم و کرم پر ہیں۔میں نے ترقی پذیر ممالک میں ایسی اصلاحات کی وکالت کی تھی جن کے نتیجے میں ان کی آبادی کی صلاحیتیں ابھاری جا سکیں اور استعمال بھی ہوں تاکہ ان کی معیشت یک رخی کے بجائے کثیر سمتی بن سکے یوں وہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کے قابل ہو سکیں۔
لیکن آج پندرہ برس بعد دنیا پہلے سے زیادہ ابتر دکھائی دے رہی ہے۔ایک عالمی اقتصادی، سماجی و سیاسی بحران ہے۔دو بڑے ممالک (امریکا اور چین) کی تجارتی جنگ سے باقی دنیا اذیت میں ہے۔پر اس سے بھی سنگین بحران سیاسی ہے۔خود کش بمبار پھٹ رہے ہیں ، سیاحوں کے ہجوم پر گاڑیاں چڑھائی جا رہی ہیں ، لوگوں کے سر تن سے جدا کیے جا رہے ہیں۔پناہ کی تلاش میں سرگرداں لاکھوں لوگوں پر دروازے بند کیے جا رہے ہیں، کئی تو کھلے میں سردی سے ٹھٹھر کے مر جاتے ہیں یا وبائی امراض کا نشانہ بن رہے ہیں۔غرض کوئی ملک کوئی انسان محفوظ نہیں۔
ذرا سے شک پر کہیں بھی پوچھ گچھ اور حراست ممکن ہے۔ہر طرح کے حفاظتی اقدامات ، ٹیکنالوجی ، کیمروں اور دیگر آلات کے بے تحاشا استعمال کے باوجود دہشت گردی قابو میں نہیں آ رہی کیونکہ اس کی بنیادی وجوہات کے خاتمے اور دل و دماغ جیتنے میں دلچسپی بہت کم ہے۔
انیس سو اڑتالیس میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے فلسطینی زمین پر قبضہ ہوا ، قتلِ عام ہوا ، گھروں اور کھیتوں پر قبضہ ہوا اور ایک پوری آبادی کو سرزمین سے نکال دیا گیا۔ مزید اراضی ہتھیائی گئی اور اس پر زیادہ سے زیادہ یہودی بستیاں آباد کی گئیں۔فلسطینیوں نے پتھروں اور غلیلوں سے مزاحمت کی تو گولیاں ماری گئیں ، ہزاروں گرفتاریاں ہوئیں۔اور پھر روائیتی جنگ لڑنے سے قاصر مایوس اور غصے سے بھرے لوگوں نے وہ راستہ اختیار کیا جسے آپ دہشت گردی کہتے ہیں۔
مگر دنیا کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی جب اسرائیل بین الاقوامی قوانین توڑتا ہے، دوائیں ، خوراک اور تعمیراتی سامان لانے والے جہازوں کو بین الاقوامی سمندر میں ضبط کرتا ہے۔فلسطینی جب ایسے ناکارہ راکٹ فائر کرتے ہیں جن سے کوئی جانی مالی نقصان نہیں ہوتا تو بدلے میں اسرائیل رہائشی علاقوں ، اسکولوں ، اسپتالوں پر راکٹ اور بم برساتا ہے۔اور پھر آپ انعام دیتے ہیں یروشلم کو اسرائیل کا باضابطہ دارالحکومت تسلیم کر کے۔مگر یہ کام چونکہ ایک منظم ریاست منظم طریقے سے کر رہی ہے لہذا اسے دہشت گردی نہیں کہا جاتا۔دہشت گرد صرف فلسطینی ہیں۔
ملائشیا دہشت گردی کی ہر شکل کا کٹر مخالف ہے جس کی زد میں بے گناہ لوگ آئیں۔مگر وجوہات کا مداوا بھی اتنا ہی اہم ہے۔دہشت گردی فلسطینیوں سے جنگ آزمائی یا انھیں مسلسل خوفزدہ رکھنے سے نہیںبلکہ حقِ ریاست سمیت تمام جائز بنیادی حقوق تسلیم کرنے اور منصفانہ رویہ اپنانے سے ہی رکے گی۔
