کشمیر پر قبضے کا نیا پلان

بھارت کی قوم پرست جماعتوں نے ریاست جموں و کشمیر کو آئینی تحفظ دینے والی شقیں ختم کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔

بھارت کی قوم پرست جماعتوں نے ریاست جموں و کشمیر کو آئینی تحفظ دینے والی شقیں ختم کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ فوٹو: فائل

ANKARA, TURKEY:
یہ 18 ستمبر 2018ء کی بات ہے، بھارتی شہر ناگ پور میں قوم پرست تنظیم ،آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے ہیڈکوارٹر میں اہم خفیہ میٹنگ منعقد ہوئی۔ اس میں موہن بھگت (سربراہ آر ایس ایس) امیت شاہ (صدر بی جے پی) اور دیگر ہندو قوم پرست تنظیموں کے سربراہ شریک تھے۔ یہ اجلاس اس لیے منعقد کیا گیا تاکہ ریاست جموں و کشمیر پر حکومتی قبضے کا پلان تیار ہو سکے۔

اجلاس میں ریاست سے آئے آر ایس ایس اور بی جے پی کے سبھی اہم رہنما موجود تھے۔ان ریاستی ہندو قوم پرست رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جب تک بھارتی آئین کے آرٹیکل 70 اور آرٹیکل 35A موجود ہیں، یہ ریاست کُلی طور پر بھارت میں ضم نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ آرٹیکل ختم کردیئے جائیں۔ ان کے خاتمے سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ ریاست میں پورے بھارت سے ہندو خاندانوں کو آباد ہونے کی اجازت مل جاتی۔ بھارت کی ہندو قوم قیادت نے اس مطالبے پر طویل عرصہ غور کیا اور آخر کار اسے تسلیم کرلیا۔

ریاست جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے قوم پرست لیڈروں کا مطالبہ ایک خاص وجہ سے تسلیم کیا گیا... یہ کہ ریاست میں ہندو خاندانوں کو بسا کر اس کا مذہبی تشخص بدل دیا جائے۔ قوم پرست لیڈر چاہتے ہیں کہ ریاست میں ہندوآبادی اتنی حد تک بڑھا دی جائے کہ وہ مسلم اکثریتی نہ رہے! یعنی ایسی صورت میں مسلمانان جموں و کشمیر یہ دعویٰ نہ کرسکیں کہ ریاست میں ان کی اکثریت ہے۔ جب بھی ایسا ہوا، بھارتی حکمران طبقے کے لیے ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کرنا آسان ہوجائے گا۔اس خفیہ میٹنگ کے بعد 19 ستمبر کو سربراہ آر ایس ایس، موہن بھگت نے اخباری بیان داغ دیا کہ اس کی جماعت آرٹیکل 70 اور آرٹیکل 35A کا خاتمہ چاہتی ہے۔ ایک ہندو قوم پرست تنظیم نے یہ آرٹیکل ختم کرنے کی خاطر سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کررکھا ہے۔ اب بھارت کے ہندو قوم پرستوں نے یہ آرٹیکل ختم کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔

بھارت میں اگلے سال الیکشن ہونے ہیں۔ اگر نریندر مودی یہ الیکشن جیت کر دوبارہ سربراقتدار آئے تو قوی امکان ہے، بھارتی سپریم کورٹ کم از کم آرٹیکل 35A کو ختم کر ڈالے کیونکہ اسی کی وجہ سے دیگر بھارتی ریاستوں کے باشندے ریاست جموں و کشمیر میں آباد نہیں ہوسکتے۔ وجہ یہ کہ پچھلے چار برس میں مودی حکومت نے عدلیہ سے لے کر انتظامیہ تک میں ہندو قوم پرست ایجنٹ تعینات کردیئے ہیں۔ گویا اب بھارت میں جج اور سرکاری افسر بھی اپنے ملک کو ہندو مملکت بنانا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں اور پاکستان سے کٹر دشمنی کی وجہ سے بھارتی قوم پرست خصوصاً ریاست جموں و کشمیر کو تو اپنا ''اٹوٹ انگ'' قرار دیتے ہیں۔ ان کی شدید تمنا ہے کہ ریاست مکمل طور پر بھارت کے زیر نگیں آجائے۔

