سُسرالیوں کے ہو بہ ہو مثالی بہو
پتا نہیں یونی ورسٹی کو اس تربیت کی کیا سوجھی، برصغیر کی کسی بھی بہوکوکچھ بھی سکھانے کے لیے ساس اورنندیں کافی ہوتی ہیں۔
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں قائم برکت اللہ یونی ورسٹی نے شادی شدہ خواتین کو سسرال والوں کا تابع دار بنانے کے لیے ''مثالی بہو'' کے نام سے ایک کورس متعارف کرایا ہے۔
یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈی سی گُپتا کا کہنا ہے کہ اس کورس کا مقصد بہوؤں کو خاندانی روایات اور اقدار کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے، تاکہ شادی کے بعد انھیں خود کو (نئے ماحول کے مطابق) ڈھالنے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔
گویا اس کورس کا منشا یہ ہے کہ بہو ہو بہو ویسی ہوجائے جیسی سسرال والے چاہتے ہیں۔ پتا نہیں یونی ورسٹی کو اس تربیت کی کیا سوجھی، برصغیر کی کسی بھی بہو کو کچھ بھی سکھانے کے لیے ساس اور نندیں کافی ہوتی ہیں، یوں بھی جنگ، تیراکی، صحافت اور سسرال مکمل طور پر میدان عمل ہیں، جہاں اچھا سپاہی، تیراک، صحافی اور اچھی بہو بننے کی تدریس کسی کام نہیں آتی۔ یوں بھی ہمارے ہاں اکثر خواتین اس لیے ساس بننے کی آس لگائے بیٹھی ہوتی ہیں ''کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی'' اور اب ان کا ہدف خود ساس بن کر۔۔۔ جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا ''رہی'' ہوں میں۔۔۔ہوتا ہے۔
اس ہدف کو پورا کرنے کی کوشش میں بعض اوقات ساس بہو کے لیے ''چِلی سوس'' (chili sauce) ہوجاتی ہے، جس کا کام بس مرچیں لگانا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساس کو بہو اور بہو کو ساس کم ہی راس آتی ہے۔ ایسا نہیں کہ ہر بہو اپنی ساس سے نالاں ہو اور اس کے بارے میں بُری رائے رکھتی ہو، بعض بہوئیں تو اپنی ساس پر دل وجان سے فدا ہوتی ہیں، ایسی بہوؤں سے آپ کو ایسے فقرے سُننے کو ملیں گے ''اللہ مغفرت کرے، مجھے بہو نہیں بیٹی سمجھتی تھیں''،''اے بہن! میں تو کہتی ہوں اللہ ایسی ساس سب کو دے، ارے برا کیوں مان گئیں بہن دعا دے رہی ہوں، مرحومہ نے کبھی میرا دل نہیں دُکھایا۔''
جس طرح ساس رخصتی کے وقت ہی سے بہو پر جھپٹا مارنے کے لیے پر تولے بیٹھی ہوتی ہے، اسی طرح بہو بھی ''گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی'' سوچ کر پیا کے آنگن میں قدم رکھتی ہے۔ اس جنگ کی کچھ تربیت تو ماں یہ سمجھا کر دیتی ہے کہ ساس سے کیسے نمٹنا ہے اور نندوں کا مقابلہ کیسے کرنا ہے، اور سب سے بڑھ کر کس طرح شوہر کو مٹھی میں کرکے ساس کو انگوٹھا دکھا دینا ہے، باقی تدریس ٹی وی ڈراموں سے ہوجاتی ہے، اور بچی ماشاء اللہ سازشوں میں طاق ہوکر اور سسرال والوں کے ہر قول وعمل میں بدخواہی ڈھونڈ لینے کی مہارت پاکر نئی زندگی شروع کرتی ہے۔
اس صورت حال میں کوئی ننھا مُنا سا کورس کسی خاتون کو مثالی بہو بناسکے گا! یہ امکان نظر نہیں آتا، اور پھر بھارت جیسے ملک میں جہاں وزیراعظم اندرا گاندھی اور ان کی بہو مونیکا گاندھی کے مناقشے اور اطالوی بہو سونیا گاندھی کو اطالوی اور عیسائی ہونے کی بنا پر بھارت ماتا کی وزیراعظم نہ بننے دینے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں وہاں مثالی بہو کا کورس کرنے والی خاتون کو بھی آخرکار روایتی بہو ہی بننا پڑے گا۔
یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈی سی گُپتا کا کہنا ہے کہ اس کورس کا مقصد بہوؤں کو خاندانی روایات اور اقدار کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے، تاکہ شادی کے بعد انھیں خود کو (نئے ماحول کے مطابق) ڈھالنے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔
گویا اس کورس کا منشا یہ ہے کہ بہو ہو بہو ویسی ہوجائے جیسی سسرال والے چاہتے ہیں۔ پتا نہیں یونی ورسٹی کو اس تربیت کی کیا سوجھی، برصغیر کی کسی بھی بہو کو کچھ بھی سکھانے کے لیے ساس اور نندیں کافی ہوتی ہیں، یوں بھی جنگ، تیراکی، صحافت اور سسرال مکمل طور پر میدان عمل ہیں، جہاں اچھا سپاہی، تیراک، صحافی اور اچھی بہو بننے کی تدریس کسی کام نہیں آتی۔ یوں بھی ہمارے ہاں اکثر خواتین اس لیے ساس بننے کی آس لگائے بیٹھی ہوتی ہیں ''کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی'' اور اب ان کا ہدف خود ساس بن کر۔۔۔ جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا ''رہی'' ہوں میں۔۔۔ہوتا ہے۔
اس ہدف کو پورا کرنے کی کوشش میں بعض اوقات ساس بہو کے لیے ''چِلی سوس'' (chili sauce) ہوجاتی ہے، جس کا کام بس مرچیں لگانا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساس کو بہو اور بہو کو ساس کم ہی راس آتی ہے۔ ایسا نہیں کہ ہر بہو اپنی ساس سے نالاں ہو اور اس کے بارے میں بُری رائے رکھتی ہو، بعض بہوئیں تو اپنی ساس پر دل وجان سے فدا ہوتی ہیں، ایسی بہوؤں سے آپ کو ایسے فقرے سُننے کو ملیں گے ''اللہ مغفرت کرے، مجھے بہو نہیں بیٹی سمجھتی تھیں''،''اے بہن! میں تو کہتی ہوں اللہ ایسی ساس سب کو دے، ارے برا کیوں مان گئیں بہن دعا دے رہی ہوں، مرحومہ نے کبھی میرا دل نہیں دُکھایا۔''
جس طرح ساس رخصتی کے وقت ہی سے بہو پر جھپٹا مارنے کے لیے پر تولے بیٹھی ہوتی ہے، اسی طرح بہو بھی ''گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی'' سوچ کر پیا کے آنگن میں قدم رکھتی ہے۔ اس جنگ کی کچھ تربیت تو ماں یہ سمجھا کر دیتی ہے کہ ساس سے کیسے نمٹنا ہے اور نندوں کا مقابلہ کیسے کرنا ہے، اور سب سے بڑھ کر کس طرح شوہر کو مٹھی میں کرکے ساس کو انگوٹھا دکھا دینا ہے، باقی تدریس ٹی وی ڈراموں سے ہوجاتی ہے، اور بچی ماشاء اللہ سازشوں میں طاق ہوکر اور سسرال والوں کے ہر قول وعمل میں بدخواہی ڈھونڈ لینے کی مہارت پاکر نئی زندگی شروع کرتی ہے۔
اس صورت حال میں کوئی ننھا مُنا سا کورس کسی خاتون کو مثالی بہو بناسکے گا! یہ امکان نظر نہیں آتا، اور پھر بھارت جیسے ملک میں جہاں وزیراعظم اندرا گاندھی اور ان کی بہو مونیکا گاندھی کے مناقشے اور اطالوی بہو سونیا گاندھی کو اطالوی اور عیسائی ہونے کی بنا پر بھارت ماتا کی وزیراعظم نہ بننے دینے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں وہاں مثالی بہو کا کورس کرنے والی خاتون کو بھی آخرکار روایتی بہو ہی بننا پڑے گا۔