سابق لیگ آف نیشن ہو کہ اقوامِ متحدہ ان کا قیام قوموں کے درمیان جنگیں روکنے کے لیے عمل میں آیا۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کی جنگیں پچھلوں سے زیادہ ہلاکت خیز ہیں جن میں پورے پورے ملک تاراج ہو رہے ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اگر آپ ایک انسان کو قتل کریں تو آپ قاتل۔لیکن جنگ کے نام پر لاکھوں انسانوں کو قتل کریں توآپ ہیرو۔ایک انسان کو قتل کریں تو آپ کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔لاکھوں کو قتل کریں تو تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے ، سینے پر تمغوں کی قطاریں سجتی ہیں ، آپ کے یادگاری مجسمے ایستادہ ہوتے ہیں۔ انفرادی قتل سنگین جرم ہے مگر جنگوں کے ذریعے قتل جائز اور قانونی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہماری تہذیبی اقدار اور انفرادی و اجتماعی سوچ میں کوئی ایسی ٹیڑھ ہے جیسا سیدھا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
کیا ستم ظریفی ہے کہ ہم آج بھی یقین رکھتے ہیں کہ امن کا قیام جنگوں سے ہی ممکن ہے۔قوموں کے جھگڑے جنگوں سے ہی نمٹ سکتے ہیں۔لہذا ہمیں مزید جنگوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔چنانچہ ایک سے ایک ہلاکت خیز ہتھیار تیار اور استعمال ہو رہا ہے۔ترقی پذیر ممالک کو ان نئے اور کمر توڑ مہنگے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ اور منڈی بنا دیا گیا ہے۔
اسلحے کی تجارت سب سے منفعت بخش عالمی تجارت ہے۔اسلحہ ساز اور تاجر ڈھٹائی کے ساتھ بربادی اور موت سے منافع کشید کرتے ہیں اور اس کے حق میں دلیلیں بھی دیتے ہیں۔درحقیقت عالمی امن کی مالا سب سے زیادہ جپنے والے ممالک ہی اس شرمناک کاروبار میں سب سے آگے ہیں۔اس تجارت نے کئی ممالک کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔
آج ایک جدید فائٹر جیٹ سو ملین ڈالر کا آتا ہے۔اس کی دیکھ بھال پر لاکھوں ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔مگر غریب ممالک بھلے سکت ہو نہ ہو یہ اسلحہ خریدنے کے لیے طاقت ور دباؤ کا شکار ہیں۔انھیں ڈرایا جاتا ہے کہ ان کے دشمنوں اور ہمسائیوں کے پاس یہ ہتھیار موجود ہیں لہذا انھیں بھی توازنِ طاقت برقرار رکھنے کے لیے یہ ہتھیار خریدنے ضروری ہیں۔چنانچہ بھوک اور مصائب سے دوچار ممالک کے بجٹ کا بڑا حصہ ایسے مہنگے ہتھیاروں کی خریداری میں چلا جاتا ہے جو ممکن ہے کبھی استعمال کرنے کی نوبت بھی نہ آئے۔
جب میں برما کے روہنگیوں کو دیکھتا ہوں تو بہت دکھ ہوتا ہے۔میں ذاتی طور پر کسی بھی ملک کے معاملات میں مداخلت کا مخالف ہوں۔مگر قومی خود مختاری کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ اپنے ہی لوگوں یا کسی مخصوص گروہ کے قتلِ عام کے لیے بھی آزاد ہوں اور یہ بھی چاہیں کہ دنیا تماشائی بنی رہے۔
اگر اقتصادی سطح پر دیکھا جائے تو ہم آزاد تجارت کا بہت سنتے آ رہے ہیں مگر جو ہو رہا کیا واقعی فری ٹریڈ ہے ؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹے اور کمزور ممالک کی صنعتوں کو کوئی تحفظ نہ ہو۔ان کی سادہ سی مصنوعات کو بھی بہانے بہانے سے امیر منڈیوں میں داخلے سے روکا جائے اور خود ان ممالک کو طاقتور امیر ممالک اپنی مہنگی مصنوعات سے فری ٹریڈ کے نام پر بھر دیں۔