موجودہ اعدادو شمار کی رو سے ریاست جموں و کشمیر کی آبادی تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔ ریاست کے تین انتظامی حصے ہیں: جموں، وادی کشمیر اور لداخ۔ جموں کی آبادی پچپن لاکھ ہے۔کُل آباد ی میں سے 60 فیصد ہندو ہیں، 30 فیصد مسلمان اور بقیہ دیگر مذاہب کے باشندے ہیں۔وادی کشمیر میں تقریباً بہتر لاکھ افراد بستے ہیں۔ ان کی97 فیصد تعداد مسلمان ہے۔ لداخ میں پونے تین لاکھ لوگ بستے ہیں۔ اس حصے کے دو اضلاع ہیں: کارگل اور لیہہ۔ کارگل کی آبادی ایک لاکھ چالیس ہزار ہے۔ اس میں سے 70 فیصد مسلمان ہیں۔ لیہہ میں ایک لاکھ تیتیس ہزار افراد بستے ہیں۔ ان میں سے پندرہ فیصد لوگ مسلمان ہیں۔

درج بالا اعدادو شمار کے مطابق ریاست میں 86 لاکھ 30 ہزار مسلمان بستے ہیں۔ ہندوؤں کی آبادی 34 لاکھ 25 ہزار ہے جبکہ بدھ مت اور سکھ مت کے ماننے والے بھی بستے ہیں۔ گویا تقریباً دو سو سال غیر مسلموں کے تسلط میں رہنے کے باوجود آج بھی ریاست جموں و کشمیر میں مسلمان اکثریت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اب قوم پرست ہندو یہی اکثریت ختم کرنے کے درپے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ غیر مسلموں کو ریاست میں بسا کر مسلمانوں کی عددی برتری ختم کرنا چاہتے ہیں۔

وادی کشمیر میں بارہویں صدی کے دوران صوفیائے کرام کی تبلیغ سے اسلام پھیلا۔ ان کی تبلیغ سے جموں کے ملحقہ علاقوں میں آباد کئی ہندو بھی مسلمان ہوگئے۔ یہ دونوں علاقے پھر مغلوں نے فتح کرلیے۔ تاہم مغل حکومت کو زوال آیا تو جموں میں ہندوؤں نے اپنی حکومت قائم کرلی۔وادی کشمیر کے لوگ فطری طور پر امن پسند اور محبت کرنے والے ہیں۔ وہ لڑائی بھڑائی سے پرہیز کرتے ہیں مگر عملی زندگی میں اپنا دفاع نہ کرنے کے باعث دوسروں کے غلام بن جاتے ہیں۔ وادی کے باشندے بھی اپنا دفاع نہ کرسکے اور 1819ء میں رنجیت سنگھ کی زیر قیادت سکھوں نے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ یوں وادی پر غیر مسلموں کی حکمرانی شروع ہوئی جو اب تک چلی آرہی ہے۔

1846ء میں انگریزوں نے رنجیت سنگھ کو شکست دی اور وادی کشمیر جموں کے ہندو راجا، گلاب سنگھ کو فروخت کر دی۔ ہندو راجاؤں نے امن پسند کشمیری مسلمانوں پر بے انتہا ظلم توڑے اور ان کی فطری نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک لحاظ سے انہیں اپنا غلام بنالیا۔ آخر بیسویں صدی میں کشمیری مسلمان بیدار ہوئے اور تحریک آزادی کا آغاز کیا۔ اس ضمن میں 1932ء میں مسلمانان کشمیر نے اپنی پہلی سیاسی جماعت، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی۔

صد افسوس، مسلمانوں کے دشمن اپنی چالوں اور سازشوں کے ذریعے مسلمانان کشمیر کو تقسیم کرنے میں کامیاب رہے۔ یہی وجہ ہے، جب 1947ء میں ہندوستان انگریزوں کے قبضے سے آزاد ہوا، تو ہندو مہاراجا نے ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کردیا حالانکہ تب ''77 فیصد'' ریاستی آبادی مسلمان تھی۔ منطقی اعتبار سے اس کا الحاق نئی مسلم مملکت، پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔بھارت سے الحاق میں مسلمانان کشمیر کے لیڈر، شیخ عبداللہ نے اہم کردار ادا کیا۔ موصوف وزیراعظم کشمیر بننا چاہتے تھے۔

