’’کاش ہم قطری گھوڑے ہوتے‘‘
’’یہ سیاست داں بھی عجیب ہیں، پالتے گھوڑے ہیں، ہارس ٹریڈنگ انسانوں کی کرتے ہیں۔‘‘
ایک ویب سائٹ پر قطر میں قائم گھوڑوں کے پُرتعیش ریزورٹ کے بارے میں جب سے پڑھا ہے ہم سوچ رہے ہیں کیا پایا انساں ہوکے، کاش گھوڑے ہوتے، مگر گھوڑے بھی اِدھر اُدھر کے نہیں قطر کے، اپنے ملک کا گھوڑا ہونا تو ہماری حالت نہیں بدل سکتا تھا کہ یہاں گھوڑے گدھوں کے ساتھ باندھ دینے کا چلن ہے، اور پھر گدھے کھول دیے جاتے ہیں گھوڑے بندھے کے بندھے ہی رہ جاتے ہیں۔
اگر گھوڑا ہونے کی صورت میں ہم کسی تانگے میں جُتے ہوتے تو تانگے والا اب تک رکشا یا چنگچی لے چکا ہوتا اور ہم بے روزگار ہوکر کہیں کوڑے کے ڈھیر سے سوکھے پَتے چُن چُن کر کھا رہے ہوتے۔ البتہ کسی امیرکبیر سیاست داں کی نظرکرم ہوجاتی تو ہماری قسمت جاگ اُٹھتی، اور ہم اس کے اصطبل میں عیش کرتے ہوئے سوچ رہے ہوتے ''یہ سیاست داں بھی عجیب ہیں، پالتے گھوڑے ہیں، ہارس ٹریڈنگ انسانوں کی کرتے ہیں۔''
خیر ذکر تھا قطری گھوڑوں کا۔
ویب سائٹ ''مڈ ڈے ڈاٹ کام'' کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ کے مضافات میں گھوڑوں کی تربیت اور دیکھ بھال کے لیے قائم ''مرکز الشقب'' میں گھوڑے شاہانہ زندگی بس کر رہے ہیں، اور کیوں نہ کریں شاہی گھوڑے جو ہوئے۔ امیرقطر کے قائم کردہ اس ریزورٹ میں مقیم خوش قسمت گھوڑے شان دار سوئمنگ پول میں نہاتے ہیں، انھیں سنگھار کے لیے بیوٹی پارلر بھی میسر ہے اور گھوڑیوں کے لیے باقاعدہ زچہ خانہ بھی بنایا گیا ہے۔ ممکن ہے ولادت سے پہلے حاملہ گھوڑیوں کی گود بھرائی بھی کی جاتی ہو اور بچے کی پیدائش کے بعد چَھٹی نہانے کا اہتمام بھی۔
یہاں جِم بھی موجود ہے، جہاں گھوڑوں کو چاق وچوبند رکھنے کیے لیے انھیں مشقیں کرائی جاتی ہیں۔ رات کو اور گرمی بڑھنے کی صورت میں دن کے اوقات میں بھی یہ 740 گھوڑے ایئرکنڈینشرز سے یخ بستہ اصطبلوں میں آرام کرتے ہیں۔
ان گھوڑوں کے عیش کا تذکرہ سُن کر یقیناً ہمارے ایوان وزیراعظم سے نیلامی کے ذریعے نکالی جانے والی بھینسوں کی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو آجائیں گے اور وہ آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر رندھی ہوئی ''بھیں بھیں'' میں کہیں گی۔۔۔۔اب کے جنم موہے بھنسیا نہ کیجو، گھوڑا بنا دیجو اور قطر میں پیدا کیجو۔ ایوان وزیراعظم سے بڑی بے آبرو ہو کر نکلنے والی بھینسیں ہی نہیں، افلاس میں زندگی کرتے بہت سے لوگ بھی دعا کریں گے کہ کوئی کرشمہ ہوجائے اور وہ آناً فاناً انسان سے قطری گھوڑے بن جائیں۔