ملائشیا کے پام آئل کی مثال لے لیں۔ شور مچایا جا رہا ہے کہ پام آئل صحت کے لیے مضر ہے۔پام کے درختوں کی کاشت کے لیے جنگلات کی کٹائی ہو رہی ہے اور اس کٹائی سے چرند و پرند کی نسل کشی ہو رہی ہے۔خوردنی مصنوعات پر پام آئل فری لکھا جا رہا ہے۔مہم چلائی جا رہی ہے کہ پام ڈیزل ماحولیات کے لیے ٹھیک نہیں۔ماحولیات کے یہ ہمدرد لوگ اور ممالک ان لاکھوں خاندانوں کا بھی تو سوچیں کہ جن کی گذر بسر ہی پام آئل کی پیداوار اور صنعت پر ہے۔ آج بھی اڑتالیس فیصد ملائشیاگھنے جنگلات پر مشتمل ہے۔ کیا شور مچانے والے ماحولیاتی ہمدرد ممالک بتائیں گے کہ ان کے ہاں کتنے فیصد جنگلات باقی ہیں ؟ ملائشیا ایسی پائیدار ترقی پر یقین رکھتا ہے جس میں انسان اور قدرتی وسائل کو ساتھ ساتھ لے کے چلا جائے۔دو برس بعد ملائشین پام آئل کا ایک قطرہ بھی ایسا نہ ہو گا جو پائیدار ترقی کے اصول کے احاطے سے باہر پیدا ہوا ہو۔
ایک طرف آزاد تجارت کی بات ہو رہی ہے اور دوسری جانب اسی آزاد تجارت کے علمبردار بین الاقوامیت سے منہ موڑ کے تنگ نظر قوم پرستی کی گود میں پناہ لے رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سرحدی لکیروں کو غیر موثر کر دینے کے وکیل اپنی ہی سرحدیں بیرونی مصنوعات اور آزادانہ انسانی نقل و حرکت کے لیے بند کر رہے ہیں۔بین الاقوامی مفاد میں کیے گئے اجتماعی معاہدوں سے نکلا جا رہا ہے۔افرادی و اجتماعی نقل و حرکت دوبھر ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ہر شخص کا ڈیٹا طاقتور ممالک اور ان کی کارپوریشنوں کی پہنچ میں ہے۔اگر یہی عالمگیریت ہے تو پھر اس سے خوفزدہ ہونا چاہیے۔
اقوامِ متحدہ ایسی دنیا میں امید کی وہ کرن ہے جسے جھلملاتے رہنا چاہیے۔مگر اس تنظیم کے ڈھانچے کو بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔جو ممالک جمہوریت کا واعظ دیتے نہیں تھکتے وہ اقوامِ متحدہ میں جمہوری تبدیلیوں کے کیوں مخالف ہیں ؟ کیا پانچ ممالک صرف اس لیے ویٹو کی طاقت سے باقی دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرتے رہیں گے کیونکہ انھوں نے ستر برس پہلے کوئی جنگ جیت لی تھی ؟
میں نے پہلے بھی تجویز کیا تھا کہ اگر ویٹو کا نظام برقرار ہی رکھنا ہے تو پھر سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان کے علاوہ دس غیر مستقل ارکان کو بھی یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنی مدتِ رکنیت کے دوران اپنے میں سے کم ازکم دو ایسے ممالک چن لیں جن کے پاس ویٹو کی طاقت ہو اور اگلی مدت میں پھر دو نئے ارکان کو یہ حق دے دیا جائے۔اور سلامتی کونسل جو بھی فیصلے کرے ان کی جنرل اسمبلی سے سادہ اکثریت سے توثیق کروائی جائے تاکہ اقوامِ متحدہ کے تمام ارکان کو احساس رہے کہ ان کی بھی کوئی مساوی حیثیت ہے۔اس وقت میں ترانوے برس کا ہوں۔مجھے امید ہے کہ کچھ نہ کچھ پیش رفت ضرور دیکھ پاؤں گا۔بہت شکریہ۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)