اگر ریاست پاکستان کا حصہ بن جاتی تو ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوتا۔ اسی لیے شیخ عبداللہ نے بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو، وزیر دفاع سردار پٹیل اور ریاستی مہاراجا ہری سنگھ کے ساتھ ساز باز کرکے ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔ یوں ایک شخص نے ذاتی مفادات کی خاطر پوری قوم کو غیر مسلم حکومت کا غلام بنا دیا۔ سچ ہے، کبھی کبھی چند افراد کے فیصلے پوری قوم کے لیے تباہی کا پیغام بن جاتے ہیں۔


دستاویزِ الحاق (Instrument of Accession) وہ قانونی کاغذ ہے جس کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر بھارت کا حصہ بنی۔ یہ دستاویز مہاراجا ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ نے تیار کی تھی۔ اس دستاویز الحاق میں انہوں نے اپنے مفادات کا پورا خیال رکھا ... وہ اس طرح کہ انہوں نے مستقبل میں اپنی قوتوں اور اپنے اختیارات کو بھارتی قانون و آئین سے مبرّا قرار دے دیا۔ وہ اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر بھارتی حکومت سے یہ بات منوانے میں کامیاب رہے کہ بھارت کا آئین و قانون ریاست پر لاگو نہیں ہوگا۔

یہ حقیقت دستاویز الحاق کا حصہ ہے۔یہی وجہ ہے، جب بھارت کے آئین کی تیاری شروع ہوئی، ریاست جموںو کشمیر کے معاملات طے کرنے کی خاطر اس میں ''آرٹیکل 370'' متعارف کرانا پڑا۔ یہ آرٹیکل 26 جنوری 1950ء کو آئین بھارت کا حصہ بنا۔ اس کی رو سے ریاست کے صرف دفاع، امور خارجہ اور مواصلات (کمیونیکیشن) کے معاملات بھارتی حکومت کے سپرد کیے گئے۔ بقیہ حکومتی معاملات میں ریاستی حکومت خود مختار بنا دی گئی۔ مزید براں بھارتی حکومت صرف ریاستی اسمبلی کی اجازت ہی سے کوئی اور معاملہ اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے۔

گویا یہ آرٹیکل 370 ہے جس کی وجہ سے اب تک ریاست جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ باقاعدہ الحاق نہیں ہوسکا۔ بھارتی آئین کا یہ آرٹیکل ریاست کو خصوصی درجہ عطا کرتا ہے۔ آر ایس ایس، یا بی جے پی اور دیگر قوم پرست ہندو جماعتوں کے لیڈر ریاست کو حاصل یہی خصوصی درجہ ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے مزموم عزائم کی تکمیل کرسکیں۔اگست 1953ء میں پنڈت نہرو نے اپنے دیرینہ ساتھی، وزیراعظم جموں و کشمیر، شیخ عبداللہ کو جیل میں ڈال دیا۔ یہ قدم اٹھانے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ شیخ عبداللہ ریاست کو خود مختار مملکت بنانے کی راہ پر چل نکلے تھے۔ پنڈت نہرو کو یہ راستہ ایک آنکھ نہ بھایا، چناں چہ شیخ صاحب حوالہ زنداں کردیئے گئے۔

مسلمانان کشمیر نے اپنے لیڈر کو جیل کی سلاخوں کی پیچھے دیکھا تو وہ احتجاج کرنے لگے۔ مشتعل کشمیری عوام کو پُر سکون کرنے کی خاطر نہرو حکومت نے مئی 1954ء میں اپنے آئین میں آرٹیکل 35A متعارف کروا دیا۔ اس آرٹیکل کے ذریعے غیر کشمیریوں کو ریاست میں زمین خریدنے، سرکاری ملازمت کرنے اور کسی سرکاری تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے سے روک دیا گیا۔ اس آرٹیکل نے بھی گویا ریاست جموں و کشمیر کو دیگر بھارتی ریاستوں سے منفرد درجہ عطا کرڈالا۔ بھارتی قوم پرست لیڈر خاص طور پر بذریعہ سپریم کورٹ اس آرٹیکل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ یوں انہیں جموں اور لداخ میں ہزارہا ہندوخاندان آباد کرنے کا موقع مل جائے گا۔