عجیب اتفاق ہے ہم پاکستانیوں کی امیدیں قطریوں سے وابستہ ہوگئی ہیں، کبھی ان کے خط کو نوشتہ آزادی سمجھ بیٹھتے ہیں، کبھی ان کے بٹوے سے دولت مند ہوجانے کی آس باندھ لیتے ہیں اور کبھی ان کا گھوڑا بن کر قسمت بدلنے کی آرزو کرتے ہیں۔
اگر گھوڑا ہونے کی صورت میں ہم کسی تانگے میں جُتے ہوتے تو تانگے والا اب تک رکشا یا چنگچی لے چکا ہوتا اور ہم بے روزگار ہوکر کہیں کوڑے کے ڈھیر سے سوکھے پَتے چُن چُن کر کھا رہے ہوتے۔ البتہ کسی امیرکبیر سیاست داں کی نظرکرم ہوجاتی تو ہماری قسمت جاگ اُٹھتی، اور ہم اس کے اصطبل میں عیش کرتے ہوئے سوچ رہے ہوتے ''یہ سیاست داں بھی عجیب ہیں، پالتے گھوڑے ہیں، ہارس ٹریڈنگ انسانوں کی کرتے ہیں۔''
خیر ذکر تھا قطری گھوڑوں کا۔
ویب سائٹ ''مڈ ڈے ڈاٹ کام'' کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ کے مضافات میں گھوڑوں کی تربیت اور دیکھ بھال کے لیے قائم ''مرکز الشقب'' میں گھوڑے شاہانہ زندگی بس کر رہے ہیں، اور کیوں نہ کریں شاہی گھوڑے جو ہوئے۔ امیرقطر کے قائم کردہ اس ریزورٹ میں مقیم خوش قسمت گھوڑے شان دار سوئمنگ پول میں نہاتے ہیں، انھیں سنگھار کے لیے بیوٹی پارلر بھی میسر ہے اور گھوڑیوں کے لیے باقاعدہ زچہ خانہ بھی بنایا گیا ہے۔ ممکن ہے ولادت سے پہلے حاملہ گھوڑیوں کی گود بھرائی بھی کی جاتی ہو اور بچے کی پیدائش کے بعد چَھٹی نہانے کا اہتمام بھی۔
یہاں جِم بھی موجود ہے، جہاں گھوڑوں کو چاق وچوبند رکھنے کیے لیے انھیں مشقیں کرائی جاتی ہیں۔ رات کو اور گرمی بڑھنے کی صورت میں دن کے اوقات میں بھی یہ 740 گھوڑے ایئرکنڈینشرز سے یخ بستہ اصطبلوں میں آرام کرتے ہیں۔
ان گھوڑوں کے عیش کا تذکرہ سُن کر یقیناً ہمارے ایوان وزیراعظم سے نیلامی کے ذریعے نکالی جانے والی بھینسوں کی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو آجائیں گے اور وہ آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر رندھی ہوئی ''بھیں بھیں'' میں کہیں گی۔۔۔۔اب کے جنم موہے بھنسیا نہ کیجو، گھوڑا بنا دیجو اور قطر میں پیدا کیجو۔ ایوان وزیراعظم سے بڑی بے آبرو ہو کر نکلنے والی بھینسیں ہی نہیں، افلاس میں زندگی کرتے بہت سے لوگ بھی دعا کریں گے کہ کوئی کرشمہ ہوجائے اور وہ آناً فاناً انسان سے قطری گھوڑے بن جائیں۔
عجیب اتفاق ہے ہم پاکستانیوں کی امیدیں قطریوں سے وابستہ ہوگئی ہیں، کبھی ان کے خط کو نوشتہ آزادی سمجھ بیٹھتے ہیں، کبھی ان کے بٹوے سے دولت مند ہوجانے کی آس باندھ لیتے ہیں اور کبھی ان کا گھوڑا بن کر قسمت بدلنے کی آرزو کرتے ہیں۔