مودی حکومت اور قوم پرست تنظیموں کی مسلم دشمن سرگرمیوں نے مگر مسلمانان کشمیر کو تشویش و اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔ انہیں علم ہے کہ اگر بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 35A اور آرٹیکل 370 ختم کیے، تو وہ ہمیشہ کے لیے بھارتی حکمرانوں کے غلام بن جائیں گے۔ اسی لیے کشمیری مسلمان روزانہ بھارتی حکومت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ روزانہ سکیورٹی فورسز سے ان کا مقابلہ ہوتا ہے اور ظالم بھارتی فوجی نہتے کشمیری مسلمانوں کو شہیدکردیتے ہیں۔ تحریک آزادی کی حامی کشمیری تنظیمیں اب ریاستی پولیس میں موجود مسلم سپاہیوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہیں۔ وہ انہیں غدار تصّور کرتی ہیں۔

بھارت کے سپریم کورٹ نے دونوں آرٹیکل ختم کردیئے تب بھی بھارتی حکمرانوں کو ریاست جموں و کشمیر پر باقاعدہ قبضہ کرتے ہوئے عالمی قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی پانچ قراردادیں... نمبر 38 (17 جنوری 1948ء)، نمبر 39 (20 جنوری 1948ء)، نمبر 47 (21 اپریل 1948ء)، نمبر 47 (21 اپریل 1948ء)، نمبر 51 (3 جون 1948ء) اور نمبر 80 (14 مارچ 1950ء) واضح طور پر بھارت اور پاکستان پر آشکارا کرچکیں کہ ''استصواب رائے'' ہی ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے ریاست میں استصواب رائے کرانے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ اب تک ایفا نہیں ہوسکا۔

بھارتی حکومت کا موجودہ موقف یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے 1957ء میں بھارت کے ساتھ الحاق کو ریاستی آئین کا حصہ بنالیا تھا۔ لیکن پاکستان بھارت کی کٹھ پتلی ریاستی اسمبلی کے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا اور ریاست میں استصواب رائے کرانے کا طلبگار ہے۔پاکستان کے لیے ریاست جموں و کشمیر کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ خطہِ پاک میں بہنے والے تمام بڑے دریا (سندھ، جہلم، چناب) کشمیری علاقوں سے گزرتے ہیں۔ اگر بھارتی حکمرانوں نے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A ختم کرنے کے بعد ریاست پر مکمل قبضہ کرلیا، تو وہ مستقبل میں مختلف اقدامات سے پاکستانی دریاؤں کا پانی روک سکتے ہیں۔یوں وطن عزیز میں پانی کی قلت شدید ہو جائے گی۔ فی الوقت ریاست کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کے باعث بھارتی حکمران کھل کر کشمیری دریاؤں کے بہاؤ میں ردوبدل نہیں کرپاتے۔

بھارتی آرمی چیف کا واویلا

21 ستمبر کو فرانس کے سابق صدر،فرانسوا اولاند نے انکشاف کیا کہ رافیل جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کرتے وقت بھارتی وزیراعظم مودی نے ان پہ دبائو ڈالا تھا کہ بھارت میں طیارے تیار کرنے کی ذمے داری مشہور صنعت کار،انیل امبانی کی کمپنی،ریلائنس کو سونپی جائے۔یوں ثابت ہو گیا کہ بھارتی امیر طبقہ مودی کو اسی لیے اقتدار میں لایا تاکہ وہ اس پہ ''نوازشات''کی بارش کر سکے۔اولاند کے بیان نے بھارت میں ہلچل مچا دی اور اپوزیشن مودی کو کرپٹ قرار دے کر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے لگی۔یہ اسکینڈل دبانے کی خاطر مودی نے پاکستان کے ساتھ جنگ کا ماحول پیدا کر دیا۔

بھارتی آرمی چیف،جنرل راوت چینلوں پہ نمودار ہر کر پاکستان کو پے در پے دھمکیاں دینے لگا۔اس نے کشمیری مجاہدین کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا۔اس پر پاک فوج اور حکومت پاکستان نے دنیا والوں کو باور کرایا کہ مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوج سے نبردآزما کشمیری دہشت گرد نہیں حریت پسند ہیں۔بعض عسکری ماہرین کا دعوی ہے،مودی جلد از جلد رافیل جنگی طیارے حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ الیکشن 2019ء سے کچھ عرصہ قبل پاکستان کے خلاف محدود جنگ چھیڑ دے۔یوں وہ الیکشن میں اپنی کامیابی یقینی بنانے کا متمنی ہے۔وزیراعظم آزادکشمیر کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ بھی اسی پلان کا جز ہو سکتی ہے۔
Load Next Story